اللہ دیکھ رہا ہے

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=46021

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَاللہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوۡنَ ﴿٪۹۶﴾

ترجمہ: اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان کو دیکھ رہا ہے۔
Allah is Seer of what they do.
ایک سوال یہ نکلتا ہے کہ کیا ہماری زندگی میں کوئی بھی ایک ایسا عمل موجود ہے کہ جس کو ہم تخیّل کے علاوہ کوئی نام دے سکیں۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ان سب کا تعلق بھی خیال سے ہی ہے۔ اگر کسی آدمی کو زندگی میں پانی پینے کا خیال نہ آئے تو آدمی کبھی پانی نہیں پئے گا۔ پہلے خیال آتا ہے پانی پینے کا یعنی پیاس لگتی ہے، پھر آدمی پانی پیتا ہے۔ بغیر پیاس کے کوئی آدمی پانی نہیں پیتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پیٹ ساتھ لگا دیا ہے۔ جب تک آدمی کو بھوک نہیں لگتی، آدمی روٹی نہیں کھاتا۔
بھوک لگنا کیا ہے؟ بھوک لگنا بھی ایک خیال ہے۔ ایک خیال کا نام بھوک رکھ لیا، پانی پینے کے خیال کا نام پیاس رکھ لیا، اعصاب تھک جاتے ہیں تو ان کو آرام کی ضرورت پیش آتی ہے، آرام کا نام نیند رکھ لیا۔ لیکن جب تک کسی آدمی کو نیند نہیں آئے گی وہ سوئے گا نہیں۔
آج کل تو یہ بہت زیادہ ہو گیا ہے کہ نیند کی گولیاں بھی کھاتے ہیں پھر بھی نیند کا خیال نہیں آتا ہے۔ اس میں کہیں گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پھر یہی صورتحال ہر انسان کے ساتھ آپ دیکھتے ہیں کہ سونے کے بعد جاگنا بھی پڑتا ہے۔ کوئی انسان ساری زندگی سو نہیں سکتا۔ کوئی انسان ساری زندگی بیدار نہیں رہ سکتا۔ تو سونے کے بعد جو اٹھنا ہے وہ بھی ایک خیال ہے۔ تو یہ ساری زندگی خیال کے اوپرDEPENDکرتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی ایک عمل، کوئی بھی ایک جذبہ، کوئی بھی ایک تقاضہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو آپ یہ کہہ سکیں کہ یہ بغیر خیال کے ہم پورا کر لیتے ہیں۔
زندگی کے جتنے بھی جذبات ہیں ان کا تعلق خیال سے ہے۔ پہلے خیال آئے گا۔ آپ اس خیال کو قبول کریں گے اس کے بعد آپ عمل کریں گے۔ یہ ساری زندگی عالم تخیّل ہے۔ عالم تخیّل کا مطلب ہے خیالات کے اوپر DEPEND کرنا۔
اس سوال کا جواب کہ روحانیت میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں کیا وہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان کے اندریقین کا پیٹرن موجود ہو تو جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے حقیقت پر مبنی ہے اور اگر انسان کے اندر یقین کا پیٹرن موجود نہیں ہے تو وہ بھی فکشن ہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ قران کریم میں فرماتے ہیں :
وَاللہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوۡنَ
ہم سب کہتےبھی ہیں کہ اللہ ہے، اللہ دیکھ رہا ہے اور باوجود کہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، ہم گناہ کر رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یعنی ایک آدمی کسی آدمی کے سامنے بے ستر ہونا پسند نہیں کرتا۔ شرم و حیا کی وجہ سے۔ اس لئے کہ وہ آدمی یہ دیکھ رہا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہے اور اُس سے وہ شرم کرتا ہے، حالانکہ وہ اسی جیسا آدمی ہے لیکن دوسری طرف جب وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو کوئی آدمی گناہ کیسے کر سکتا ہے؟
اِس کا مطلب کیا ہے؟
وہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے یہ اس کے لئے محض الفاظ ہیں ۔ یقین کا پیٹرن اس کے اندر موجود نہیں ہے جب یہ بات یقین بن جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو آدمی گناہ کیسے کر سکتا ہے؟ کوئی آدمی اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم کیسے اٹھا سکتا ہے؟
