تخلیق کا عِلم

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49991

بِسْمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ثُمَّ قَالَ لَہٗ كُنۡ فَیَكُوۡنُ ﴿۵۹﴾

ترجمہ:پھرکہا اس کو کہ ہوجا تو وہ ہو گیا۔
(He) Said: “Be!” and it was.
اللہ تعالیٰ نے قُرآن پاک میں تخلیق کا عِلم بیان فرمایا اور دین اور اپنی نعمت کی تکمیل کا بیان کیا ہے رُوحانیّت میں تخلیق کےعِلم کے دو مرحلے STAGES بیان کئے گئے ہیں۔
مرحلہ اوّل FIRST STAGE :
پہلے مرحلے میں عِلمُ القلم کے تحت ارواح کی اوّلین تخلیق کا ذکر ہے اس میں تمام انواع شامل ہیں تخلیق کایہ مرحلہ وسائل کے بغیر وجود میں آیا۔
مرحلہ دومSECOND STAGE :
دوسرے مرحلے میں اِنسان کے لیے ایک میڈیم علق کا بیان کیا گیا ہے۔ علق عنصری یا ELEMENTAL وجود ہے جو رُوح کے لباس کی ابتدا ہے یہ واضح کیا گیا کہ انواع و موجودات میں اِنسان اور تخلیق کے مقصد میں اِنسان کو انفرادی حیثیّت حاصل ہے اِنسان احسن تقویم ہے معرفت اور حقیقت جاننے کی صلاحیت زیادہ اِنسان کو عطاکی گئی ہے۔ اور اسی شرف کی بنا پر وہ دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔

1۔ پہلے مرحلے میں عِلم القلم کے تحت کُنْ فَیَکُونْ ہوا اور ارواح تخلیق ہوئیں ۔
2۔ دوسرے مرحلے میں اَلَسْتُ بِر بکم کہہ کراللہ تعالی ٰ نے ارواح کو اپنی صِفات کا مشاہدہ اور تعارُف کرایا۔
3۔ تیسرے مرحلے میں احسن تقویم کے تحت ان صِفات کا عِلم اِنسان کو سکھایاگیا۔
4۔ چوتھے مرحلے میں جب اِنسان عالم دنیا یا اسفل السافلین میں پیدا ہوتا ہے تو کائناتی شعور سے مادی شعور میں داخل ہو جاتا ہے۔
تخلیق کتاب المبین ، لوحِ محفُوظ اور عالم مثال سے گزرتی ہوئی عالم دنیا کے مادی شعور میں داخل ہو جاتی ہے۔
اجتماعی شعور کے مقابلہ میں اِنسان انفرادی شعور میں اتنا محدود ہوتا ہے کہ روز ازل کیا گیا عہد ، مشاہدہ اور عِلم الاسماء کے تحت نیابت و خلافت کا منصب پس پردہ چلاجاتا ہےاور اِنسان وسائل کا محتاج بن جاتا ہے۔
انسان کا مادی شعور اتنا محدود ہے کہ وہ مظاہر یعنی آسمان، سورج، چاند ، آگ، پتھر حتیٰ کے حیوانات کو بھی اپنا معبُود تسلیم کر لیتا ہے۔
فطرت کی آفاقی نشانیا ں، اِنسان کے عقل و شعور کو مادہ کے پس پردہ موجود، ایک کائناتی حقیقت یعنی رُوح کے شعور اور حواس کی آگاہی بخشتی ہیں ۔ خالق کائنات زمان ومکان سے آزاد اور وسائل پر حاکم ہے۔
اسم اطلاقیہ:
اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی اور لفظ کُن ْفرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسم رحیم کی قوت نے حرکت میں آکر کائنات کے تمام افراد ،تمام اجزاء، اور تمام ذروں کو شکل و صورت بخش دی ۔اس حالت کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اسم اطلاقیہ کا نام دیا ہے۔اسم اطلاقیہ اسم مطلق سے مشتق ہے ۔پھر یہ اسم تنزل کر کے عینیہ میں داخل ہو گیا اور صِفت رحیمی سے عِلم میں حرکت پیدا ہو گئی ۔
عالِم عینیہ:
کُن کے بعد موجودات کو عِلم نہیں تھا کہ میں کون ہوں ؟کہاں سے آیا ہوں؟کہاں جانا ہے؟ اس حیرت کے عالم کو عالم عینیہ کہا جاتا ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے اس محویت اور اس حیرت کو ختم کرنا چاہا تو موجودات کو خطاب کر کے فرمایا :
پہچان لو میں تمہارا رب ہوں۔
رُوحوں نے جواباً کہا جی ہاں ہم نے پہچان لیا ۔رُوحوں نے جب اللہ تعالیٰ کا اعتراف کر لیا تو صِفت رحیم کی حیثیّت عِلم عینیہ سے تنزل کر کے کونیہ ہو گئی۔
مٹّی:
شہباز کی قوت پرواز بھی مِٹّی کی ممنون کرم ہے کیوں کہ اس کے جسمانی اعضاء اسی مِٹّی(کل رنگ و روشنی) کی مختلف ترکیبوں سے وجود میں آئے ہیں ۔ البتہ تخلیق کا اصل رازیہ ہے کہ مِٹّی کے اندر خالق کائنات کا امر متحرک ہے جو مِٹّی کو مختلف سانچوں میں ڈھال کر مختلف شکلوں میں ظا ہر کررہا ہے۔ کنکر، پتھر ، پودے،مختلف قسم کے جانور اور اِنسان دراصل مختلف سانچے DYES ہیں ۔

