غیب

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45766

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ
ترجمہ : اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متّقی ہیں اور متّقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔
Alif Laam Meem. This is the Book (the Quran), wherof there is no doubt, a guidance to those who are Al-Muttaqun who believe in the Ghaib.
غیب اور متّقی:
غیب سے مراد وہ REALITIES یا حقائق ہیں جو اِنسان کے ظاہری مشاہدات سے باہر ہیں۔وہ سب کے سب اﷲ کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں۔ایمان سےمرادہے یقین،یقین وہ حقیقت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے، اس لئے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ اس لئے کہ طبیعت کا تقاضہ پوراکرے ۔متّقی سے مراد وہ اِنسان ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے،ساتھ ہی بدگمانی کو راہ نہیں دیتا،وہ اﷲ کے معاملے میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ اسے دھوکہ نہیں دے سکتا۔وہ اﷲ کو با لکل الگ سے جانتا ہے۔
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنۡدَ اللہِ اَتْقٰكُمْ
اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ باعزّت (مکرّم) وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متّقی ہے۔ (سورہ حجرات ،پارہ 26،آیت 13)
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیۡنَ ﴿۴﴾ اللہ متّقیوں کو دوست رکھتا ہے۔ (سورہ توبہ، پارہ10،آیت4 )
تقویٰ کیا ہے؟ اور متّقی لوگ کون ہوتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں متّقیوں کی صِفات بیان فرماتے ہیں کہ:
الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ وَیُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور صلوٰۃ قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(سورۃ بقرۃ ، پارہ 1،آیت 13)
متّقیوں کی مزید صِفات کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکٰظِمِیۡنَ الْغَیۡظَ وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۚ وَالَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوۡۤا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمْ ۪ وَمَنۡ یَّغْفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ ۪۟ وَلَمْ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَہُمْ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۱۳۵﴾
جو لوگ آسانی میں اور سختی کے مواقع پر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ پینے والے، لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اللہ ان نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے جب ان سے کوئی نا شائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا کون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟۔۔۔اور وہ کبھی دانستہ اپنے کئے پر اسرار نہیں کرتے۔
(سورۃ اٰل عمران ، پارہ 4،آیت 134،135 )

اﷲ تعالیٰ نے قُرآن پاک میں سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتوں میں فرمایا ہے کہ:
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ
اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متّقی ہیں اور متّقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ (سورۃ االبقرۃ ، پارہ1،آیت2،3 )

غیب اور مظاہر:
غیب مظاہر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ غیب کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مذہب یا دین جس چیز کوکہتے ہیں وہ دراصل غیب کی نشاندہی ہے۔ مذہب میں مظا ہر کا تذکرہ ضرور آتا ہے لیکن اس کو کسی بھی دور میں اولیّت حاصل نہیں ہوئی ،اس لئے کہ ہر مادی چیز فنا کے راستے پر گامزن ہے جبکہ خود راستہ بھی فانی ہے۔ ایک خدا کا پرستار جس طرح غیب پر ایمان رکھتا ہے بالکل اسی طرح ایک مادے کا پرستارمادیت کی دنیا پر یقین رکھتا ہے ۔ نہ خدا پرست کو غیب کی دنیا پر ایمان رکھے بغیر چارہ ہے اور نہ مادیّت پرست کو مادے پر ایمان لائے بغیر چارہ ہے ۔ دونوں اپنی ایک انفرادی طرز رکھتے ہیں ۔ اور ان میں یہ چیز مشترک ہے کہ اس طر ز پر ان کا ایمان اور ایقان ہو تا ہے۔ اسی ایمان اور ایقان کو یہ زندگی کہتے ہیں کوئی زندگی ایمان و ایقان کے بغیر ممکن نہیں خواہ وہ زندگی خدا پرست کی زندگی ہو یا مادہ پرست کی ۔

