روزہ

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=46083


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَیۡكُمُ الصِّیَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾

ترجمہ: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے ۔جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کئے گئے تھے۔تاکہ تم میں اس سے تقویٰ پیدا ہو۔
O ye who believe! Fasting is prescribed for you, even as it was prescribed for those before you, that ye may ward off evil);
اس آیت مبارکہ سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ روزہ کا حاصل تقویٰ ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
ہدایت متّقیوں کو ملتی ہے۔ (سورۃ بقرہ آیت2 )
روزہ ایسی عبادت ہے جو اِنسان میں تقویٰ کے اوصاف پیدا کرتی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ تقویٰ کے حصول کے لئے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ رمضان المبارک کو اس کے صحیح آداب کے ساتھ بسر کرنے والا ایسی جسمانی اور رُوحانی کیفیات سے گزرتا ہے جن میں اس پر اللہ کی مشئیت کے راز آشکار ہوتے ہیں ۔ بندہ کا قلبی ذہنی اور رُوحانی تعلق اپنے خالق اور مالک کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔روزہ کے فوائد وثمرات پانے کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھتے ہوئے ان تمام امور کا دھیان رکھا جائے جو روزے کے مقاصد کے حصول کے لئے معاون ہیں۔
روزہ جسمانی امراض کا مکمل علاج ہے اور رُوحانی قدروں میں اضافہ کرنے کا ایک مؤثرعمل ہے۔ برائی سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے ۔ روزہ رکھنے سے جسمانی کثافتیں دور ہو جاتی ہیں اورآدمی کے اندر لطیف روشنیوں کا بہا ؤ تیزتر ہو جاتا ہے۔ روشنیوں کے تیز
بہاؤ سے آدمی کے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے، اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے سامنے فرشتے آجاتے ہیں۔ اور غیب کی دنیا میں خود کو چلتے پھرتے دیکھ لیتا ہے۔
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا کوئی بدل نہیں روزے کے عظیم اور بے پایاں اثرات کو بیان کیا جائے تو اس کے لئے ہزاروں ورق درکار ہوں گے مختصر یہ کہ روزہ امراض جسمانی کا مکمل علاج ہے ۔روزہ رُوحانی اقدار میں اضافے کا ایک انتہائی موثر عمل ہے۔برائیوں سے بچنے کے لئے ایسی ڈھال ہے جس کا کوئی توڑ نہیں۔روزے دار ایک مخصوص دروازے سے جنّت میں داخل ہوں گے۔قیامت کے دِن روزہ اس بندے کی سفارش کرے گا جس نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رمضان کو خوش آمدید کیا تھا۔محض اللہ کی رضا کے لئے بھوکا پیاسا رہنے سے آدمی کی رُوح آسمانی وسعتوں میں پرواز کر کےعرش کی رفعتوں کو چھو لیتی ہے ۔وہ رمضان جس میں قُرآن نازل ہوا ایک پُر عظمت اور حکمت سے معمور مہینہ ہے جو اِنسانی شعور کو مصفیٰ اورصیقل بنا دیتا ہے روزہ رکھنے سے جسمانی کثافتیں دور ہو جاتی ہیں اور آدمی کے اندر لطیف روشنیوں کا بہاؤتیز تر ہو جاتا ہے ۔روشنیوں کے تیز بہاؤ سے آدمی کے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔ذہن کی یہ رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ غیب کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
قُرآن پاک کے ارشادکے مطابق کائنات میں موجود ہر شے دو رُخ پر قائم ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَ مِنۡ كُلِّ شَیۡءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیۡنِ لَعَلَّكُمْ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۴۹﴾
اور ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے شاید تم دھیان کرو۔ (سورۃالذریات، پارہ27، آیت 49)
چنانچہ اِنسانی حواس بھی دورُخ پر قائم ہیں۔ ایک رُخ یہ ہے کہ اِنسان ہمیشہ خود کو پابند اور مقید محسُوس کرتا ہے۔قید وبند میں ہمارے اندر جو حواس کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسفل کی طرف متوجہ رہتے ہیں دوسرا رُخ وہ ہے جہاں اِنسان قیدوبند سے آزاد ہے۔زندگی نام ہےتقاضوں کا،یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتےہیں۔بھوک،پیاس،جنس،ایک دوسرے سے بات کرنے کی خواہش، آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دلچسپیاں سب کے سب تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کا دارومدار حواس پرہے۔حواس اگر تقاضے قبول کر لیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس کے اندر جذب ہو کرہمیں مظاہراتی خدوخال کا عِلم بخشتے ہیں۔ عام دنوں میں ہماری دلچسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ کھانا پینا، سونا جاگنا،آرام کرنا، حصول معاش میں جدوجہد کرنا اور دنیا کے مسائل سب کے سب مظاہر ہیں۔

