بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
مکمل کتاب : نُورِ ہدایت
مصنف : آصف جاوید عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45754
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے۔
In the name of Allah The Most Compessionate, The Most Merciful.
آغاز اللہ کے نام سے:
لوحِ محفُوظ کا قانوُن یہ ہے کہ جب کوئی فَرد کسی دوسرے فَرد سے رُوشناس ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں اُس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اِس طرح دو افراد میں ایک فَرد اثر ڈالنے والا اور دوسرا فَرد اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اِصطلاح کے لحاظ سے ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام حسّاس اور دوسرے کا نام محسُوس رکھتے ہیں۔
حسّاس محسُوس کا اثر قبول کرتا ہےاور مغلُوب کی حیثیّت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر زیدجب محمود کو دیکھتا ہے تو محمود کے متعلق اپنی معلومات کی بناء پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ یہ رائے محمود کی صِفت ہے جس کو بطور احساس زید اپنے اندر قبول کرتا ہے یعنی اِنسان دوسرے اِنسان یا کسی چیز کی صِفت سے مغلُوب ہو کر اور اس چیز کی صِفت کو قبول کر کے اپنی شکست اور محکومیّت کا اعتراف کرتا ہے۔
یہاں آ کر اِنسان ، حیوانات، نباتات ، جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور اِنسان کی افضلیّت گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہو گیا کہ آخر اِنسان کی وہ کون سی حیثیّت ہے جو اس کی ا فضلیّت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیّت کو حاصل کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟انبیاء اس حیثیّت کو حاصل کرنے کا اہتمام اِس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے تو اُس چیز کےاور اپنے درمیان کوئی رشتہ، براہِ راست DIRECTLYقائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ اُن کی طَرزِ فِکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالِک اللہ تعالیٰ ہے ۔کسی بھی چیز کا رشتہ ہم سے براہِ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفتCARE OF ALLAH ہے۔
رفتہ رفتہ اُن کی یہ طَرزِ فِکر مستحکم ہو جاتی تھی ۔ اُن کا ذہن ایسے رُجحانات پیدا کر لیتا تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب
ہوتے تھے تو اُس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے بیشتر یہ احساس عادت کے طور پر ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہِ راست DIRECTکوئی تعلق نہیں رکھتی اس چیز کا اور ہمارا واسطہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔
جب اُن کی طَرزِ فِکر یہ ہوتی تھی تو اُن کے ذہن کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیّت محسُوس کے
اُن کا مخاطب اور مدِّ نظر قرار پاتا تھا اور قانوُن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی صِفات ہی ان کااحساس بنتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی صِفات اُن کے ذہن میں ایک مُستقِل مقام حاصل کر لیتی تھیں۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ اُن کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صِفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔ یہ مقام حاصل ہو جانے کے بعد اُن کے ذہن کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی صِفات کی حرکت ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ کی صِفات کی کوئی حرکت قُدرَت اور حاکمیّت کے وَصف سے خالی نہیں ہوتی۔ چنانچہ اُن کے ذہن کو یہ قُدرَت حاصل ہو جاتی تھی کہ وہ اپنے اِرادوں کے مطابق موجوُدات کے کسی ذرّہ کسی فرد اور کسی ہستی کو حرکت میں لا سکتے تھے۔
