قانوُنِ قُدرَت

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49871

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مُوۡسٰی ۘ اِذْ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ قَالَ ہَلْ عَسَیۡتُمْ اِنۡ كُتِبَ عَلَیۡكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنۡ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۤئِنَا ؕ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیۡہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنْہُمْ ؕ وَاللہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۴۶﴾

ترجمہ: کیا تم نے غور کیا جب بنی اسرائیل کے سرداروں نے موسیٰؑ علیہ السلام کے بعد اپنے ایک نبی علیہ السلام سے کہا آپ ہمارے لئے ایک حکمران مقرر کر دیجیے تاکہ ہم اس کے حکم پر اللہ کی راہ میں جنگ کریں اس پر اس نبی نے پوچھا ایسا نہ ہو کہ تم کو جنگ کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو وہ بولے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں جبکہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دیے گئے ہیں لیکن ہوا یہی کہ جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک چھوٹی سی تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا تھا۔
Have you not thought about the group of the children of Israel after (the time of) Musa (Moses)? When they said to a Prophet of theirs,”Appoint for us a king and we will fight in Allah’s way.’’ He said,’’Would you then refrain from fighting if, fighting was prescribed for you?’’ They said ‘’ Why should we not fight in Allah’s way while we have been driven out of our homes and our children? But when fighting was ordered for them, they turned away, all except a few of them. And Allah is All-Aware of the Zalimun.
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریبا تین سو سال بعد عمالقہ فلسطین کے اکثر حصّوں پر قابض ہو گئے تھے اور دِن بدِن انکی ایذارسانیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں ۔ان لوگوں نے وہ صندوق جس کے اندر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرّ کات محفُوظ تھےوہ بھی بنی اسرائیلیوں سے چھین کر اپنے ملک عمالقہ پہنچا دیئے تھے۔اس وقت حضرت سیمو ئیل علیہ السلام ان کے اندر پیغمبر موجود تھے جو بوڑھے ہو چکے تھے۔بنی اسرائیل بار بار اپنے پیغمبر سے ایک ایسے امیر کو مقرر کرنے کا اصرار کرتے جو ان کے ساتھ مل کر عمالقہ سے لڑائی کرے اور ان کے کھوئے ہوئے ملک کے حصوں کو ان سے آزاد کرائے ۔ مگر جب حضرت سیموئیل علیہ السلام نے ان پر ایک امیر مقرر کر دیا ۔ اورجہاد کرنے کا حکم دیا تو سوائے چند آدمیوں کے سب نے جہاد کرنے سے انکار کر دیا۔سب سے پہلے تو ان کے ذہنوں میں اس امیر جس کا نام طالوت تھا کو بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیاکہ یہ شخص ہمارا بادشاہ بننے کے لائق نہیں۔پھر جب حضرت سیموئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ انہیں بادشاہ کی طرف سے بادشاہی دی گئی ہےتو اس کا ثبوت اور دلیل پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کی نشانی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبّرکات کا صندوق ان کے پاس فرشتوں کے ذریعے پہنچانے کا اہتمام کیا گیا جس کا ذکر سورہ بقرۃ کی اس آیت میں موجود ہے۔
آخر کار تھوڑے سے لوگ طالوت کے ساتھ مل کر جالوت کے لشکر سے جنگ کرنے پر تیار ہو گئے ۔طالوت کے لشکر میں لڑنے والوں میں حضرت داؤد علیہ السلام بھی تھے ۔ اس وقت تک آپ علیہ السلام پیغمبری کے عہدے سے سرفراز نہیں کئے گئے تھے ۔اس جنگ میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت مارا گیا۔اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکومت اور پیغمبری عطا فرمائی۔
قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوۡفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾ داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا۔ اور اللہ نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے پر چڑھائی اور حملہ کرنے سے نہ ہٹاتا رہتا تو کرہ ارض تباہ ہو جاتا لیکن اللہ اہل عالم پر بڑا مہربان ہے۔
(سورہ بقرہ، پارہ3، آیت251)
حکمت:
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنّت بیان کر دی ہے۔ کہ قُدرَت کا قانوُن یہ ہے کہ جب نا فرمان لوگوں میں کسی ظالم اور جابر حکمران کے ظلم و تشدد کی انتہا ہو جاتی ہے ۔جس کی وجہ سے زمین پر فساد اور خون ریزیاں بڑھ جاتی ہیں تو خلق خدا کی حفاظت کے لئے اور زمین کو ویران کھنڈرات میں تبدیل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کوئی دوسری قوم پیدا کر دیتے ہیں ۔جس کے ذریعے ظالم اور جابر لوگوں سے دنیا کو نجات مل جاتی ہے ۔حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے اس سیلاب کی روک تھام کی۔اور لوگوں کے اوپر آپ علیہ السلام کو حکمران مقرر کر دیا۔ لوگوں کی معاشرتی اور رُوحانی اصلاح کے لئے آپ علیہ السلام کو آسمانی کتاب زبور عطا کی گئی۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 98 تا 99

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)