مظاہر کی نفی:
عام دنوں کے بر عکس روزہ ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہےمثلاًوقت معینہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا (غیب کی دنیا) سے رُوشناس کرتے ہیں۔ روزہ زندگی میں کام کرنے والے حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کر دیتا ہے۔بھوک پیاس پر کنٹرول ،گفتگو میں احتیاط، نیند میں کمی اور چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا جائے۔
دو طرح کے حواس: کائنات میں ہر ذی رُوح میں دو حواس کام کرتے ہیں:
۔ وہ حواس جو اللہ سے قریب کرتے ہیں ۔
۔ وہ حواس جو اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔
اللہ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ کے قریب کرنے والے حواس سب کےسب غیب ہیں۔مظاہر میں اِنسان زمان و مکان میں قید و بندہے اورغیب میں زمانیّت و مکانیّت اِنسان کی پابند ہے۔جو حواس ہمیں غیب سے رُوشناس اور متعارُف کراتے ہیں قُرآن پاک کی زبان میں ان کا نام “لیل ” یعنی رات ہے۔
رات کے حواس ہوں یا دِن کےحواس دونوں ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف ایکCLASSIFICATION درجہ بندی ہوتی رہتی ہے۔
دِن کے حواس میں زمان و مکا ن کی پا بندی ہے۔لیکن رات کے حواس غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس میں اِنسان برزخ،اعراف،ملائکہ اور ملاءاعلیٰ کا عِرفان حاصل کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے تذکرے میں ایک جگہ اللہ رب العزّت فرماتے ہیں:
وَ وٰعَدْنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرْبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ
اورہم نے موسیٰ ؑ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان کو پورا کیا،سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہو گیا۔ (سورۃ الاعراف، پارہ9، آیت 142)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضر ت موسیٰؑ کو چالیس رات میں توریت (غیبی انکشافات) عطا فرمائی۔ فرمان خداوندی بہت زیادہ غور و فکر طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دِن میں وعدہ پورا کیا۔
صرف رات کا تذکرہ فرمایاہے۔ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ ؑنے چالیس دِن اور چالیس رات کوہِ طُور پر قیام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دِن اور چالیس رات حضرت موسیٰؑ پر رات کے حواس غالِب رہے۔
سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗمِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾

پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قُدرَت کے بعض نمونے دکھا ئیں ـیقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔
(سورۃ بنی اسرائیل، پارہ15، آیت 1)
رات کے حواس یعنی سونے کی حالت میں نہ ہم کچھ کھاتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں اور نہ ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔
روزہ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزہ میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر مُسلَّط ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔
گفتگو میں احتیا ط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنا اور ذہن کا اس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام صرف اللہ کے لئے کر رہے ہیں، ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹاتا ہے۔زیادہ وقت بیدار رہ کر رات (غیب) کے حواس کے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے، رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ اِنسان اپنی رُوح اور غیب سے متعارف ہو جائے۔
روزہ کا حاصل زندگی کی عمومی خواہشات کا ترک ہے۔یہ حواس کو جِلا بخشتا ہےاور حواس کو ایک نقطہ پر مجتمع کرتا ہے۔عام طور پر ہم پانچ ظاہری حواس سے متعارف ہوتے ہیں۔ پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پردے میں اور بہت سے حواس ہیں جو “ترک” سے منکشف ہوتے ہیں۔ ظاہری حواس اور ظاہری اعمال و خواہشات کا ترک اِنسان کو خود سے قریب کر دیتا ہے کم بولنے کم کھانے ،کم سونے سے فکر کا مجلیٰ ہونا لازمی ہے ایک روشنی دماغ میں اور سینے میں پیدا ہوتی ہے یہ روشنی اس روشنی سے الگ ہے جو ظاہری حواس میں کام کرتی ہے یہ روشنی فکر میں رہنمائی کرتی ہےقُرآن نے جس کا نام “لیلۃ القدر” رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔ رسوُل اللہ ﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ:”روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں ہوں” (حدیث قدسی)
قُرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ ۚ﴿ۖ۱﴾ وَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ كُلِّ اَمْرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿۵﴾
اور ہم نے یہ (قُرآن ) اتارا شب قدر میں اور تو کیا سمجھا کیا ہے شب قدر؟ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سےاترتے ہیں فرشتے اور رُوح اس میں اپنے رب کے حکم سے ،ہر کام پر امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔
(سورۃ القدر، پارہ30، آیت 1تا 5)

