رات اور دِن کے حواس

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49945

بِسْمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَتُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ

توہی رات کو دِن میں داخل کرتا ہے اور دِن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ تو ہی جان دار میں سے بے جان کونکالتا ہے اور بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے۔
You make the night to enter into the day, and You make the day to enter into the night, You bring the living out of the dead, and You bring the dead out of the living.
رات اور دِن کے حواس /شعور اور لاشعور:
جن حواس سے ہم کشش ثقل میں مقیّد چیزوں کو دیکھتے ہیں اس کا نام شعور ہے اور جن حواس سے ہم کشش ثقل سے آزاد ہو جا تے ہیں اُن کا نام لاشعور ہے ۔ شعور اور لاشعور دونوں لہروں پر قیام پذیر ہیں ۔ شعوری حواس میں کام کرنے والی لہریں مثلث TRIANGLE ہوتی ہیں اور لاشعوری حواس میں کام کرنے والی لہریں دائرہ CIRCLE ہوتی ہیں ۔
شعوری حواس میں ہم ٹائم اسپیس ( TIME-SPACE ) میں بند ہیں اور لاشعوری حواس ہمیں ٹا ئم اسپیس سے آزاد کر دیتے ہیں ۔ یہ دونوں حواس ایک ورق کی طرح ہیں۔ ورق کے دونوں صفحات پر ایک ہی تحریر لکھی ہوئی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ورق کے ایک صفحے پر عبا رت ہمیں رو شن اور واضح نظر آتی ہے اور ورق کے دوسرے صفحے پر دھندلی اور غیر واضح نظر آتی ہے۔
بیداری اور نیندکی رُوحانی حیثیّت:
ہماری آدھی زندگی سونے کی حالت میں گزرتی ہےاور آدھی جاگتےگزرتی ہے ۔سونے اور جاگنے میں دو حواس الگ الگ کام
کرتے ہیں جاگنے کے حواس دنیاوی اور مادی حواس ہیں اور سونے کے حواس غیب کے حواس ہیں۔ نیند کے متعلق اللہ تعالے نےاپنے
کلام میں فرمایا ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىكُمۡ بِالَّیۡلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمۡ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُكُمْ فِیۡہِ لِیُقْضٰۤی اَجَلٌ مُّسَمًّی ۚ ثُمَّ اِلَیۡہِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمْ تَعْمَلُوۡنَ ﴿٪۶۰﴾ اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری رُوحیں قبض فرما لیتا ہے۔اور جو کچھ تم دِن کے وقت کماتے ہووہ جانتا ہے مگر وہ تمہیں دِن کے وقت اٹھا دیتا ہے تا کہ معینہ میعاد پوری کر دی جائے پھر تمہارا پلٹنا اسی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں ان (اعمال ) سے آگاہ فرما دے گاجو تم کرتے رہے تھے۔ )سورہ انعام ، پارہ 7،آیت (60
دوسری جگہ ارشاد کیا:
اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوْتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمْ تَمُتْ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمْسِكُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾
اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور ان جانوں کو جنہیں موت نہیں آئی ہے ان کی نیند کی حالت میں ، پھر ان کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری جانوں کو مقررہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
)سورہ زمر، پارہ 23،آیت 42 (
یعنی نیند ایک عارضی موت ہے نیند کے دوران اللہ تعالیٰ رُوحوں کو اپنی جانب قبض کر لیتے ہیں اور ایک عارضی مدت تک اپنے پاس روکے رکھتے ہیں پھر واپس انہیں جسموں میں لوٹا دیتے ہیں پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ رُوحوں کو قبض کرنے کے بعد انہیں مُستقِل طور پر اپنے پاس روک لیتے ہیں اور واپس جسموں میں نہیں لوٹاتے۔
اللہ تعالیٰ کے کلام کے مطابق نیند کی حالت میں رُوح اس عالم میں پہنچ جاتی ہے جہاں مرنے کے بعد پہنچتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر روز اِنسان کا آنا جانا اس دنیا سے موت کے بعد کے عالم میں رہتا ہے اور آدمی لا شعوری طور پر موت کے بعد کی زندگی میں داخل ہو رہا ہے مگر نیند یعنی لا شعوری حواس ہونے کی وجہ سے شعور اور عقل اس بات سے واقف نہیں ہوتے۔
