سریع الحساب

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49867

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اُولٰٓئِکَ لَہُمْ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَاللہُ سَرِیۡعُ الْحِسَابِ ﴿۲۰۲﴾
ترجمہ: یہی لوگ ہیں جن کے لئے ان کے کاموں کا حصّہ یعنی اجر نیک تیار ہے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
For them there is in store a goodly portion out of that which they have earned. Allah is swift at reckoning.
جس طرح لباس کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی اس طرح جسم بھی روح کا لباس ہے۔ جو روح کا جسم سے تعلق ختم کرنے پر بے جان ہو کر لمحہ بہ لمحہ ختم ہو جاتا ہے۔ کسی بھی قبر کو آپ دو ہفتے کے بعد کھول کر دیکھیں یا ایک مہینے کے بعد کھول کر دیکھیں تو وہاں جسم نہیں ہوتا ہڈی ہوتی ہے۔ سال بھر کے بعد کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوا ہڈیاں بھی نہیں ہوتیں۔ جسم روح کا لباس ہے اورلباس سے تو کوئی سوال جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً ایک آدمی شلوار کرتا ٹوپی وغیرہ بانس کو پہنا کر کھڑا کر دیں اور اس سے آپ سوال جواب کریں یہ لباس کیا جواب دے گا۔ اس لباس کو آپ پھاڑ دیں تب بھی اس کی طرف سے کوئی مدافعت نہیں ہو گی۔ اس میں آگ لگا دیں لباس جل جائے گا لیکن ایک آہ بھی نہیں نکلے گی۔
قبر میں جسم اس لئے رکھا جاتا ہے تا کہ انسان کی بے حرمتی نہ ہو اور یہ قبر میں رکھنے کا رواج کوئی اسلامی نہیں ہے۔ یہودیوں کے زمانے سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے زمانے سے یہ قبریں بنتی چلی آ رہی ہیں۔ تو یہ انسانی عظمت کو خراب نہ کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ دیکھیں اب ایک آدمی مر گیا، اُس کی آپ لاش چھوڑ دیجئے، اب وہ پھولے گا، سڑے گا ،اُس میں بدبو ہو گی، تعفن ہو گا، اُس میں کیڑے پڑیں گے، گِدھ کھائیں گے، کوّے کھائیں گے، چیلیں کھائیں گی، چیونٹیاں لگیں گی، بلی کتے بھیڑیئے، سب آ کر اسے کھائیں گے تو یہ آدمی کی ایک طرح سے بے عزّتی ہو گی۔ تو اس بے عزّتی سے بچانے کے لئے اور انسانیت کا احترام برقرار رکھنے کے لئے یہ قبر کا تصوّر قائم ہوا اور یہ حضرت آدم علیہ السّلام سے چل رہا ہے۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا وہاں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ جسم کو اگر ہم روح کا لباس مان لیتے ہیں تو اس پر کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔ اِس جسم کے اوپر ایک اور روشنیوں کا بنا ہوا جسم ہوتا ہے اور وہ اس جسم سے 9انچ اوپر ہوتا ہے وہ سارا حساب کتاب جزا و سزا سب اس کے اوپر ہوتا ہے، اور وہ چیز جو ہے وہ عالمِ اَعراف میں رہتی ہے۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ روح جب عالمِ اَعراف میں چلی گئی تو قبرستان میں کیا رکھا ہے۔ وہاں تو مٹی کا ڈھیر ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ قبرستان میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ جسم تو مٹی ہو گیا لیکن جس جگہ جسم کو ہم دفناتے ہیں آدمی کا اسی مناسبت سے اَعراف بنتا ہے۔ یعنی زمین سے200 میل اوپر اس کا اَعراف بنتا ہے۔ زمین سے200 میل اوپر ایک اور دنیا آباد ہے۔ بالکل اسی طرح کی جیسے کہ یہ دنیا ہے۔ اس کو ہم عالمِ اَعراف کہتے ہیں۔ اب اس کی مثال یوں ہے کہ ایک پلازہ ہے۔ اس کی200 منزلیں ہیں تو جو زندہ آدمی ہیں مثال کے طور پر وہ پہلی منزل پر رہتے ہیں اور جو مرے ہوئے آدمی ہیں وہ دوسویں منزل پر رہتے ہیں تو اس کا تعلق اس زمین سے قائم ہے کیونکہ پلازہ بغیر زمین کے قائم نہیں رہتا۔
ایک بات اور غور طلب یہ ہے کہ عالمِ اَعراف جو ہے وہ زمین کے کرّہ سے باہر نہیں ہے۔ عالمِ اَعراف زمین کے کرّہ میں ہے تو جہاں اس کو دفن کرتے ہیں کسی مردہ جسم کو تو اس کا وہاں سے ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ اُس گھر سے، اُس قبر سے، لیکن وہ رہتا عالمِ اَعراف میں ہے۔ تو جب ہم کسی قبر پر جاتے ہیں تو ہمارا تعلق اس بندے کے ساتھ عالمِ اَعراف سے قائم ہو جاتا ہے۔ انسان جب قبرستان جاتا ہے، وہاں جا کے بیٹھتا ہے، کچھ پڑھتا ہے، اِیصالِ ثواب کرتا ہے، تو اس کے اندر وہ صلاحیت کام کرنے لگتی ہے جو صلاحیت یہاں سے 200میل اوپر دیکھتی ہے ۔ یعنی اِیصالِ ثواب پہنچانا اِس بات کی نشاندہی ہے کہ انسان کے اندر ایسی صلاحیت کام کر رہی ہے یا ایسی نظر کام کر رہی ہے جو 200 میل اوپر بھی دیکھ سکتی ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تم قبرستان جاؤ تو کہو ’’السّلام علیکم یا اہل القبور‘‘ (اے قبرستان میں رہنے والے السّلام علیکم)۔ ظاہر ہے حضورﷺ کی کوئی بات غلط تو ہو نہیں ہو سکتی۔ بغیر حکمت کے نہیں ہو سکتی۔ تو حضورﷺ نے جب یہ فرمایا کہ قبرستان جا کے کہو ’’السّلام علیکم یا اہل القبور‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر میں رہنے والے لوگ ہمارا سلام سنتے ہیں اور وہ ہمارے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں لیکن تم سن نہیں سکتے۔ لیکن اگر ہم اس صلاحیت کو بیدار اور متحرّک کریں، یعنی لاشعوری صلاحیت کو یا روحانی صلاحیت کو، تو ہم ان کی آواز سن بھی سکتے ہیں اور انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ان سے رابطہ بھی قائم کر سکتے ہیں اور اولیاء کا عام قاعدہ ہے… کشف القبور… تصوّف میں ایک باقاعدہ اصطلاح ہے لوگ جاتے ہیں، آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں، کچھ پڑھتے ہیں جو عالمِ اَعراف میں لوگ ہیں وہ سامنے آ جاتے ہیں۔ قبر کا جو تعلق ہے، جو گوشت پوست کا بنا ہوا جسم ہے، اس سے حساب کتاب نہیں ہوتا بلکہ اس گوشت پوست کے اوپر ایک اور روح کا بنا ہوا جسم ہوتا ہے، مکمل جسم ہوتا ہے جسے جسمِ مثالی کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” روح کی پکار ” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، باب حساب کتاب کیا ہوتا ہے؟ صفحہ نمبر 158 تا 160

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 94 تا 96

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)