فرمان الہٰی کے مطابق لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں کے دِن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔ کیونکہ عام حواس کی رفتار اس رات میں(جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔
رمضان کا مہینہ خیرو صلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے جس میں بُرائیاں دبتی ہیں ،نیکیاں پھیلتی ہیں ، پُوری پُوری آبادیوں پرخوف ِ خدا اور حُبِّ خیر کی رُوح چھا جاتی ہے اور ہر طرف پرہیز گاری کی سر سبز کھیتی نظر آنے لگتی ہے ۔
رمضان کا مبارک او رمقدس مہینہ جن خصوصیات اور محاسن کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوتا ہےان برکتوں اور رحمتوں کی تفصیل مکمل طور پر ممکن نہیں ، تاہم چند اہم اور نمایاں نتائج و ثمرات کے حوالے سے کچھ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
روزے کے فضائل :
روزے کا پہلا اجر و فیض تو ایمان کی ازسِر نو تازگی او رشادابی ہے ۔ روزے کی حالت میں بُھوک پیاس کی شدت اور دیگر نفسیاتی خواہشات کے ہیجان پر وہی شخص قابو پا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو ۔ یہ چیزاُس کی قوت ایمانی و حرارت میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہے۔
روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیر معمولی نظام ِ تربیت ہے جو آدمی کو تقریباً 720گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن میں رکھتا ہے ۔رمضان کی پہلی تاریخ سے یہ عمل شروع ہوجاتاہے اور ایک ماہ تک مسلسل اس کی تکرار جارہی رہتی ہے ۔ گویا پورے تیس دن تک آدمی ایک ڈسلپن کے ماتحت رکھا جاتا ہے کہ مقرر وقت تک سحری کرے ، مقرر وقت پر افطار کرے ، جب تک اجازت ہو اپنی خواہشات نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کر لی جائے تو ہر اُس چیز سے رُک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔
روزے کی حالت میں آدمی مسلسل بارہ تیرہ گھنٹے کھانے پینے سے رُکا رہتا ہے ۔ وہ سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور افطارکی گھڑی تلک روکا رہتا ہے ۔ روزہ مہینے بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اُسے خداوند ِ عالم کا اذن پیش ِ نظر رکھنا لازم ہے۔
یوں روزے دار کے دل پر یہ بات نقش ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور ایک ہی قانون کا پیرو کار ہے۔ اس طرح روزہ انسان کی فرمانبرداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور تیس دن تک روزانہ بارہ تیزہ گھنٹے اُسی ایک سمت میں جمائے رکھتا ہے تاکہ رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اُس کی اطاعتیں اور فرمانبرداریاں بکھر کر بھٹک نہ جائیں۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ افراد کی اصلاح کے لیے دو قسم کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔
1. باطنی یعنی قلبی کیفیات اور اندرونی حالت میں انقلاب اور تبدیلی پیدا کی جائے ۔
2. ظاہری یعنی بیرونی دباؤ اورخدائی قوانین کے ذریعے برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو نشوونما دینے کی کوشش کی جائے۔
اسلام نے یہ دونوں طریقے اختیار کیے ہیں لیکن اس نے پہلے زیادہ توجہ باطنی کیفیت پر دی ہے ۔ پیغمبراسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’سنو ! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ۔ اگر وہ دُرست ہوجائے تو سار ا جسم دُرست ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارے جسم میں بگاڑ ہوجاتاہے۔ آگا ہ رہو یہ لوتھڑا دل ہے۔‘‘ ( بخاری ، مسلم ، مشکوٰۃ)
قلبی کیفیات میں تبدیلی اورپاکیزہ میلانات پیدا کرنے کے لیے نماز کے بعد اگر کسی عبادت کا مقام ہو سکتا ہے تو وہ روزہ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ارشاد فرما دیا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَیۡكُمُ الصِّیَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾
تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ۔تا کہ اس ذریعے سے تم تقویٰ اختیار کرو۔ (سورہ البقرہ،پارہ 2،آیت183)
یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقو یٰ کی صفت پیدا ہو۔