غیب پر یقین:
غیب کی دنیا سے متعارُف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھناضروری ہے۔مذکورہ بالا آیت میں لوحِ محفُوظ کا یہی قانوُن بیان ہوا ہے نوع اِنسانی اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اسی قانوُن پر عمل پیرا ہے، یہ دِن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں جب تک کہ ہم یقین کے ساتھ کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ غیب پر یقین رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اِنسان مشاہداتی نظر کا حامل ہو۔اس کے اندر غیب بین نظر کام کرتی ہو۔جب اِنسان کے اندر مشاہداتی نظر کام نہیں کرے گی اس کے لئے کائنات تسخیر نہیں ہو گی۔
تسخیر:
تسخیر یہ ہے کہ آپ اپنے اختیار کے تحت زمین سے ،سمندر سے،دریاؤں سے ،پہاڑوں سے،چاند سے، سورج سے اور دیگر اجزائے کائنات سے کام لے سکیں…..اوراعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام انگلی سے اشارہ کریں تو چانددوٹکڑے ہو جائے۔حضرت عمر فاروقؓ دریائے نیل کو خط لکھ دیں:
” اگر تو اﷲ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آ جا ورنہ عمر کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے ۔”
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک بکری تھی ۔انہوں نے بکری کوذبح کیا ان کی اہلیہ نے گندم پیس کر روٹی اور گوشت پکایا اور ایک پیالے میں ثرید تیار کیا۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثرید کا پیالہ لے کر سیّدنا حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سیّدنا حضورﷺ نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا :
“اے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھیوں کو جمع کر اور ان کو ایک ایک کر کے میرے پاس بھیج دے۔”
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ساتھیوں کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھیجتے رہے سب نے سیر ہو کر کھایا۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام کھانے والوں سے بس اتنا فرماتے :
“کھاؤاور ہڈی نہ توڑو”
سب لوگ ثرید کھا کر چلے گئے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ہڈیوں کو جمع کیا اور ان پر اپنا دست مبارک رکھ کر کچھ ارشاد فرمایا بکری کان ہلاتی ہوئی کھڑی ہو گئی ۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :
“جابر اپنی بکری لے جاؤ۔”

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بہت بڑا نجومی سیدنا حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پتہ چلا کہ حضورﷺ اس وقت پہاڑ پرتشریف فرما ہیں۔ نجومی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے اپنا تعارف کرایا اور کہا۔ یا رسول اللہﷺ! اگر آپﷺ کے پیر مبارک کے نیچے یہ پہاڑ موم ہو جائے اور پہاڑ کے اوپر پیر کا نقش آ جائے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قدم اٹھایا اور پہاڑ پر رکھ دیا۔ جیسے ہی حضورﷺ نے پیر اٹھا کر پتھر پر رکھا۔ نجومی نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر پہاڑ کی طرف نظر ڈالی۔ پہاڑ پر پیر کا نقش موجود تھا۔ اس طرح جیسے نرم مٹی پر نقش بن جاتا ہے۔ تسخیر کا یہ عمل دیکھ کر نجومی مسلمان ہو گیا۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے زمانے کا یکتا اور منفرد نجومی ہے۔ آسمان پر ایک ستارہ ہے۔ وہ ستارہ جب کسی آدمی کے سر پر براہ راست سایہ فگن ہوتا ہے تو اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ سخت مٹی نرم ہو جاتی ہے۔ میرے حساب سے اس ستارے کو اس جگہ جہاں حضورﷺ کھڑے ہوئے تھے کئی ہزار سال بعد آنا تھا۔ میں نے جب رسول اللہﷺ سے درخواست کی اور حضورﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قدم اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ وہ ستارہ اپنی جگہ سے تیزی سے پلٹا اور لمحوں کے لئے حضورﷺ کے اوپر سایہ فگن ہو کر واپس چلا گیا۔
ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی!
“یا امیرامومنین!میں زمین پر محنت کرتا ہوں ،بیج ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج جل جاتا ہے”۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
“جب میرا اس طرف سےگزر ہو تو بتانا”۔
حضرت عمرؓجب ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی ناجندہی کی۔حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا کہ “تو اﷲ تعالیٰ کے بندے کی محنت ضائع کرتی ہے جب کہ وہ تیری ضروریات پوری کرتا ہے ۔”
اور اس کے بعد زمین لہلہاتے ہوئے کھیت میں تبدیل ہو گئی۔