بسم اللہ شریف کی باطنی تفسیر اس ہی بنیادی سبق پر مبنی ہے۔ اولیائے کرام میں اہلِ نظامت (اللہ تعالیٰ کی ADMINISTRATIONکے کارندے) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ذہن عطا کیا جاتا ہے اور قُربِ نوافِل والے اولیائے کرام اپنی ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعے ایسے ہی ذہن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قُرآن کریم کی ہرسورت سے پہلے بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی صِفات کا مظاہرہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی لاتعداد ،بے شمار صِفات ہیں۔اِن صِفات کا ایک تعارُف اللہ تعالیٰ کے اسماء کے ذریعے ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی صِفات کتنی ہیں اس کا عِلم تو اللہ ہی کو ہے۔تاہم اللہ تعالیٰ کے معروف صِفاتی اسماءکی تعداد ننانوے ہے۔یہ ننانوے اسماء یا تو قُرآن کی آیات میں آئے ہیں یا پھر قُرآن پاک کی آیات سے اَخَذ کئے گئے ہیں۔
ہادی عالم، معِلم اعظم ،حضرت محمد ﷺ نے اپنی اُمَّت کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر کام کاآغاز اللہ کے نام سے کیا جائے بسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ قُرآن کریم کی ایک آیت کا جزو بھی ہے۔
اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیۡمِ ﴿ۙ۳۰﴾
وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
(سورہ نمل ،پارہ 19،آیت 30)
اس متبرک جملے میں تین اسماء کا ذکر ہے ۔ایک خالق کائنات کا ذاتی نام اللہ اور دوصِفاتی نام رحمٰن اور رحیم۔ عربی زبان اور ادب کے ماہرین نے اسم اللہ کی کئی توجیہات بیان کی ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ اسم “اللہ”، “الٰہ” یعنی “معبُود” کے ساتھ “اَل ” کے اضافے کے ساتھ بنا ہے یعنی اَل + الٰہ = اللہ
قُرآن پاک کے ذریعے یہ آگہی ملتی ہے کہ اس کائنات کے خالق و مالک وحدہ لاشریک نے اپنی ذات کے لئے خاص طور پر یہی
اسم ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ کے نبی حضرت موسیٰ ؑ جب کوہِ طُور پر تشریف لے گئے تو وہاں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:
اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِیۡ ﴿۱۴﴾
بیشک میں ہی اللہ ہوں ۔میرے سوا کوئی معبُود نہیں ،تو میری عبادت کِیاکرو اور میری یاد کے لئے صلوٰۃ قائم کرو۔
(سورہ طہٰ،پارہ 16، آیت 14)
ظہورِ اِسلام اور نزوُلِ قُرآن سے پہلے کے اَدوار میں یہ نام “اللہ” عرب میں معبُود کے مفہُوم میں ہی معروف و مشہور تھا۔ اسم
“اللہ” ہمیشہ اس ہستی کے لئے بولا گیا جو اس کائنات کا خالق اور مالک ہے ۔اہلِ عرب میں سے جو لوگ شِرک میں مبتلا تھے اُنہوں نے کئی کئی معبُود بنا رکھے تھے ۔وہ اپنے شِرک کے باوجود اس کائنات کے خالق اور منتظم “اللہ” ہی کو مانتے تھے ۔اِس حقیقت کو قُرآن نے کئی مقامات پر بیان کیا ہے:
وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤْفَكُوۡنَ ﴿۶۱﴾
اور اگر ان سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کِیا۔اور سورج چاند کو کس نے تمہارے زیرِفرمان کِیا تو کہہ دیں گے اللہ نے۔تو پھر یہ کہاں اُلٹے جا رہے ہیں۔
(سورہ العنکبوُت،پارہ 20،آیت 61)
آگے ارشاد ہوتا ہے:
وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنۡۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ ؕ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ ؕ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿٪۶۳﴾
اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے برسایاپھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد کس نے زندہ کِیا تو کہہ دیں گے اللہ نے۔کہہ دو کہ اللہ کا شکر ہے لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے۔
(سورہ العنکبوت،پارہ 20،آیت 63)
قُرآن کی تلاوت کے آغاز میں اور دنیا کے دوسرے کاموں کی شروعات میں اللہ کے اسماء رحمٰن اور رحیم کا واسطہ لانا نہایت اہم نقطہ ہے۔
رحمٰن اور رحیم دونوں اسماء کا مصدر ROOT WORD “رحم” ہے۔اب بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی ایک ہی صِفت یعنی رحمت کو دو مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔زبان کی فصاحت اور بلاغت سے بہرہ مند ایک عرب کو یا عربی زبان و ادب سے بخوبی واقف کسی شخص کو اس جملے کے مفہُوم کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی لیکن عربی نہ جاننے والے افراد کے لئے اس جملے کا ترجمہ کرتے وقت اس کے مفہُوم کی منتقلی کا اہتمام ضروری ہے۔
اگر اس متبرک جملے کاسیدھا لفظی ترجمہ کیا جائے تو یہ کچھ اس طرح بنتا ہے ۔اللہ کے نام سے جو رحم والاہے اور رحم کرتا ہے۔
ہمارے ہاں الرحمٰن الرحیم کا ترجمہ عام طور پر بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا کیا جاتا ہے اور اُردُو دان طبقوں کی اکثریت میں رائج یہ
ترجمہ اس مقدس اور متبرک کلمے کا وسیع تر مفہُوم پیش کرنے سے قاصر ہے ۔رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صِفت رحمت کا اظہار ہیں ۔ان دونوں اسماء کا بنیادی لفظ ایک ہی ہےیعنی “رحم” یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ صِفت رحمت کی ایک دفعہ بہت زیادتی کے ساتھ بصورتِ رحمٰن ،ذکر کے بعد اب اسی صِفت کا بیان رحیم کے لفظ کے ساتھ کیوں کیا گیا ہے؟
قُرآن ایک صِفت کو ایک ہی جگہ دو مختلف انداز سے بیان کے ذریعے در اصل ایک بہت بڑی حقیقت سے اِنسان کو آگاہ کر رہا ہے۔
اِنسان کو ملنے والی آگہی کا فطری نتیجہــــایمان کی پختگی،معاملات دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قُدرَت کی مدد پر مکمل بھروسے ،جدوجہد ِمسلسل کے لئے عزم و توانائی ،کامیابیوں اور ناکامیوں پر درست ردِّعمل کا اظہار ،اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے احساس کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ اس مختصر جملے میں بندگی اور دنیا داری کے معاملات کس طرح سموئے ہوئے ہیں ۔عربی زبان میں کسی اسم کا کوئی معنی ہوتا ہے اور اس اسم کا طرزِ بیاں دراصل اس کی کیفیّت کا اظہار ہوتا ہے۔ان کیفیات کا اظہار اوزان کے ذریعے ہوتا ہے ۔
فَعَلانْ اور فعیل دونوں مبالغے کی صیغے ہیں۔عربی زبان میں اس مبالغے کا مطلب ہے کسی صِفت کا بہت زیادہ ہونے کا اظہار۔ فَعَلانْ کے وزن پر جو بھی اسم ہو گا وہ اپنی صِفت میں بہت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش و خروش کی کیفیّت کو بھی ظاہر کرے گا۔فعیل کے وزن پر جو اسم ہو گا وہ اپنی صِفت میں بہت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ استقلال اور پائیداری کی کیفیّت کو بھی ظاہر کرے گا۔ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ کے مفہُوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اِنسان اپنی محدود عقل سے اور خود اپنے جذبات اور احساسات کے مشاہدات سے یہ اَخَذ کرتا ہے کہ کسی کام کو شروع کرتے وقت لوگ اکثر بہت پرجوش اورENTHISIASTIC ہوا کرتے ہیں۔سکول ،کالج، یونیورسٹی میں تعلیم کی ابتداء ہو،کیرئیر کی شروعات ہو، کسی مقابلہ کی تیاری ہو ،نئی نئی شادی ہوئی ہو،اولاد کی خوشی ملی ہو،یا پھر زندگی کے دیگر معاملات۔ابتداء میں جوش و خروش کی جو حالت ہوتی ہے رفتہ رفتہ اس میں کمی آتی جاتی ہے ۔ بعد میں بڑی بڑی باتوں کو بھی اِنسان عام سی باتیں خیال کرنے لگتا ہے۔