اگر آدمی روزے کا اصل مقصد سمجھ لے اور جو قوت روزہ دیتا ہے، اُسے لینے کے لیے تیار ہو ، اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوف ِ خدا اور اطاعت کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اُس میں اتنا تقویٰ پیدا کر سکتی ہے کہ رمضان ہی میں نہیں ، بلکہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پردونوں طرف کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچاتے ہوئے چل سکتا ہے ۔ اس صورت میں روزے کے نتائج ( ثواب ) اور منافع ( اجر ) کوئی حد نہیں۔
روزے کا دوسرا مقصد اخلاص ہے ۔ دیگر عبادات کا علم کسی نہ کسی طرح دوسرے افراد کو ہو سکتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جب تک خود روزہ دار ہی اپنی زبان سے اس کا اظہار نہ کرے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ اس عبادت میں ریاکاری اور نمائش کا کم از کم امکان پایا جاتاہے اسی بنا پر حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔
’’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا ہوں‘‘(بخاری، مسلم ، مشکوٰۃ )
روزے کی بنا پر انسان میں صبر یعنی ضبط نفس اور اپنی خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔
روزے کی وجہ سے انسان میں جذبہ شکر اُبھرتا ہے اور اُسے اللہ پاک کی نعمتوں کی قدر و منزلت معلوم ہوتی ہے اور پھر یہ جذبہ محسن حقیقی کی محبت سے وابستہ کر دیتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ جب مقام ِ محبت حاصل ہوجائے تو پھر عبادات و اطاعت کی مثالیں بھی دو چند ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡكُمُ الشَّہۡرَ فَلْیَصُمْہُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللہُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۫ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾
روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن اوّل اوّل نازل ہوا جو لوگوں کا راہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق و باطل کو الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر ان کا شمار پورا کر لے اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور یہ آسانی کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم روزوں کا شمار پورا کر لو اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو۔ (سورہ البقرہ،پارہ 2، آیت 185)
روزہ انسان میں ہمدردی اور غمخواری کے جذبات اُبھارتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشادہے۔۔۔۔۔۔ جس نے روزے دار کو ردوزہ افطار کرادیا، اُسے بھی روزے دار کے برابر ثواب ملے گا اور جس نے پیٹ بھر کر کسی روزہ دار کو کھانا کھلایا ، اُسے اللہ تعالیٰ حوضِ کو ثر کا جام پلائے گا کہ میدان محشر میں پیاس ہی محسوس نہ ہوگی اور جس نے اپنے غلام یا ماتحت شخص سے کام لینے میں نرمی برتی، اللہ تعالیٰ اُس کی گردن کو جہنم سے آزادی عطا کرے گا۔( بیہقی ۔ مشکوٰۃ )
قیام الیل :
رمضان المبارک کی دوسری خصوصیت رات کا قیام یعنی شب بیداری ہے ۔اللہ کے محبوب نبیِ کریمﷺ کا ارشاد ہے :
’’جس نے رمضان میں ایمان کی بنا پر ثواب کی اُمید میں قیام اللیل کی ،اُس کے اگلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔‘‘( بخاری ۔ مسلم ۔ مشکوٰۃ)
قیام اللیل میں نفس کی تربیت جس طرح ہوتی ہے ، اُس کی وضاحت اس انداز سے کی گئی ہے۔
بلا شبہہ رات کا اُٹھنا نفس کا کچلنا اور بات کے دُرست ہونے کے لیے زیادہ سا ز گار ہے۔( سورئہ مزمل)
رات کے آخری حصے میں نرم گرم بستر چھوڑ کر اللہ کی یاد کے لیے اُٹھنا نفس پر انتہائی شاق گزرتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس پُرسکون فضا میں اپنے رب سے مناجات اور سرگوشی کرنے میں جو لطف حاصل ہو سکتا ہے ، اُس کا دسواں حصہ بھی دن کے ہنگامہ پر ورا وقات میں میسر نہیں آسکتا ۔
رسول اللہﷺ یوں تو دوسر ے مہینوں کی نسبت رمضان میں شب بیداری کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا کرتے تھے لیکن آخری عشرے میں آپﷺ کا اہتماک اور بھی زیادہ تیز ہوجاتاتھاجیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپﷺ عبادت میں زیادہ منہمک ہوجاتے ہیں، رات جاگ کر گزارتے اور گھر والوں کو بھی بیدار کرتے۔ ( بخاری ، مسلم)

