حیات و ممات

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49878

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَوْکَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرْ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَكْسُوۡہَا لَحْمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی كُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۵۹﴾

ترجمہ :۔ اُس شخص کی مثال یا د کرو جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے (حیرت سے) سوچا۔ ’’اس ہلاک شدہ آبادی کو اللہ بھلا کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا‘‘؟ اس پر اللہ نے سو سال کے لئے موت وارد کر دی۔ اور بھر جب اسے دوبارہ زندگی بخشی تو اس سے پوچھا’’(بتاؤ ) تم کتنی مدت اس حال میں رہے ۔‘‘ اس نے جواب دیا:’’ ایک دِن یا شاید اس سے کچھ کم۔‘‘ نہیں ، بلکہ تم پر سو سال اسی حالت میں گزر چکے ہیں ۔ لیکن اب تم اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں کوئی چیز نہیں سڑی۔ دوسرے طرف ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ (اس کا صرف ڈھانچہ ہی رہ گیا ہے ، چنانچہ دیکھو کہ ) ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں ۔ (یہ ہم اس لیے کر رہے ہیں )تاکہ تمھیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنائیں۔ ان ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ کس طرح ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے اور بھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں ۔‘‘ پس جب اس پر حقیقت اچھی طرح واضح ہو گی تووہ پکار اٹھا:’’(اب کوئی تردّد باقی نہیں رہا) میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قُدرَت رکھتا ہے۔ ‘‘
Or like the one who passed by a town and it had tumbled over its roofs. He said: “Oh! How will Allah ever bring it to life after its death?” So Allah caused him to die for a hundred years, then raised him up (again). He said: “How long did you remain (dead)?” He (the man) said:”(Perhaps) I remained (dead) a day or a part of a day”. He said: ”Nay, you have remained (dead) for a hundred years , look at your food and your drink, they show no change; and look at your donkey! And thus We have made of you a sign for the people. Look at the bones, how We bring them together and clothe them with flesh”. When this way clearly shown to him, he said, “I know (now) that Allah is Able is able to do all things.
حیات و ممات LIFE AND DEATH :
ایک دفعہ کسی بستی میں حضرت عزیر ؑ کا گزر ہوا۔ بستی ویران پڑی تھی۔ اس کی تباہ حالی اور بربادی دیکھ کر آپؑ کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ اس تباہ حال بستی کو کس طرح دوبارہ آباد کریں گے؟ حضرت عزیر ؑ نے گدھے کو ایک درخت سے باندھا۔ کھانا سرہانے رکھا اور درخت کے سائے میں لیٹ گئے ۔ نیند آگئی اور سو گئے۔ اس ہی لمحے اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم دیا کہ عزیر علیہ السلام کی رُوح قبض کر لے۔ حضرت عزیرؑ سو سال تک سوتے رہے ۔ حکمِ ربّی سے آپؑ کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے پوچھا:
’’ اے عزیر ! کتنی دیر تک سوتے رہے؟۔
آپ ؑ نے جواب دیا :
ایک دِن یا اس سے کچھ کم۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا!
” نہیں تم سو سال تک مُردہ پڑے رہے ہو اور اپنے گدھے اور کھانے کو دیکھو۔”
کھانا ویسا ہی تازہ تھا جیسا رکھا تھا لیکن گدھا مر چکا تھا۔ اور اس کی ہڈ یا ں پڑی ہوئی تھیں ۔ حضرت عزیر ؑ بہت حیران ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے سامنے آپ ؑ کے گدھے کو دوبارہ زندہ کیا۔ آپ ؑ کی نظر جب بستی پر پڑی تو اور زیادہ حیران ہوئے کہ بستی پوری طرح آباد اور پر رونق شہر بن گئی تھی۔ آپؑ اللہ کی قُدرَت کاملہ دیکھ کر سجدے میں گر گئے اور کہا !
