انتقال کے بعد۔۔۔؟
مکمل کتاب : نُورِ ہدایت
مصنف : آصف جاوید عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=46012
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ثُمَّ بَعَثْنٰكُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوۡنَ ﴿۵۶﴾
ترجمہ: پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تم کو ازسر نو زندہ کر دیا تا کہ احسان مانو۔
Then We revived you after your extinction, that ye might give thanks.
“اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا دل دھڑکنا بند ہو گیا ہے اور میں اپنے جسم سے پھسل کر باہر نکل رہی ہوں …. پہلے میں فرش پر پہنچی، پھر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگی، یہاں تک کہ میں ایک کاغذ کے پرزے کی طرح اڑتی ہوئی چھت سے جا لگی….وہاں سے میں صاف دیکھ رہی تھی کہ میرا جسم نیچے بستر پر پڑا ہوا ہے اور ڈاکٹر اور نرسیں اس پر اپنی آخری تدبیریں آزما رہے ہیں ….ایک نرس نے کہا ‘‘اوہ خدایا ! یہ تو گئی’’….اور دوسری نرس نے میرے جسم کے منہ سے منہ لگا کر اسے سانس دلانے کی کوشش کی، مجھے اس نرس کی گُدی پیچھے سے نظر آرہی تھی اور اس کے بال مجھے اب تک یاد ہیں …. پھر وہ ایک مشین لائے جس نے میرے سینے کو جھٹکے دئیے اور میں اپنے جسم کو اچھلتا دیکھتی رہی….”
یہ الفاظ ہیں ایک خاتون کے جو دل کے دورے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھیں ۔موت کے قریب وہ جن لمحات و کیفیات سے گزریں ان کیفیات کو اپنے تئیں بیان کرنے کی کوشش کی۔
برطانیہ، امریکا اور آسٹریلیا کے 15 ہسپتالوں کے 2060 مریضوں کو ایک ریسرچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔ سائنسدانوں کو ایسے شواہدملے، جہاں مریضوں نے طبی موت کے تین منٹ بعد تک حقیقی زندگی کے تجربوں کو شیئر کیا انہوں نے موت کے بعد اس موقع پر ہونے والے واقعات کو بالکل درست انداز میں بیان کیا۔
رضاکاروں میں ایک شخص نے اپنا تجربہ بیان کیا۔ اسے دل کے دورے کے دوران ڈاکٹر اور نرس دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مریض کا کہنا تھا کہ وہ کمرے کے کنارے سے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوشش کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک SUNYکے اسٹنٹ پروفیسر DR. SAM PARNIA کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ دل کے رک جانے کے بعد دماغ کام نہیں کر سکتا ، لیکن اس معاملے میں شعور موت کے تین منٹ کے بعد تک برقرار رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس شخص نے اس کمرے میں ہونے والی تمام سر گرمیاں بیان کیں جس میں اہم ترین بات مشینوں کی دو بیپ کی آوازوں کے حوالوں سے بتائیں جن سے ہمیں اندازہ ہوا کہ موت سے لیکر واپس زندہ کیے جانے کا وقت تین منٹ تھا۔پارنیا کے مطابق ان کی معلومات بظاہر کافی قابل اعتماد ہیں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا وہ واقعی اس کمرے میں ہوا تھا۔
