تکوین

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45970

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
قَالُوۡا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الْعَلِیۡمُ الْحَکِیۡمُ ﴿۳۲﴾ قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئْہُمۡ بِاَسْمَآئِہِمْ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ ۙ

ترجمہ:۔ انہوں نے کہا،تو پاک ہے ہمیں کوئی عِلم نہیں مگر( صرف وہ)جو تو نے ہمیں سکھا دیا ،بیشک تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے۔اس نے فرمایااے آدم!انہیں ان کے نام بتلا دے،تو اس نے ان کو نام بتا دئے۔
They (angels) said :”Glory is to You, we have no knowledge except what You have taught us. Verily, it is You, the All Knower, the All Wise. He said: ”O Adam! Inform them of their names,” and when he had informed them of their names.
اللہ تعالیٰ نے قُرآن پاک میں فرمایا ہے کہ :
اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً ؕ میں نے زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب مقر رکیا ہے۔
(سورہ بقرہ، پارہ 1، آیت 30)
حضرت آدم علیہ السلام کو نیابت اور خلافت اس وقت منتقل ہوئی اور وہ مسجود ملائک ٹھہرے جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے اندر رُوح پھونکی اور عِلم الاسماء سکھایا۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کائنات کے انتظامی امور کو سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہو ئے عِلم الاسماء کی روشنی میں ان انتظامی امور کو چلانا، نیابت کے دائرے میں آتاہے۔اِنسان کوبحیثیت خلیفۃ اللہ عِلم الاسماء کی حکمت ،تکوین کے اسرار و رموز اس لئے سکھائے گئے کہ وہ نظامت کائنات کے امور میں نائب کے فرائض پورے کر سکے۔
تکوینی علوم چونکہ براہِ راست خالق کے تخلیقی فارمولوں سے متعلق ہیں اس لئے اِنسان کی حیثیّت اللہ تعالیٰ کے نائب کی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو اپنی نیابت اور خلافت کے منصب پر فائز فرما دیا تو یہ بات از خود یقین بن گئی کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے تمام کائناتی شعبوں میں اِنسان کو تصرف کا حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے عِلم الاسماء کی روشنی میں اِنسان کو کائنات چلانے، کائنات کو متحرک رکھنے اور قائم رکھنے کا اختیار عطا کیا ہے۔نیابت کا یہی اختیار ہے جس کواللہ تعالیٰ نے قُرآن کریم میں اپنی امانت فرمایا ہے۔
نیابت کے تذکرے میں یہ ضروری ہے کہ کائنات کی بنیادی حیثیّت کو سمجھا جائے۔ کائنات جن اصولوں ، قاعدوں اور فارمولوں پر تخلیق کی گئی ہے اور جن قاعدوں ،قوانین پر کائنات چل رہی ہے ان سب امور کے یکجائی پروگرام کا نام تکوین ہے۔
جس طرح ملک کے انتظامی شعبوں کو ADMINISTRATIONکہا جاتا ہے اسی طرح کائناتی نظام کو تکوین کہا جاتا ہے۔ حکمت تکوین پر جب ہم تفکّر کرتے ہیں تو یہ بات زیر بحث آتی ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔
چار شعبے:
رُوحانی ماہرین بتاتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق چا رشعبوں پر مشتمل ہے۔
وسائل کے بغیر تخلیق
حرکت کا آغاز
ترتیب خودشناسی
قضاء و قدر(اللہ تعالیٰ کی مرضی جس طرح اللہ چاہیں)

کائنات کا پہلا مرحلہ اسطرح وجود میں آیا کہ کائنات کی موجودگی میں وسائل کا دخل نہیں ہے۔ بغیر اسباب و وسائل کے افراد کائنات کی تخلیق کے مرحلے کو ابداء کہتے ہیں ۔ یہ کائنات کا آغاز بھی ہے اور کائناتی انتظام کا پہلا شعبہ بھی۔ یعنی کائنات اس طرح وجود میں آئی کہ وسائل زیر بحث نہیں آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کُنْ فرمایا تو کائنات وجود میں آگئی۔

عالم موجودات میں شکل و صورت ،حرکت و سکون کی طرزیں جب نمایاں ہوئیں اور زندگی کے مراحل وقوع میں آنا شروع ہوئے تو کائنات کا دوسرا شعبہ بنا۔ اس شعبے کا نام خلق ہے۔

تیسرا شعبہ تدبیر ہے جس میں موجودات کی زندگی کے تمام اعمال و حرکات ترتیب کے ساتھ مرتّب ہو گئے۔

