جنّت

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=46006

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنۡتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئْتُمَا ۪ وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾

ترجمہ: اور ہم نے کہا اے آدم رہو تم اور تمہاری بیوی جنّت میں،اور تم دونوں اس میں سے کھاؤجہاں سے تم چاہو اطمینان سے ،اور نہ قریب جانا اس درخت کے (ورنہ)تم ہو جاؤ گے ظالموں میں سے۔
And We said : “O Adam! Dwell you and your wife in the Paradise and eat both of you freely with pleasure and delight of things therein as wherever you will, but come not near this tree or you both will be of the Zalimun (wrong-doers)”
قُرآن پاک کے بیان کردہ قانوُن کی روشنی میں اصل اِنسان حواس SENSES کا پابندکبھی نہیں ہوتا ۔ حواس ہمیشہ اِنسان کے پابند رہے ہیں۔آئیے یہ تلاش کریں کہ اِنسان کو حواس،سوچنا،سمجھنا،متاثر ہونا،غم زدہ یا خوش ہونا،زندہ رہنے کی کوشش کرنا یا موت سے ہم آغوش ہو جانا کہاں سے ملے ہیں؟اور اس کی حیثیّت کیا ہے؟اﷲ کریم فرماتے ہیں:
وَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنۡتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئْتُمَا ۪ وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾ اے آدم!تو اور تیری بیوی جنّت میں رہو اور جہاں سے تمہارادل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو(تمھارے اوپر زمانیّت اور مکانیّت کی کوئی پابندی نہیں)لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم اپنے اوپر قید و بند کا عذاب مُسلَّط کر لو گے۔
(سورۃ بقرۃ، پارہ1، آیت 35)

درخت:
درخت معنوی نقطہ نظر سے ایک ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس میں شاخ درشاخ پتے اور پھل پھول کی موجودگی پائی جاتی ہو۔قُرآن کریم کے فرمان کا مفہُوم یہ ہے:
اے آدم!زمان و مکان کی پابندی قبول نہ کرنا ورنہ تو اس میں اس طرح جکڑاجائے گا جس طرح اس درخت میں شاخ میں سے شاخ اور پھر شاخ میں سے شاخ اور ہر شاخ میں بے شمار پتے پیدا ہو رہے ہیں اور جب تو خوشی کے بدلے قید کی زندگی قبول کر لے گاتو اپنے اوپر ظلم کرے گا۔
جب شیطان کے بہکانے سے آدم علیہ السلام نے قید و بند کی زندگی کو اپنایاتو جنّت نے آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کو EXPELL کر دیا۔چونکہ اِنسان جنّت کے حواس کھو بیٹھا تھاجو اس کے اپنے اصلی حواس ہیں اس لئے اِنسان کو زمین پر پھینک دیا گیاجہاں وہ پابندی اور صعُوبت کے حواس میں گرفتار ہے۔زمین کے اوپر کام کرنے والے حواس FICTION یا مفروضہ ہیں۔یہ بات مبنی بر حقیقت اس لئے ہے کہ یہ اِنسان کے اصل حواس نہیں بلکہ نافرمانی کے بعد مُسلَّط شُدہ TEMPORARY یا عارضی حواس ہیں ۔اِنسان کے اَصل حواس وہ ہیں جہاں اس پر زمان اور مکان کی حد بندیاں عائد نہیں ہوتیں۔اگر اِنسان ان عارضی اور فکشن حواس کے تسلُّط سے نجات پا جائے تو پھر وہ اپنے اصل اور آزاد حواس کو حاصل کر سکتا ہے۔اصل حواس میں غم،پریشانی،جذباتی کشمکش،اعصابی کشاکش اور دل و دماغ کا کرب نہیں ہے۔
نوع اِنسانی کی تاریخ میں ایک بھی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ اِنسان بیداری اور سونے کی حالتوں میں کسی ایک حالت پرقُدرَت رکھتا ہو۔اِنسان جس طرح سونے پر مجبور ہے بالکل اسی طرح بیداری بھی اس کی طبعیت کا ایسا تقاضہ ہے جس کو کسی صورت میں رَد نہیں کر سکتا۔بیداری کے اعمال وو اقعات میں اِنسان کا دماغ جس طرح توہمات، خیالات، تصوّرات،احساسات اور عمل کرنے کی تحریکات کا آماجگاہ بنا رہتا ہے،بالکل اسی طرح خواب میں اِنسانی دماغ ایک لمحہ چین سے نہیں بیٹھتا۔خواب کے اندر کیے ہوئے اعمال اگر حافظہ کی گہرائی میں نقش نہ ہوں تو وہ اسی طرح بھول کے خانے میں جاپڑتے ہیں جس طرح بیداری میں کیے ہوئے اعمال فراموش ہو جاتے ہیں۔یہ کوئی تمثیل نہیں ہے۔عام تجربات اور مشاہدات ہیں جس سے ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے۔اِنسان خواب اور بیداری کے حواس کا مجموعہ ہے۔ اگر اِنسان کے اندر خواب کے حواس نہ ہوتے تو اِنسان کبھی بھی مستقبل میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا،جنّت جہاں ماضی ہے وہاں مستقبل بھی ہے جو اِنسان کا اصل مقام اور وطن ہے۔اگر بیداری کے حواس کو خواب کے حواس پر غلبہ حاصل ہو جاتا تو اِنسان غیب کی دنیا میں اپنے لئے کوئی مقام منتخب نہیں کر سکتا تھا۔