ایک برطانوی ٹیم نے چار سال تک کے دل کے امراض کے مریضوں کا مطالعہ کیا اس دوران حاصل کردہ نتائج کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔ ان کی حاصل کردہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق تقریبا چالیس سے زائد مریضوں کا کہنا تھا کہ جب انہیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا اس وقت بھی ان میں کسی نہ کسی طرح کا شعور تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دل کی حرکت رک جانے کے بعد دماغ بیس سے تیس سیکنڈ کے اندر ہی کام کرنا بند کردیتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا شعور ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔تاہم اس نئے مطالعے کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے جہاں دل کے مریضوں نے تین منٹ تک حقیقی زندگی کے تجربات بیان کئے۔ ان ہی میں سے ایک ابتداء میں بیان کیا گیا ہے ۔
شعور کیا ہے؟
بات آگے بڑھانے سے پہلے اگر ہم یہ بھی سمجھ لیں کہ شعور کی تعریف دراصل سائنسی بنیادوں پر ہے کیا؟اب تک شعور پر کی جانے والی تحقیقات کے مطابق اپنے آپ سے باخبر ہونے کو یعنی ہوش و حواس میں ہونے کو شعور میں ہونا کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے CONSCIOUSNESS کہتے ہیں ۔ جبکہ طب و نفسیات میں اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ”شعور دراصل عقل کی وہ کیفیت ہے جس میں حِس، خود آگاہی، دانائی پائی جاتی ہو اور ذاتی اور ماحولی حالتوں میں ایک ربط قائم ہو۔”
یہاں شعور کا بیان اس لئے ضروری تھا تاکہ ہم یہ واضح کرسکیں کہ شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ انسان کا باطن یعنی اس کی روح دراصل اس کا شعور ہے ۔
کیا روح شعور ہے؟
اب تک سامنے آنے والی تمام مطالعاتی تحقیقات میں مختلف مقامات پر مختلف افراد نے جو کیفیات بیان کی ان میں سے چند بطور خاص اہمیت رکھتی ہیں ۔
1۔ تاریک سرنگ
2۔ جسم سے علیحدگی
3۔ مرے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کو دیکھنا
4۔ چوتھے ایک نورانی وجود
5۔ پانچویں اپنی زندگی کے گزرے ہوئے واقعات کانظارہ
تاریک سرنگ سے گزرنے کے تجربے کو کسی نے یوں تعبیر کیا ہے کہ میں ایک تاریک خلا میں تیر رہا تھا، کسی نے کہا کہ یہ ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا اور کسی نے اسے اندھیرے غار کا نام دیا ہے۔ میں اس میں نیچے بیٹھیے جارہا تھا کسی نے اسے ایک کنوئیں سے تعبیر کیا ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ وہ ایک تاریک وادی تھی، کوئی کہتا ہے کہ میں اندھیرے میں اوپر اٹھتا چلا گیا۔مگر یہ بات سب نے کہی ہے کہ ہمارے الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں ، جس مشاہدے کو تمام افراد نے بڑی حیرت کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یہ تھا کہ وہ
اپنے جسم سے ا لگ ہوگئے۔
جسم سے باہر آنے کی اس حالت کو بعض افراد نے اس طرح تعبیر کیا ہے کہ ہم ایسے نئے وجود میں آگئے تھے جو جسم نہیں تھا، اور بعض نے کہا کہ وہ بھی ایک دوسری قسم کا جسم تھا جو دوسروں کو دیکھ سکتا تھا مگر دوسرے اسے نہیں دیکھ سکتے تھے۔اس حالت میں بعض افراد نے نظر آنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں سے بات کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ لوگ ان کی آواز نہ سن سکے اور ہم اس بے وزنی کے عالم میں تیرتے رہے بلکہ اگر ہم نے کسی چیز کو چھونے کی کوشش کی تو ہمارا وجود اس شے کے آر پار ہوگیا۔بہت سوں نے یہ بھی بتایا کہ اس حالت میں وقت ساکت ہو گیا تھا اور ہم یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہم وقت کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں ۔