چوتھا شعبہ تدلیٰ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ افراد کائنات میں انتظامی امور کے تحت قضاء و قدر کی حکمت اور فیصلے مرتّب ہو گئے۔

خلاصہ:
1۔ پہلا شعبہ جہاں تکوین کا آغاز ہوا یہ ہے:
ساری کائنات وجود میں آگئی لیکن اسباب و وسائل کے بغیر، جبکہ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی چیز بغیر وسائل کے وجود میں نہیں آتی ۔زمین کے اوپر پھیلی ہوئی ایجادات اور تخلیقات اور نئی نئی چیزوں پر جب ہم تفکّر کرتے ہیں تو ہمیں کوئی ایک چیز بھی نظر نہیں آتی جہاں وسائل کی محتاجی نہ ہو لیکن خالق کائنات کی تعریف یہ ہے ۔
خالق کائنات اسباب و وسائل کا محتاج نہیں ۔اس کے ارادے اور اختیار سے ازخود وسائل مہیاء ہو جاتے ہیں اور یہ وسائل کائناتی خدوخال اختیار کر کے مظہر بن جاتے ہیں ۔
2۔ دوسرا شعبہ :
دوسرے شعبے میں کائنات میں حرکت کا آغاز ہوا اور کائنات کے افراد کو اس بات کا عِلم حاصل ہوا کہ ان کے اندر حرکت و سکون ہے اور کائنات میں ہر فرد شکل و صورت کا محتاج ہے ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ کائنات وسائل و اسباب کے بغیر موجود ہو گئی ۔ اس کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں نہیں تھیں اور نہ ہی کائنات کے افراد اپنی شکل و صورت سے واقف تھے ۔ ایک حیرت کا عالم تھا اور بس!پھر کائنات میں حرکت کا آغاز ہوا تو موجودات کی زندگی میں ترتیب واقع ہوئی اور موجودات نے یہ جان لیا کہ ان کی انفرادی حیثیّت ہے۔
جب موجودات کے عِلم میں یہ بات آگئی کہ ان کی انفرادی حیثیّت ہے اور ان کے اندر حرکت و سکون کی طرزیں موجود ہیں توانہیں اس بات کا وقوف حاصل ہوا کہ زندگی ایک ایسے دائرے میں بند ہے جہاں اِنسان اور کائنات قضاء و قدر کے فیصلوں کی محتاج ہے۔
تکوین کے عہدے:
جس طرح دنیا میں کسی حکومت یا نظام کوچلانے کے لئے مختلف شعبے اورMINISTRIES قائم کی جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ
نے بھی اپنا نظام چلانے کے لئے با قاعدہ ایک سیکریٹیریٹ قائم کیا ہوا ہے ۔ اس سیکریٹیریٹ میں مختلف وزارتیں ہیں۔ اس نظام کا نام تکوین
ہے اس نظام میں مختلف DEPARTMENTSیاعہدے ہیں ۔ چند اہم عہدوں کے نام کچھ اس طرح ہیں۔
1۔ نجباء 2۔ نقباء 3۔ ابرار 4۔ اخیار 5۔ اوتاد 6۔ مخدوم شاہ ولایت 5۔ صاحب خدمت 6۔ اہل نظامت
7۔ اہل تفصیل 8۔ غوث 9۔ مدار تفہیم 10۔ قطب 11۔ قطب عالم 12۔ قطب تفہیم 13۔ قطب تعلیم 14۔ قطب مدار
15۔ قطب الاقطاب 16۔ کوچک ابدال 17۔ ابدال حق 18۔ ممثلین 19۔ صدر الصّدور

یہ حضرات اپنے عہدے اور عِلم کے مطابق تکوینی امور سر انجام دیتے ہیں عِلم الاسماء سے واقفیت اور تکوینی عہدے پر فائز ہونا اللہ تعالیٰ کا کسی بندے پر فضل و کرم اور انعام ہے۔ سورہ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ایک بندے کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے بندے سے متعارُف کروایا ہے جو نظام تکوین کا رکن تھا۔ عرف عام میں اس بندے کو حضرت خضرعلیہ السلام کہا جاتا ہے۔
تکوینی شعبےADMINISTRATIONAL DEPARTMENTS:
اس دنیا اور دوسری لا شمار دنیاؤں میں چار تکوینی شعبے کام کر رہے ہیں ۔
1۔ شعبہ اول : قانوُن
2۔ شعبہ دوم : علوم
3۔ شعبہ سوم : اجرام سماوی
4۔ شعبہ چہارم : نظامت

