انعام یافتہ لوگ

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45760

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

ترجمہ: سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے۔ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا انصاف کے دِن
کا حاکم۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہم کو سیدھے رستے چلا۔ ان لوگوں کے رستے جن پر
تُو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ کہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے۔
All the praises and thanks be to Allah , the Lord of tha Alamin. The most Gracious The most Merciful. The only owner of the Day of Recompense.You we worship and You (alone) we ask for help.Guide us to the straight Way. The Way of those on whom You have bestowed Your Grace, not of those who earned Your Anger nor of those who went astray.
سورۃ فاتحہ عالم اِسلام میں ہر مسلمان عورت اور مَرد کو یاد ہے اور تمام مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اس کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ سے مراد ہےتمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔اس آیت میں تشریح طلب بات یہ ہے کہ اللہ سے مراد بے شمار مخلوقات کا پیدا کرنے والا خالق۔رب سے مراد مخلوقات کو پیدا کر کے ان کی تمام ضروریات کی کفالت کرنے والا ۔ مخلوقات کو زندہ رکھنے کے لئے،مخلوقات کو پیدا کرنے کے لئے ، مخلوقات کو جوان کرنے کے لئے ، مخلوقات کی نسل چلانے کے لئے، مخلوقات کو اس دنیا میں رکھنے کے بعد دوسری دنیا میں منتقل کرنے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کو فراہم کرنے والا۔غرض یہ کہ اللہ خالق ہے ،پیدا کرنے والا، رب پیدا کرنے کے بعد مخلوق کی زندگی کو RESOURCES وسائل فراہم کرنے والا۔
دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ رب العالم نہیں بلکہ رب العالمین ہے۔اس آیت میں تفکّر سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ اس دنیا کی طرح اور بھی بے شمار عالمین موجود ہیں اور اِن بے شمار عالمین کو پالنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
سب تعریفیں خالقِ کائنات کے لئے ہیں ۔خالقِ کائنات کی صِفات یہ ہیں کہ جب وہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے تو مخلوق کی ضروریات کی کفالت بھی کرتا ہے اور مخلوق کی ضروریات کی کفالت اس وقت ممکن ہے جب مخلوق کی زندگی میں کام آنے والی ہر شے ،مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے موجود ہو۔حضور قلندر بابا اولیا نے فرمایا عالمین میں تقریبا ساڑھے گیارہ ہزار 11,500 مخلوقات SPECIES ہیں پرندے ہیں، چرندے ہیں، چوپائے ہیں، اشجار ہیں ، معدنیات ہیں، پہاڑ ہیں اگر نوعی اعتبار سے ان کا شمار کریں تو تقریبا ساڑھے گیارہ ہزارانواع ہیں ۔اللہ تعالیٰ اِن تمام انواع کا رب ہے۔
اِنسان کی پیدائش اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اِنسان کے والدین نہ ہوں والدین کے بارے میں جب ہم تفکّر کرتے ہیں تو اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں کہ اماں کو ابا کواللہﷻ نے پیدا فرمایا۔ یعنی اِنسان کی پیدائش کے لئے پہلا وسِیلہ والدین بنے۔ اور والدین کی تخلیق میں نہ والدین کا کوئی ذاتی عمل دخل ہے اور نہ کسی اولاد کا کوئی عمل دخل ہے۔ ماں کے پیٹ میں نو ماہ تک بچے کو نشوونما کے لئے کتنی چیزوں کی ضرورت تھی ؟جس صِفت رحیمی سے اس خوردونوش کا انتظام ہوا اس کو رُوحا نیّت میں رب کہتے ہیں۔ رب نے ماں کے پیٹ میں بچے کو وہ تمام غذائیں فراہم کیں جن غذاؤں کو استعمال کر کے اس کے اندر توانائی پیدا ہونے کی شکل وصورت بنی اور جیتی جاگتی تصویر اس دنیا میں آگئی۔
آیت قُرآنی ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُكُمْ فِی الۡاَرْحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُ ﴿۶﴾
توہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالِب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (سورۃ آل عمران پارہ3 ،آیت 6)
کیسی پاک ذات ہے وہ جو ماں کے پیٹ میں تصویر کشی کر کے خوبصورت تصویر دنیا میں لے آتی ہے۔اب وہ بچہ پیدا ہوا تو بچے کو اپنی زندگی گزارنے کے لئے کوئی چیز خود نہیں بنانی پڑی۔ پیدائش سے پہلے اس کے دودھ کا انتظام ہو گیا۔ اس کے لئے زمین موجود تھی، پیدائش سے پہلے اس کے لئے ہوا بھی موجود تھی، پانی بھی موجود تھا۔ ہر وہ چیز مہیّا تھی جس کی زندگی میں ضرورت پیش آتی ہے۔ تعلیمی سلسلہ شروع ہوا ،پہلے سے سکول موجود تھے ، اساتذہ موجود تھے ۔ یعنی پیدائش کے بعد مرتے دم تک اِنسان جو کچھ بھی استعمال کرتا
ہے وہ پہلے سے موجود تھا۔کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اِنسان نے پیدا ہونے کے بعد اپنے لئے بنائی ہو۔خلاصہ یہ کہ اللہ خالق کائنات
ہے عالمین کے لئے اس نےصِفت ربوبیت سے وسائل فراہم کئے،مخلوق وجود میں آ گئی ۔
دوسرا مرحلہ ہے مخلوقات کے لئے وسائل کی تقسیم کا۔ رب العالمین نے جب یہ کائنات بنائی اور کائنات کے لئے وسائل پیدا کر دیے اب رب کائنات نے یہ چاہا کہ وسائل کو تقسیم کرنے والی ہستی مخلوق میں سے ہی منتخب ہو ۔
خوش نصیبی:
آپﷺ کو رحمت کے ساتھ وسائل کو تقسیم کرنے کے لئے منتخب فرما لیا۔کائنات میں دو ہستیاں زیر بحث آئیں ایک پیدا کرنے والی ہستی دوسرے مخلوق میں پیدا شدہ وسائل کو تقسیم کرنے والی ہستی ۔
وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾
اور ہم نے آپﷺ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔
(سورۃ الانبیا،پارہ17، آیت 107)
اس لئے کہ آپکی ذات سے پوری کائنات فیڈ ہوتی رہے۔
حضور قلندر بابا اولیا  سے جب ان دونوں آیتوں کی تفسیر پوچھی گئی کہ اللہ اپنے لئے رب العالمین فرماتا ہے اور اپنے محبوب بندے محمد رسُول اللہ ﷺکے لئے رحمت للعالمین فرماتا ہے۔ تو رب العالمین اور رحمت للعالمین میں کیا فرق ہوا؟انہوں نے فرمایا:
“رسُول اللہﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق اوّل ما خلق اللہ نُوری اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو بنانے کا ارادہ فرمایا
تو سب سےپہلےرسُول اللہﷺ کو تخلیق کیا۔اوررسُول اللہ ﷺکو مقام محمود میں وہ جگہ عطا فرمائی جہاں اللہ اور اللہ کےرسُولﷺ کے علاوہ کوئی بندہ نہیں پہنچ سکتا۔اللہ رب العالمین کی تجلّیا ت اور انوارات اتنے شدید ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ کی تجلّی کو کائنات کا کوئی فرد کوئی مخلوق برداشت نہیں کر سکتی”۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہےکہ کوہِ طُور پر اللہ کی تجلّی دیکھی اور بے ہوش ہو گئے۔ اللہ نے یہ انتظام فرمایا کہ تجلّیات اورانوارات کے نزول کے لئے رسُولﷺ کا نُور بنایا۔ انوار اور تجلّیات کا پہلا نزول رسُولﷺ کے اوپر ہوتا ہے ۔ اس کی تیزی، اس کا جلال، اس کی عظمت، اس کی ربوبیت کورسُول اللہﷺ جب قبول فرماتے ہیں، کیونکہ رسُول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خود رحمت للعالمین ﷺ فرمایا ہے،تو وہ جلال رحمت میں تبدیل ہو کر تمام عالمین میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نظام ِکائنات میں رسُول اللہ ﷺ کو اپنے اور مخلوق کے درمیان واسطہ بنایا۔ رسُول اللہﷺ خاتم النبییّن ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیۡنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡكُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَكُمُ الۡاِسْلَامَ دِیۡنًا
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اِسلام کو دین پسند کیا۔
(سورۃ المائدہ، پارہ6، آیت 3)
آج کے دِن اے محمدﷺ تمہارے اوپر دین کی تکمیل کر دی اور جن نعمتوں کا وعدہ تھا وہ آپﷺ کے اوپر پوری کر دیں اور اللہ آپ ﷺسے راضی ہو گیا۔غور طلب بات ہے کہ ہم مسلمان جو حضورﷺ کے اُمَّتی ہیں کتنی خوش نصیب قوم ہیں۔ہمیں وہ دور ملا جو اللہ کے بعد سب سے بڑی ہستی کا دور ہے۔ اور ہمیں یہ سعادت ملی کہ ہم اس رسوُلﷺ کی اُمَّت ہیں جن کی وجہ سے سارے عالمین فیڈ ہو رہے ہیں۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم رسُول ﷺکے اُمَّتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں رسُولﷺ کی نسبت اور صِفات حاصل ہیں جب مسلمان رسُول اللہﷺ پر صحیح معنوں میں ایمان لے آتا ہے کلمہ پڑھ لیتا ہے تو اپنی نسبت رسُول اللہﷺ سے قائم کر لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مسلمان عالمین کے لئے رحمت ہے اس لئے کہ وہ رسُول اللہﷺ کا اُمَّتی ہے۔مسلمان چونکہ رسُول اللہ ﷺسے ایک رُوحانی رشتہ رکھتا ہے تو اس کے اندر یہ صِفات منتقل ہو جاتی ہیں کہ جس طرح رسُول ﷺعالمین کے لئے رحمت ہیں اسی طرح ہر مسلمان پوری نوع اِنسانی کے لئے رحمت کا چلتا پھرتا کردار ہے۔
یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ ہماری سعادت ہے کہ ہم حضور پاکﷺ کے اُمَّتی ہیں ۔اس کے ثمرات تب حاصل ہوں گے جب حضورﷺ کے اوصاف ہمارے اندر پیدا ہوں گے ۔اگر ہم با عمل ہوں گے تو سچی خوشی اور اطمینان قلب نصیب ہو گا اور اگر خوش نہیں رہیں گے تو سکون نہیں ملے گا اور یقین کے درجے میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
اِسلا م اور کفر میں یہ فرق ہوا کہ جب بندہ مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کو رحمت للعالمین کی صِفت رحیمی منتقل ہو جاتی ہے غیر مسلمین کو صِفت رحیمی منتقل نہیں ہوتی۔جب صِفت رحمت منتقل ہو گئی اور مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے رحمت نہیں رہا تو اس کو سوائے محرومی کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
جو وسائل آپ استعمال کرتے ہیں۔ وہ آپ کی ملکیّت نہیں ہیں ۔ ملکیّت کا مطلب ہے آپ کسی شےکے مالک ہیں کوئی آپ کی ملکیّت میں تصرّف نہ کر سکے آپ سے چھین نہ سکے پوری زندگی کے وسائل کے بارے میں جب آپ غور کریں گے تو یہاں کچھ بھی آپکی ملکیّت نہیں ہے۔
ملکیّت کے تصوّر نے اِنسان کو برباد کر دیا۔اللہ نے وسائل بنائے رسُول ﷺنے تقسیم کر دیے رُوحانی نقطہ نگاہ سے جو خرابی کی جڑ ہے وہ یہ ہے کہ اِنسان کے ذہن میں یہ بات آ گئی کہ میری کوئی ملکیت ہے۔
اگر مسلمان کے اندر یہ یقین مستحکم ہو جائے کہ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ پوری کا ئنات میں میری کوئی ملکیت نہیں ہر چیز اللہ کی دی ہوئی استعمال کر رہا ہوں تو ہر مسلمان حضورﷺ کا جیتا جاگتا کردار بن جائے۔حضور قلندر بابا اولیا ء نے فرمایا اِنسانوں میں اور پیغمبروں میں یہ فرق ہے کہ عام اِنسان اپنی ذات میں سوچتا ہے۔اور پیغمبر CARE OF ALLAH سوچتے ہیں ۔ ان کے ذہن میں یہ بات
ہوتی ہے کہ ہماری کوئی چیز نہیں۔ ارشاد ہے:
وَالرّٰسِخُوۡنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ
اور جو لوگ عِلم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے ۔ (سورۃ آل عمران ،پارہ 3،آیت7)
رُوحانی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس بات کا مشاہدہ کر لیا ہے کہ ہر شے اللہ کی طرف سے ہے۔ ہمیں ہر چیز استعمال کے لئے عارضی طور پر عطا کی گئی ہے۔اللہ اولاد عطا فرماتے ہیں اگر اِنسان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے کھلونے ہیں اللہ نے ہمیں یہ اس لئے عنایت کئے ہیں کہ ہم ان سے دل بہلائیں ان کی تعلیم و تربیّت کر کے ایک اچھا اِنسان بنائیں ۔اولاد کی ساری پرورش اللہ کے لئے ہو جائے گی۔
وَاعْلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد بڑی آزمائش ہے۔ (سورۃ انفال ،پارہ 9،آیت 28)
مرشد کریم الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے حضور قلندر بابا اولیاء سے پوچھا “اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اولاد فتنہ ہے تو کیا ضرورت ہے شادی کی؟ کیا ضرورت ہے اولاد کی؟ کیا ضرورت ہے مال و اسباب کی ؟ کیا ضرورت ہے گھر بنانے کی؟ کیا ضرورت ہے کاروبار کی؟ حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا آگے پڑھو:
وَّاَنَّ اللہَ عِنۡدَہٗۤ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ﴿٪۲۸﴾
اگر مال اور اولاد کے بارے میں آپ کے ذہن میں ہے کہ اولاد اللہ کی دی ہوئی چیز ہے تو اس سے بڑا کوئی اجر نہیں ۔ ہم اولاد کوملکیّت تصور کرتے ہیں اس لئے اولاد ہمارے لئے فتنہ ہے، بیوی شوہر کو ملکیّت تصوّر کرتی ہے شوہر بیوی کےلئے فتنہ بن جاتا ہے ۔ ملکیّت کا تصوّر رب العالمین کے سراسر خلاف ہے ۔کوئی چیز آپکی ملکیّت نہیں ہے اگر کچھ آپکی ملکیّت ہے تو وہ چیز آپ سے چھن کیوں جاتی ہے ؟
ملکیّت کا تصوّر اِنسان کے لئے سب سے بڑی بربادی کا باعث ہے انبیاء کئیر آف اللہ سوچتےہیں اور ہر سوچ میں اللہ آ جاتا ہے اور اسی طَرزِ فِکر کو راسخ کرنے کے لئے اللہ نے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو اللہ تعالیٰ نے 82 سال کی عمر میں صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبیح اللہ عطا کیے۔ اس عمر میں اولاد سے محبت اور انس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب اللہ نے یہ دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام کے اندر بیٹے کی محبت غالِب آ گئی ہے تو اللہ نے فرمایاکہ آپ بیٹے کی قربانی دے دیجئیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں بیٹے کے لئے ملکیّت کا تصوّر ہوتا توقربان نہ کرتے ۔ چونکہ حضرت ابراہیمؑ جانتے تھے کہ یہ بیٹا میری ملکیّت نہیں ہے اللہ کی ملکیّت ہے ۔حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کی قربانی سے یہ ثابت کیا کہ انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کواپنی ملکیّت نہیں سمجھا۔
جتنے بھی پیغمبر ہیں وہ سب ایک ہی بات کرتے ہیں کہ سب اللہ کا بنایا ہوا ہے اللہ کی ملکیّت ہے:
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الْخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی كُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۶﴾
کہو کہ اے خدا بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزّت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔
(سورۃ اٰل عمران ،پارہ 3،آیت 26 )
مالک جس کو چاہے ملک دے دے جس کو چاہے عزّت دے دے جس کو چاہے ذلّت دے دے وہ قادرِ مُطلق ہے ہر شے پر جس طرح چاہے تصرّف کرے۔ رسوُل پاک ﷺکی سیرت کا مطالعہ کریں آپﷺ نے کیسی کیسی تکلیفیں برداشت کیں رشتہ دار،شہر والے سب مخالف ہوگئے۔ اور بائیکاٹ کر دیا۔ حضرت بی بی خدیجہ دوا کی عدم دستیابی سے انتقال فرما گئیں مگر رسُول اللہﷺ نے حرفِ شکایت نہیں کیا۔
اُمَّت مسلمہ میں رسُول کریم ﷺاور تمام پیغمبران ؑ کی یہ طَرزِ فِکر منتقل ہو جائے کہ یہاں کچھ ہماری ملکیت نہیں ہے یہاں ہر چیز نے ہمیں چھوڑ کر جانا ہے ۔ تو ہم سب صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائیں گے ۔رہا سوال اس بات کا کہ اگر ملکیّت ہی اللہ کی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ فیکٹریاں بنائیں کیا ضرورت ہے کارخانوں کی؟ کیا ضرورت ہے دکانیں بنائیں ؟ تو ضرورت ہے۔ وہ اس لئے کہ اللہ نے بحیثیّت رب العالمین جو سسٹم بنایا ہے اس کی بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ اللہ کی مخلوق متحرک رہے۔ اور اللہ کی مخلوق ایک دوسرے کے کام آئے ۔ بات طَرزِ فِکر کی ہے اگر طَرزِ فِکر انبیاؑ کی سی ہے تو آپ کا ہر عمل اللہ کے لئے ہے اور اگر طَرزِ فِکرانبیاء جیسی نہیں ہے تو ہلاکت و بربادی ہے۔ سیر ت النبی ﷺکے مطالعہ کے بعد ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ رحمت للعالمین ہیں آپﷺ کے سب ماننے والوں کو آپکی یہ نسبت منتقل ہوتی ہے۔ جب اِنسان کے اندر رحمت ہوتی ہے تو اس کے اندر اخلاقِ حسنہ پیدا ہو جاتے ہیں وہ نفرت سے آزاد ہو جاتا ہے۔رسوُل اللہ کا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ آپﷺ ہمیشہ کئیر آف اللہ سوچتے ہیں یعنی ہر شے میں پہلے اللہ پھر وہ شے۔
اس بات کی پوری طرح کوشش کی جاتی ہے کہ تصوّف اور رُوحانیّت کی راہوں میں چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ زندگی کی بنیاد یا بساط ایک طَرزِ فِکر کے اوپر قائم ہے اگر وہ طَرزِ فِکر ایسی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے تو اس کا نام شیطنت ہے اور وہ طَرزِ فِکر جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے یعنی اس کائنات میں دو گروہ ہیں ایک انعام یافتہ اور دوسرا باغی اور ناشکرا ۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں :
“سب تعریف اللہ کو ہے جو سارے جہانوں کاپالنے والا، بہت بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، مالک انصاف کے دِن کا۔”
سورۂ فاتحہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یوم انصاف متعیّن کر دیا ہے۔ یوم عدالت سے پہلے قبر کے عذاب یا ثواب میں کیا حکمت ہے؟مرنے کے بعد زندگی کی تشریح کی جائے تو کہا جائے گا کہ جسمِ مثالی نے مِٹّی کے ذرات سے بنائے ہوئے جسم سے رشتہ نقطع کر لیا ہے۔ اور دوسرے عالم میں وہاں کی فضا کے مطابق ذرّات یکجا کر کے ایک نیا جسم تخلیق کر لیا ہے ۔ عالِم اعراف میں دنیا کی آبادی سے برابر جو لوگ منتقل ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے دراصل یہ اِس عالم سے اُس عالم میں جسمِ مثالی کی منتقلی ہے۔ عربی زبان میں اسی لئے اس عالم میں جانے کا نام انتقال کرنا ہے یعنی اِس عالم سے اُس عالم میں آدمی منتقل ہو گیا۔جسمِ مثالی، زندگی میں ہمہ وقت متحرک وسرگرم رہتا ہے اس کی اپنی صِفات میں سے ایک مخصوص صِفت یہ ہے کہ جب تک یہ اپنے لباس سے کلی طور پر قطع تعلق نہیں کر لیتا
اس کی حفاظت کرتا ہے۔