بعض ڈاکٹروں نے مریضوں کے ان بیانات اور تجربات پر یہ خیال ظاہرکیا کہ بعض منشیات اور دواؤں کے استعمال سے بھی اس قسم کی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں جن میں انسان اپنے آپ کو ماحول سے الگ محسوس کرتا ہے۔ بعض اوقات اس کا دماغ جھوٹے تصورات کو مرئی شکل دے دیتا ہے۔ ایسے میں اسے بعض پرفریب نظارے HALLUCINATIONS نظر آنے لگتے ہیں ، ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان افراد کو اسی قسم کی کسی کیفیت سے سابقہ پیش آیا ہو لیکنDR. RAYMOND MOODYنے کئی لوگوں کے بیرونِ جسم تجربات پر مبنی اپنی مشاہدا تی رپورٹ میں تجزیات پیش کئے ۔
انہوں نے دونوں قسم کی کیفیات یعنی منشیات یا دواؤں کے زیرِ اثر پر فریب نظاروں اور روح کی جسم سے علیحدگی کا الگ الگ تجزیہ کیا ان تجربات کے بعد ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے یہی رائے ظاہر کی ہے کہ جن لوگوں سے انہوں نے انٹرویو کیا ان کے مشاہدات ان پر فریب نظاروں سے مختلف تھے۔ ڈاکٹرمیلون مورس MELVIN MORSEنے اس احتمال پر زیادہ سائنٹیفک انداز میں تحقیق کرنے کے بعد اپنا حتمی نتیجہ یہ بتایا ہے کہ یہ مشاہدات HALLUCINATION یا فریب قطعی طور پر نہیں تھے۔اس کا مطلب یہ کہ موت کے تجربے سے گزرنے والوں کو کسی نہ کسی طرح کا شعور حاصل تھا۔ انہوں نے اس احتمال کہ شاید تجربات بیان کرنے والے لوگوں کے مذہبی تصورات ان کے زہن پر اس طرح مسلط تھے کہ بے ہوشی یا خواب کے عالم میں وہی تصورات ایک مخصوص واقعے کی شکل میں ان کے سامنے آگئے، ڈاکٹر ریمنڈ مودی کا کہنا تھا کہ اس سوال کی تحقیق کے سلسلے میں جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوئی ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مذہب کے قائل نہ تھے، یا اس سے اتنے یگانہ تھے کہ ان پر مذہبی تصورات کی کوئی ایسی چھاپ غالب نہیں آسکتی تھی۔
تحقیقاتی دنیا کو یہ سوال پریشان کرتا رہا ہے کہ اگر یہ تمام واقعات حقیقت سے قریب تر ہیں اور ہیلوسنیشن یا فریب نہیں ہیں تو پھر یہ مشاہدات کیا ہیں؟…. وہ کونسا جسم ہے جو اس لمحے الگ ہوا اور وہ زندہ جسم میں کہاں ہوتا ہے ؟
اس سوال کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے KENTUCKY UNIVERSITY (Lexington USA) کے طبی عملے نے قریب الموت افراد کے دماغ میں آلات کی مدد سے برقی فعالت کی موجیں ریکارڈ کیں اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ موت کے وقت دماغی نیورونز جب OXYGENکی کمی کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں برقی تحریک نمودارہوتی ہے۔ یہ برقی تحریک ہی ان افراد کے دماغ میں تجربات بیرون جسم OBE جیسے تجربات کی بنیاد بنتی ہے۔ سائنسدانوں نے اس کی تحقیق کے دوران یہ نظریہ پیش کیا کہ سونے کے دوران جب ریم (RAM)سلیپ کا مرحلہ آتا ہے۔ جس میں عموما ً خواب نظر آیا کرتے ہیں ، درحقیقت یہ ریم سلیپ یا RAPID EYE MOVEMENT کے دوران متحرک ہونے والے دماغ کے وہ نیورانز ہی ہیں جو کہ تجربات قریب الموت NDE کا سبب بنتے ہیں اور دماغی موت کی حالت میں بھی ان تجربات کے واقع ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ اس عمل میں حصہ لینے والادماغ کا حصہ ،نچلی جانب برین سٹیم ہوتا ہے جو کہ بالائی یا اعلی دماغ کی موت کے باوجود بھی اپنا کام جاری رکھ سکتاہے۔
