حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سےمکالمہ

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49876

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبْرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحْیٖ وَیُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَاللہُ لَا یَہۡدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۵۸﴾ۚ

ترجمہ:بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس( غرورکے)سبب سے کہ اللہ نے اس کو سلطنت بخشی تھی ،ابراہیمؑ سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا ۔ جب ابراہیم ؑنے کہا کہ میرا پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ بولا کہ زندہ کرنا اور مارنا تو میں بھی کر سکتا ہوں ۔ابراہیمؑ نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال دے ۔(یہ سن کر ) کافر ششدر رہ گیا اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
Have you not looked at himwho disputed with Ibrahim (Abraham) about his Lord (Allah) because Allah had given him the kingdom? When Abraham AS said (to him) “My Lord is He Who gives life and causes death.” He said,”I give life and cause death.” Abraham said, “Verily! Allah causes the sun to rise from the east; then cause it you to rise from the west.” So the disbeliever was utterly defeated. And Allah guides not the people, who are Zalimun. (Wrong doers)
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کا اس سر کش ظالم بادشاہ سے مناظرہ بیان فرمایاجس نے رب ہونے کا دعوٰی کیا تھا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اس کی دلیل کو غلط ثابت کر دیا اس کی جہالت اور کم عقلی کو آشکارہ کر دیا دلیل کے میدان میں اس کو لاجواب کر دیااور اس کے سامنے سیدھا راستہ واضح فرما دیا ۔علمائے نسب اورمورخین فرماتے ہیں کہ یہ بادشاہ بابل کا بادشاہ تھا جس کا نام نمرود بن کنعان بن کوش بن سام بن نوُح تھا۔ مجاہدنے یہی فرمایا بعض علما نے اس کا نسب اس طرح بیان کیا ہے ۔نمرود بن فالح بن عابد بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح ؑ۔
علماء فرماتےہیں کہ نمرود مسلسل چار سو سال بادشاہ رہا اس نے سرکشی ،ظلم اور تکبر کا راستہ اختیار کیا۔ آخرت کے بجائے دنیا کا حصول پیش نظر رکھا۔ جب اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی عبادت کی دعوت دی تو اس نے جہالت اور گمراہی کی وجہ سے خالق کا انکار کر دیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بحث کی اس نے اپنے رب ہونے کا دعوٰی کیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :
رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحْیٖ وَیُمِیۡتُ میرا رب زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔
)سورۃ بقرۃ ، پارہ 3،آیت258 (
اس نے کہا:
اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیۡتُ میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔
)سورۃ بقرۃ ، پارہ 3،آیت258 (
قتادہ ،سدی اور محمد بن اسحاق  بیان کرتے ہیں اس کے سامنے دو آدمی پیش کئے گئے ان کے لئے سزائے موت کا فیصلہ ہو چکا تھا اس نے ایک کو قتل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کو معاف کر دیا اس طرح اس نے یہ فریب دیا کہ اس نے ایک کو موت دی اور دوسرے کو زندگی بخش دی۔ اس کا یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل کاجواب نہیں تھا اور نہ ہی اس کا موضوع مناظرے سے کوئی تعلق تھا۔ جس سے یہ ظاہر ہو گیا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دلیل پیش فرمائی تھی اس کی وضاحت یہ ہے کہ جانداروں کا جینا مرنا ایک عام مشاہدے کی چیز ہے کیونکہ یہ واقعات خود بخود پیش نہیں آسکتے لہذا ضرور کوئی ایسی ذات موجود ہے جس کی مشیئت کے بغیر ان اشیا کا وجود میں آنا محال ہے ۔ لازمی ہے کہ نظر آنے والے واقعات کا کوئی فاعل ہو،جس نے انہیں پیدا کیا ، انہیں اپنے اپنے نظام کا پابند کیا ،جو ستاروں ،ہواؤں اور بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے اور بارش برساتا ہے اور ان جانداروں کو پیدا کرتا ہے جو ہمیں نظر آتے ہیں اور پھر انہیں موت سے ہمکنار کر دیتا ہے ۔اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
فرمایا :
رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحْیٖ وَیُمِیۡتُ میرا پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔
اس جاہل بادشاہ نے جواباً کہا کہ :
اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیۡتُ میں زندہ کرتا ہوں اور مار سکتا ہوں
اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ نظر آنے والے کام اس کے کنٹرول میں ہیں تو سراسر ضد اور ہٹ دھرمی کا اظہار ہے اور اگر وہ
مطلب ہے جو قتادہ، سدی اور محمد بن اسحاق  نے بیان کیا تو اس کا ابراہیم علیہ السلام کی پیش کردہ دلیل سے کوئی تعلق ہی نہیں اس نے نہ تو
