یقین CONVINCEMENT

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49915

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ؕ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنۡ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجْعَلْ
عَلٰی كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا ؕ
وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶۰﴾٪

ترجمہ:جب ابراہیم ؑ نےدرخواست کی تھی کہ اے پروردگار مجھے دکھا دیں کہ آپ مُردوں کو کس طرح زندہ کریں گے۔فرمایا:کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ عرض کیا :ایمان تو رکھتا ہوں لیکن خواہش یہ ہے کہ دل پوری طرح مطمئن ہو جائے۔فرمایا: چار پرندے لو،ان کو اپنے ساتھ مانوس کر لو،ان کو (ٹکڑےٹکڑے کر کے) ہرپہاڑ پر ان کا ایک حصّہ رکھ دواور پھر انہیں پکارو۔وہ زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آ جائیں گے۔خوب سمجھ لو کہ اللہ غالِب اور صاحب حکمت ہے۔
And (remember) when Ibrahim said, “My Lord! Show me how You give life to dead”. He (Allah) said: “Do you not believe?” He said: “Yes, but to be stronger in Faith.” He said: “Take four birds, then cause them to incline towards you ( then slaughter them then cut them into pieces), and them put a portion of them on every hill, and call them, they will come to you in haste. And know that Allah is All Mighty, All Wise.
یقینBELEIF/CONVINCEMENT:
اللہ تعالیٰ کی ہستی بڑی عظیم ترین صِفات کی مالک ہے کہ مخلوق مکمل طور پر اسے کبھی نہیں جان سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے نائب اور
خلیفہ ہونے کی حیثیّت سے اِنسان کوجو علوم عطا کئے گئے ہیں ان علوم کی بنیاد” یقین” ہے۔ یقین کے بغیر عِلم کا حاصل کرنا نا ممکن ہے جو لوگ صرف عقلی دلیلوں سےاللہ تعالیٰ کے علوم کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مادیت کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتے مگر جب عقل و شعور کے اندر یقین کا نُور بھی شامل ہو جاتا ہےتو بندہ یقینِ کامل حاصل کر لیتا ہے اور اللہ کے راستے پر تیزی سے قدم بڑھاتا ہے اور مادیت کی حدود سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کے ایسے علوم حاصل کرتا ہے جیسے اللہ تعا لیٰ نے بحیثیّت نائب کے اِنسان کو عطا فرمائے ہیں۔
عِلمُ الیقین ، عینُ الیقین، حَقُّ الیقین:
یقین اُسے کہتے ہیں جو کسی بھی طرح متزلزل نہ ہو ۔ یقین دین کی اسا س ہے ۔مشاہدات اور مراتب کے لحاظ سے اس کے تین درجے ہیں :

1۔ عِلمُ الیقین INFORMED CONVINCEMENT
2۔ عینُ الیقین PRECISE CONVINCEMENT
3۔ حقُّ الیقین TRUE CONVINCEMENT


