اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=46024

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ

ترجمہ:۔ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں ایک دِن اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔
Lo! we are Allah’s and Lo! unto Him we are returning.
ادراک(PERCEPTION)+آواز(SOUND ENERGY)=الفاظ(WORDS):
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،” تمام اموُر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔”
ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ پانی ایسے تصوّرات کا خول ہے جس شے میں داخل ہو جاتا ہے وہی شے بن جاتا ہے ۔ پانی پھول میں جا کر پھول ،کانٹے میں کانٹا، پتھر میں پتھر، سونے میں سونا ،ہیرے میں ہیرا بن جاتا ہے ۔ یہ پتھر سونا ہیرا پھول کانٹا سب تصوّرات کا مجموعہ ہے ۔ ہمارے ذہن میں تصوّرات کا ایک مجموعہ ہے جس کو ہم سونا کہہ کر پکارتے ہیں اور تصوّرات کا ایک دوسرا مجموعہ ہے جس کو ہیرا کہتے ہیں ۔ سونا اور ہیرا دو لفظ ہیں یا دو خول ہیں جن میں تصوّرات کے الگ الگ مجموعے مقیّد ہیں ۔ ان میں ہر مجموعہ اِدراک PERCEPTIONہے۔ اِدراک کو آواز SOUND ENERGY میں قید کیا جائے تو لفظ بن جاتا ہے ۔
ہم کوئی بات سوچتے ہیںCONCIEVE کرتے ہیں وہ بات ہمارے اِدراک یا PERCEPTION میں ہے ۔ لیکن ابھی یہ لفظ اِدراک کے اندر داخل ہو کر آواز کی شکل میں نہیں آیا تو جب تک اِدراک آواز میں قید نہ ہو لفظ نہیں بنتا اور جب اِدراک آواز کے روپ میں سامنے آتا ہے تو لفظ بن جاتا ہے ۔

کائنات اللہ کی آواز:
جب ہم کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری کائنات اللہ کی آواز ہے ۔ اللہ نے جب اپنی آواز میں کُنْ کہا تو ساری کائنات وجود میں آ گئی ۔ اللہ تعالیٰ جب اپنا تعارُف کراتا ہے تو کہتا ہے میں مخلوق کا دوست ہوں ۔ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو نہیں بھُولتا اُسی طرح خدا بھی کبھی اپنی مخلوق کو فراموش نہیں کرتا وہ خدا جو ہمارا رب ہے جو ہمارے لئے ہر طرح کے وسائل فراہم کرتا ہے ۔ اور ہمیں زندگی کے لئے نئے نئے مراحل اور نئے نئے تجربات سے گزارتا رہتا ہے بلا شک و شبہ وہ ہمارا دوست ہے۔

اِدراک کی وُسعت:
اِنسان کے اندر اِدراک ذہن ہے ۔ ذہن کیVASTNESS یا وسعت کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہے۔ اِنسان کے ادراک میں لامتناہی وسعت ہے ۔ یہ لامتناہی وسعت پوری کائنات پر محیط ہے۔ مثلاً جب ہم تصوّر کرتے ہیں تو ہمارا تصوّر زمین سے نکل کر عرش سے پرواز کرکے باری تعالیٰ کی ہستی تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم INTERPRETATION اِس طرح کر یں گے کہ اِدراک کا ایک DIMENSIONرُخ گہرائی ہے جو زمان ہے ۔ دوسرا رُخ DIMENSION پہنائی ہے جس کو مکان کہا جاتا ہے ۔ ہر اِنسان اِدراک کے اعتبا ر سے زمان و مکان کا مجموعہ ہے۔

