حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49979

بِسْمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَنِّیۡ قَدْ جِئْتُكُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَكُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَكُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ

ترجمہ: میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نشانی لے کر آیا ہوں دیکھو میں کس طرح تمہارے سامنے مِٹّی سے پرندے کی مانند ایک صورت بناکر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے واقعی پرندہ بن جاتا ہے۔
I have come to you with a sign from your Lord,that I design for you out of clay ,as it were, the figure of a bird, and breathe into it, and it becomes a bird by Allah’s Leave;
اللہ تعالی ٰنے اپنے علوم پیغمبروں کو منتقل کئے ہیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے علوم سے فیضیاب ہو سکیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے رُوح پھونکنے کا عمل عطا فرمایا ہے ۔ اس عِلم اور رُوح پھونکنے کے فارمولے سے آپ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے اس آیت میں آپ علیہ السلام کے معجزے کا بیان ہوا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ کے معجزے کے دو حصے ہیں:
حصّہ اول:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا پہلا حصّہ مِٹّی سے پرندے کی شکل بنانا ہے مِٹّی کا ہر ذرّہ نقطہ ہےاس کے اندر حواس موجود نہیں ہیں۔مِٹّی کے بے شمار ذرے مل کر ایک پرندے کا جسم بناتےیعنی بہت سارے نقطوں کو ایک جگہ جمع کر کے اس سے پرندے کی PHYSICAL صورت بناتے تھے ۔
حصّہ دوم:
مِٹّی کے پتلے یا پرندے میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ اڑ جاتا تھا۔ پھونک مارنا رُوح پھونکنے کا عمل ہے۔اللہ تعالیٰ نے رُوح
پھونکنے کے عمل کو امرربی کہا ہےاور رُوح کو امر رب کا ایک حصّہ قرار دیا ہے۔امر رب کی تعریف یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ۔ہو جا ۔اور وہ ہو جاتی ہے۔ (سورۃ یسین)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اَمر ربی یعنی رُوح کا فارمولا بتایا ہے۔کہ امر کے ارادے میں جب کوئی شے آتی ہے تو وہ کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔حضرت عیسٰی علیہ السلام جب امر ربّی کی حیثیّت سے اللہ تعالیٰ کے اذن سے رُوح پھونکنے کا عمل کرتے ہیں تو خود آپ کی رُوح کی روشنیاں جو کہ امر ربی کی روشنی ہے ۔پھونک کے ذریعے مِٹّی کے ذرّوں کے خلاؤں میں بھر جاتی ہے۔اور رُوح کی ہر روشنی چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی روشنی ہے یہ دائرہ یا CIRCLE ہےیعنی اس کے اندر TIME AND SPACE نہیں ہے یہ روشنی ENERGY کا کام کرتی ہے جیسے ہی یہ انرجی مِٹّی کے پتلے یا پرندے میں آتی ہے پرندہ حرکت میں آ جاتا ہے یعنی اس کے اندر رُوح آجاتی ہے اب ہم آسانی کے ساتھ اس آیت کا مفہُوم سمجھ سکتے ہیں۔
اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوۡنُ ﴿۸۲﴾
1۔ اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ :
امر رب یعنی دائرہ یعنی لامحدود یعنی رُوح۔ ارادہ بمعنی قُدرَت ہے۔ یعنی لامحدودیت ہے ۔لا محدودیت میں خدوخال اور DIMENSION یا نقش و نگار نہیں ہوتے اس کا مطلب یہ ہے کہ امر رب کی روشنیاں لا محدود اور لا متناہی ہیں جو لامحدود عالم میں پھیلی ہوئی ہیں ۔
2۔ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا :
جب رب کی نظر ان روشنیوں کو دیکھتی ہے تو نظر کی روشنی کی حدود میں یہ روشنیاں جمع ہو جاتی ہیں ۔نظر کی حدود کو ہی ارادہ کہا ہے ارادہ ان روشنیوں کو جو ہر طرف بکھری ہوئی ہیں اپنی قُدرَت کی حد میں تشکیل دیتا ہے۔ارادہ کی تشکیل رُوح کے خدوخال یا شکل و صورت ہے ۔
3۔ كُنْ فَیَكُوۡنُ :
اس میں شکل و صورت کی ترتیب یعنی رُوح کو اللہ تعالیٰ کا حکم” کُن” حرکت میں لے آتا ہے یہاں تک کہ یہ جب حرکت کرتی ہوئی زمین تک پہنچتی ہے تو اپنے آپ کو دیکھ لیتی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کو اسی فارمولے کے تحت مِٹّی سے پرندہ بنا کر اس میں رُوح پھونکنا سکھائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ بن کر دنیا میں تشریف لائےاور امر رب کے کاموں کا مظاہرہ کیا اور امر رب کے علوم کو عملی طور پر لوگوں کے سامنےپیش کیا تا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صِفات میں غور وفکر کریں۔