اگر کسی شے کے عِلم کے بارے میں دلیل و برہان کے ذریعے اس حد تک یقین ہو جائے کہ تردُّدنہ رہے تو اُسے عِلمُ الیقین INFORMED CONVINCEMENT کہتے ہیں ۔ اگر یہ عِلم دلیل و برہان سے گزر کر مشاہد ہ بن جائے تو اسے عینُ الیقین PRECISE CONVINCEMENT کہتے ہیں ۔اگر عِلم کی حقیقت سامنے آجائے اور شے کی حقیقت کا عِلم ہو جائے تو اسے حقُّ الیقینTRUE CONVINCEMENT کہتے ہیں۔
مثال 1:
میں نے کہا انگور ، اور انگور کی تعریف بیان کر دی تو آپ نے یقین کر لیا تو یہ عِلم ، عِلمُ الیقین ہے ۔آپ نے پہاڑ پر یا باغ میں جا کر انگور کے خوشے دیکھ لئے اس کا ذائقہ بھی چکھ لیا ۔ یہ عینُ الیقین ہے ۔آپ نے یہ عِلم حاصل کر لیا کہ انگور کی بیل میں انگور کیوں لگتے ہیں ؟ زمین میں سے انگور میں مخصوص مٹھاس ، کھٹاس ، ذائقہ میں قُدرَت کے کون سے فارمولے کام کر رہے ہیں تو یہ حقُّ الیقین ہے ۔
مثال 2:
میں نے کہا آپ نے سنا”آدمی” ۔ میری بات کا آپ نے یقین کر لیا یہ عِلمُ الیقین ہے۔ آدمی کی خصوصیات کا عِلم ہو گیا۔اور آدمی کی تعریف مع اس کی صلاحیتّوں کے آپ کے سامنے بیان کر دی گئی اور آپ کے شعُور نے اُسے قبول کر لیا تو یہ عینُ الیقین ہے۔ اگر آدمی کے تخلیقی راز ، حیات و ممات کی قدریں اور اللہ تعالیٰ کے و ہ رموُز جو اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی رُوح میں مخفی کر دیےہیں اور جن سے آدم کو واقف کر دیا گیا ہے اس کا عِلم حاصل ہو جائے تو اسے حقُّ الیقین کہتے ہیں ۔
مثال 3:
ایک شخص آئینہ دیکھتا ہے ۔ آئینہ میں اس کا عکس نظر آتا ہے مگر وہ صِرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک اِنسان ہے تو یہ حالت عِلمُ الیقین ہے اگر دیکھنے والے کو یہ یقین ہے کہ اپنا ہی عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی اور آئینہ کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عینُ الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والا اپنی ،آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق ُّالیقین ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اشیا ء کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے ۔ تحقیق اور RESEARCH ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا۔ وہ تحقیق کے ذریعے اللہ وحدہ لا شریک کی قُدرَت کاملہ کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اِسی ذوق ، ریسرچ اور تحقیق کے جذبے سےحضرت ابراہیم ؑ نے موت کے بعد زندگی یعنی مر جانے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور سوال کیا۔
چار پرندے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنۡ ؕ ’’ اے ابراہیمؑ ! کیا تم اس پر یقین نہیں رکھتے؟”
(سورۃ بقرۃ ،پارہ 3،آیت 260)
حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا:
“میں بلا توقف اس پر ایمان رکھتا ہوں ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ قادرِ مُطلق ہیں ، آپ سب کچھ کر سکتے ہیں ۔ میرا سوال اِس لئے ہے کہ میں عِلمُ الیقین کے ساتھ ، عینُ الیقین اور حقُّ الیقین کا خواستگار ہوں ۔ میری تمنا ہے کہ اے میرے رب! تو مجھے آنکھوں سے مشاہدہ کرادے۔”
حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو آواز دی تو ان کے سب اجزاجو علیحدہ علیحدہ تھےاپنی اپنی شکل میں آ گئے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے کہا:
’’ اے میرے پروردگار ! مجھے دکھا تو کس طرح مُردوں کو زندہ کرے گا؟‘‘
کہا ‘‘ کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘
کہا ’’ کیوں نہیں لیکن دلی اطمینان چاہتا ہوں ۔‘‘
کہا:
قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا ؕ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶۰﴾٪ پس چار پرندے لے پھر ان کو اپنے ساتھ مانُوس کر پھر رکھ دے پھر پہاڑوں پر ان کے جز ڈال کر ۔پھر ان کو بلا ، وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور تو جان لے بے شک اللہ غالِب ہے حکمت والا ہے۔
(سورہ بقرہ، پارہ 3،آیت 260)
اللہ تعالیٰ سے حضرت ابراہیم ؑ کا یہ عرض کرنا کہ ایمان تو ہے لیکن دلی اطمینان کے لئے یہ سوال کرتا ہوں، کا مفہُوم یہ ہے کہ دل کے اطمینان کے لئے یقین (مشاہدہ) ضروری ہے۔