تلاو ت ِ قرآن :
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اس ماہ میں نزول ِ قرآن ہے ۔ جیسا کہ ارشادِباری ہے :
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰن
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن پاک نازل ہوا۔ (سورہ بقرہ ،پارہ 2،آیت :185)
یہ انداز بیان ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد یہ نہیں ہے اسے تیزی کے ساتھ بے سمجھے بوجھے پڑھ لیا جائے بلکہ قرآن مجید کاحق
صحیح معنوں میں اُس وقت ادا ہوسکتا ہے جب اس کے نزول کے مقاصد پیش نظر رکھے جائیں:
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰہُ تَنۡزِیۡلًا ﴿۱۰۶﴾
ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اُتارا ہے تاکہ اُسے آپ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے لوگوں کو سنائیں۔‘‘ ہم نے خود اسے بتدریج نازمل فرمایا۔ (سورہ نبی اسرائیل۔آیت:106 )
کِتٰبٌ اَنۡزَلْنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴿۲۹﴾
ہم نے برکت والی کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور وفکر کریں اور تدبر سے کام لیں۔ ( سورہ ص :آیت۔29)
اِنَّاۤ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللہُ ؕ وَلَا تَكُنۡ لِّلْخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا ﴿۱۰۵﴾
اے پیغمبر ہم نے تم پر سچّی کتاب نازل کی ہے تا کہ اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات فیصل کرو اور دیکھو دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔ ( سورہ نساء:آیت 105 )
یعنی انسان اپنے نفس پر ، اپنے گھر پر ، ماحول پر ، پورے ملک پر بلکہ پوری دنیا پر اللہ کی کتاب کا غلبہ اور حکمرانی قائم کرنے کی جدوجہد میں لگ جائے ۔ زندگی کا کوئی شعبہ اور معاشرے کا کوئی حصہ بھی اس کی رہنمائی سے خالی نہ رہے۔