“یا اللہ ! تو قادر مطلق ہے”۔

حکمت :
تقریباً ہر گھر میں ڈیپ فریزر اور فرج موجود ہے ۔ ہمیں اس بات کا مسلسل مشاہدہ ہے کہ چیزیں جب ٹھنڈی ہوں منجمد ہو جاتی ہیں تو سڑتی گلتی نہیں ہیں۔ مخصوص گیسیں انہیں محفُوظ رکھتی ہیں ۔
جس طرح ہر تخلیق کا ہر فرد روشنی کے جال کا غلاف ہے۔ اور ہر گیس کی ماہیّت اور مقدار کا تعین اسی روشنی کے غلاف سے ہوتا ہےـــ فرد کی حیات و ممات معیّن مقداروں پر قائم ہے۔ اس سارے نظام پر ایک اللہ حاکم ہے ۔ زندگی کا ہر لمحہ اس کی حاکمیّت کے تابع ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے برگزیدہ بندے حضرت عزیرعلیہ السلام پر حیات و ممات کے فلسفے کی حقیقت ظاہر کرے تو اللہ تعالیٰ کی قُدرَت نے ان گیسوں کو یکجا کر دیا جن کے ذریعہ اشیاء ٹھنڈی ہو کر خراب نہیں ہوتیں ۔
ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے ایجاد کرنے کا خیال آتا ہے پھر مسلسل ریسرچ کے بعد ایجاد کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ قانوُن یہ ہے کہ جب کسی ایک نقطے پر ذہن مرکوز ہو جاتا ہے تو اس نقطے سے مخفی خدوخال وجود کی شکل میں سامنے آجاتے ہیں ۔
موجودہ زمانے میں کھانے کو دو طریقوں سے محفُوظ کیا جاتا ہے ۔
1۔ کھانے کو فریز کیا جاتا ہے (DEEP FREEZING)
2۔ اس کو VACCUME ویکیوم یعنی ہوا کے بغیر پیک کیا جاتا ہے جس سے کھانا گلنے سڑنے سے محفُوظ رہتاہےاس طریقہ کار کو AIR TIGHT PACKAGING کہا جاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کھانوں کے سالموں MOLECULES کی حرکت تیز ہوتی ہے جبکہ فریزر میں درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے سالموں کی حرکت کم ہو جاتی ہے مالیکیولز کی حرکت تیز ہونے سے ہوا سے CONTACT بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ کم درجہ حرارت پر کیمیکل ایکشن کم ہوتا ہے اگر کسی بھی طریقہ سے سالموں کی حرکت کم یا بہت کم کر دی جائے جیسا کہ فریزر میں فری اون گیس کے ایکشن کی وجہ سے ہوتا ہے تو شے کے مالیکیولز ایک دوسرے میں جذب ہو کر منجمد ہو جائیں گے اور شے میں FOREIGN BODIES داخل نہیں ہو ں گے۔
سانس کی سائنس THE MECHANISM OF BREATHING :
زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے ۔ جب تک سانس کی آمدوشد جاری ہے زندگی رواں دواں ہے اور جب سانس میں تعطل واقع ہو جاتا ہے توِ مظاہراتی اعتبار سے زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ سانس اندر جاتا ہے اور باہر آتا ہے ، رو حا نی نقطہ نظر سے سانس کا اندر جانا اِنسان کو اس کی رُوح یا ( INNER) سے قریب کر دیتا ہے اور سانس کا باہر آنا اِنسان کو اس کی رُوح سے عارضی طور پر دور کر دیتا ہے۔ جب ہم سانس اندر لیتے ہیں تو ازل سے قریب تر ہو جاتے ہیں اور جب سانس باہر نکالتے ہیں تو خود کو ازل سے دور محسُوس کرتے ہیں یعنی سانس کا باہر آنامادی اور ازل کی زندگی کے درمیان ایک پردہ ہے ۔ جب ہم سانس کو اندر روکتے ہیں تو ہمارا رشتہ ازل سے قائم ہو جاتا ہے اور جب سانس باہر نکالتے ہیں تو ہمارا رشتہ ساری دنیا سے قائم ہو جاتا ہے ۔
بیداری کی کیفیّت میں سانس کی رفتار تیز ہوتی ہے، جبکہ نیند کی حالت میں آدمی طویل اور گہرے سانس لیتا ہے۔اس کا مشاہدہ بیدار ہونے کے فورا بعد کیا جا سکتا ہے۔ سانس پر غور کریں سانس لینے اور باہر آنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ معلوم ہو گا سانس اندر جانے میں تین یا چار سیکنڈ لگتے ہیں اور نہایت مختصر وقت کے لئے سانس اندر رکتا ہے۔ اور تین یا چار سیکنڈ سانس باہر آنے میں لگتے ہیں۔ آدمی جتنی زیادہ گہری نیند میں ہوتا ہے۔ سانس کا دورانیہ طویل اور سانس آہستگی سے چلتا ہے۔ نیند کی زندگی اور بیداری کی زندگی میں سانس کا واضح فرق نشاندہی کرتا ہے کہ شعوری حواس اور لاشعوری حواس کا تعلق سانس سے ہے۔