خواب: ہر آدمی خواب بھی دیکھتا ہے۔خواب میں اپنے آپ کو چلتا پھرتا کھاتا پیتا بھی دیکھتا ہے۔خواب میں چلنے پھرنے والا جسم ہی وہ جسمِ مثالی ASTRAL BODYہےجو مرنے کے بعد اعراف کے عالم میں زندگی گزارتا ہے۔آخر کی زندگی ابدی زندگی ہے جبکہ دنیاوی زندگی عارضی ہےاس اعتبار سے نیند کی زندگی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔اگر آدمی نیند کے حواس سے شعوری طور پر واقف ہو جائے تو وہ یہ جان لیتا ہے کہ نیند میں ارواح کہاں جاتی ہیں اور ان کی کیا مصروفیات ہوتی ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رُوحانی شعور سے واقف ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کر لیتا ہے جس کی وجہ سے موت کا ڈرخوف اس میں سے نکل جاتا ہے۔ وہ اس دنیا میں رہتے
ہوئے بھی اگلی دنیا سے مانوس ہو جاتا ہے۔
خواب نبوّت کاچھیالیسواں حصّہ ہے:
حضورﷺ کی سیر ت طیبہ کامطالعہ کرنےکےبعدیہ معلوم ہوتا ہےکہ ابتدائی دنوںمیں ہی سچےخوابوں کاسلسلہ شروع ہوگیاتھا۔ حضور ﷺجوخواب بھی دیکھتےتھےاس کی تعبیرصبح صادق کی طرح ظاہرہوجاتی تھی۔خواب کوجزو نبوت کہاگیاہے۔سیّدناعلیہ الصلو ٰۃوالسلام کاارشادہے۔
“خواب نبوت کا چھیالیسواں حصّہ ہے۔‘‘
مفسرین اس کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی عمرمبارک چالیس سال تھی۔ جب آپ صلى الله عليه وسلم پرپہلی وحی نازل ہوئی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نےتریسٹھ63سال کی عمرمیں اس دنیاسےپردہ فرمایا۔وحی کےنزول کا زمانہ 23سال ہے ۔ ابتدائی چھ ماہ کا عرصہ خوابوں پر مشتمل تھا۔6ماہ کو 23سال سےوہی نسبت ہےجوایک کوچھیالیس سےہے۔
سیّدناحضور علیہ الصلو ٰۃوالسلام نےفرمایاکہ خواب بھی ایک قسم کی وحی ہےجسکےذریعےاللہ کریم خواب دیکھنے والے کواس بھلائی یابرائی سےمطلع کردیتاہےجواسکوپہنچنےوالی ہوتی ہے۔
حضورﷺنےفرمایا:”بشارتوں کے سوا نبوت کی کوئی چیزباقی نہیں رہی۔”
صحابہ کرامؓ نےدریافت کیاکہ بشارتوں سےکیامرادہے؟
آپ صلى الله عليه وسلم نےفرمایا:
“سچا خواب”
جب رسُول خداصلى الله عليه وسلم بیمار ہوئےتوصحابہ کرام ؓغمگین ہوکرحاضرخدمت ہوئےاورعرض کیاکہ آپ ہم کو کارخیرسےمطلع فرمایا کرتے ہیں ۔خدانخواستہ آپ اگرہمارےدرمیان موجود نہ رہےتوہم کوکون مطلع کیاکرےگا۔دینی اور دنیاوی امورکی بھلائی ہمیں کس طرح معلوم ہو گی؟
حضورﷺنےجواب میں ارشادفرمایا:
“میری وفات کے بعد وحی تو منقطع ہو جائے گی لیکن مبشرات بند نہیں ہوں گے۔”
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ”مبشرات” کیا چیز ہیں؟
حضورﷺنےفرمایا:
“مبشرات وہ اچھے خواب ہیں جو نیک بندوں کو نظر آتے ہیں۔”
حضورﷺ نےایک دِن صحابہ کرام ؓسےفرما یاجب تم لوگوں میں سے کوئی شخص اچھاخواب دیکھے تو اسکوچاہئےکہ وہ
حق تعالیٰ کاشکراداکرےاوراس خواب کواپنےمومن دوستوں اوربھائیوں کےسامنےبیان کرےاوراگرنیک آدمی براخواب
دیکھےتو چند بار یہ کہے:
“میں راندہ درگاہ شیطان سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔”
رسوُل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :
“جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے گویا مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔”
حضور اکرم ﷺنماز فجر کے بعد عموماً صحابہ اکرام سے یہ دریافت فرماتے کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟
اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو بیان کرتا اور سیّدنا حضورﷺ اس کی تعبیر بیان فرماتے۔
تمام زمینوں(SCREENS) پر نشر ہونے والی اطلاع ایک ہے:
الہامی کتابوں کے ماہر علمائے باطن کہتے ہیں :
اِنسان صرف اس زمین پر ہی آباد نہیں ہے اور بھی بے شمار سیاروں میں اِنسانوں کی آبادیاں ہیں اور ہر سیارہ میں زمین ہے ۔ دوسرے سیاروں کی زمین پر زندگی کی طرزیں مختلف ہیں ، لیکن تقاضے سب کے یکساں ہیں ۔ جس طرح زمین پر آباد اِنسان کے اندر خواب اور بیداری کے حواس کام کر تے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے لاشمار سیاروں میں آباد اِنسانوں میں بھی بیداری اور خواب کے حواس کام کرتے ہیں ۔