جب کسی بندے کے اندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ اس کائناتی نظام میں ہر چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شے اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اندر ایک یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے۔ اس پیٹرن کو جب تحریکات ملتی ہیں اورزندگی میں مختلف واقعات پیش آتے ہیں تو ان واقعات کی کڑیاں اس قدر مضبوط ، مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ آدمی یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کائنات کا حاکم اعلیٰ اللہ ہے ۔
پیغمبرانہ طَرزِ فِکر:
تمام پیغمبران اللہ تعالی کے ایک ہی تفکّر کی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں۔ یہ” تفکّر “لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی واحدانیّت سے متعارُف کرانا ہے۔واحدانیّت کا نُور ہی کائنات کی بساط ہے ۔اور اسی بساط پر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے اَمر کا ڈسپلے کرتا ہے۔اِنسان کی نظر DISPLAY ڈسپلے کو دیکھتی ہے مگر نگاہ کی روشنی حقیقت تک نہیں پہنچتی جس کی وجہ سے وہ اس بات سے بے خبر رہتا ہے کہ کائنات کی حرکت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے کون کون سی قوّتیں کام کر رہی ہیں؟ ان قوّتوں کا ظہور کہاں کہاں سے ہو رہا ہے ؟ اور ان کے انتظامات کس کے سپرد ہیں؟
وحدانیّت کی فکر ارادی یا غیر ارادی طور پر کائنات کی ہر شے مخلوق کے اندر کام کر رہی ہے ۔مخلوق کی ذاتی فکر کو وحدانیّت کے تفکّر سےروشنی ملتی ہے۔تمام عالمین کی ہر شے اللہ تعالیٰ کے تفکّر کی محتاج ہے۔اللہ تعالیٰ کی واحدانیّت کا اعتراف کرنا اور اس کی صمدیت اور سبحانیّت کا معترف ہونا تمام مخلوق کی عبادت ہے جب اِنسان اپنے اندر کام کرنے والے تمام شعور اور تمام حواس اور تمام SENSES کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی واحدانیّت اور سبحانیّت کا اعتراف کر لیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کے علوم کے دروازے کھل جاتے ہیں وہ جان لیتا ہے کہ آدم کی خلافت و نیابت اس کے عِلم کا ایک جزو ہےاور اسی نقطے کی گہرائی سے عِلم الاسماء کی روشنیوں کا چشمہ پھوٹتا ہے ۔
تمام پیغمبروں کی آمد کا مقصد اِنسان کو اِنسانیّت کی اس معراج تک پہنچانا ہے ۔پیغمبروں کے معجزے اللہ تعالیٰ کی صِفات کا نُور ہیں۔یہ نُور پیغمبروں کے تفکّر کی روشنی کے ساتھ مل کر اِنسان کے شعور کی ابتدا ء سے انتہاء تک نشوونماء کرتا ہے۔شعور کی حیات عِلم کی روشنی ہے۔پیغمبر دنیا والوں کے شعور کو ان کی سکت کے مطابق عِلم کی روشنی مہیا ء کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اِنسان کے اندر اسمائے الہٰیہ کا شعور منتقل کرتے ہیں ۔ پیغمبروں کے بعد اسی کام کو جاری رکھنے والے اولیاءاللہ اور رُوحانی لوگ ہیں جو پیغمبروں کے تربیّت یافتہ اور اجازت یافتہ ہوتے ہیں۔ پیغمبروں کے معجزے اِنسان کو اس بات سے آشنا کرتے ہیں کہ اِنسان جب اپنے اندر کام کرنے والی روشنیوں کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کے ساتھ اس کی قُدرَت کے دائرے میں کرتا ہے تو اس کو اپنے کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور اعانت حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک لامحدود ہے۔ اِنسان کا تعلق جب لا محدودیت سے قائم ہو جاتا ہے تو اسے اپنے کام کے لئے انرجی کی احتیاج نہیں رہتی اور وہ اللہ تعالیٰ کی صِفت استغناء سے مستغنی ہو جاتا ہے۔
بولنا، دیکھنا، چکھنا، محسوس کرنا یہ سب روح کی صفات ہیں اور روح کا تعلق براہِ راست اللہ کی ذات سے ہے۔ روح کو جاننے اور سمجھنے کے لئے پہلا مرتبہ آدمی کے اندر یقین کی طرزیں مستحکم ہونا ہے ۔اگر بندے میں یقین کی طرزیں مستحکم نہیں ہیں تو وہ روحانی علم نہیں سیکھ سکتا۔ یقین کی طرزوں سے مراد وہ یقین نہیں ہے جو لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا کی بیشتر آبادی اللہ کے ہونے کا اعتراف کرتی ہے لیکن چونکہ اللہ کو ماننا محض زبانی جمع خرچ ہے۔ اس لئے اس کے اندر یقین کا پیٹرن نہیں بنتا۔ سورہ بقرہ میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
’’یہ کتاب اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے مندرجات میں ’’نور‘‘ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو لوگ متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