سانس اندر لینا صعودی حرکت ہے اور سانس کا باہر آنا نزولی حرکت ہے۔ سانس کی صعودی حرکت میں رُوح سے قربت ہوتی ہےجبکی نزولی حرکت میں دوری واقع ہوتی ہے۔ رُوح اللہ کا امر یا ارادہ ہے، ہر طرح کے تغیّر سے آزادہے۔سانس اندر لینے کے وقفہ میں اضافہ ہوتا ہے تو اطمینان اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ بے چینی اور بے سکونی کی گرفت ٹوٹنے لگتی ہے۔ مراقبہ میں سانس اندر لینے کے وقفہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے سکون اور اطمینان قلب کا احساس ہوتا ہے۔
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِكْرِ اللہِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾ وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔ )سورۃ رعد، پارہ13، آیت (28
ہر فرد پانچ ہزار سال کی عمر لے کر پیدا ہوتا ہے باالفاظ دیگر ہر فرد 5000سال کی سانسوں کاذخیرہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔جتنا زیادہ مادیت میں انہماک ہوتا ہے رُوح سے دوری ہوتی ہے خود غرضی ،غرور ،کبر، منافقت، لالچ اور حرص و ہوس کا غلبہ ہوتا ہے۔آدمی زندگی کے خزانے کو لوٹتا ہے۔
غور طلب بات ہے منفی طَرزِ فِکر، رُوح اور باطن سے دور کرنے والے تمام اعمال میں سانسوں کاوقفہ اتنا مختصر ہو جاتا ہے کہ ایک منٹ میں16 کی بجائے زیادہ سانس لیتا ہے۔اس فضول خرچی اور اسراف سے عمر کم سے کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بر عکس باطن یا غیب کو اہمیت دینے والے، رُوح کا عِرفان حاصل کرنے والے افراد کی زندگی میں سانس کی صعودی حرکت کے وقفے زیادہ ہوتے ہیں وہ پرسکون زندگی گزارتے ہیں ۔ اللہ کے دوست ،منزل رسیدہ افراد اختیار رکھتے ہیں کہ وہ جتنا چاہیں اس دنیا میں رہیں اور ملک الموت دستک دے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔
حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی:
حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ بیمار تھے۔ ایک بزرگ نے دروازہ پر دستک دی۔ بڑا بیٹاباہر گیا۔ بزرگ نے ایک خط دیا اور کہا۔’’اپنے اباّ کو دے دو۔‘‘بیٹے نے باپ کو خط دے دیا۔ انہوں نے خط پڑھا اور فرمایا کہ’’ان سے جا کر کہو آدھے گھنٹے بعد تشریف لائیں۔‘‘بیٹے نے جا کر کہہ دیا۔ کہ اباّ کہہ رہے ہیں آدھے گھنٹے بعد آنا۔بزرگ چلے گئے۔ حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانیؒ نے جلدی جلدی ضروری کام نمٹائے اور ان کا انتقال ہو گیا۔ تکفین و تدفین کےبعد بیٹے کو خیال آیا کہ وہ بزرگ کون تھے۔ اباّ نے انہیں آدھے گھنٹے بعد بلایا تھا۔ وہ کیوں نہیں آئے؟ خط کی تلاش ہوئی تو خط تکیہ کے نیچے مل گیا۔ خط میں لکھا تھا:
’’میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ بڑی سرکار سے آپ کا بلاوا آیا ہے۔ بتا ئیے کیا حکم ہے؟‘‘نیچے لکھاتھا۔ “عزرائیل” آدھے
گھنٹے کے بعد بلایا تھا۔ ملک الموت آدھے گھنٹے بعد آیا اور بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ کو اپنے ساتھ لے گیا۔
کافر شاہ: قلندر غوث علی شاہؒ لکھتے ہیں کہ کلیر شریف میں ایک صاحب تھے، کافر شاہ۔ شام کے وقت غوث علی شاہ اورکافر شاہ سیر کرنے نہر کے کنارے چلے گئے۔ باتیں کرتے کرتے کافر شاہ اچانک بولے۔