بہر حال مختلف تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف نظریات سامنے آتے رہے مگر عرصہ ٔ دراز سے ان سوالات کا تسلی بخش جواب تلاش کرتی ہوئی تحقیق میں انقلاب اس وقت برپا ہوا جب کوانٹمفزکس متعارف ہوئی۔
سائنسی تحقیقاتی میدان میں کوانٹم فزکس کو اپنی جگہ بنانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اب تک جو سائنسدان ایٹم کو ہی انتہائی چھوٹاذرہ سمجھتے آرہے تھے۔ ان کے سامنے اب ایٹم کے اندر کی اس سے بھی زیادہ انتہائی چھوٹی باریک دنیا آموجود ہوئی۔ یہاں ہم کوانٹم فزکس کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔
کوانٹم فزکس :
یہ طبیعات کی وہ شاخ ہے جو توانائی اور مادہ کا آپس میں تعلق کا مشاہدہ کرتی ہے ۔کوانٹم فزکس کے مطابق تمام کائنات کی حرکت مادی ہے اور اس میں حرکت توانائیوں کی وجہ سے ہے۔
یہ سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے قوانین و نظریات کائنات کی ایٹمی یاجوہری ذرات جیسے بہت چھوٹی اور باریک ترین دنیا کے اسرارورموز کو جاننے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔
مزید آسان الفاظ میں کوانٹم فزکس دراصل ایٹم کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کے مطالعہ اور تحقیقات کا علم ہے ۔اب اگر غور کریں تو ابتداء میں بیان کردہ شعور کی تعریفیں بھی ادھوری اور نامکمل محسوس ہوتی ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی تک شعور کی صحیح تعریف تک نہ تو فلسفہ پہنچ پایا ہے نہ ہی نفسیات اور نہ ہی طب۔ تاہم کوانٹم فزکس نے دماغ کی ان پیچیدہ گتھیاں سلجھانے میں نئے در وا کئے ہیں ۔یہ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی دماغ اپنی مادی حیثیت میں مختلف نیورونز سے مل کر بنا ہوا ایک مجموعہ ہے انہیں نیورونز کے فعال ہونے سے حس بنتی ہے اور عقل و شعور پیدا کرتی ہے۔
شعور اور کوانٹم کمپیوٹر:
PROFESSOR STUART HAMMEROFFایمریطس یونیورسٹی آف ایریزونا میں CENTER OF CONCSIOUSNESS STUDY DAPARTMENTکے ڈائریکٹر اور انستھزیالوجی اور سائیکلولوجی کے پروفیسر ہیں۔ ان کے پیش کیے جانے والے نظریئےکوانٹم تھیوری آف کونشیس نیس کے مطابق ہوش و حواس یعنی کہ شعور دماغ میں موجود کوانٹم کمپیوٹر کے لئے ایک پروگرام کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ موت کے بعد بھی کائنات میں قائم رہ سکتا ہے۔ انھوں نے ایک دستاویزی فلم کے ذریعے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موت کے قریب ترین ہونے کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب QUANTUM SUBSTANCE جو روح کی تشکیل کرتا ہے نروس سسٹم سے نکل کر بالا خر کائنات میں داخل ہوجاتا ہے پروفیسرSTUARTاور ان کے ساتھی سائنسدان ROGER PENROSE کہتے ہیں کہ ہماری روح دماغ کے خلیوں کی گہرائی میں موجود MTs یا
MICROTUBULES کا اصل جوہر ہے اور ان کے مابین اختلاط سے وجود میں آتی ہیں۔
مائیکرو ٹوبیولز کیا ہیں ؟