ایک تسخیر یہ بھی ہے کہ زمین ایک قاعدے اور ضابطے کے تحت ہمیں رزق فراہم کر رہی ہے۔ہم زمین پر مکان بناتے ہیں تو زمین مکان بنانے میں حائل نہیں ہوتی۔زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اُگا سکیں،اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں۔سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں ۔ایک قاعدے اور ضابطے میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں جو ان کے اوپر فرض کر دی گئی ہے ۔چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میوے پکتے ہیں ۔ الغرض کائنات کا ہر ELEMENT اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری یا غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔
ابو بصیر نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ عہدِ اوّل میں کچھ لوگوں نے ساحل عدن پر ایک مسجد تعمیر کی لیکن وہ گر گئی،دوسری بار تعمیر کی گئی لیکن پھر گر گئی ۔اسی طرح کئی بار ہوا ۔سب کے سب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا انہوں نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے واقعہ بیان کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
“قبلہ کی طرف داہنے ہاتھ تھوڑی سی زمین کھودو وہاں پر دو قبریں نکلیں گی ان پر لکھا ہو گا۔___انارضوی واختی حبا ــــــمیں رضوی اور میری بہن حبا اس حالت میں مرے کہ کسی طرح سے بھی ذات خدا میں شِرک کو روا نہ رکھا ۔پس ان دونوں لاشوں کو غسل و کفن دے کر نماز پڑھو اور دفن کر دو اور پھر شوق سے وہاں مسجد بناؤ۔”
چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ مسجد نہ گری۔
ہم جانتے ہیں ساری کائنات اﷲ تعالیٰ نے انسا ن کے لئے تخلیق کی ہے ۔کائنات کے تمام اجزا بشمول اِنسان اور اِنسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک مرکزیّت پر قائم ہیں۔
آئیے ،اِنسان کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگائیں۔روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ ہمارے تصوّرات اور احساسات گوشت پوست کے ڈھانچے کے تابع نہیں ہیں بلکہ رُوح کے تابع ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق رُوح کا عِلم قلیل دیا گیا ہے مگر لامحدود کا قلیل جزو بھی لامحدود ہوتا ہے رُوح لا محدود عِلم ہے اس عِلم کو جاننے والے حضرات نے اس عِلم کو سمجھنے کے لئے اس کی درجہ بندی CLASSIFICATIONکی ہے اور فارمولے بنائے ہیں اور ان فارمولوں سے اپنے شاگردوں کو رُوشناس کرایا ہے۔
باطن روشن عِلماء قُرآن کی تشریح اس طرح کرتے ہیں اگر بندے کے اندر شک اور وسوسہ ہے تو یہ کتاب اس بندے کی راہنمائی نہیں کرتی۔یہ کتاب صرف ان لوگوں پر ہدایت کے راستے کھولتی ہےجوغیب پر یقین رکھتے ہیں۔ آخری کتاب قُرآن کے ارشاد کے مطابق متّقی لوگوں کی نشانی اورصِفت یہ ہے کہ وہ غیب پر یقین رکھتے ہیں غیب سے مراد وہ تمام چیزیں وہ تمام عوامل وہ تمام حالات وہ تمام دنیائیں ہیں جوظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ قانوُن یہ بناکہ غیب کی دنیا سے متعارُف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے۔

یقین کا حصُول:
یہ بات اَمر مسلمہ ہے کہ اَن دیکھی چیزوں پر یقین کی تکمیل نہیں ہوتی۔یہ قانوُن صرف غیب کی دنیا میں ہی نافذ نہیں ہے، ہماری روز مرہ زندگی میں بھی یہ قانوُن نافذ اور جاری وساری ہے۔نوع اِنسانی کی زندگی کا ہر شعبہ اس قانوُن کا پابند ہے۔اس قانوُن کی حدود میں رہتے ہوئے جب ہم زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں یا اپنے افعال ،کردار کا محاسبہ کرتے ہیں تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ یہ کتاب ایسی ہے کہ جس میں کسی قسم کا شک و شبہ وسوسہ یا ابہام نہیں ہے۔ یہ کتاب متّقی لوگوں کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہے پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ متّقی لوگ کون ہیں؟ متّقی وہ لوگ ہیں جن کا غیب پر یقین ہوتا ہے۔ غیب پر ایمان سے اللہ تعالیٰ پر یقین قائم ہوتا ہےاور یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے کہ جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں اور ان کا ایمان ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یہ ہمارا نہیں بلکہ یہ سب اللہ کا ہے۔ خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی وسائل ہمارے لئے موجود ہیں۔ زمین کے اوپر جیسے ماں باپ ہوں، اَولاد ہو، بیوی بچے ہوں، رشتہ دار ہوں، کاروبار ہو۔ یہ سب اللہ کی عنایت ہے۔ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
قرآن کی ان آیتوں سے یہ بات بالکل پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ:
قرآن کو سمجھنے کیلئے قرآن سے ہدایت پانے کیلئے چار باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
1۔ ایک یہ کہ آدمی متّقی ہو۔
2۔ دوسرے یہ کہ اس آدمی کا غیب پر یقین ہو۔ غیب کے یقین کو روحانی لوگ مشاہدہ کہتے ہیں۔ یعنی وہ غیب کو دیکھتا ہو۔
3۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اس سے تعلق قائم ہو اور
4۔ چوتھے یہ کہ جو کچھ اس کو مل رہا ہے یعنی پیدا ہونا، مرنا، جینا، جوان ہونا، اَولاد، کاروبار سب کو وہ منجانب اللہ سمجھتا ہو۔
جب یہ چاروں صفات کسی انسان کے اندر آ جائیں گی اس کو قرآن سے ہدایت ملے گی اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب” کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،موضوع نمبر 29،صفحہ نمبر 42
2۔ کتاب “پیرا سائیکالوجی” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، حوالہ حضور ﷺ کے پیر مبارک کے نیچے پہاڑ نرم ہو گیا۔
3۔ کتاب “نظریہ رنگ و نُور” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع یقین، صفحہ نمبر 100 تا 101
4۔ کتاب “روح کی پکار” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ،موضوع اس کتاب میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے، صفحہ نمبر 263 تا 264

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 24 تا 29

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)