’’بھائی ہمارا بلاوا آ گیا ہے اور ہم جا رہے ہیں۔‘‘
کافر شاہ لیٹ گئے اور کہنے لگے۔
’’اب میرے پیروں کی جان نکل رہی ہے۔ میری جان سینے میں آ گئی ہے۔ اب میری جان حلق میں ہے۔ اچھابھئی! خداحافظ۔‘‘،اور مر گئے۔

غوث علی شاہؒ حیران ہوئے کہ یہ بھی کوئی مرنے کا طریقہ ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد سورج غروب ہو گیا۔ رات ہو گئی۔ غوث علی شاہؒ صاحب کو خیال آیا کہ رات بھر جنگل میں لاش پڑی رہے گی۔ یہ نہ ہو کہ مُردہ جسم میں بھوت گھس جائے یا لاش کوئی جانور کھاجائے۔ عشاء کی نماز بھی قائم نہیں ہوئی۔ صبح کی اذان کے وقت کہنےلگے:
’’اے بھائی کافر شاہ! میں نے تیرے ساتھ کیابرائی کی تھی جس کی تو نے مجھے یہ سزا دی ہے، میری نمازبھی گئی۔ ساری رات تو نے مجھے بٹھائے رکھا۔ میں کہیں جا بھی نہیں سکتا۔‘‘
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ کافر شاہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ وہ اٹھ کر بیٹھے تو غوث علی شاہ ؒ کو یہ گمان گزرا کہ ان کے جسم میں کوئی بدرُوح گھس گئی ہے۔ کہنے لگے۔
’’اچھا۔‘‘
اور ہاتھ میں لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے۔ لاٹھی سر پر مارنے والے ہی تھے کہ کافر شاہ بولے۔”بات سن تھوڑی دور کھڑا ہو جا۔وہاں کھڑے ہو کے بات کر۔‘‘
ہمت کر کے پچھلے پیروں ذرا دور کھڑے ہو گئے۔ کافر شاہ بولے۔
’’میں بدرُوح نہیں ہوں، ابھی تو شکوہ کر رہا تھا کہ میں مر گیا اور تیری نماز قضا گئی۔ اور رات بھر تجھے زحمت دی میں نے۔ تو اپنی نماز پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر بعد مر جاؤں گا۔‘‘
غوث علی شاہؒ کو بڑی حیرت ہوئی اور پوچھا۔
’’یہ مرنا کیا ہے؟‘‘
کافر شاہ نے کہا۔’’یہ بعد میں بتاؤں گا۔ وضو کر آ۔‘‘
جلدی جلدی وضو کر کے آئے اور کہنے لگے۔
’’بھائی کافر شاہ! کیا تم واقعی مر گئے تھے۔ اگر مر گئے تھے تو زندہ کیسے ہوئے؟‘‘
کہنے لگے۔ ’’جیسے میں پہلے مر گیا تھا ویسے ہی میں پھر مر جاتا ہوں۔‘‘
اور پھر کہنے لگے۔
’’میرے پیروں سے جان نکل گئی،ٹانگوں سے نکل گئی۔‘‘
انہوں نے ہاتھ جوڑ کر بڑی منت سماج کی کہ شہر میں جا کر مرنا۔ پھر مجھے مصیبت پڑے گی۔ میں تجھے کہاں نہلاؤں گا؟ کہاں سے کفن دوں گا؟ کس طرح دفن کروں گا؟ آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ کون سی دشمنی نکال رہا ہے؟
کافر شاہ کہنے لگے۔
’’بھائی! حکم یہی ہے کہ یہاں پر مرنا ہے۔‘‘
غوث علی شاہؒ نے پوچھا۔’’مرنے کے بعد کیا ہونا ہے؟‘‘
کہا۔”مرنے کے بعد کیا ہونا ہے اس کو بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن میرے ساتھ بہت اچھا ہوا ہے۔”
تاریخ میں مثالیں موجود ہیں جو وضاحت کرتی ہیں کہ سانس پر کنٹرول سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
حبس دم یا سانس روکنے کے کئی واقعات یوگی صاحبان کے متعلق مشہور ہیں کہ سانس کی مشقوں میں اتنی مہارت حاصل کر لیتے ہیں کہ کئی کئی گھنٹے بغیر سانس لیے گزار لیتے ہیں اور جسم کی اندرونی تحریکات اتنی سست ہو جاتی ہیں لگتا ہے ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی طویل عمری 200سال یا 300سال کی عمر کا سبب گیان دھیان ،یکسوئی اور سانس کی مشقوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ مخصوص کیفیّت میں جسمانی ٹوٹ پھوٹ کا عمل مفقود ہو جاتا ہے۔ یعنی ارادے سے اپنی عمر کے گزرنے کے وقفے کو طویل کر لیتے ہیں ۔اپنی زندگی کی فلم کو SLOW MOTION میں لے آتے ہیں۔سائنسی وضاحت کے مطابق ان کے METABOLISM کاعمل انتہائی سست ہو جاتا ہے۔ خلیات کی ٹوٹ پھوٹ ،شکست و ریخت بھی کم ہو جاتی ہے۔