شجرِ ممنوعہ کی رُوحانی تفسیر: قُرآن پاک میں اس درخت کا کو ئی نام نہیں لیا گیا ہے۔ صرف شجر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ رُوحانی نقطہ نظر سےجب لاشعوری واردات و کیفیات میں اس درخت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو دراصل یہ طَرزِ فِکر کا سمبل ہے۔ اس بات کو سمجھنےکے لئےہمیں آدم علیہ السلام کی ان دونوں حالتوں کا تجزیہ کرنا پڑے گا جو جنّت اور زمین پر ہیں۔ اس لئے کہ وہ درخت ہی ہےجس نے آدم علیہ السلام کو ایک حالت سے دوسری کیفیّت میں داخل کر دیا۔مذکورہ آیت میں حَیۡثُ شِئْتُمَا کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔
حَیۡثُ شِئْتُمَا جس جگہ چاہو(حیث بہ معنی اسپیس) ان دو لفظوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسپیس کو آدم علیہ السلام کامحکوم کر دیا گیا۔ حیث یا اسپیس کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے چنانچہ جنّت میں آدم علیہ السلام کی یہ حیثیّت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنّت کے لامحدود رقبے پر تصرف عطا کر دیا تھا یعنی آدم علیہ السلام کے لئے جنّت کا وسیع و عریض رقبہ ،ٹائم اور اسپیس سے آزاد تھالیکن پھر۔۔۔۔۔۔
’’شیطان نے ان کو گمراہ کر دیا اور جس آرام میں وہ تھے اس سے محروم کر دیا”۔ (القُرآن)
لیکن جب یہی آدمؑ اسفل میں پہنچتا ہے تو اس کی پوزیشن بالکل متضاد ہو جاتی ہے ۔ اس طرح کہ اسپیس اس پر حاوی ہے۔ قدم قدم پر اس کو وسائل کی پابندیاں گھیرے ہو ئے ہیں۔ یہاں تک کہ اِنسان وسائل کے ہاتھ کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ جنّت میں یہ ہو رہاہے کہ جو کچھ جنّت میں موجود ہے وہ دروبست آدمی کے ارادے کے تابع ہے۔ آدمی کا دل چاہا کہ وہ سیب کھا ئے لیکن سیب کا کاشت کرنا اور توڑنا زیر بحث نہیں آتا۔ سیب کھانے کو دل چاہا اور سیب موجود ہو گیا۔ پانی پینے کو دل چاہاپانی موجود ہو گیا۔ اس طرزفکر میں تصرف کی دو طرزیں سامنے آتی ہیں۔
تصرُّف کی ایک طرز یہ ہے کہ ایک بندہ سیب کا درخت لگاتا ہے اس کی نشوونما کا انتظار کرتا ہے۔ طویل عرصےکےبعد سیب کادرخت اس قابل ہوتا ہے کہ اس پر پھل لگے۔ اس کے اندر سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ درخت کی طرف چلتا ہے اوردرخت پر سے سیب توڑ کر کھا لیتا ہے۔
تصرُّف کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیب، درخت پر لگے ہوئے ہیں۔ اس درخت کونہ کسی بندے نے زمین پر بویا ہے نہ اسکی نگہداشت کی ہےاور نہ اس درخت کو پروان چڑھانے میں کو ئی خدمت انجام دی ہے اور نہ اسے درخت پر سے سیب توڑنے کی زحمت کرناپڑی ۔ دل چاہا کہ سیب کھاؤں اور سیب موجود ہو گیا۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک اِنسانی صلاحیتیں زمان و مکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر کام کرتی ہیں۔ وہ سب جنّت کی زندگی ہے اور جب اِنسانی صلاحیتیں اسپیس میں بند یا قید ہو کر کام کرتی ہیں تو یہ ساری زندگی اسفل کی زندگی ہے۔ ہر اِنسان کے اندر جنّت اور اسفل کی زندگی ہر لمحہ متحّرک رہتی ہے۔ کبھی جنّت کی زندگی یعنی اسپیس( مکان) سے آزاد زندگی کا غلبہ ہو جاتا ہے اور کبھی اسفل زندگی یعنی مکانیّت میں قید زندگی حواس پر غالِب آ جاتی ہے۔ رُوحانی اِنسان اسفل زندگی کے غلبہ کو ختم کر کے، اعلیٰٰ اور جنّت کی زندگی کے حواس کو غالِب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس جدوجہد میں پہلا سبق یا پہلی کلاس کو مراقبہMEDITATION کا نام دیاجاتا ہے۔