ان شعبوں کے انچارج HEAD چار ابدال ہوتے ہیں۔

صدرالصّدُور:
نظامت کے عہدے پر فائز ابدال حق کو صدر الصّدُور کہتے ہیں۔ صدرالصّدُور کو VITO POWER حاصل ہوتی ہے۔ ابدالِ حق قلندر بابا اولیاء اس وقت صدر الصّدُور ہیں۔آپ کا مزار شریف شادمان ٹاؤن نارتھ ناظم آباد کراچی میں مرجع خاص و عام ہے۔سیّدنا حضورﷺنے بطریق اویسیہ حسن اخریٰ کے نام سے مخاطب فرمایا۔ مرتبہء قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملان عرش میں قلندر بابا اولیاء کے نام سے مشہور ہیں۔تکوین ADMINISTRATION کو اﷲتعالیٰ کے بندے چلاتے ہیں ۔حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا فرمان ہے:
٭ ایک کتاب المبین ہے۔
٭ ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوحِ محفُوظ ہیں۔
٭ ہر لوحِ محفُوظ پر80000 حضیرے۔
٭ ایک حضیرے میں ایک کھرب سے زیادہ مُستقِل اور بارہ کھرب غیرمُستقِل نظام آباد ہیں۔
٭ ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔
٭ ہر سورج کے گرد نو،بارہ یا تیرہ سیارے PLANETSگردش کرتے ہیں۔

نظام تکوین کو ﷲتعالیٰ کے مقرب بندے چلا رہے ہیں اس نظام میں فرشتے ان کے HELPING HANDS ہوتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے ایک کائناتی نظام تخلیق کیا اور اس نظام کو چلانے کے لئے اِنسانوں میں سےخلیفہ (نائب) بنائے۔فرشتوں سے کہا کہ جو نظام میں نے بنایا ہے اس کو اِنسان چلائے گا ۔فرشتوں نے کہا آپ نے اِنسان کو نظام کائنات چلانے کے لئے منتخب کیا ہے اِنسان فساد کرے گا خون خرابہ کرے گا۔اﷲتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صِفات کا عِلم سکھایا۔کائنات کے تخلیقی فارمولے سکھائے اور حضرت آدم علیہ السلام سے کہا ،”بیان کر جو کچھ ہم نے تجھے سکھایا ہے”۔اور جب حضرت آدم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو فرشتے دم بخود رہ گئے اور کہا،”بے شک ہم نہیں جانتے تھے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں بتایا ہے”۔
اس کے بعد فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی حاکمیّت قبول کر لی۔اِس اَمر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِنسان کا شرف یہ ہے کہ اُسے وہ عِلم آتا ہوجوعِلم اﷲتعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں سکھایا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس عِلم کو بھلا دیاجس سے ہمارے اَسلاف واقف تھے اور اس میں تفکّر کرتے تھےنتیجہ یہ کہ وہ ساری دنیا کے حاکم تھے۔
قُرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوۃ السلام سے فرمایا:
وَ یَسْـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیۡ یہ لوگ تم سے رُوح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے رُوح میرے رب کے امر سے ہے۔
(سورۃ بنی اسرائیل، پارہ15، آیت 85)
اَمر کی تعریف سورہ یسٰین کی آخری آیات میں اس طرح کی گئی ہے۔
اِنَّمَاۤ اَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوۡنُ ﴿۸۲﴾ اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔
(سورۃ یسین ، پارہ 23،آیت 82)
اِن آیات سے فارمولا یہ بنا کہ آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شے ہے۔ اس کے اندر رُوح ڈال دی گئی تو اسے حواس مل گئے۔ رُوح اللہ کا امر ہے اور اللہ کا امر یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کو کہتا ہے ہو جاتو وہ ہو جاتی ہے۔ فارمولا یہ بنا۔ آدمی پتلا ہے، پتلا خلا ہے،
خلا میں رُوح ہے، رُوح امر رب ہے اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز مظہر بن جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو رُوح اور تخلیقی فارمولوں کا عِلم عطا کیا حضرت شیخ رحمۃاللہ نے ان رموز الٰہیہ کے فارمولوں کو جب نافذ کیا تو مُردہ قبر میں سے باہر نکل آیا۔حضرت شیخ محی الدّین عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ نے لوگوں کی رُوحانی تعلیم و تربیّت کا جو نظام ترتیب دیا، وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام کی معنویت کو تازہ رکھنے کے لئے اور رُوحانی سلاسل بھی سامنے آتے رہے۔ اس وقت دنیا میں رائج رُوحانی سلاسل دو سو کے لگ بھگ ہیں۔ جو مختلف علاقوں اور مختلف افتاد طبع کے لوگوں کے مزاج کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہیں۔ ان رُوحانی تعلیمات کے نظام کو خانقاہی نظام کہا جاتا ہے۔