یہ کسی انہونی کا تذکرہ نہیں بلکہ فطرت میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔بہت سے حیوانات اپنے اوپر بیہوشی کی نیند طاری کر لیتے ہیں۔یوگی صاحبان کی صلاحیت کی مثال حیوانات میں طاری ہونے والی بیہوشی کی نیند ہے۔عموما سردی کی موسم میں کچھ حشرات اور حیوانات کئی کئی دِن اور بعض کئی ماہ تک ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ ان کے دل کی دھڑکن انتہائی سست ،درجہ حرارت انتہائی کم اور سانس کی رفتار انتہائی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس عرصہ میں جسم میں توانائی کی ضرورت کم ہوتی ہے۔ اور خلیات کی موت کا عمل بھی سست ہو جاتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق جانور جب بےہوشی کی نیند اختیار کرتے ہیں تو ان کی عمر اپنی نوع کے ان افراد سے بڑھ جاتی ہے جو اس کیفیّت کو طاری نہیں کرتے اور جب وہ بیدار ہوتے ہیں تو ہشاش بشاش زندگی گزارتے ہیں ۔ ایک مخصوص چوہے کی عمر کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ 3.9سال ہوتا ہے۔لیکن جو اپنے اوپر بیہوشی کی نیند طاری کر لیتے ہیں ان کی عمر5.6 سال تک نوٹ کی گئی ہے۔ اعدادو شمار چارٹ میں ملاحظہ فرماِئیں۔

ان سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وہ جاندار جن میں سانس کے وقفے طویل ہوتے ہیں اسی مناسبت سے ان کی عمر بھی طویل ہوتی ہے۔

پہاڑ کا نظام تنفس:
صاحب مراقبہ،مراقبے کی حالت میں منکشف ہونے والی اطلاعات اور خیالات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ مشاہدہ ہوا کہ پہاڑ کے اندر روشن نقطہ صاحب مراقبہ سے مخاطب ہے اس نے صاحب مراقبہ کو بتایا کہ میری پیدائش اور نشوونما بھی اسی طرح ہوئی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات کی پیدائش عمل میں آئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میری نسل میں TIME AND SPACEکی وہ صورت نہیں جو دوسری مخلوق کے ساتھ ہے ۔میری PHYSICAL DEVELOPMENTنشوونما بہت دھیرے دھیرے ہوتی ہے۔ اگر کوئی درخت 5سال میں جوان ہوتا ہے تو میری جوانی کا دور ہزاروں سال کے اوپر محیط ہے۔میں نے وجہ دریافت کی تو پہاڑ نے مجھ سے کہا میرے سانس کی رفتار عام حالات سے ہٹ کر ہےمیری ایک سانس کا وقفہ 15منٹ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ میری نشوونما میں اتنا زیادہ طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔
وقت کا تعلق حرکت سےہے اگر شے کی حرکت کو اس کی موجودہ حرکت سے سو گنا کم کر دیا جائے تو اس حرکت کی نسبت سے ٹائم گزرنے کی رفتار سو گنا کم ہو جائے گی مثلاً ہم ایک منٹ میں اٹھارہ مرتبہ سانس لیتے ہیں اگر ایک منٹ میں ایک سانس لیا جائے تو اٹھارہ سانس لینے کے لئے اٹھارہ منٹ درکار ہونگے لہذ ا ایک منٹ میں اٹھارہ مرتبہ سانس لینے میں وقت اٹھارہ گنا کم ہو جائے گا۔
حضرت عزیؑر نے ایک سو سال میں اندازً اتنے سانس لئے جتنے ایک دِن میں لیے جاتے ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ علیہ السلام کتنے عرصہ سوئے تو انہوں نے کہا ایک دِن یا اس سے کم۔
مثال:
ایک دِن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں چوبیس گھنٹوں میں ایک آدمی چوبیس ہزار نو سو بیس(24920) سانسیں لیتا ہے اس حساب سے اس نے سو سال سونے میں تقریباً نو ارب سانس لئے یعنی ٹائم کی رفتار نو ارب گنا زیادہ ہو گئی۔ اس طرح کھانے کے مالیکیولز کی حرکت بھی اتنی کم ہو گئی کہ وقت ٹھہر گیااور کھانا خراب نہیں ہوا۔ رہا گدھے کا معاملہ تو اس کے لئے وقت ایسے ہی گزرا جیسا کہ اور چیزوں کے لئے گزرتا ہے اور وہ سو سال میں مرکھپ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا۔
ٹائم اسپیس کا قانوُن:
اہرام یا PYRAMIDS میں بھی وقت ٹھہر جاتا ہے یا یوں کہیں کہ وہاں بھی مالیکیولز کی حرکت تقریباً صفر ہو جاتی ہے اور ہزاروں سال تک اس میں رکھی ہوئی چیزیں خراب نہیں ہوتیں اور اس کی فضاء میں مراقبہ کرنے والے لوگ ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہو کر لا شعور سے قریب ہو جاتے ہیں۔

مثال:
وقت کی رفتار سے متعلق ایک اور مثال یہ ہے کہ ہم ٹی وی میں کرکٹ کا میچ دیکھتے ہیں ۔ فرض کریں بالر جب گیند پھینکتا ہے تو BATSMAN تک یہ گیند ایک سیکنڈ میں پہنچتی ہے ٹی وی والے جب اس کاری پلے سلو موشن میں دکھاتے ہیں تو گیند کی حرکت کا دورانیہ پانچ سیکنڈ ہو جاتا ہے یعنی حرکت کم ہونے سے وقت میں اضافہ ہو گیا اسی طرح اگر ری پلے کو فاسٹ موشن کر دیا جائے تو وقت ایک سیکنڈ کی بجائے آدھا سیکنڈ یا اس سے بھی کم ہو جائے گا مختصراً یہ سویا ہوا آدمی زمانیّت میں سفر کرتا ہے۔
مثال:
جب آدمی سوتا ہے تو چونکہ اس کا مادی وجود زمین پر حرکت نہیں کر رہا ہے اس لئے اس کی زندگی ٹائم میں گزررہی ہے۔ چونکہ ایک ،دو، چار ، دس قدم اٹھے ہی نہیں ہیں اس لئے زمانیّت (Time)کی پیمائش نہیں ہو سکتی۔ جب آدمی سوتا ہے تو زمانیّت میں سفر کرتا ہے جب آدمی بیدا ر ہوتا ہے تو اسپیس میں سفر کرتا ہے۔ زمانیّت اس کے ساتھ سفر کرتی ہے۔
حضرت عزیرؑ جب سو گئے تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانوُن کے مطابق ان کے حواس زمانیّت میں پیوست ہو گئے۔ چونکہ مادی وجود یعنی فزیکل باڈی میں کوئی چلت پھرت نہیں ہوئی اس لئے انہوں نے کہا کہ میں ایک دِن سویا ہوں۔
گدھے کا معاملہ یہ ہے کہ عام حالات کے مطابق گدھے کے اندر آکسیجن جب گئی تو کاربن نے اس کو جلایا نہیں نتیجے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
کھانا خراب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کھانے کے مالیکیولز اور سالموں کو محفُوظ کرنے کے لئے وہ جگہ جہاں کھانا رکھا ہوا تھا، ٹھنڈی لہروں کا علاقہ بن گیا۔ جیسے ایک بہت بڑے کمرے میں ایک چھوٹا سا فریج رکھ دیا جائے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” محمد رسول اللہ ﷺ جلد سوم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،باب حیات و ممات،صفحہ نمبر 317 تا 319
2۔ کتاب ” کشکول ” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،موضوع نمبر 48، صفحہ نمبر 61
3۔ ماہنامہ “قلندر شعور” شمارہ جولائی 2015ء، موضوع زندگی سانس ہے ،سانس زندگی ہے، صفحہ نمبر 32 تا 33
4۔ کتاب ” احسان و تصوّف” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، صفحہ نمبر 193
5۔ کتاب “تذکرہ غوثیہ” اَز حضرت سیّد شاہ گُل حسن قادری،صفحہ نمبر 72 تا 75
6۔ ماہنامہ “قلندر شعور” شمارہ جولائی 2015ء، موضوع زندگی سانس ہے ، سانس زندگی ہے، صفحہ نمبر 33 تا 34
7۔ کتاب “محمد رسول اللہ ﷺ جلد سوم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،باب حیات و ممات ، صفحہ نمبر 320

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 107 تا 109

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)