مقدمے کو غلط ثابت کیا نہ ہی دلیل کے مقابل دلیل پیش کی۔ چونکہ بحث میں اس کی شکست کا یہ پہلو ایسا ہے جو حاضرین اور دوسرے لوگوں میں سے بہت سے افراد کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا۔ اس لئےحضرت ابراہیمؑ نے ایک اور دلیل پیش کر دی۔ جس سے نہایت واضح طور پر خالق کا وجود اور نمرود کے دعوے کا بطلان ثابت ہوتا ہے اس کی وجہ سے اسے سب کے سامنے لاجواب اور خاموش ہونا پڑا ارشاد باری تعالی ہے:
قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ ابراہیمؑ نے کہا کہ اللہ تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے لہٰذا تو اسے مغرب سے نکال دے۔ (سورۃ ابقرۃ، پارہ3، آیت258 )
یعنی یہ مسخر سورج روزانہ مشرق سے نکلتا ہے جیسے اسے پیدا کرنے والے اور چلانے والے نے مقرر کر رکھا ہے اگر تو ہی زندگی اور موت کا مالک ہے جیسے کہ تیرا دعویٰ ہے کہ تو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے تو اس سورج کو مغرب سے لے آ۔کیونکہ جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت کا اختیار ہو وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے اسے نہ منع کیا جا سکتا ہے نہ مغلُوب کیا جا سکتا ہے بلکہ وہ ہر چیز پر غالِب ہوتا ہے اور ہر چیز اس کے حکم کی پابند ہوتی ہے اگر تیرا دعوٰی سچا ہے تو یہ کام کر ورنہ ثابت ہو جائے گا کہ تیرا دعوٰی غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ تجھے معلوم ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ تو یہ کام نہیں کر سکتا سو اس قدر عاجز ہے کہ ایک مچھر بھی پیدا نہیں کر سکتا اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا جاہل اور عاجز ہونا واضح فرما دیا اس کے پاس جواب میں کہنے کو کچھ نہ رہا اس کا منہ بند ہو گیا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَاللہُ لَا یَہۡدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۵۸﴾ۚ یہ سن کر کافر ششدر رہ گیا اور اللہ بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (سورۃ بقرۃ، پارہ3، آیت258 )
سدی نے ذکر کیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان یہ مناظرہ اس دِن ہوا جس دِن وہ آگ سے نکلے اس سے پہلے ان کا کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔جس دِن وہ اکٹھے ہوئے اس دِن یہ مناظرہ واقع ہوا۔
[حوالہ :تفسیر ابن کثیر526/1تفسیر سورۃ بقرہ آیت :258]
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ نمرود نے اشیائے خوردنی کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا تھا لوگ غلّہ لینے کے لئے اس کے پاس جاتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ غلہ لینے گئے اس سے پہلے دونوں کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ اس وقت ان کے درمیان یہ مناظرہ ہو گیا۔ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غلہ دینے سے انکار کر دیا آپ اس کے پاس سے آئے تو آپ کے پاس غلہ نہیں تھا جب آپ گھر کے قریب پہنچے تو دونوں بورے مِٹّی سے بھر لئے اور دل میں سوچا کہ جب میں گھر پہنچوں گا تو گھر والے مطمئن ہو جائیں گے گھر پہنچ کر انہوں نے بورے اتارے اور خود سو گئے۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ علیہ السلام اٹھ کر بوروں کے پاس گئیں تو دیکھا کہ وہ عمدہ غلے سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کھانا تیار کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بیدار ہوئے تو دیکھا کہ کھانا تیار ہے ۔انہوں نے پوچھا یہ کھانا کہاں سے آیا زوجہ محترمہ نے فرمایا جو آپ علیہ السلام لائے تھے اسی سے تیار کیا ہے ۔ آپ سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ زید بن اسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس ظالم بادشاہ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جس نے اسے اللہ پر ایمان لانے کو کہا اس نے انکار کر دیا دوبارہ ایمان کی دعوت دی اس نے پھر انکار کر دیا اس نے تیسری بار ایمان کی دعوت دی تو اس نے پھر انکار کر دیا اور کہا کہ :
تو اپنے لشکر جمع کر لے میں اپنے لشکر جمع کرتا ہوں۔
طلوع آفتاب کے وقت نمرود نے اپنی تمام فوجیں جمع کر لیں ۔اللہ تعالیٰ نے اتنے مچھر بھیج دیے کہ سورج ان کی اوٹ میں چھپ گیا ۔اللہ نے لشکر والوں پر مچھر مُسلَّط کر دیے ۔انہوں نے ان کا گوشت اس طرح کھا لیا کہ صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں ۔ ایک مچھر بادشاہ کی ناک میں داخل ہو گیا۔ اللہ نے اس کے ذریعے اسے چار سو سال عذاب میں مبتلا رکھا چنانچہ اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جاتے تھے کہ وہ اللہ کے حکم سے ہلاک ہو گیا۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” البدایہ والنہایہ”(قصص الانبیاء) اَز امام ابو الفداء ابنِ کثیر الدمشقی  ،ترجمہ اَز مولانا عطا ء اللہ ساجد (مدینہ یونیورسٹی)، موضوع حضرت ابراہیمؑ کا نمرود سے مناظرہ، صفحہ نمبر 168 تا 171

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 103 تا 106

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)