قلندر کا مقام:
ان بندوں میں سے جو بندے قلندر ہوتے ہیں وہ زماں و مکاں TIME AND SPACE کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں اور سارے ذی رُوح اس کے ماتحت کر دیےجاتے ہیں۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ ان کے تابع فرما ں ہوتاہے۔ لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے وہ اس کو سنتے بھی ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں۔ جن کے بارے میں اللہ کہتا ہے۔
“میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔ میرے ذریعے سنتے ہیں اور میرے ذریعے چیزوں کو پکڑتے ہیں۔”
اِن اَزلی سعید بندوں کی تعلیمات یہ ہیں کہ ہر بندے کا اللہ کے ساتھ محبوبیت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جس میں بندہ اللہ کے ساتھ رازو نیاز کرتا ہے۔

ابدال اور قطب:
اہلِ تکوین میں قطب ،ابدال، اخیار،ابرار، اوتاد، نقباء، غوث وغیرہ شامل ہیں یہ تمام بزرگان ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور معاملا ت کی انجام دہی میں ایک دوسرے کی اجازت کے محتاج ہوتے ہیں۔
قطب لغت میں چکی کی کیل کو کہتے ہیں جس پر تمام چکی چلتی ہے۔ اگر قطب جہاں میں نہ ہوں ۔ تو نظام عالم تباہ و برباد ہو کر رہ جائے اور ارشاد کے معنی راہنمائی کے ہیں۔قطب ارشاد وہ ہے جس سے خلق اللہ کو ہر طرح کا نفع پہنچے۔ خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی۔قطب مدار وہ ہے جو اپنی جگہ سے نہ ہلے اور بذات خود کامل و اکمل ہو۔ مدار کے معنی ہیں گردش یعنی ساری مخلوق اس کی گرویدہ ہو اور اپنے کاموں اور مشکلوں میں اس سے مدد چاہے۔ اسی کو قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں۔

قلندر:
وہ ہے جو تجریدو تفرید میں یکتا و بے پرواہ ہو۔اور عالم کا حال اس پر روشن ہو ، مجذوب بھی ہو اور سالک بھی جیسا کہ بوعلی شاہ قلندرؒ
دوسری جگہ قلندر کی تعریف یہ ہے کہ صرف ضروری عبادات کرے باقی اوقات ذکر و فکر میں گزارے۔

ملامتی:
ملامتی وہ ہے جو کہ تمام فر ائض و نوافل کا پابند ہو مگر لوگوں کی نظروں سے مخفی رہے۔

خضر وقت:
وہ ہے جس پر عِلم لدنّی منکشف ہوں اور اسرا رسے واقف ہو اور جس پر ایک نظر بھی ڈالے ۔ اسے کامل بنا دے۔مثال کےطور پر حضرت خضرعلیہ السلام۔

غوث:
غوث وہ ہے جو بندگان خدا کے معاملات میں ظاہر اور باطن عدل و انصاف فرمائے ان کی یہ شناخت بہت مشہور ہے کہ جب چاہیں اپنے اعضاء جدا کر لیتے ہیں۔

ابدال:
اگر یہ گروہ نہ ہوتا تو تمام عالم مسخ ہو جاتایہ سب ابدال اپنی اپنی خدمت پر مامور ہیں اور انہیں ابدال اس لئے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی ان میں کم ہو جاتا ہے تو اوتاد میں سے کوئی ایک بدل کر ان کی جگہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔

اوتاد:
اوتاد” وند” کی جمع ہے اور اس کے معنی میخ کے ہیں۔ یعنی یہ ایک آہنی میخ کی مانند اپنے مقام پر جمے رہتے ہیں اگرچہ ظاہری و باطنی طور پر ان کا فائدہ نہیں ہوتا لیکن ان کی متعلقہ برکات تمام عالم میں محیط و منتشر رہتی ہیں۔مثال کے طور پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ،حضرت جنید بغدادیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒاور حضرت سری سقطی۔