آدم علیہ السلام ،جنّت اور ابلیس:
آدم علیہ السلام علوم الٰہیہ سے آراستہ ہو کر جنّت میں براجمان ہو چکے تو شیطان نے ان کو بہکا دیا اور اس شاندار حالت میں جس میں وہ رہ رہے تھے نکلوا دیا۔شیطان کے بہکاوے میں آ کر آدم علیہ السلام سے غلطی سر زد ہو گئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں جنّت سے نکل
جانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تم یہاں سے نیچے اتر جاؤ اور زمین پر بسیرا کرو۔ جہاں تمہیں ایک مدت تک رہنا ہو گا۔

آدم علیہ السلام کا جنّت سے خروج EXPELTION:
اس پر آدم علیہ السلام نے زمین پر زندگی کی دشواریوں، سختیوں اور تکلیفوں کا اندازہ ہونے کے باعث اللہ کے حضور اپنی نافرمانی اور بہکاوے میں آنے کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ استغفار کی اور عرض کی :
رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوۡنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾
اے ہمارے رب بیشک ہم اپنے اوپر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر آپ نے ہماری غلطی کو معاف نہیں کیا اور ہم کو اپنی رحمت و عفو سے ڈھانپ نہ لیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو کر رہ جائیں گے۔ (سورۃ اعراف، پارہ8، آیت 23)

روشنیوں کی ایک معین مقدار ہے جو ملوکیت اور بشریت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ روشنیوں کے توازن میں اگر مقدار کم ہو جائے تو حیوانی اور مادی تقاضے بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ صفت ملو کیت عالم امر میں صعود کرتی ہے۔ یعنی انسان کے اندر بشری صفت کے متضاد ملوکیت ایسی صفت ہے جو انسان کو حاکم مطلق اللہ کی طرف کھینچتی ہے اور اللہ کی طرف کھنچ جانا ہی عالم امر کی طرف صعود ہے۔
اس کے بر عکس انسان کے اندر جب بشری تقاضے بڑھ جاتے ہیں اور مکانیت میں استغراق بڑھ جاتا ہے تو صفت ملوکیّت کی جگہ مادی تقاضے یا دنیا میں دلچسپیاں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ انسان عالم ناسوت میں قید ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ خوش ہو کر کھاؤ پیو اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ جیسے ہی ذہن ماوراء ہستی سے دور ہوا روشنیوں کا توازن بگڑ گیا اور آدم علیہ السلام کے اوپر بشریت کا اظہار ہوا ۔ آدم علیہ السلام نے خود کو ننگا محسوس کیا اور آدم علیہ السلام نے اپنے اوپر کثافتوں کا ہجوم محسوس کیا کثافتوں کے ہجوم کی وجہ سے آدم نے خود کو جنت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا۔