خواب کے حواس ہو ں یا بیداری کے حواس ہوں دونوں کے تقاضے یکساں ہوتے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ بیداری میں حواس زمان و مکان کے پابند ہوتے ہیں او ر خواب میں حواس زمان و مکان کے پا بند نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی اِنسان خواب میں کئے ہوئے اعمال یا دیکھے ہوئے واقعات میں ترتیب قائم نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ اسے بیداری کے ایسے حواس میں زندگی گزارنے کی عادت پڑجاتی ہے جہاں وہ ہر قدم پر پابند ہے۔
رُوحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ بتاتے ہیں کہ کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔
اللہ کریم نے اِنسان کے اندر یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ وہ غیب سے آگاہی حاصل کر سکے اس لئے اِنسان کے اندر ایسے حواس کی موجودگی ضروری ہے، جن سے وہ غیب سے متعارُف ہو جائے۔ خواب میں کام کرنے والے حواس دراصل وہ صلاحیت ہے جو نوع اِنسان کو غیب سے نہ صرف قریب کرتی ہے بلکہ غیب کے اندر داخل کر دیتی ہے۔ بیداری میں کام کرنے والے حواس کی رفتار خواب میں کام کرنے والے حواس کی رفتار سے ساٹھ ہزار گنا کم ہے۔

قانوُن:
خواب ایسے حواس کی نشاندہی کرتا ہے جن کے ذریعے اِنسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہوتا ہے۔قُرآن پاک میں ہے۔
تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَتُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫
ہم داخل کرتے ہیں رات کو دِن میں اور داخل کرتے ہیں دِن کو رات میں۔ (سورۃآل عمران ،پارہ 3،آیت 27(
یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ وَ اَنَّ اللہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿۶۱﴾
ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دِن کواور بے شک اللہ سمیع اورعلیم ہے ۔ (سورۃالحج، پارہ17، آیت42 (
قُرآن پاک نوعِ اِنسانی پر واضح کرتا ہے کہ بیداری کے حواس اور خواب کے حواس ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں بالکل اس طرح جیسے ایک ورق میں دو صفحے چپکے ہوتے ہیں ۔ الگ الگ ہونے کے باوجود ورق ایک ہی رہتا ہے لیکن دونوں صفحے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یک جان ہو گئے ہیں۔
اِنسان کے اندر کام کرنے والے حواس بیداری کے ہوں یا خواب کے ، غیب سے براہِ راست ایک ربط رکھتے ہیں کیونکہ ایک ہی عبارت الگ الگ دو صفحوں پر تحریر ہے اس لئے اس کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اِنسان نے اپنی نادانی کی وجہ سے ایک حصے کا نام ظاہر اور دوسرے حصے کا نام غیب رکھ لیا ہے۔ فی الواقع یہ طَرزِ فِکر اللہ کے بیان کردہ قانوُن کے خلاف ہے۔