ایک قصہ ہے کسی بزرگ کا کہ ان کے دو مرید تھے۔ ایک مرید پر وہ بہت زیادہ شفقت کرتے تھے۔ جس مرید پر زیادہ شفقت کرتے تھے اسے دوسرے لوگ ذرا محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ تجربے کیلئے اپنے ایک مرید کو کہا کہ بھائی یہ چیز کسی ایسی جگہ دبا آؤ جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ وہ جنگل میں کہیں گیا، اِدھر اُدھر سب جگہ دیکھا وہاں کوئی آدمی نہیں تھا، وہ چیز وہیں دبا کے آ گیا۔
پھر اس کو بلایا جس پہ زیادہ شفقت تھی کہ میاں یہ ایک چیز ہےکسی ایسی جگہ دبا کے آؤ جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ وہ صاحب صبح کے گئے شام ہو گئی۔ لوگوں نے اپنے پیر صاحب سے کہا کہ دیکھئے حضرت اتناذرا سا کام تھا سارا دن لگا دیا، شام کو وہ تھکے ماندے ہانپتے کانپتے آئے اور وہ چیز پیر صاحب کے سامنے رکھ دی۔ پیر صاحب نے کہا کہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس کو دبا کے آنا جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ کہنے لگے صاحب صبح سے شام ہو گئی تلاش کرتے ہوئے کوئی جگہ ایسی نہیں ملی، جہاں بھی گیا اللہ دیکھ رہا تھا۔ تو دیکھئے یہ یقین کا پیٹرن ہے تو اگر کوئی انسان مراقبے میں کچھ دیکھتا ہے اس کے اندر اگر یقین کا پیٹرن ہے تو وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے، صحیح دیکھ رہا ہے اور اگر اس کے اندر یقین کا پیٹرن نہیں ہے تو اگر وہ صحیح دیکھ رہا ہے توبھی غلط دیکھ رہا ہے۔
مراقبہ کا تعلق ایک طرزِ فکر سے ہے۔ ہر انسان کے اندر دو طرزِ فکر کام کرتی ہیں۔ ایک طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو سامنے رکھتا ہے اور صرف اپنی ذات کو سامنے رکھنا شیطنیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اس نے کہا صاحب میں تو اس سے بہت زیادہ پڑھا لکھا ہوں۔ میں تو مُعلّمُ الملکوت ہوں۔ میں تو آگ کا بنا ہوا ہوں میں اسے کیسے سجدہ کروں؟ سڑی ہوئی مٹی سے بنے ہوئے آدمی کو میں کیسے سجدہ کر سکتاہوں؟
اِس کا کیا مطلب ہوا؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان کی اپنی ذات سامنے تھی۔ اللہ کا حکم سامنے نہیں تھا۔ غلطی آدم بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا ہم نے تمہیں منع کیا تھا۔ تم نے ہماری حکم عدولی کیوں کی۔ دیکھئے! اب اللہ تعالیٰ کے سامنے آدم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ نے جنّت بنائی۔ آپ نے درخت بنایا۔ اگر آپ درخت ہی نہ بناتے تو میں اس کے قریب ہی نہ جاتا وغیرہ وغیرہ۔ بس انہوں نے کہا تو کیا کہا۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوۡنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ (سورہ اعراف ،پارہ 8، آیت23)
یعنی اے میرے ربّ، میں نے تو اپنے اوپر ظلم کر لیا۔ اگر آپ نے مجھے معاف نہیں کیا تو میرا تو کہیں ٹھکانا ہی نہیں ہے۔ آپ میرے اوپر رحم فرما دیں مجھے معاف کر دیں۔

اب فرق دیکھئے، شیطان نے اپنی ذات کو سامنے رکھا وہ ملعون قرار پایا۔ آدم ؑنے اپنی ذات کی نفی کر دی، وہ پیغمبرؑ ہو گئے۔
تو اگر اپنی ذات کی نفی ہے، پھر تو وہ روحانی طرزِ فکر ہے اور اگر انسان کی اپنی ذات کی نفی نہیں ہے، تو وہ جو کچھ بھی دیکھ رہا ہے اس میں شیطانی وسوسہ ضرور ہے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” روح کی پکار” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع کیفیت اور خیال میں فرق، صفحہ نمبر 167 تا 170

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 71 تا 73

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)