لوگوں کے سامنے امر ربی کے DISPLAY میں سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو اَمررَبّی کے ارادہ کا خاکہ پرندہ کی صورت میں بنا کر دکھاتے ہیں ۔اَمرِ رب خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کی رُوح مبارک ہے ۔ اس رُوح مبارک کی نظر اللہ تعالیٰ کو عالم امر میں دیکھتی ہے۔عالِم اَمر میں ہر شے کی رُوحیں یعنی ہر شے کے فارمولے موجود ہیں ۔فارمولے نوع کی DYE یا سانچہ ہیں ۔جیسے آدم علیہ السلام انسان یا بشر کا فارمولہ یا ڈائی ہیں۔اسے ہم NEGATIVE یا خاکہ کہہ سکتے ہیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نظر عالم امر میں پرندے کے خاکے یا فارمولے پر پڑتی ہے وہ اس خاکے کے مطابق مِٹّی سے پرندے کی شکل بنا دیتے ہیں کیونکہ عالم خلق کی ہر شے مِٹّی سے تخلیق کی گئی ہے۔ اس دنیا میں ظاہری نظر رُوح کو نہیں دیکھ سکتی مگر مِٹّی کے قلب میں رُوح کی حرکت کو دیکھ سکتی ہے ۔ مِٹّی کا پرندہ بنانا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ارادہ یا قُدرَت کو ظاہر کرتا ہے جو محدودیت ہے۔اس محدودیت یا مِٹّی کے قالب میں امر ربی کی روشنی ،انرجی یا حکم کا کام کرتی ہے یہ حکم یا انرجی خود حضرت عیسٰی علیہ السلام کی رُوح کی روشنی ہے جو دنیا میں آکر امر ربی کی حیثیّت سے اللہ تعالیٰ کے امر کا ڈسپلے کرتی ہے ۔
مُردوں کو زندہ کرنا اور بیماروں کو شفا دینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے۔ مگر اس معجزے کی روشنیاں آج بھی اس دنیا میں کام کررہی ہیں۔اولیاء اللہ کی کرامتیں پیغمبروں کے معجزوں کی ذیلی شکل ہیں۔تمام تخلیقات کا قانوُن ایک ہی ہے ۔ نظامت تکوین کے لوگ چونکہ تخلیقی قوانین سے واقف ہوتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ خود یہ قوانین پڑھاتے ہیں ۔اس لئے وہ جب چاہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے تخلیق کر لیتے ہیں یہی قانوُن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے میں بھی کار فرما ہے۔
تخلیقی فارمولہ:
اگر کوئی بندہ اس نیابت کو جو اللہ تعالیٰ نے اس کو ازل میں دی ہے اگر تلاش کرنا چاہے تو سب سے پہلے اس کے یقین میں یہ بات راسخ ہونی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے صفتِ رحیمی سے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے ازل میں آدم کو صفت رحیم بھی منتقل ہوئی ہے۔سالک اگر اسم رحیم کا مراقبہ کرے یعنی وہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ اس طرف متوجہ ہو جائے کہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمی کا جزو ہے تو اس کے اوپر تخلیقی علم منکشف ہو جاتے ہیں ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس ہی اسم رحیم کا تذکرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے کیا ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام مٹی کے جانور میں پھونک مار کر اڑا دیا کرتے تھے یا پیدائشی اندھے یا کوڑھی کو
اچھا کر دیا کرتے تھے ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیارات سے اسم رحیم کی صفت کو عملاً جاری فرما دیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے کا تذکرہ کر کے تخلیق کا ایک فارمولہ بیان کیا ہے۔ تخلیقی فارمولہ یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی روح کام کر رہی ہے۔ جب تک انسان کے اندر یا آدم زاد کے اندر روح موجود نہیں ہے، آدم کا وجود ناقابل تذکرہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر اپنی روح پھونک دی تو اس کے اندر حواس متحرک ہوئے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب “معرفتِ عشق ” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی ،باب نہ قتل کیا نہ سولی چڑھا سکے، صفحہ نمبر 39 تا 41
2۔ کتاب ” شرح لوح و قلم ” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، باب تدلیٰ صفحہ نمبر 72

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 151 تا 154

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)