انفاق فی سبیل اللہ :
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ :
رسول اللہ ﷺ اس ماہ تمام قیدیوں کو آزادی عطا فرما دیتے اور ہر سائل کوکچھ نہ کچھ ضرور دیتے ۔‘‘ ( مشکوٰۃ )
اللہ تعالیٰ کے احسانات خصوصا ً نعمت ِ قرآن کا شکراسی طرح سے ادا ہو سکتاہے کہ اس مہینے میں کثرت سے غربا اور مساکین کی مدد کی جائے اور نیک کاموں میں باہم ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔ اسی طرح روزے دار اس ماہ میں دل سے بخل کا میل کچیل دور کر سکتا ہے اور اُسے سخاوت و فیاضی کا خوگر بنا سکتا ہے ۔ ان تمام خصوصیات پر غور کرنے سے انداز ہوتا ہے کہ رمضان کے ذریعے عبادت خالق اور خدمت خلق دونوں کی تربیت دی گئی ہے۔
سوچ کا فروغ :
رمضان المبارک کی پانچویں خصوصیت ، اس میں اجتماعیت کا پہلو ہے ۔ یہ وہ پہلو ہے جو رمضان المبارک کے تمام احکام و عبادات میں نمایاں ہے۔

لیلۃ القدر :
رمضان کی ایک خصوصیت لیلۃ القدر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق اس را ت کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر
ہے ۔اس رات مندرجہ ذیل دُعا پڑھنا مسنون ہے :
اللّٰہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی
اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے ، معافی کو پسند کرتا ہے ۔ تو میری خطائیں معاف فرما ۔(ترمذی ۔ مشکوٰۃ )
عام طور پر ستائیسویں شب ہی کو شب قدر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حدیث مبارکہ سے معلو م ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک شب قدر ہوتی ہے ، اس لیے ان میں خاص طور پر عبادت و تلاوت اور ذکرِ الہٰی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اعتکاف :
رمضان المبارک کی ایک خصوصیت اعتکاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے مگر آخری سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا ۔ ( صحیح بخاری،مشکوٰۃ)
اسلام نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے منع کیا لیکن انسان کی یہ خواہش بھی فطری ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ گوشہ تنہائی میں اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف ہو اور اُس کے حضور میں گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور آئندہ کے لیے ازسرِ نواطاعت و وفاداری کا عہد و پیمان باندھے۔ اعتکاف کو مستحب قرار دے کر یہ خواہش پوری کی گئی ہے۔

استقبال رمضان :
رمضان کا حق صرف رمضان میں ادا نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے اس کا استقبال ، اس کا ذوق و شوق اور اس کی تیاری بھی ہونی چاہیے ۔ مکان کی تعمیر کا سلسلہ بنیاد سے شروع ہوتا ہے ، جتنا بڑا اور اونچا مکان بنانا ہوتا ہے ، اتنی ہی گہری بنیاد کھو دی جاتی ہے اگر کوئی کسی مکان کی بنیاد کھو د رہا ہو اور اس کو مضبوط بنا رہا ہو اور کوئی کہے کہ مکان کی سطح کو تو زمین پر کھڑا ہونا ہے ، کہ زمین کے اندر کیا کاروائی کی جا رہی ہے ، تو کیا اعتراض صحیح ہوگا۔۔۔۔۔؟
اسی طرح رمضان کی تیاری رمضان سے پہلے شروع ہونی چاہیے ۔ رمضان شروع ہونے کے بعد اس کے دن گننا اور اس کے روزوں کو حساب لگانا کہ اب اتنے رہ گئے ہیں، بڑی ناقدری ہے ۔
شعبان کے آخری عشرہ میں حضرت محمد رسول اللہﷺ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو جمع کرکے ارشاد فرمایا :
’’ لوگوں ! تم پر ایک بہت پُر عظمت اور برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزاروں مہینوں سے افضل ہے ۔‘‘ (سنن بیہقی)
چنانچہ رمضان کے آداب کو سمجھیے ، اس پر عبادات میں خشوع ،خضوع اور معاملات میں درستی و نکھار لانے کے لیے رمضان سے قبل ہی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔

عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ:
جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور اِنسان کی سماجی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں روئے زمین پر بسنے والی ہر قوم اور ہر
قبیلےمیں مختلف رسم و رواج نظر آتے ہیں۔ جو کسی قوم کے تشخص کا اظہار ہیں۔ رسوم و رواج کی حیثیّت گو کہ ہر قوم میں جداگانہ ہے لیکن ان کی موجودگی اِنسانی معاشرت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ ان رسوم و رواج میں تہواروں کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے۔
زمین پر آباد ہر قبیلہ، ہر قوم کسی نہ کسی نام سے جشن یا تہوار مناتی ہے اور یہ اس قوم کے قومی تشخص کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اس آئینے میں قومی شعار کا چہرہ صاف اور واضح نظر آتا ہے۔ قوموں میں تہوار منانے کے طریقے جداگانہ ہیں۔ بعض قومیں یہ تہوار صرف کھیل کود، راگ رنگ اور سیر و تفریح کے ذریعے مناتی ہیں۔ان تقاریب کے پس منظر میں قوموں کو ان کے اسلاف سے جو روایات یا اخلاق منتقل ہوا ہے اس کی نمایاں طور پر منظر کشی ہوتی ہے۔ تہوار ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر کسی قوم کی تہذیب کو پرکھا جا سکتا ہے۔
یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ قوم کی اخلاقی اور رُوحانی طَرزِ فِکر جتنی بلند یا پست ہوتی ہے اس کا اظہار ماحول میں رائج روایات اور طریقوں سے ہوتا ہے۔ ان روایا ت اور طریقوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ تہوار منانے میں اختیار کردہ طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طریقے اعلیٰ مقاصد اور بنیادی اصولوں سے اَخَذ شدہ ہوتے ہیں جن سے اس قوم کی بقا اور قیام وابستہ ہے۔
ہر قوم اپنے ماضی پر زندہ ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس ماضی نہیں ہے تو اس کی حیثیّت قوم کی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بھی ایک ماضی ہے اور اس ماضی کو یاد رکھنے اور ماضی کے تاثرات کو آنے والی نسلوں میں پختہ کرنے کے لئے مسلمان دو تہوار مناتے ہیں۔
پہلا تہوار عیدالفطر ہے جس کی نُورانیّت اور پاکیزگی اس امر پر قائم ہے کہ یہ تہوار اس وقت منایا جاتا ہے جب من حیث القوم ہر فرد اپنا تزکیۂ نفس کر کے پاک صاف اور مصفیٰ و مجلیٰ ہو جاتا ہے۔ تیس دِن اور تیس رات وقت کی پابندی، غذا اور نیند میں کمی سحر و افطار میں اجتماعیت، عمل میں ہم آہنگی، ایسی یکسوئی پیدا کر دیتی ہے کہ جس یکسوئی کے ذریعے اِنسان اپنے نفس سے واقف ہو جاتا ہے۔ یہ واقفیت آدمی کے اندر بسنے والے اِنسان کو متحرک کر دیتی ہے۔
جب تزکیۂ نفس کے بعد اِنسان بیدار ہو جاتا ہے تو صلاحیتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ دراصل ذہن کی رفتار ہے۔ آدمی کے اندر بسنے والے اِنسان کی رفتار پرواز عام آدمی کی نسبت ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ تیس روزے رکھنے کے بعد آدمی کے اندر کااِنسان انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف فرشتوں کو دیکھتا ہے بلکہ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یہی وہ عید (خوشی) ہے جو اِنسان کے لئے قلبی سکون کا باعث بنتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو قوم کی فکر و نظر میں ایسی تبدیلی لے آتی ہے جو بندے کو اللہ سے قریب کر دیتی ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے ایک تربیّتی پروگرام ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان کو اطاعت ربیّ کا خوگر بنایا جاتا ہے۔ نفسیات کا مسلمہ اصول ہے کہ ذہنی مرکزیت سے قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہن کو کسی ایک نقطہ پر مرکوز کر دینے سے روشنیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب یہ روشنیاں ذخیرہ ہو جاتی ہیں تو آدمی مادی پستیوں سے نکل کر رُوحانی رفعتوں کو چھونے لگتا ہے۔
رمضان المبارک کے بیس روزوں کے بعد ایک رات ایسی آتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں فرشتے اور رُوح اترتے ہیں اور یہ پوری رات اللہ کی طرف سے خیر اور سلامتی کی رات ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہر فرمان میں حکمت مخفی ہے۔
شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ ہزار مہینوں میں تیس ہزار دِن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک رات کی عبادت و ریاضت ساٹھ ہزار دِن اور رات کی عبادت اور ریاضت سے افضل ہے۔
سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:
’’شب قدر میں فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ اپنے رب کے حکم سے سلامتی کے ساتھ اترتے ہیں اور جو بندے شب قدر میں اپنے خالق کی یاد اور محبت میں اور اس کی قربت کے حصول کیلئے جاگتے ہیں۔ فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ ان سعید بندوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی سعادت اور خوشی ہے کہ اس پر جتنا شکر کیا جائے اور جس قدر خوشی کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ عید دراصل اسی سعادت اور اسی نعمت کا شکر ادا کرنے کا نام ہے۔‘‘

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 83 تا 93

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)