ایک آدمی سویا ہوا ہے، نیند بہت گہری ہے۔ کراچی میں سویا ہوا آدمی امریکہ کے بازاروں میں گشت کر رہا ہے۔ اسےسوئی چبھو دی جاتی ہے۔ جسمِ مثالی امریکہ سے چل کر فوراً اپنے لباس کی پاسبانی کے لئے آ موجود ہوتا ہے۔ سوئی چبھنا، امریکہ سے جسمِ مثالی کا کراچی میں آ جانا۔ اتنا قلیل وقفہ ہے کہ جس کی پیمائش کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔ اس پیمائش کو آپ لمحے کا کھربواں حصّہ کہہ سکتے ہیں اور لمحے کا کھربواں حصّہ کہنا پیمائش کے دائرے میں نہیں آتا۔ مقصد یہ ہے کہ جسمِ مثالی کے لئے ٹائم اور اسپیس کوئی چیز نہیں ہے لیکن جب یہ اپنے لئے مادی جسم بناتا ہے تو اس کو ٹائم اسپیس میں بند رکھنے کے لئے پوری حفاظت کرتا ہے۔

قُرآن پاک کی تمام تعلیمات کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو مختصر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اس پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں ایک وہ طرز ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے نا پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارنے والےلوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ مندہیں۔ مطلب یہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ طرزِ فکر کے حامل افراد بھی کھانا کھاتے ہیں، لباس پہنتے ہیں، گھروں میں رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں انہیں دستیاب بھی ہیں لیکن پھر بھی وہ بے سکونی اور انتشار کی زندگی گزارتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں جلدبازی اور افراتفری موجود ہوتی ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرز فکر اپنانے والے افراد بھی کھانا کھاتے ہیں ،لباس بھی پہنتے ہیں ، گھروں میں بھی رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی طرزِفکر کی وجہ سے امن و سکون اور اطمینان سے رہتے ہیں بلکہ وہ اللہ کی اس مخلوق کو بھی اپنے ساتھ شریک بناتے ہیں جو وسائل میں ان سے کمتر ہیں ۔ ان دونوں طرزِ فکر کے حامل افراد میں ایک قدر ضرور مشترک ہے اور وہ ہے ضروریات زندگی۔
جواہرات کے انبار سے ضروریات پورے ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک آدمی کے پاس اگر ایک کروڑروپیہ موجود ہے تو وہ وہی روٹی کھائے گا۔ دوسرے آدمی کے پاس اگر محل موجود ہے اور اس محل میں 50کمرے ہیں تو سونے کے لئے اسے ایک چارپائی کی جگہ کی ضرورت پیش آتی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ، نہ ہو گا کہ پچاس کمروں کا مالک کوئی بندہ جب سونے کے لئے لیٹے تو اس کا جسم دراز اور اتنا پھیل جائے کہ وہ دس چارپائیوں کی جگہ گھیر لے۔ سونے کے لئے اسے ایک ہی چارپائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہی حال پوری زندگی کے اعمال و حرکات کا ہے۔
اس مختصر تشریح سے یہ ثابت ہوا کہ دنیاوی طَرزِ فِکر میں اللہ کی ناپسندیدہ طَرزِ فِکر کے حامل افراداور اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طَرزِ
فِکرکو اپنانے والے افرادمادی زندگی کے وسائل میں مشترک قدریں رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انعام کیا ہے کہ جس
انعام کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ کہا ہے اور جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں۔ دوستوں کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو بندہ ہمارا دوست بن جاتا ہے ہم اس کے اوپر سے خوف اور غم اُٹھا لیتے ہیں۔ خوف اور غم جس آدمی کی زندگی سے نکل جاتا ہے تو خوشی اور سرُور کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جو ہمیں ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتا یہ وہی انعام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہماری ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں ہم نے ان کے دلوں پہ مُہر لگا دی ہے اور ہم نے ان کے کانوں پر مُہر لگا دی اور ان
کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں۔

سورہ فاتحہ قُرآن کی پہلی سورہ ہے۔ اسے فاتحہ الکتاب یا دیباچہ قُرآن بھی کہا جاتا ہے ۔سورہ فاتحہ ایک دعا بھی ہے۔ معلِم اعظم حضرت محمد ﷺ پانچ وقت کی صلوٰۃ اور نوافل میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کی تاکید فرمائی ہے۔
اللہ کاکلام ،قُرآن ،معانی و تفاسیر کا وسیع و عریض سمندر اور اسرار و معارف کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔اس حقیقت کا ادراک قُرآن پاک کی پہلی سورہ یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت سے ہی ہونے لگتا ہے۔ قُرآن میں کسی مقام پر کسی لفظ کے استعمال میں علیم وخبیر اللہ کی کیا حکمتیں پنہاں ہیں ۔یہ نکتہ واضح ہو تو علم و آگہی کے نئے نئے در کھلنے لگتے ہیں ۔
آیئے ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ ہمیں قُرآن کی تلاوت کی قُرآن کی معانی اور مفاہیم میں غوروفکر کی توفیق اور شرح صدر عطا ہو آمین۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾

سورہ فاتحہ کی پہلی آیت کا اردو ترجمہ عام طور پر ان الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے ۔
اس آیت میں اللہ کی حمد، خالقِ کائنات کی صفتِ ربُوبیّت کے ذکر کے ساتھ کی گئی ہے۔صفتِ ربوبیت کے حوالے کی وجہ سے یہ آیت حمد بھی ہے اور اِنسانوں کے لئے دعوتِ فکر بھی ۔اِس دعوتِ فکر پر عمل کرتے ہوئے جستجو، تلاش اور تحقیق کی جائے تو آخر کار ہر سلیم الفطرت اِنسان خود یہ اعتراف کر لے گا کہ واقعی کوئی سب سے طاقتور سب سے زیادہ قدرت رکھنے والی منظّم اور سرپرست ہستی ہے،جو اس کائنات کو چلا رہی ہے۔اور اِس کائنات کے ایک ایک رکن کو پال رہی ہے۔