کائنات میں موجود جتنی اشیاء ہیں ان سب کی تخلیق ڈائیوں میں ہورہی ہے۔ جس طرح چڑیا کی ڈائی میں پلاسٹک ڈال کر چڑیا بنالی جاتی ہے اور کبوتر کی ڈا ئی میں پلاسٹک ڈال کر کبوتر بنالیا جاتا ہے اسی طرح قُدرَت کی بنائی ہوئی ڈائیوں میں مصالحہ MATTER ایک خاص طریقہ کار سے منتقل ہوتا رہتا ہے اور نئی نئی صورتیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔
روشنی +مٹّی=جسم:
کائنات کی ساخت کے بارے میں اللہ تعالٰے فرماتے ہیں :
اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور ہے۔ (سورۃنُور ، پارہ 18، آیت35)

یعنی آسمانوں اور زمینوں کے اندر بسنے والی ہر شے کے اندر اللہ تعالیٰ کا نُور کارفرما ہے ۔ موجودہ سائنسدانوں کی RESEARCH کے مطابق MATTER بھی روشنی کی ایک FORM ہے ۔ اس کا مطلب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ آسمانوں اور زمینوں کی ہر شے روشنی کی مختلف شکلیں ہیں ۔اِنسان یا دنیا کی ہر تخلیق روشنیوں کی ظاہری صورت ہے اس ظاہری صورت کو جسم کہا گیا ہے اس جسم کو حرکت میں رکھنے والی روشنیاں ہیں ۔جنہیں عرف عام میں رُوح یا SOUL کہتے ہیں ۔ رُوح جس جس عالم میں جاتی ہے اس عالم میں اپنی صلاحیتوں اور علوم کے مظاہرے کے لئے ایک جسم یا خول اپنے اوپر لباس کی طرح پہن لیتی ہے ۔جسے پہن کر رُوح اس دنیا میں کام کر رہی ہے ۔ مادی جسم مِٹّی کے ذرات سے مل کر بنا ہے اور مِٹّی کے ذرات کی نیچر خلاء ہے۔ان خلاؤں میں رُوح کی روشنیاں جذب ہو کر جسم کی صورت کو برقرار رکھتی ہے ۔جیسے ہی رُوح کی روشنیاں مِٹّی کے ذرّات کی خلاؤں سے باہر نکل جاتی ہے ۔ جسم کی صورت کو برقرار رکھنے والی توانائی نکل جاتی ہے جس کی وجہ سے مِٹّی کے ذرات بکھر جاتے ہیں۔ کیونکہ مِٹّی کے ذرات میں وہ توانائی نہیں ہے جو حواس بناتی ہے ۔رُوح کی روشنیاں ہی حواس بناتی ہیں جسم محض مِٹّی کے ذرات ہیں ۔رُوح اپنی روشنیوں کا عالم ناسوت میں مظاہرہ کرنے کے لیئے مِٹّی کے ذرات کو بطور SCREEN یا لباس استعمال کرتی ہے ۔ جب رُوح کا کام پورا ہو جاتا ہے تو پھر وہ یہ سکرین یا لباس
چھوڑ دیتی ہے ۔بس روشنیوں کے لوٹتے ہی مِٹّی کے ذرات پھر پہلے کی طرح مِٹّی ہو جاتے ہیں اور رُوح اپنا سفر غیب کی دنیا میں جاری رکھتی
ہے۔