یقین اس وقت یقین ہے جب مشاہدہ میں آ جائے۔ مثلاً کسی جج کے لئے گواہی اس وقت قابلِ قُبول ہوتی ہے جب گواہ چشم دید ہو۔ سنی سنائی بات پر عدالت گواہی قبول نہیں کرتی۔ قرآن میں چونکہ شکوک و شبہات نہیں ہیں اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سے استفادہ کرنے والے بندہ کا ذہن شکوک و شبہات سے آزاد ہو۔ قرآن کی زبان میں وہ لوگ قرآن سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو متقی ہیں۔ غیر متقی لوگوں کو قرآن ہدایت نہیں بخشتا۔ متقی لوگوں کی تعریف یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان (یقین) رکھتے ہیں اور مشاہدہ کے بغیر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی اور قرآن ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو صلوٰۃ (تعلق) قائم کرتے ہیں، اللہ کے ساتھ۔ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں تو وہ جانتے ہیں یہ انہیں اللہ ہی نے دیا ہے۔
اگر کبھی قرآنِ پاک کے مطالعے کا موقع ملے تو آپ کو جگہ جگہ ایمان اور ایمان والوں کا تذکرہ ملے گا۔ اسی ایمان کا اردو ترجمہ
یقین ہے۔ صفحات کی کمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یقین کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ:
یقین جملہ مظاہرات کا سرچشمہ ہے۔ قوّت ارادی بھی یقین ہی کا ایک یونٹ ہے۔ یقین کے حُصول کے لئے مشاہدہ ضروری ہے اور مشاہدے کی تکمیل صرف اسی صورت میں ہو گی جب یقین کے تین مدارج:
1. علمُ الیقین،
2. عینُ الیقین، اور
3. حقُ الیقین
کو درجہ بدرجہ طے کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر آپ کے سامنے پہلی بار کوئی سیب کا نام لیتا ہے اور اس کے رنگ، بناوٹ، ذائقے اور فوائد کا تذکرہ کرتا ہے۔ آپ کو علمُ الیقین ہو گیا۔ یہ مشاہدے کا پہلا قدم ہے۔
دوسرے قدم پر آپ سیب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور اس کے رنگ اور بناوٹ کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ یہ عینُ الیقین کا درجہ ہے۔
تیسرے درجے میں جسے آپ حقُ الیقین کہتے ہیں، یہ آپ کو سیب، سیب کے رنگ، اس کی بناوٹ، اس کے ذائقہ اور فوائد کا نہ صرف علم ہُوا بلکہ اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔ اپنے طور پر سیب کر کھا کر اُس کا تجربہ بھی کر لیا ہو۔ یقین کی تکمیل صرف اُسی وقت ممکن ہے جب آپ کسی بات یا کسی چیز کی کُنہ تک پہنچ جائیں۔ زندگی اور زندگی کا ہر قدم، ہر سانس یقین کے گرد گھومتا ہے۔ یقین ہی زندگی کے جملہ نشیب و فراز، مسائل، افکار و اعمال کی پیدائش کا باعث ہے۔
اگر انسان کے اندر یقین کی وہ طاقت اور صلاحیت پیدا اور بیدار ہو جائے جس کا تذکرہ قرآنِ پاک میں خالقِ کائنات اللہ نے کیا ہے تو انسان ایسے ایسے کام انجام دے سکتا ہے جس کا گزر نَوعِ انسانی کی برادری کے شعور میں کبھی نہیں ہوا۔ یقین کی اس صلاحیت، طاقت، اس کے مظاہرے کے واقعات اور تذکرے، قرآنِ پاک میں جا بجا موجود ہیں مثلاً حضرت سلیمان علیہ السّلام کے واقعے میں اسی یقین کا مظاہرہ ایک آدم زاد بندے نے اس طرح کیا کہ سارے درباری یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ پلک جھپکنے سے پہلے ہزاروں مِیل دُور سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے دربار میں ملکہ بلقیس کا تخت موجود ہو گیا۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” معرفتِ عشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی، موضوع اِنسان ایک کائنات، صفحہ نمبر 131 تا 132
2۔ کتاب ” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع 226، صفحہ نمبر 160
3۔ کتاب ” معرفتِ عشق ” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی ، نہ قتل کیا نہ سولی چڑھا سکے، صفحہ نمبر 36 تا 37
4۔ کتاب ” روح کی پکار” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، باب قوت ارادی کیا ہے، صفحہ نمبر 214
5۔ کتاب ” روح کی پکار ” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، باب حواس کہاں سے آتے ہیں، صفحہ نمبر 246 تا 247

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 116 تا 122

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)