یہاں اس مختصر لیکن انتہائی بلیغ جملے کے ذریعےاِنسان کو بہت کچھ سمجھایا جا رہا ہے۔ رحمت کا ذکر فَعَلانْ کے وزن پر کر کے بتایا جا رہا ہے کہ الرحمٰن کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے رحمت کی بہت زیادتی کے ساتھ یہ ساری کائنات تخلیق فرمائی اور پھر رحمت کا ذکر فعیل کے وزن پر کر کے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ الرحیم کی بہت زیادہ رحمت ایک اِستقلال اور تسلسل کے ساتھ ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔یعنی یہ نہیں کہ جوش وخروش میں آکر ایک کام کر لیا پھر جیسا کہ اِنسانوں میں عام طور پر ہوتا ہے کہ اس جوش وخروش میں بتدریج کمی آنے لگی۔اللہ کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ اللہ رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی۔اللہ کی رحمت میں بہت زیادہ جوش و خروش ہے ۔وہ مُستقِل اور پائیدار ہے ان مفاہیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ کا مجموعی مفہُوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے اَحد اور حقیقی معبُود، اللہ کے نام سے جِس کی بہت زیادہ رحمت نے بہت جوش کے ساتھ تخلیق کیا اور جس کی یہ بہت عظیم نعمت ازل تا ابد ساری کائنات میں جاری و ساری ہے، میں اپنے کام کا آغاز کرتا ہوں۔
ان مفاہیم کے ساتھ غور کریں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چار یا پانچ لفظی جملہ اس کائنات کے خالق و مالک، اللہ کی واحدانیّت و
خالقیّت کا اقرار بھی ہے اوراس میں اللہ کے اسمائے رحمت کو واسطہ بھی بنایا گیا ہے۔یہ جملہ برکتوں اور رحمتوں کے لئے ایک دعا بھی ہے۔
جب ہم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھتے ہیں تو دراصل اللہ کی بندگی کا اقرار کرتے ہوئے اپنے کاموں میں اس کے
اسمائے رحمت کا واسطہ لاتے ہیں۔ اس سے حفاظت،برکت اور صحت مانگتے ہوئے،اپنے کام یا اپنی کوششوں کے معنی بر خیز نتیجے اور عافیت
کی دعا کرتے ہیں اور یہ سب نکات رحمت کے اجزاء ہی تو ہیں۔
آئیے اپنی دعاؤں کا آغاز، اپنی تعلیم کا آغاز، اپنے کاموں کا آغاز ، اپنے فہم کا آغاز،اپنے ادراک کا آغاز ، اپنے وجدان کا آغاز،اپنےانجام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھکا کر دعا سے کریں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَللّٰھُمَّ فَارِجَ الْھَمِّ کَاشِفَ الْغَمِّ مُجِیْبَ دَعْوَۃِ الْمُضْطَرِّیْنَ رَحْمٰنَ الدُّنْیاَ وَالْآخِرَۃِ وَرَحْیْمَھُمَا اَنْتَ تَرْحَمْنِی فَا رْحَمْنیِ بِرَ حْمَۃٍ تُغْنِیْنیْ بِھَا عنْ رَحْمَتِہِ مِنْ سَوَاک
ترجمہ: اے اللہ دل کے فکر کو دور کر دینے والے غم کو کھول دینے والے اے بیقراروں کی پکار سننے والے اے دنیا و آخرت میں رحمت فرمانے والے (رحمٰن) اور دونوں جہانوں میں رحم کرنے والے(رحیم) مجھ پر تو تُوہی رحم فرمائے گا۔تُو مجھ پر رحم فرما۔ایسی رحمت فرما جو تیرے سوا سب سے بےنیاز کر دے۔آمین یا رب العالمین
حوالہ جات:
1۔ کتاب “لوح وقلم” اَز حضور قلندر بابا اولیاء، باب اسم ذات
2۔ کتابچہ “سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات” اَز ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی ، باب چوتھا نکتہ ،صفحہ نمبر 52 تا 55
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 4 تا 8
نُورِ ہدایت کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