صوفی ابو الوقت:
صوفی ابو الوقت انہیں کہا جاتا ہے جو کہ وقت پر قادر ہوں۔ یعنی حالت پر قادر ہوں۔ جب چاہیں اسے طاری کریں اور جب
چاہیں اسے دور کر دیں اور ہوش میں آ جائیں ۔ یہ صوفی ابن ا لوقت سے درجے میں اعلٰی ہوتے ہیں ۔ مگر ایسے لوگ اس وقت موجود نہیں
ہیں۔ البتہ اگلے زمانے میں حضرت بایزید بسطامیؒ ان مراتب پر پہنچے ہیں۔ اس زمانے کے صوفی اکثر ابوالوقت ہیں۔

صوفی ابن ا لوقت:
صوفی ابن ا لوقت وہ ہیں جو کہ ظاہر اور باطن کی صفائی رکھتے ہیں اور وقت کے پابند ہوں۔ یعنی جب کوئی حال اس پر باری تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو تو مدہوش و بے ہوش ہو جائے۔ جس طرح کسی کو بخار یا لرزہ چڑھتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر اس کو دور نہیں کر سکتا۔

عارف:
عارف کی بڑی کرامت یہ ہے کہ شریعت پر مستقیم ہوتا ہے۔ ان کا بڑا کشف یہ ہے کہ
(1) طا لبان حق کی استعدا دمعلوم کر کے تربیّت کرے۔
(2) کشف و الہام سےباطنی علوم کے حصول میں اضافہ کرے۔
(3) قلب کی غذا ذکر ،اور رُوح کی غذا عِلم حضوری سے منسلک رہے۔

ولی:
جو شخص سنت و شریعت کا پابند ہو ولی ہے اور جو شخص دائرہ سنت سے خارج ہو اور شریعت نبوی کا پابند نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سیدھے راستے سے مکمل طور پربھٹکا ہوا ہے۔

اہلِ تفرید:
اہلِ تفرید وہ بندہ ہے جو اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے اور ہر وقت یادالہیٰ میں مشغول رہتا ہے۔
اظہارکرامت بھی اولیاء کے اختیار سے خارج ہیں جب تک حکم الٰہی نہ ہو۔ کسی ولی سے کوئی بھی کرامت سرزد نہیں ہو سکتی جب تک حکمِ الٰہی نہ ہو۔ حضرت اما م غزالیؒ احیائے علوم میں لکھتے ہیں کہ قلب کی غذا یاد الہٰی ہے۔ ورنہ دل تاریک ہو جاتا ہے اور اللہ کو یاد کرنے سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔
صححین میں بروایت حضرت معاویہ بن ابی سفیان مذکور ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا۔ کہ میری اُمَّت میں قیامت برپا ہونے تک ایک گروہ حق کو ظاہر کرتا رہے گا اور اگر کوئی انہیں خوار کرنا چاہے یا مخالفت کرنا چاہے گا تو وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا۔

انچارج ہَفت اقلیم:
تمام عالم کو اللہ تعالیٰ نے نظام تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا ہے جو سات) ہفت( اقلیم کہلاتے ہیں۔ چنانچہ باعث تخلیق کائنات حضور اکرم ﷺ کا وہ نائب جس کے انتظام واختیار میں سات اقلیم ہیں شہنشاہ ہفت اقلیم کہلاتا ہے۔سلسلہ تاجیہ کے امام حضور بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ شہنشاہِ ہفت اقلیم کے عہدے پر فائز ہیں۔ آپ کا مزارِ اقدس ناگپور بھارت میں مرجع خلائق ہے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب” بارانِ رحمت” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، باب تکوین ،صفحہ نمبر 433 تا 434
2۔ کتاب ” بارانِ رحمت” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،باب تکوین کے عہدے،صفحہ نمبر 438
3۔ کتاب ” آگہی” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،باب 30 سال پہلے
4۔ کتاب ” خانقاہی نظام” اَز میّاں مشتاق احمد عظیمی، باب رُوح کیا ہے؟ صفحہ نمبر 79 تا 80
5۔ کتاب ” خانقاہی نظام” اَز میّاں مشتاق احمد عظیمی،باب قلندر کا مقام،صفحہ نمبر 92
6۔ کتاب ” خانقاہی نظام” اَز میّاں مشتاق احمد عظیمی،باب اولیا ء اللہ کے درجات،صفحہ نمبر 94 تا 97
7) جنّتTHE PARADISE موضوع 84/7

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 43 تا 51

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)