وہم کیا ہے؟ خیا ل کہاں سے آتا ہے؟ یہ بات غور طلب ہے اگر ان سوالات کو نظر انداز کر دیں تو کثیر حقا ئق مخفی رہ جائیں گے اور حقائق کی زنجیر جس کی سو فیصد کڑیاں اس مسئلے کے سمجھنے پر منحصر ہیں، انجا نی رہ جائیں گی۔ جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی کائناتی سبب ضرور ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی ہے۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہوتی ۔ اس کا تعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں۔ مثلاً جب ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کرّہ ہوائی میں کہیں کوئی تغیّر پیدا ہوا ہے ۔ اسی طرح جب اِنسان کے ذہن میں کوئی چیز وارد ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اِنسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے ۔ اس کا سمجھنا خود اِنسانی ذہن کی تلاش پر ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا عِلم:
اللہ تعالیٰ کا کائناتی عِلم درجہ بدرجہ تنزّل کرکے مخلوق کے خدوخال اور زندگی کے تقاضےبنتے ہیں ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا عِلم سیڑھی بہ سیڑھی ASCEND یا صعوُد کرتا ہے ۔ تحقیق ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا عِلم جب DESCEND یا نزُول کرتا ہے تو مخلوق کا اِدراک بن جاتا ہے۔
یہ عِلم ادراک بن کر ایک نقطہ پر کچھ دیر قیام کرتا ہے یعنی اس کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو نگاہ بن جاتی ہے ۔ اِدراک میں جب تک گہرائی پیدا نہیں ہوتی خیال کی کیفیّت رہتی ہے۔ اِدراک جب خیال کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو کسی چیز کا ہلکا سا عکس بنتا ہے یہ عکس احساس پیدا کرتا ہے۔مفہُوم یہ ہے کہ خیال کی حدود میں احساس کام کرتا ہے لیکن اس کی حیثیّت صرف نظر کی ہوتی ہے ۔ جب احساس ایک ہی نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکُوز ہو جاتا ہے تو اس نقطہ میں خدوخال اور شکل و صورت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ خدوخال اندرونی نگاہ کے سامنے آجاتے ہیں ۔ نگاہ کے سامنے آنے والے ماورائی خدوخال جب ایک ہی نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتے ہیں تو نقطہ (نوع فرد یا شے)گویا ہو جاتی ہے اور بولنے لگتی ہے ۔ قوت گویائی اگر ذرا دیر اور اس نقطہ یا فرد کی طرف متوجہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینی پیدا ہو جاتی ہے اور نگاہ اپنے اردگرد نیرنگی کا ایک ہجوم محسُوس کرتی ہے۔
اس تشریح سے یہ قانوُن پوری طرح واضحCLEAR ہو جاتا ہے کہ عِلم کی ہی جداگانہ حرکات یا حالتوں کا نام خیال، نگاہ، گفتار، شامہ اور لمس ہیں۔ ایک ہی حقیقت یا ایک ہی عِلم مختلف روپ بدلتا رہتا ہے ۔ جس طرح خیال عِلم ہے اسی طرح نگاہ بھی عِلم ہے۔ چونکہ ہر چیز کی بنیاد عِلم ہے ۔اس لئے خیال اور نگاہ کے بعد تمام حالتیں بھی عِلم ہیں ۔

عِلم کی یہ کیفیّت نزولی ہے ۔ عِلم نزول کرکے عالم نا سوت تک آتا ہے اور اِنسان کی حس گوشت پوست کو چھو لیتی ہے اور یہ ہی کیفیّت (عِلم کی تنزّل یافتہ شکل) کسی شے کی محسُوسیّت کے لئے انتہا ہے ۔ آدم زاد یا کوئی بھی مخلوق اوپر سے نیچے اتر کر پیدا ہوتی ہے۔ رُوح یا امر ربّی اپنے اظہار کے لئے اور اپنی جلوہ نمائی کے لئے گوشت پوست کا ایک جسم تخلیق کرتی ہے۔ اس کے بعد فکر اِنسانی تنزّل یافتہ شکل سے صعود کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ اور پہلی حس سے یا پہلے حواس سے دور ہونے لگتی ہے ۔ دوری سے مراد یہ کہ پیدا ہونے والا ایک دِن کا بچہ جب دوسرے دِن میں داخل ہوتا ہے تو پہلا دِن زندگی کے نزول کا ردّ عمل ہے۔ یہ ہی رد عمل مکانیّت اور زمانیّت کا احساس دلاتا ہے۔ بچہ پیدا ہوا ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحے میں بچے کی تمام صِفات تمام اعضاء تمام حواس میں تغیّر واقع ہو جاتا ہے ۔یہ ہی تبدیلی زمانیّت اور مکانیّت ہے۔

اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ:
ہرذی شعور اس بات سے واقف ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کے عِلم میں ہمیشہ سے موجود تھی ۔جب اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہہ کر صِفت علیم کے اندر عِلم کائنات کی تجلّیوں کو حرکت میں آنے کا حکم دیا تو کائنات ظہور میں آگئی ۔عِلم کائنات کی وہ تجلّیاں جو حکم کُنْ سے حرکت میں آکر کائنات کے ظہور کا باعث بنیں ،کائنا ت کی بساط اول کی حیثیّت سے مظہر کائنات کے باطن میں مخفی ہو گئیں۔ بندہ، کائنات یا مخلوق یا مظہرہے۔کائنات یا مخلوق یا مظہر اسمائےالٰہیہ کے ظاہری خدوخال یا شکلیں ہیں ۔
بندہ یا مخلوق جب خالق کو جاننے یا پہچاننے کی جستجو کرتا ہے تو اسے مظہر سے عِلم کائنات کی جانب لوٹنا پڑتا ہے ۔ اور عِلم کائنات سے گزر کر وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کی صِفت علیم میں جذب ہو جاتا ہے ۔جہاں کُنْ کہنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صِفت علیم میں عِلم کائنات کے اندر اس کا وجود قائم تھا۔

خیالات کا منبع:SOURCE
تمام تجربات، مشاہدات اور محسُوسات کا ماَخَذ ذہن ہے۔ خیالات ہمارے اختیار کے بغیر ذہن میں وارد ہوتے ہیں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب ذہن میں کوئی خیال نہ ہو۔ بھوک پیاس کا تقاضہ سونے، جاگنے کا عمل، خوشی غمی اور دیگر جذبات، اولاد کی خواہش، پریشان کن وسوسے، جسمانی امراض اور نفسیاتی عوارض سب کے سب خیالات کے تابع ہیں۔
الہامی کتابیں DIVINE BOOKS بتاتی ہیں کہ خیالات کا ایک منبع ہے۔ خیالات کی گہرائی میں موجود نقطہ ذات منبع کی حیثیّت رکھتا ہے۔ اسی سورس سے لاشمار اطلاعات)خیالات( ہر لمحہ، ہر آن نشر ہوتی رہتی ہیں۔ شعور ان اطلاعات کو ریسیو کرتا ہے اور معنوں کا تعیّن کرتا ہے۔ اور یہی اطلاعات آدمی کا عِلم و حافظہ بن جاتی ہیں۔