ربُّ العالمین کی ربوبیت کی وسعت اور جامعیت پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو پہاڑ جیسی حیرتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ آج ہماری اس زمین پر صرف اِنسانوں کی آبادی سات اَرب سے زائد ہے ۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو۔ این۔ ای۔ پی) کی کئی سالوں کی تحقیق کے مطابق اس زمین پر معلوم انواعSPECIES کی تعداد تقریباً اٹھارہ لاکھ ہے۔ہر نوع کے ارکان نر اور مادہ کی تعداد کو شمار کیا جائے تو ان سب کی تعداد تو کھربوں ،سنکھوں میں ہو گی. یہ اِس زمین پر آباد مخلوقات کی انواع اور ان کے اراکین کی اب تک معلوم تعداد کے کچھ اندازے ہیں ۔ایک تازہ دریافت کے مطابق اس کہکشانی نظام میں ہماری زمینEARTH سے مشابہہ سیاروں کی تعداد8.8ارب سے زیادہ ہے۔اب آپ زرا اندازہ لگایئے کہ آج اس دنیا میں جتنے اِنسان بستے ہیں کہکشانی نظام میں صرف زمین سے مشابہہ سیاروں کی تعداد، نوعِ اِنسانی کی موجودہ تعداد سے زیادہ ہے۔
ہمارا نظامِ شمسی جس کہکشانی نظام کا حصہ ہے اُس کہکشاں میں ستاروں کی (صرف ستاروں کی)تعداد دو سو ارب سے زیادہ بتائی
جاتی ہے ۔ اپنے نظام ِشمسی کی وُسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی جیٹ طیارے میں 500 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے
مسلسل سفر کیا جائے تو نظامِ شمسی کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک پہنچنے کے لئےساڑھے تین ہزار سال کا وقفہ لگے گا۔
اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ کے انتہائی اختصار کے ساتھ اس ذکر کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ یہاں حمد کا مطلب در حقیقت کیا ہے؟
ہم حسین قدرتی مناظر دیکھتے ہیں۔پہاڑ ،دریا، صحرا، سرسبز میدان ،جھیلیں، آبشاریں، دیگر حسین مناظر دیکھ کر دل و زبان سے بے اختیار خالق کی تعریف بیان ہونے لگتی ہے۔اِنسانوں کی بنائی ہوئی چیزوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ہم کوئی بہت اچھی عمارت دیکھیں، فن مصوّری کو کوئی شاہکار دیکھیں، کوئی ادبی شہ پارہ پڑھیں تو بے اختیار اُس کی تعریف کرتے ہیں ۔یہ ضروری نہیں کہ جس چیز کی آپ تعریف کر رہے ہوں اس کا کوئی فائدہ بھی آپ کو مل رہا ہو۔ آپ نے کوئی بہت اچھی تخلیق دیکھی آپ نے کہا سبحان اللہ ـــ ماشاء اللہ۔
ایک صاحب بہت خوش اخلاق مشہور ہیں ۔لیکن آپ کا کبھی اُن سے کوئی واسطہ نہیں پڑا۔آپ تک ان کی اچھی شہرت پہنچی تو
آپ نے بھی ان کی تعریف کی۔کسی ضرورت کے تحت ان صاحب سے آپ کا واسطہ پڑا تو وہ آپ کے کام آئے اب آپ ان کی تعریف
کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کریں گے۔
یہاں اس نکتے کو ذہن میں رکھیں کہ کسی کی اچھی صفات کو ،اعلیٰ صفات کو بیان کرنا اس کی تعریف کہلاتا ہے۔ کسی سے فیض پایا جائے توپھر اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ جب ہم الحمدللہ کہیں گے تو اس کے کیا معنی ہوں گے؟ اس کا ایک معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی شاندار کائنات بنائی ـــسبحان اللہ۔یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت ہے ۔اللہ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔
جب ہم اللہ کی تعریف اس کی صفت کے ساتھ کرتے ہیں مثلاً اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ کہتے ہیں تو دراصل اللہ کے نظام سے استفادے کا اقرار بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ رب کا مطلب ہے “پالنے والا” تو اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ کہتے ہوئے دراصل اپنے پالنہار ،زندگی گزارنے کے تمام وسائل عطا کرنے والے کی حمد بیان کرتے ہیں ۔اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ کے معنی پر غور کریں تو یہ کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں:
“اللہ کے لئے حمد اور شکر ،جو سب عالمین کا رب ہے۔”
کسی کی عطا پر شکر گزار ہونا محض لفظی شکریہ ادا کرنا نہیں ہوتا بلکہ شکر گزاری میں احسان مندی بھی پنہاں ہوتی ہے۔
اللہ نے ہمیں یہ زندگی عطا کی ہے ۔زندگی کو اچھی طرح بسر کرنے کے لئے زمین پر بے انتہا وسائل عطا کئے ہیں ۔ان وسائل کو اچھی طرح برتنے کے لئے عقل اور سمجھ عطا فرمائی ہے۔زندگی کا سفر صحیح راہوں پر گزرے اس کے لئے اللہ نے انبیاءاور ان پر نازل کیے گئے صحیفوں اور کتابوں کے ذریعے راہنمائی عطا فرمائی ہے۔ زندگی کے معاملات، رشتے، ناطے، معیشت و معاشرت، اِنسانوں کے لئے آسودگی ،خوشی اور سکون کاذریعہ ہوں اس کے لئے اللہ نے اپنی رحمتیں نازل فرمائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اعتراف و احساس کے ساتھ اللہ کی تعریف بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا بندہ دل کی گہرائیوں
سے اللہ تعالیٰ کا شکرگزار اور احسان مند ہے۔اب زرا سوچیئے کہ شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات کے ساتھ کی جانے والی عبادت کن کیفیات کی حامل ہو گی؟
یہ ہماری زندگی کا ایک عام مشاہدہ ہے کہ جو شخص کسی کا احسان مند یا شکر گزار ہوتا ہے وہ اس سے بہت نیازمندی اور احترام کے ساتھ ملتا ہے۔جو بندہ اپنے دل سے اللہ کا شکر گزار ہو وہ انتہائی ادب و احترام اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا۔ ایسے بندے کے قیام،رکوع، سجود اور دیگر عبادتوں میں عاجزی اور نیازمندی اپنی انتہا کو چھو رہی ہو گی۔اس انتہائی مختصر بیان سے اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ کا مفہوم یہ سامنے آیا کہ تمام تر تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں جو اس کائنات کے سارے عالمین کا رب ہے۔اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾
رب العالمین کی تعریف اور شکر کے ساتھ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا بصورت الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ذکر بھی قُرآن کے قاری کے لئے بڑی دعوت فکر ہے۔رب العالمین کے ساتھ یہاں صفت ربوبیت سے ہم آہنگ کسی دوسری صفت کا ذکر نہیں ہوا۔یہاں صفت رحمت کا ذکر ایک اہم تکوینی رمز کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔اس مقام پر الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ کے ذکر سے یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ اللہ کی صفت ربوبیت کے اظہار میں رحمت کا غلبہ ہے ۔یہ عظیم بابرکت مقدس سورہ ہمیں یہ آگہی عطا فرما رہی ہے کہ کائنات کی تخلیق، اس کی تنظیم اور تدبیر میں از ابتداء تا انتہاء اللہ کی رحمتیں غالب ہیں ۔ اس کائنات کی ہر تخلیق میں اللہ کی صفت رحمت ساتھ ساتھ کام کر رہی ہے۔اس کے بعد ذکر ہوتا ہے:
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾
پیغمبرِ آخر حضرت محمدﷺ کے قلب اطہر پرنازل ہونے والے کلام کے ذریعے ساری نوع اِنسانی کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ ہے۔دین کا لفظ قُرآن پاک میں 101 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔یوم کا لفظ قُرآن پاک میں 475 مرتبہ نازل ہوا ہے۔یوم آخرت کا ذکر قُرآن سے پہلے نازل ہونے والی اللہ کی تمام کتب میں بھی ہے۔ یہاں مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ کا مطلب ہے قیامت کے دن کا مالک۔وہ دن جب حضرت آدم ؑ سے لے کر اس دنیا میں زندگی بسر کر کے موت کا ذائقہ چکھنے والے آخری اِنسان تک ،سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے، اور اپنے اپنے کاموں کا جواب دینا ہے۔جو حتمی فیصلوں کا دن ہے ۔اس کا مالک کوئی اور نہیں صرف اور صرف اللہ ہے۔فیصلے کے اس دن:
یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ ؕ﴿۶﴾ فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾
اُس دن لوگ طرح طرح کے ہو کر آئیں گے۔ تاکہ اُن کو اُن کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔ تو جِس نے ذرّہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اُسکو دیکھ لے گا۔ اور جِس نے ذرّہ بھر بُرائی کی ہو گی وہ اِسے دیکھ لے گا۔ (سورہ الزلزال،پارہ 30،آیت 6 تا 8)
قدرت کا وضع کردہ جواب دہی کا نظام اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ مکافاتِ عمل کے طور پر ہم اپنے کئی اعمال کا نتیجہ دیکھ لیتے ہیں۔تاہم مکافات ِعمل کے نتیجے میں اپنے کسی برے عمل کا نتیجہ اس دنیا میں ہی دیکھ لینے کا مطلب یہ نہیں کہ اب وہ شخص آخرت میں جوابدہی سے بری الذمہ ہو گیا۔اگر کوئی اِنسان اپنی خطاؤں پر ندامت کی وجہ سے توبہ کر لے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی اور درگزر کی درخواست پیش کرے تو وہ ایک علیحدہ بات ہے۔
آخرت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یَوْمِ الدِّیۡنِ عدل کا اور انصاف کا دن ہو گا۔
عدل اور انصاف کے لئے طاقت کا ہونا ضروری ہے۔یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جو حکومت اور ادارے عدل کے ذمّہ دار ہوتے
ہیں ان میں اتنی طاقت ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے فیصلے نافذ کروا سکیں۔اگر کوئی عدالت یا اس کے پیچھے موجود ریاست اپنے فیصلے نافذ نہیں کروا سکتی تو ایسی عدالت غیر مؤثر سمجھی جاتی ہے اور ایسے معاشرے تنظیم کے بجائے انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر عدلیہ کے پیچھے موجود حکومت طاقتور ہو اور آئین اور قانون کی پابند ہو ،تو بڑی عدالت تو ایک طرف ،چھوٹی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کے لئے بھی ساری ریاست کمر بستہ ہو جاتی ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ سے پہلے اللہ کی رحمت کا ذکر ہو رہا ہے،اس سے پہلے اللہ کی ربوبیت کا ذکر ہوا ۔ہم سب جانتے ہیں کہ پالنے کے لئے شفقت کی ضرورت ہوتی ہے۔مخلوقات کو پالنے کے حوالے سے تو الرحمٰن الرحیم کا ذکر بر محل معلوم ہوتا ہے۔اس کے بعد ذکر ہو رہا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ یعنی فیصلے اور عدل کے دن کا مالک۔عدل کے لئے تو طاقت اور جبر درکار ہے۔
اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے عدل در حقیقت کیا ہے؟ یہ سمجھنے کے لئے ہم اپنے ملک اور بعض دوسرے ممالک سے کچھ مثالیں لیتے ہیں۔
پاکستان میں سڑکوں پر ہر روز بے ہنگم اور غیر منظّم ٹریفک کامشاہدہ ہوتا ہے۔سُرخ اشارے پر نہ رُکنا ہمارے ہاں عام ہے۔ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے نتیجے میں ہر سال بڑی تعداد میں لوگوں کا جاں بحق یا زخمی ہو جانا، دوسرے نقصان اٹھانا ، یہ تکالیف ہمارے ہاں عام سی باتیں تصوّر کی جاتی ہیں۔ آپ کراچی، لاہور، اِسلام آباد،فیصل آباد،کوئٹہ، ملتان وغیرہ سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی فلائیٹ کے ذریعے متحدہ عرب امارات چلے جائیں تو وہاں کوئی ڈرائیور آپ کو سُرخ اشارے کی خلاف ورزی کرتا نظر نہیں آئے گا۔وہاں رات کو تین،چار بجے سُنسان راستوں پر بھی کوئی ڈرائیور سرخ اشارے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔یہ مشاہدات سعودی عرب،یورپ، امریکہ،کینیڈا، آسٹریلیا،جاپان اور قانون کی پابندی کروانے والے دوسرے کئی ممالک میں بھی عام ہے۔
ٹریفک تو محض ایک مثال ہے۔ہم اپنے ملک کے کئی معاملات میں قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
پاکستان میں ایسا کیوں ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دوسرے ممالک ،جن میں قوانین کی پابندی کی جاتی ہے ۔وہ کیوں کر ہوتی ہے؟جواباً
عرض ہے کہ پاکستان میں قانون کے نفاذ کا معاملہ بہت کمزور ہے۔
جن ممالک میں جواب دہی کا نظام بہت سخت ہے وہاں امن وامان کی صورتحال اُن ممالک سے کئی گنا بہتر ہے، جہاں حکومتوں کی کمزوری کی وجہ سے مجرم دندناتے پھرتے ہیں ۔
نظامِ عدل کے مؤثر ہونے کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال اچھی ہونا رحمت ہے یا مصیبت؟
یوم آخرت میں اللہ کے قوانین کی پابندی کرنے والے اِنسانوں کو نوازنا اور اِنسانوں میں سے سرکش و نافرمان لوگوں کو سزا دینا در اصل اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اظہارہی ہے۔
سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات کی ترتیب میں غور کرنے سے واضح ہوا کہ اللہ کا نظامِ عدل،اللہ ہی کی رحمت کا ایک حصہ ہے۔چشِم تصوّر سے دیکھیں ایک طرف تخلیق اور پیدائش سے لے کر اِس دنیا میں زندگی گزارنے کے تمام معاملات کو اللہ رب العالمین سنبھالے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یومِ آخرت میں اللہ کے حضورحاضری ہے ۔ان دو حقائق کے درمیان یعنی اَلۡحَمْدُ لِلہِ کے درمیان اللہ کے اسمائے رحمت الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ کا ذکر ہے۔زندگی کا آغاز ہو یا زندگی کے مختلف مراحل ہوں یا یومِ آخرت کے مراحل ۔سورہ فاتحہ کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ تخلیق کے پہلے مرحلے سے لے کر ابد الآباد تک اللہ کی رحمت تمام مخلوقات پر سایہ فگن ہے۔
سورہ فاتحہ کی ابتدائی تین آیات ،نو الفاظ کے ذریعے اِنسانوں کو اتنی بڑی حقیقت سے آگاہ کرنا فصاحت اور بلاغت کا کتنا بڑا شاہکار ہے؟ یہ معجزاتی بیان ،تعلیم کا یہ انداز، صرف اللہ کے کلام قُرآن کا ہی ہے۔
اللہ کی ربوبیّت، اللہ کی رحمت، اللہ کے خالق اور مالک ہونے کے اعتراف ،مالک یوم الدّین ہونے کا یقین اور اعتراف کا ذکر کرنے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد بندہ کہہ رہا ہے:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔اور اپنی ذات کے لئے ،اپنے دنیاوی معاملات کے لئے ،اپنی زندگی کے قیام اور بقا ء کے لئے اپنی زندگی کی تمام تر ضروریات کی تکمیل کے لئے ،اے اللہ ہم تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ یہ بڑی غور طلب بات ہے دین اِسلام بندے کو اللہ کی بندگی سکھاتا ہے اور اللہ کے اوپر
مکمل انحصار(توکل اور بھروسہ) سکھاتا ہے۔ اللہ کی یہ بندگی خالص بندگی ہے۔اس بندگی میں بندہ واحد و یکتا اللہ کو اپنا معبود تسلیم کرتا
ہے۔
عقیدہ رکھنا بھی اِنسان کی ایک ضرورت ہے۔اس ضرورت کی تکمیل کچھ لوگ کسی نہ کسی علامت مثلاً سورج کو، درخت کو،
معبود بنا لیتے ہیں۔ قُرآن کریم نے پہلی ہی سورہ میں نوعِ اِنسانی کو یہ باور کرایا اور یاد دہانی کرائی کہ کائنات کا خالق و مالک ایک اللہ وحدہ لا
شریک ہے ۔ اور مخلوق کو اس کی عبادت کرنی ہے لیکن یہ عبادت کسی درخت یا آگ کی پوجا شروع کر دینے کی طرح عبادت نہیں ہے۔
بلکہ سورہ فاتحہ کی آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ہمیں بتا رہی ہے۔
اے اللہ ! میں تیرا ہی بندہ ہوں ــــمیں اعتراف کرتا ہوں ــــمیں تیرے آگے سر جھکاتا ہوںــــ تیرے آگے ماتھا ٹیکتا ہوںــــ
تُوہی میرا خالق ہےــــتُوہی میرا مالک ہےــــ تُو ہی میرا معبود ہے۔
سمجھیئے! یہ بندگی محض ایک عقیدے کی ضرورت کی تکمیل نہیں ہے۔سورہ فاتحہ کے ذریعے یہ رہنمائی ہو رہی ہے کہ بندہ اس ہستی کی عبادت کر رہا ہے جو تمام ضروریات کی کفالت بھی کر رہی ہے۔اگر کوئی شخص آگ کو پُوجتا ہے سورج کی پرستش کرتا ہے تو ایسا کرنے سے اس کے بندگی کے تقاضے، غلط ہی سہی ،تکمیل تو ہو جاتی ہے۔لیکن وہ آگ کو اپنا کفیل نہیں بنا سکتا ۔سور ج یا کائنات کا کوئی اور رُکن اس کی ضروریات کی کفالت نہیں کر سکتا ۔
قُرآن یہ بتا رہا ہے کہ اللہ ،نو عِ اِنسانی کو اور تمام مخلوقات کو زندگی گزارنے کے تمام وسائل مہیاء کر رہا ہےَََََ۔ لہٰذا مدد کے لئے بھی ــــاللہ ہی کو پکارنا ہے۔ اپنی ضروریات کے لئے بھی اللہ ہی کی طرف دیکھنا ہے۔ دعا اللہ سے مانگنی ہے ـ رزق اللہ سے مانگنا ہےــــصحت اللہ سے مانگنی ہےــــ خوشیاں اللہ سے مانگنی ہیں اولاد اللہ سے مانگنی ہے۔
عبادت محض ایک سادہ سے عمل کا نام نہیں ہے بلکہ اِسلام کے نقطہ نظر سے عبادت کا مطلب مکمل طور پر تسلیم و رضا ۔اللہ کی مرضی کو مکمل طور پر ماننا اللہ کی مرضی کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرنا۔
سورہ فاتحہ کی پہلی تین آیات میں ہم نے دیکھا کہ اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ کے ساتھ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ کا ذکر آیا اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ سے پہلے الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ کاذکر بڑا معنی خیز ہے ۔
اس طرح چوتھی آیت میں اِنسان کے شعور ،لاشعور میں یہ بات پیوست کی جارہی ہے کہ بندگی محض اللہ کے لئے ہے اور مدد بھی اللہ ہی سے مانگنی ہے۔ یعنی ہمارا معبود بھی اللہ ، ہمارا رازق بھی اللہ، زندگی عطا کرنے والا بھی اللہ،اس دنیا میں زندگی بسر کر کے دوسری دنیا میں منتقل کرنے والا بھی اللہ ہے ۔اللہ نے اِس کے لئے پورا ایک نظام بنایا ہے۔ اور اللہ کا یہ نظام اپنی ہر مخلوق کی تمام ضروریات کی تکمیل کر رہا ہے۔
پہلی تین آیات میں اللہ پر یقین کا اعتراف اور شکر ہے۔ اور اگلی آیت میں اقرار ہے ۔ یا اللہ تُو ہی معبُود ہے اور ہم تیری ہی عبادت کرتےہیں اور تجھی سے ہی زندگی کے تمام معاملات میں مدد مانگتے ہیں۔
اللہ ہی “نافع “ہے اللہ ہی “ضار” ہے ۔
اِنسانی زندگی میں جو میل جول اور دیگر سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ اُن میں دو وجوہات بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اوّل اپنے فائدے کی خواہش یا اپنا کوئی فائدہ نظر آنا۔
سرد موسم کی شدت خواہ جتنی بھی ہو لیکن سب لوگ اپنے کام پر جاتے ہیں۔ اپنے کاروربار کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر
کرتے ہیں ۔ ضروریات کے لئے مقابلے ہوتے ہیں ۔چھوٹے چھوٹے فائدے کے لئے آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مفاد کو پیش
نظر رکھتا ہے۔ ایک آدمی کا اپنے فائدے کے لئے گھر سے نکلنا بتدریج پوری سوسائٹی کو متحرک رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اِس عمل سے پھر نئے نئے اِدارے وجود میں آتے ہیں۔ پہلے لوگ بیل گاڑیوں میں سفر کر کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتے تھے اِس کے بعد
ریل گاڑی بن گئی پھر ہوائی جہاز بن گئے ۔اب جیٹ ہوائی جہاز بن گئے ہیں۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
