من و سلویٰ

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=46019

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ؕ كُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ؕ

من و سلویٰ کی غذا تمھارے لیے فراہم کی (اور تم سے کہا کہ ) کھاؤ یہ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے عطا کی ہیں۔
And sent down on you Al-Manna and the Quails: “Eat of the good lawful things We have provided for you.
قُرآن حکیم میں اللہ نے بار بار اُن نعمتوں کا ذکر کیا ہے جن سے بنی اسرائیل کو نوازا تھا۔ مثلاً بحیرہ قلزم کو چیر کر اُن کے لئے راستہ بنانا۔ فرعون کو غرق کرنا ،صحرائے سینا میں اُن کے لئے بارہ چشمے جاری کرنا ۔ دھوپ سے بچانے کے لئے اُن کے سروں پر بادل تان دینا۔ اور من و سلویٰ نازل کرنا۔
وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ؕ اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔ (سورۃ بقرۃ ، پارہ 1،آیت 75)
سلویٰ سے مراد بٹیروں کی ڈاریں ہیں ۔ جو ہر سحر کو اُن کے خیموں کے قریب اترتیں۔ اور یہ اُنہیں پکڑ لیتے تھے۔ مَنّ سے مراد ایک سفید رنگ کی لذیذ مٹھائی ہے جو ہر صبح منوں کے حساب سے برستی ۔ اور لوگ اُسے جمع کر لیتے۔اگر وہ بعد از طلوع کچھ دیر تک رہ جاتی تو تحلیل ہو کر شبنم کی طرح اُڑ جاتی۔ اُس کا ذائقہ شہد جیسا تھا۔
صحرائے سینا میں ایک پودے تمرکس (Tamarix) کے ساتھ بالکل مَنّ جیسا پھل لگتا ہے یہ صبح کے وقت زمین پر خود بخود گرتا ہے اور دھوپ میں پگھل جاتا ہے وہاں کے لوگ اسے پگھلا کر بوتلوں میں بھر لیتے اور شہد کی طرح ڈبل روٹی کے ساتھ لگا کر کھاتے ہیں اسے عموماً آسمانی پھل کہا جاتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آئس لینڈ میں آگ بھڑک اُٹھی ۔ دو آدمیوں کے سوا باقی سب کچھ جل گیا۔ اُن کا گزارہ شبنم پر تھا جو گرنے کے بعد جم جاتی ۔ آئس لینڈ کی موجودہ آبادی اُنھیں دوافراد کی اولاد ہے ۔
نیوزی لینڈ کے موری قبائل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آندھیوں ، گھٹاؤں اور طوفانوں سے اُن کے گھر تباہ ہو گئے۔ بعد میں دیر
تک کُہر چھائی رہی۔ اور فضاء سے بھاری منجمد شبنم برستی رہی۔
بُدھی روایات میں ہے کہ جب دنیا کا ایک چکر ختم ہو جاتا ہے تو آسمان سے غذا برسنے لگتی ہے۔ رگوید اور اتھروارید میں بھی بادلوں سے شہد برسنے کا ذکر ملتا ہے ۔
یونانیوں کے ہاں ایک ایسی آسمانی غذا کا ذکر ملتا ہے جس کا ذائقہ شہد جیسا تھا۔ یہی شہد جب دریاؤں پر برسا تو اُن کا رنگ دودھ کی طرح سفید ہو گیا۔ اور ذائقہ شہد جیسا ۔ اسی بنا پر رومن شاعر اووڈ (Ovid) 43 (ق۔م) نے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں شیرو شہد کی نہریں بہتی ہیں ۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب “میری آخری کتاب ” اَز ڈاکٹر غلام جیلانی برق، باب من وسلویٰ ،صفحہ نمبر192 تا 193

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 69 تا 70

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)