غور طلب بات ہے رُوح اللہ تعالے کے حکم کُن ْسے وجود میں آتی ہےرُوح کے اندر اللہ کے حکم کی تجلّی کام کر رہی ہے اللہ کے حکم میں زماں و مکاں نہیں ہےوہ ارادہ کرتا ہے اور کام ہو جاتا ہے رُوح بحیثیّت امر ربی ہونے کے اللہ کے حکم کا MEDIUM بن کر کام کرتی ہے۔رُوح کی حرکت حکم کُن ْکی تجلّی ہےپس رُوح کا ارادہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے ۔اور اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے یعنی رُوح TIME AND SPACE کی حدود سے آزاد ہےرُوح جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر زمان و مکان کی حدود میں قدم رکھتی ہے تو یہ محدودیت اس کے فطری تقاضوں کے خلاف ہے اس دنیا میں آکر رُوح کو محدودیت کا وہ شعور عطا ہوتا ہے جس کے تقاضے رُوح کے فطری تقاضوں کی ضد ہیں اس محدودیت کی فضا میں گِھر کر اپنی کنہ سے وابستہ رہنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔اس طرح دنیا میں آکر اِنسان کو بشری شعور حاصل ہو جاتا ہے اس بشری شعور میں ہر وقت محدودیت یعنی دنیا اور لامحدودیت یعنی رُوحانی دونوں شعور کام کر رہے ہیں۔اور اِنسان دنیا میں ان دونوں دماغوں سے کام لیتا ہےاور اس دنیا کی زندگی میں بستے ہوئے شعورکی ذات کو رُوح کے ساتھ تعلق رکھنا ضروری ہو جاتا ہےتا کہ وہ لا محدودیت کو پہچان لے۔لامحدودیت کی مثال دائرے کی ہے دائرے کے اندر ایک نقطے کی کوئی حیثیّت نہیں ہے۔نقطے کو دائرے میں سفر کرنے کے لئے مدت درکار ہے۔

حوالہ جات:
1۔ ماہنامہ” قلندر شعور” موضوع خواجہ غریب نواز نے 22 سال شب وروز مرشد کی خدمت کی، صفحہ نمبر 43 تا 44
2۔ کتاب ” شرح لوح وقلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، باب تدلیٰ، صفحہ نمبر 73 تا 74
3۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، موضوع 24 ،صفحہ نمبر 37
4۔ کتاب” معرفت ِعشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی، موضوع رُوحانی شعور، صفحہ نمبر 205 تا 206
5۔ کتاب “معرفتِ عشق ” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی، موضوع ایک نقطہ، صفحہ نمبر 238

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 155 تا 158

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)