شعور کی مثال آئینہ ہے۔ روشنی آئینہ کی سطح سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ہے لیکن اگر روشنی کی شعاعوں کے سامنے ٹرانسپیرنٹ شیشہ رکھ دیا جائے تو روشنی اس میں سے گزر جاتی ہے اور انعکاس REFLECTION کا عمل واقع نہیں ہوتا۔ شعور اپنے عِلم و دلچسپی کی بدولت مخصوص روشنیوں کو جذب کرتا ہے۔ جن روشنیوں کو شعور جذب کرتا ہے وہ شعور کے پردے پر رُک جاتی ہیں، آدمی انہیں دیکھتا اور محسُوس کرتا ہے۔ جو روشنیاں شعور کے پردے سے گزر جاتی ہیں آدمی ان سے لاعِلم رہتا ہے۔
شعوری میکانزم کے پس پردہ ایک اور ایجنسی موجود ہے۔ شعور اس ایجنسی کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ زندگی ہر دور میں اس ایجنسی سے وابستہ رہتی ہے۔ لیکن آدمی اس پر غور نہیں کرتا۔ اس لئے غور نہیں کرتا کہ زندگی ایک معمول کے تحت گزر رہی ہے۔ جذبات، خیالات اور تقاضوں کے زیر اثر ذہن ایک حالت سے دوسری حالت اور ایک کیفیّت سے دوسری کیفیّت میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔خیالات کی یلغار سے اِنسان کو ان مقامات کا ادراک نہیں ہوتا جو اس کی اصل ہیں۔
زندگی کے مراحل اور روزمرہ کے معمولات پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ایک بامعنی زندگی گزارنے کے لئے جن اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہیں کہیں سے فراہم ہوتے ہیں۔ مادی زندگی میں بے شمار صلاحیتیں کام کرتی ہیں لیکن آدمی صرف پانچ حواس سے واقف ہے۔ بصارت، سماعت، گفتار، شامہ اور لمس۔ ذہنی یکسوئی کے ساتھ منبع اطلاعات کی طرف متوجہ ہونے سے ایسی اطلاعات اور صلاحیتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے جو عام طور پرحواس کی گرفت میں نہیں آتیں۔ زندگی کے بہت سے تجربات اور واقعات مادی حواس کے علاوہ آدمی کے اندر موجود ایسے ذرائع ادراک کا پتہ دیتے ہیں جن کو ماورائے ادراک حواس، چھٹی حس، وجدان، ضمیر، اندرونی آواز، رُوحانی پرواز وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔
علم رُوحانیّت کے مطابق غیب میں لا متناہی روشنیاں موجود ہیں ۔ ان ہی روشنیوں میں کہکشانی نظام ،سماوی مخلوق، خلاء میں آبادیاں اور رُوحانی علوم و اسرار شامل ہیں۔ جب آدمی اپنے اندر متوجہ ہوتا ہے تو شعور کے آئینہ پر باطنی اطلاعات تصویریں بننے لگتی ہیں اور غیبی نقوش شعور کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اِنسان جب توجہ اور دلچسپی کے ساتھ کسی ایک نقطہ پر غور کرتا ہے تو غور و فکر اسے شعور کے پس پردہ لاشعور میں دھکیل دیتا ہے۔ اور شعوری میکانزم کے پس پردہ ایجنسی)لاشعور( سے وہ کسی حد تک واقف ہو جاتا ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں یا محسُوس کرتے ہیں وہ ایسے عوامل کے دوش پر سفر کر رہا ہے جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی کے بغیر کوئی حرکت عمل میں نہیں آتی۔ موجودات کی ہر حرکت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ اور ہر آنے والے لمحے کی تعمیر پہلے لمحے پر قائم ہے۔ جبلی طور پر ہمارا حافظہ ہمیں کشش ثقل کا پابند رکھتا ہے۔ ہم وقت اور فاصلے کی پابندیوں میں صرف لمحہ حاضر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جن لمحات کا نام ماضی یا مستقبل رکھا جاتا ہے وہ ثانیہ حاضر میں شعور کی اسکرین پر جلوہ گر نہیں ہوتے۔ کائنات اور کائنات کے تمام اجزاء اور ان کے نقوش ایک ریکارڈ یا فلم کی شکل میں موجود ہیں۔
ہماری مادی نگاہ اس ریکارڈ کا احاطہ نہیں کر سکتی لیکن ان نقوش کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ رویا کی صلاحیت اِنسان کو مادی سطح سے ماوراء باتوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔ یہ صلاحیت جب بر سرِعمل ہوتی ہے۔ ماضی، مستقبل ، دوری، نزدیکی بے معنی ہو جاتی ہے۔
اِنسان کے اندر جو صلاحیتیں کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ آدمی کے تین جسم ہیں۔

مادی جسم
روشنی کا بنا ہوا جسم
نُور سے بنا ہوا جسم
یہ تینوں جسم بیک وقت متحرک رہتے ہیں۔ لیکن مادی جسم)شعور( صرف مادی حرکات کا عِلم رکھتا ہے۔ روشنی اور نُور کے جسم کی تحریکات کو شعور محسُوس نہیں کرتا۔ روشنی کے جسم کی رفتار مادی جسم سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ نُور کا جسم روشنی کے جسم سے ہزاروں گنا تیز سفر کرتا ہے۔
رُوحانی استاد کی زیر نگرانی سالک کی ذہنی استعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے اور سالک کا شعور اس قابل ہو جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار سے متحرک جسم کی تحریکات اس کے دائرہ ادراک میں آ جاتی ہیں۔ یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ یہاں روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جو ہمیں نظر آتی ہے بلکہ یہ اس روشنی کا تذکرہ ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ اس طرح جب شعوری کیفیات نُورانی دنیا میں جذب ہو جاتی ہیں تو سالک نُور کے جسم اور اس کی تحریکات سے واقف ہو جاتا ہے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” شرح لوح وقلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، لیکچر 36 لازمانی زاویے، صفحہ نمبر 313 تا 314
2۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع 30 ، صفحہ نمبر 43
3۔ کتاب “شرح لو ح و قلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، لیکچر 5، صفحہ نمبر 56 تا 58
4۔ کتاب ” ذات کا عِرفان” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، باب روشنی کی رفتار ، صفحہ نمبر 13 تا 15

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 76 تا 82

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)