سوُدخوری کی ممانعت INHIBITION TO USURY

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49927

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۲۷۸﴾ فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ

ترجمہ: اےلوگو جو ایمان لائےہو!اللہ کے لئےتقویٰ اختیار کرو اورجو کچھ تمہارا سوُد باقی رہ گیا ہےاسے چھوڑدواگر واقعی تم ایمان لائےہولیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو آگاہ ہو جاوَکہ اللہ تعالےٰاور اس کے رسوُلﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔
O ye who believe! Observe your duty to Allah, and give up what remaineth (due to you) from usury, if ye are (in truth) believers. And if ye do not, then be warned of war (against you) from Allah and His messenger.
تمام مسلمان نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں ۔عقل دست بہ گریباں ہے کہ اللہ کے دشمنوں کی نماز کس طرح ہوگی۔ اللہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہتے ہو ئے روزے کی برکتیں اور سعادتیں کیسے حاصل ہوں گی۔ جن لوگوں کو اللہ نے اپنا دشمن قرار دے دیا ہے وہ کس منہ سے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کے انوار وتجلّیات سے اللہ کے دشمن کیوں کر منوّر ہوسکتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اللہ کے بنائے ہوئے قانوُن کا مذاق اڑایا، اللہ نے اس قوم کو ذلیل اور پَست کر دیا۔ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے ظاہر اور با طن کا محاسبہ کریں ؟
سوُد خوری کو سختی سے منع کر دیا گیا ہے۔اللہ تعالے نے بیع یعنی تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سوُد کو حرام قرار دیا ہے۔اللہ تعالی ٰفرماتے ہیں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۲۷۸﴾
فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ

اےلوگو جو ایمان لائےہو اللہ تعالیٰ کے لئے تقویٰ اختیار کرواورجو کچھ تمہارا سوُد باقی رہ گیا ہےاسے چھوڑدواگر واقعی تم ایمان لائےہولیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو آگاہ ہو جاوَکہ اللہ تعالیٰاور اس کے رسوُلﷺ کی طرف تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ )سورۃ بقرہ، پارہ3، آیت 278(
سوُد کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دولت سمٹ کر چند افراد کے ہاتھ میں جمع ہو جاتی ہے۔عوام کی قوّتِ خرید روز بروز کم ہوتی جاتی ہے۔صنعت،تجارت اور زراعت میں کساد بازاری )بازار میں خریدوفروخت کا نہ ہونا) واقع ہوتی ہے۔اور آخرکار خود سرمایہ داروں کے لئے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کاموں میں لگانے کا موقع باقی نہیں رہتا۔اس کے برخلاف زکوٰۃ، صدقات کا حکم اس لئے دیا گیا کہ قوم کے تمام افراد میں دولت تقسیم ہوتی رہے،ہر شخص میں قوّتِ خرید موجود رہے صنعتی ترقی ہو، کھیتیاں سر سبز ہوں ،تجارت کو خوب فروغ حاصل ہو۔
دولت پرستی:
جو قوم دولت پرستی میں مبتلا ہو جاتی ہے، ذلیل و خوار ہو جاتی ہے یہ کوئی کہانی نہیں ہے۔ زمین پر اس کی شہادتیں موجود ہیں۔ بڑی بڑی سلطنتوں اور محلّات کے مالک، ان کے عالیشان محلّات آج کھنڈرات کی شکل میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھتے کہ پہلی اقوام کا انجام کیا ہوا؟ وہ لوگ قوت اور تہذیب و تمدّن میں ان سے بر تر تھے۔ لیکن اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑ لیا اور انہیں کوئی نہیں بچا سکا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں میں دولت پرستی عام ہوگئی وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں ۔ قومیں گناہوں سے نِیست و نابود نہیں ہوتیں ۔ گناہ تو معاف کردیے جاتے ہیں۔ شِرک ایک ایسا گناہ ہے جو کسی صوُرت معاف نہیں کیا جاتا اور دولت پرستی سب سے بڑا شِرک ہے۔ اس شِرک کو مہمیز دینے والے بڑے عوامل میں سے ایک گھناؤنا عمل سوُد ہے، سوُد جو رزق کو حرام کر دیتا ہے ۔
جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزّت و توقیر کے حصول کا تعلق ہے، یہ ایک خود فریبی ہے۔ ایسی خود فریبی جس سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ فراعین مصر کے محلؔات، قارون کے خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی ۔ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کے حالات سے کون واقف نہیں ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ پوری شان و شوکت اور شاہی دبدبہ کے باجود مادر وطن میں قبر کے لئے جگہ بھی نصیب نہیں ہوئی سونے چا ندی کے ذخیروں اور جواہرات کے ڈھیر نے دنیا کے امیر ترین آدمیوں کے ساتھ کتنی وفا کی؟ کیا یہ حقیقت ہمارے لئے درس عبرت نہیں ہے ؟

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع 38 صفحہ نمبر 51
2۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع 255، صفحہ نمبر 175
3۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع 180، صفحہ نمبر 137
4۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع121،صفحہ نمبر 108

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 123 تا 125

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)