یعنی رات اوردِن کے حواس ایک ہی ہیں فرق یہ ہے کہ ہم نے ان حواس میں سے ایک کو اپنے اوپر مُسلَّط کیا ہوا ہے چونکہ یہ تسلط خود ہمارا اختیار کردہ ہے اس لئے ہم نے اس پابندی میں مقید ہو کر خود کو پابند کر لیا ہے اور اس پابندی نے ہمیں مکان (Space) اور زمان (Time) کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
اِنسان یا کائنات میں موجود کوئی بھی نوع یا کسی بھی نوع کا کوئی فرد زندگی گزارنے کے لئے دو رخوں کا محتاج ہے۔ ایک رُخ کو ہم بیداری اور دوسرے کو خواب کہتے ہیں۔
بیداری اور خواب دونوں کا تذکرہ قُرآن پاک میں لیل اور نہار کے نام سے کیا گیا ہے۔ قُرآن پاک کی ان آیات میں تفکّر کیا جائے جن میں لیل و نہار کا تذکرہ آیا ہے تو یہ بات واضح ہو تی ہے کہ حواس ایک ہیں حواس میں صرف ردوبدل ہوتا رہتا ہے ۔ یہی حواس جب رات کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو خواب بن جاتے ہیں اور یہی حواس جب دِن کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو بیداری بن
جاتے ہیں۔
بیداری کے حواس میں حرکت کڑی در کڑی مرحلہ وار ہوتی ہے یعنی ایک لمحہ پھر دوسرا لمحہ پھر تیسرا لمحہ۔نیند کے حواس میں مرحلہ وار حرکت سے بندہ آزاد ہو جاتا ہےیعنی ایک کے بعد یکدم دسواں بیسواں لمحہ آ جاتا ہےبیداری کے عالم میںA مقام سے B مقام تک کوئی فرد اس وقت تک نہیں پہنچ سکتاجب تک درمیان کے دوسرے مقامات طے نہ کر لے۔جب کہ رات کے حواس میں C مقام سے Dمقام تک پہنچنے کے لئے درمیانی مقامات سے گزرنا ضروری نہیں۔
اور یہ بھی ارشاد ہے کہ ہم رات کو دِن پر سے ادھیڑ لیتے ہیں اور دِن کو رات پر سے ادھیڑ لیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اِنسان (جو فی الواقع حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے) رات اور دِن کے حواس میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ دِن میں داخل ہوتا ہے تو حواس پابند ہو جاتے ہیں اور رات میں داخل ہوتا ہے تو حواس کے اوپر پابندی کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ ہم جب عِلم غیب یا غیب کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل رات کے حواس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ارشاد ہے۔ ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس راتوں میں پورا کیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طُور پر چالیس دِن اور چالیس راتیں مقیم رہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ رات کو کوہِ طُور پر چلے جاتے ہوں اور دِن کو نیچے اتر آتے ہوں۔ حضرت موسیٰ ؑ پر چالیس دِن اور چالیس راتوں میں رات کے حواس غالِب رہے اور نتیجے میں الہامی دستاویز عطا کر دی گئی ۔
ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمْ یَكُنۡ شَیۡئًا مَّذْكُوۡرًا ﴿۱﴾
کیا نہیں پہنچا اِنسان پر ایک زمانے میں جو تھا شے بغیر تکرار کیا ہوا۔ (سورۃ دہر، پارہ29، آیت 1)
کبھی اِنسان ایسا وقت (حواس)تھا جس میں تکرار نہیں تھی۔ پھر ایسا وقت ہوا جس میں تکرار ہے۔ یہاں دو ایجنسیاں بن گئیں۔
۱۔ حواس
۲۔ حواس کی تکرار
یہ دونوں ایجنسیاں ایک یونٹ ہیں ۔ اس کی وضاحت قُرآن پاک میں سورہ آل عمران آیت 27 میں موجود ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دستور العمل بیان فرمایا ہے ۔ اللہ رات کو داخل کرتا ہے دِن میں اور دِن کو داخل کرتا ہے رات میں ۔ زندگی کو موت سے نکالتا ہے اور موت کو زندگی سے نکالتا ہے۔
رات حواس کی ایک نوع ہے اور دِن حواس کی دوسری نوع ہے۔ رات کے حواس کی نوع میں مکانی اور زمانی فاصلے مُردہ ہو
جاتے ہیں ۔ لیکن دِن کے حواس کی نوع میں یہی فاصلے زندہ ہو جاتے ہیں ۔ اگر ہم اس بات کی مزید تشریح کریں تو یوں کہیں گے کہ زندگی
اور موت رات اور دن۔ شعور اور لاشعور میں الٹ پلٹ ہو رہے ہیں۔
رات کے حواس دِن میں داخل ہو جاتے ہیں اور دِن کے حواس رات میں داخل ہو جاتے ہیں۔
ایک حواس پر اسپیس اور ٹائم کی پابندی غالِب ہے ۔ دوسرے حواس پر ٹائم اوراسپیس کی پابندی نہیں۔
ہم جب زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو پیدائش سے موت تک ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہر روز دِن اور ہر روز رات ہوتی ہے۔ ہم روزانہ ایک ہی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ ایک ہی طرح کا کھانا کھاتے ہیں لیکن ہر کھانے کو نیا کھانا کہتے ہیں۔ روزانہ جس گاڑی میں دفتر جاتے ہیں اس ہی گاڑی پر برسوں سفر کرتے ہیں اس کے باوجود ہر دِن کو نیا دِن اور ہر دِن کے عمل کو نیا عمل قرار دیتے ہیں۔ یہ محض حواس کی کمزوری ہے۔ حواس ایک ہی ہیں لیکن ان میں تکرار ہو رہی ہے۔
حواس میں تکرار دو طرح ہو رہی ہے۔ حواس جب رات میں کام کرتے ہیں تو ہم رات کہتے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ رات کے حواس کی نوع میں مکانی و زمانی فاصلے مُردہ ہو جاتے ہیں اور دِن کے حواس میں زمانی و مکانی فاصلے زندہ ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
“وہی ہے جو زندگی کو موت سے نکالتا ہے اور موت کو زندگی سے نکالتا ہے۔”
قلم لکھ کر خشک ہو چکا:
سیّدنا حضور ﷺنے فرمایا :
“جو کچھ ہونے والا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہو گیا۔”

