دین میں زبردستی نہیں

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49873

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
لَاۤ اِكْرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَاللہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾

ترجمہ: دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔ تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسّی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سنتا ہے سب کچھ جانتا ہے۔
There is no compulsion in religion. The right direction is henceforth distinct from error. And he who rejecteth false deities and believeth in Allah hath grasped a firm hand hold which will never break. Allah is Hearer, Knower.
سعید اور شقی ارواح:
شَقی روح اور سعید روح سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روحوں کو دو راستوں میں سے ایک راستے کے انتخاب کا حق دیا ہے۔ جن روحوں نے سعید راستے کا انتخاب کیا وہ سعید ہیں اور جن روحوں نے شقاوت کے راستے کا انتخاب کیا وہ شَقی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان دونوں باتوں سے بے نیاز ہے۔ بندوں نے ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا۔
قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَاۤ اِكْرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤْمِنۡۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَاللہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾ دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔ تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسّی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سنتا ہے سب کچھ جانتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت 256)
اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے لیکن لوگوں نے ان کی بات نہیں سنی۔ ان کو جھٹلایا۔ ان کو جادوگر کے لقب سے پکارا لیکن وہ اپنے مشن میں مستقل مزاجی سے مشغول رہے اور جن لوگوں نے ان کی بات سنی وہ صحابی ہو گئےـــاور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو عذاب سے بچا لیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھائی اور برائی کے بارے میں معلومات فراہم کر دیں اور انسان کو اچھائی اور برائی کے نفع و نقصان سے آگاہ کر دیااور اچھائی اور برائی کو قبول کرنے، نہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا تو انسان کی مرضی ہے کہ جنّت میں جائے یا دوزخ میں۔
لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معافی کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ بڑے سے بڑا ظالم و جابر بھی جب اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرتا ہے تو اللہ اپنی رحمت سے اسے معاف کر دیتے ہیں لیکن جب کوئی انسان برائی پر ضد کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ آگ ہاتھ جلا دیتی ہے۔ اور وہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ پھر وہ ضد میں یہ کہنے لگے کہ اللہ نے آگ بنائی ہی کیوں؟؟ تو یہ مکر ہے اور عقل کی کوتاہ اندیشی ہے۔ اگر آدمی آگ میں ہاتھ ڈالے گا وہ ضرور جلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے بارے میں بھی فرما دیا ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔
قُلْ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفْسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡكُمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿۱۰۸﴾ؕ کہدو کہ لوگو تمہارے پروردگار کہ ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اور میں تمہارا وکیل نہیں ہوں۔
(سورہ یونس، آیت 108)
یعنی اے محمدﷺ! آپ توحید کا پیغام پہنچا دیں لوگ سنیں یا نہ سنیں۔ آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے۔رسول اللہﷺ بتوں کی پرستش سے منع فرماتے تھے جب لوگوں نے اپنا اختیار استعمال کیا۔ عقل و شعور سے کام لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور وہ اسلام پر گامزن ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب “روح کی پکار” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، باب سعید روح اور اور شقی روح کیا ہے؟ ، صفحہ نمبر 252 تا 253

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 101 تا 102

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)