یہ سب اپنے مفاد کے حصول یعنی نفع کے لئے ہو رہا ہے ۔
اِنسانی زندگی کو متحرک رکھنے کی دوسری اہم وجہ جذبہ خوف ہے۔نقصان کا ڈر ہے۔
اس دنیامیں مادی ترقی کا ایک نہایت اہم محرّ ک اپنی حفاظت کا خیال ہے۔ دشمن کے حملوں کا خوف، موسمی تغیّرات سے لاحق
ہونے والے نقصان کا خوف، دشمن سے بچنے کے لئے دفاع کو مضبوط کرنے کے نتیجے میں نئے نئے آلات بنے۔ دفاعی ضروریات کے لئے بننے والی چیزوں کا استعمال بتدریج عوامی ہو گیا ۔اِس سے اِنسانی معاشروں کو ترقی ملی ۔بنیادی طور پر ان چیزوں کے وجود میں آنے کا سبب خوف تھا ۔نقصان سے بچنے کا احساس تھا۔
کسی کا م کا نفع اِنسان کو متحّرک کرتا ہے کسی نقصان کا اندیشہ اِنسان کو محتاط اور ڈسپلن میں رکھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ایک اسم ہے “نافع” اور ایک اسم “ضار” ہے ۔یعنی نفع اور نقصان اللہ کے ہاتھ ہیں ہے۔
نفع اور نقصان اللہ تعالیٰ کے بنائے گئے نظام کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ تو جب ہم کہتے ہیں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو اِس کا مطلب محض رسمی عبادت نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی تمام ضروریات کا کفیل اللہ ہی کوسمجھتا ہوں۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ جب میں اپنے کسی بھی مقصد کی تکمیل کے لئے نکلتا ہوں تو اے اللہ میں تیری مدد طلب کرتا ہوں اور جب مجھے کسی نقصان کا خوف ہوتا ہے تو اُس وقت بھی اے اللہ میں تیری مدد طلب کرتا ہوں ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ یہ اِقرار ہے کہ یا اللہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور میں نے اپنی تمام ضروریات ، اپنی تمام خواہشات اور تمام بچاؤ کے ذرائع تجھ ہی سے وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ اے اللہ مجھے سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔مجھے بتا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ مجھے
سیدھے راستے پر چلا۔ یہ پانچویں آیت اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ دعا ہے اور یہی وہ آیت ہے جس کی بنیاد پر سورہ فاتحہ کو
دعا بھی کہا جاتا ہے۔
“اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں ۔یا اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا دے۔”قُرآن دعا مانگنے والے پر مزید
واضح کر رہا ہے کہ بندہ اس بات کو بھی سمجھ لے کہ سیدھے راستے پر چلنا کیا ہوتا ہے؟ اس کے اثرات کس طرح ظاہر ہوتے ہیں؟
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ اس سیدھے راستے پر چلا جس راستے پر چلنے والوں پر تو نے اپنا نعام فرمایا۔جن سے تو راضی ہوگیا۔جس راستے پرچلنے والوں پر تیری رحمتیں نازل ہوتی رہیں،تو ان سے خوش ہو گیا۔
سورہ فاتحہ کی یہ آیت واضح اشارہ کر رہی ہے کہ مجھے انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلا۔یہاں بندہ کا مفاد آرہا ہے۔انعام یافتہ
لوگوں کے راستے پر چلنے کی درخواست کی جا رہی ہے،دعا کی جا رہی ہے۔اور اگلی آیت میں خوف سے بچاؤ کا اور تحفظ کا اہتمام ہو رہا ہے۔

غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
ان لوگوں کے راستے پر نہ چلانا ،بھٹکنے نہ دینا۔ جن لوگوں پر سرکشی کی وجہ سے ،انکار کی وجہ سے ،عقل کی بالا دستی کی وجہ سے ،تیرا غضب نازل ہوا۔جنہوں نے غلط فیصلے کئے،فطرت کے قوانین سے ٹکرائے اور قوانین کی خلاف ورزی کی۔اس کے نتیجے میں ان پر تیرا غضب نازل ہوا ۔گمراہ ہونے،بھٹک جانے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ صحیح راستے پر چلے ۔ان کو صحیح راستہ دکھایا گیا لیکن آگے جا کر وہ اپنی عقل کے غلط استعمال کی وجہ سے بھٹک گئے۔کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ ساری زندگی سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر چل رہے ہیں حالانکہ انہوں نے غلط راستہ چنا ہوا ہوتا ہے۔اور ان کی کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔وہ ساری زندگی یہ سمجھتے رہےکہ وہ صحیح ہیں لیکن وہ غلط راستے پر چل رہے تھے۔
سورہ فاتحہ میں غور کرتے وقت یہ سوچیں کہ آج کا مسلمان خواہ وہ پاکستان میں ہویا دنیا کے کسی اور ملک میں۔ اس کا طرز عمل کیا بتا رہا ہے؟ ہم کس راستے پر چل رہے ہیں؟ کیا ہم صدیقین ،صحیحین،صالحین کے راستے پر چل رہے ہیںـــــــ یا بھٹک رہے ہیں!
دراصل سورہ فاتحہ جسے دیباچہ قُرآن بھی کہا جاتا ہے اور جسے دعا بھی کہا جاتا ہے ،ایک یقین ہے، ایک اقرار ہے ،ایک شکر ہے اور ایک دعا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قُرآن پاک کی آیات میں تفکر کرنے ،ان کے معانی اور مفاہیم کو زیادہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ قُرآنی آیات کے انوار سے اور ہماری رُوح کو اور ہمارے قلوب کو منور فرمائے۔سلاسل طریقت کی تعلیمات کا مقصد قُرآن پاک میں غور و فکر کرنا ہے۔ ہم سب کو ہمارے آقا، اپنے مولا،معلِم اعظم حضرت محمد ﷺ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قُرآن پاک کی تلاوت کی توفیق اوراس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،قُرآن پاک کاصحیح فہم اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمائے اور قُرآن پاک کے انوار،تجلیات سے ہمارے وجود کو ،ہمارے قلوب کو اور ہماری رُوح کو منوّر فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔

حوالہ جات:
1۔ آڈیولیکچر سے اقباس اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی
2۔ کتاب “توجیہات” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی۔صفحہ نمبر 116 تا 118
3۔ کتابچہ “سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات” اَز ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔صفحہ نمبر 55 تا 64

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 9 تا 23

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)