حضور قلندر بابا اولیاؒ نے اس حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا،” ایک کتاب ہے جو لکھی جا چکی ہے یعنی ماضی RECORD ہے۔ اب اس کتاب کو پڑھنے کی طرزیں مختلف ہیں اگر کتاب شروع سے ترتیب و تسلسل سے پڑھی جائے یعنی ایک لفظ، پھر دوسرا لفظ ،ایک سطر پھر دوسری سطر ،ایک صفحہ پھر دوسرا صفحہ پھر تیسرا علی ہذالقیاس اس طرح پوری کتاب کا مطالعہ کیا جائے ۔مطالعے کی یہ طرز وہ ہے جو بیداری (شعور) میں کام کرتی ہے۔”

اِنسان کا شعوری تجربہ یہ ہے کہ ایک دِن گزرتا ہے پھر دوسر ا ۔ایک ہفتہ گزرتا ہے اور پھر دوسرا۔ اسی طرح ماہ وسال اور صدیاں اسی ترتیب اور اسی طرز سے یعنی ایک کے بعد ایک کر کے گزرتی رہتی ہیں منگل کے بعد جمعرات کا دِن اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک بدھ کا دِن نہیں گزر جاتا ۔اسی طرح شوال کا مہینہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ رمضان اور اس سے پہلے کے مہینے نہیں گزر جاتے ۔یہی طرز اِنسان کی شعوری طرز بیداری ہے۔اس طرز کو رُوحانیّت میں زمان متواتر یا زمان مسلسل SERIAL TIME کہتے ہیں۔
مطالعہ کی دوسری طرز وہ ہے کہ خواب میں کام کرتی ہے۔ ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ ابھی لندن میں ہے اور ایک لمحے بعد دیکھتا ہے کہ وہ کراچی میں ہے ۔ یہ بات ذہن کی اس واردات سے متعلق ہے جس کا نام غیر متواتر زمان یاNON SERIAL TIME یا لاشعور ہے۔ غیر متواتر زمان یا لاشعور دراصل کتاب کا مطالعہ کرنے کی وہ طرز ہے جس میں زمان متواتر کی ترتیب حذف ہو جاتی ہے۔ خواب میں اِنسان کے ذہن کی رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے ۔ اور جو کچھ خواب میں نظر آتا ہے وہ زیادہ تر مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق ہوتا ہے۔
حضورقلندر بابا اولیا فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک کا تمام زمانہ ماضی RECORD ہے اور جو لمحہ اس سارے زمانے کا احاطہ کرتا ہے اس کو اہل رُوحانیّت لمحہ حقیقی یا زمانہ حقیقی یاREAL TIME کہتے ہیں۔ اسی زمانے کا تذکرہ سیّدنا حضورﷺ نے اپنی حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہو چکا ہے ۔ یعنی لازمانیّت لمحہ حقیقی کی حدود میں ہر چیز مکمل طور پر ہو چکی ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ماضی کا ایک حصّہ ہے ۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،موضوع 28، صفحہ نمبر 41
2۔ کتاب ” معرفتِ عشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی ، موضوع رُوحانی شعور، صفحہ نمبر 201 تا 202
3۔ کتاب ” خواب اور تعبیر” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، باب نبوت خواب کا چھیا لیسواں حصہ ،صفحہ نمبر 89 تا 91
4۔ کتاب ” خواب اور تعبیر ” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،باب تمام زمینوں پر نشر ہونے والی اطلاع ایک ہے۔صفحہ نمبر 35 تا 37
5۔ کتاب “شرح لو ح و قلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،لیکچر نمبر 7 نیابت و خلافت
6۔ کتاب ” شرح لو ح و قلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، لیکچر نمبر 37، رات اور دن کے حواس ، صفحہ نمبر 318 تا 319

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 138 تا 140

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)