اعترافِ گناہ:
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے اعترافِ غلطی پر ان کو اس پر دے سے نکلنے کا راستہ تعلیم کر دیا، جو نافرمانی کے باعث ان کے اوپر آن پڑا تھا اور کہا کہ تم زمین پر جاؤ ہم تمہاری راہنمائی اور ہدایت کا وہا ں پر ایسا بندوبست کئے دیتے ہیں کہ اگر تم نے اس پر عمل کیا تو ہم تمہیں خوف اور غم سے نجات دے دیں گے اور تم دوبارہ جنّت حاصل کر سکو گے۔ اور یہ بھی فرما دیا اور وہ جو ہماری نشانیوں کو جھٹلائیں گے اور ان کی تکفیر کریں گے وہ مزید ٖغلطی کے باعث آگ کے ہم نشین ہو جائیں گے۔

زمین کی مادی زندگی:
اس کے بعد آدم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت حوّا علیہ السلام کے ہمرا ہ جنّت کی پرسکون اور پُر آسائش زندگی کو چھوڑ کر دنیا
میں آ گئے۔دنیا میں رہن سہن اور بودوباش کا ایک نظام قائم ہو گیا۔جنّت میں اِنسان نہ صرف مادے ، ٹائم اور اسپیس سے آزاد تھا بلکہ ان
پر حکمران تھا لیکن دنیا کی زندگی میں و ہ ٹائم اور اسپیس میں CAPTURED ہو کر راہ زندگی گزارنے کا پابند ہے ۔ یہاں RESOURCES یا وسائل کا محتاج ہے وہاں وسائل اس کے چشم و آبرو کے اشارے کے منتظر تھے۔اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو جن علوم سے نوازا تھا ان کے باعث وہ ٹائم اور اسپیس پر حاوی تھا۔ مادے اور وسائل پہ اس کی حکمرانی تھی لیکن شیطان کے بہکاوے میں آکر کی گئی نافرمانی کے باعث اس زمین پہ آن گرا اس پردے کو اٹھانے اور ان رُوحانی علوم سے جو آدم کو عطا ہوئے تھے۔ دوبارہ استفادہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی تربیّت ،راہنمائی اور ہدایت کے لئے یہ بندوبست فرمایا کہ اپنے مخصوص بندوں کو ان علوم سے نواز کر انہیں دنیا میں بھیجنا شروع کر دیا تاکہ دوسرے اِنسانوں کی اس طرح تربیّت کریں کہ وہ بھی ان علوم سے آراستہ ہو کر اس پردے کو اٹھا لیں جو دنیا اور جنّت کی زندگی کے درمیان پڑا ہوا ہے۔
جنّت کی اقسام /نام:
1 جنّت النعیم (جنّت کے باغ) سورہ المائدہ آیت 65
2 جنّت عدن (سدا رہنے کا باغ) سورہ التوبہ آیت 72
3 جنّت الفردوس (ٹھنڈے چھاوَں کا باغ) سورہ کہف آیت 107
4 جنّت الخلد (ہمیشہ رہنے کا باغ) سورہ الفرقان آیت 15
5 جنّت الماویٰ (آرام سے رہنے کی جگہ) سورہ السجدہ آیت 19
6 روضات الجنّات (جنتوں کے باغات) سورہ الشوری آیت 22
7 جنّت عالیہ (اونچے باغ) سورہ الہاقہ آیت 22

حوالہ جات:
1۔ کتاب “خواب اور تعبیر” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، باب اِنسان خواب اور بیداری کے حواس کا مجموعہ،صفحہ نمبر 40 تا 42
2۔ کتاب “رُوحانی ڈاک 1″ اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،موضوع شجر ممنوعہ کی رُوحانی تفسیر،صفحہ نمبر 257 تا 259
3۔ کتاب ” خلیفۃ الارض” اَز نعمان ریاض عظیمی ،باب جنت کی اقسام ،صفحہ نمبر 61
4۔ کتاب ” شرح لوح وقلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، بابملکوتی صفت اور بشری صفت، صفحہ نمبر 177 تا 178

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 52 تا 56

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)