مائیکروٹوبیولزدماغ کے CYTOPLASMمیں پائے جانے والا لحمی ریشہTISSUEہے جو خلیوں کے تقسیم ہونے یا دو لخت ہونے پر تکلہ نما تار بنانے میں کام آتا ہے ۔یہ انتہائی باریک لچھے دار ساخت ہوتی ہیں جو ہر خلیہ میں موجود ہوتے ہیں ۔یہ ہر خلیہ کی پہلی بنیادی تقسیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔خلیے کی حرکت اس کی ساخت اس کا کردار یہ تمام معلومات اور ہدایات مائیکروٹوبیولز ہی ان تک پہنچاتے ہیں ۔ چونکہ ان کی اپنی ساخت ایک باریک نلی کی طرح ہوتی ہے اس لئے ان کو مائیکرو ٹوبیول کہا جاتا ہے ۔جبکہ ان کا کیمیائی بناوٹی مادہ ایک پروٹین ہے جو ٹوبیولن کہلاتا ہے۔ڈاکٹر اسٹیوارٹ ہیمر آف کے مطابق الیکٹرون مائیکروسکوپ میں مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان مائیکرو ٹوبیولز میں ہمہ وقت ایک ارتعاشی عمل یا ایک مسلسل حرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس کی رفتار کم سے کم ایک سیکنڈ میں 40 بار نوٹ کی گئی ہے ۔ مائیکرو ٹو بیولز کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیند کے دوران مختلف درجات پر پیدا ہونے والی برین ویزیا الفا، بیٹا تھیٹا لہریں اور ان کی رفتار میں کمی زیادتی بھی دماغ کے انہی خلیات میں پائے جانے والے مائیکرو ٹوبیولزکی بدولت ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ قدرت کا یہ اعلیٰ درجے کا اعصابی نظام اور اس کی فعالیت کا انحصار خالصتاً انہیں مائیکرو ٹو بیولز کی فعالیت اور ان سے جاری کردہ ہدایات پر ہے۔مائیکرو ٹو بیولز کی اس سرگرمی کو جس کے تحت یہ ہدایات جاری کرتے ہیں کوانٹم انفارمیشن یا شعور کہہ سکتے ہیں۔
:ORCHESTRATED OBJECTIVE REDUCTION THEORY
ڈاکٹر ہیمرآف اور ان کے ساتھ پین روز نے سائنسی چینل پر ورم ہول ڈاکومنٹری کے ذریعے حیات کا مائیکرو ٹوبیولز سے گہرے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ موت کی صورت میں جیسے ہی دل رُکتا ہے خون کا بہاؤ بھی بند ہو جاتا ہے ۔ اس دوران مائیکرو ٹیوبیولز اپنی حالت بدل لیتے ہیں ۔ اس کے لئے وہ ایک مثال ایسے مریضوں کی بھی دیتے ہیں جنہیں سرجری کے لئے انستھیزیا کے انجکشن لگا کر بے ہوش کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد مریض کا رابطہ اپنی حسیات سے عارضی طور پر منقطع ہوجاتاہے وہ درد یا تکلیف محسوس نہیں کر پاتا اور نہ ہی ہوش و حواس میں ہوتا ہے۔ پروفیسر ہیمر آف کا کہنا ہے کہ اس صورت میں جب انستھیزیا دینے والے چند مریضوں کے سیلزکا جائزہ لیا گیا تو ہم نے ان کے دماغی خلیوں میں پائے جانے والے مائیکرو ٹو بیول کی حرکت اور حالت میں واضح تبدیلی نوٹ کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قریب المرگ زندگی کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ مائیکرو ٹیوبیولز اپنی کوانٹم حالت کو چھوڑ دیتے ہیں تا کہ یہ انفارمیشن جسم سے نکل کر کائنات میں واپس چلی جائے۔اگر مریض دوبارہ ہوش میں آجاتا ہے تو یہ کوانٹم انفارمیشن دوبارہ مائیکرو ٹیوبیولز میں واپس آجاتی ہے اور مریض کہتا ہے کہ اس نے تو موت کا منظر دیکھ لیا ہے ۔ اگر یہ بحال نہیں ہوتا اور موت واقع ہو جاتی ہے تواس
انفارمیشن یعنی شعور سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو جاتا ہے ۔لیکن اس صورت میں یہ عین ممکن ہے کوانٹم انفارمیشن جسم کے باہر شاید لا متناہی مدت تک کے لیے موجود رہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ مائیکرو ٹیوبیولز میں موجود یہ کوانٹم انفارمیشن تبا ہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ تباہ
ہو سکتی ہے۔ یہ محض تقسیم ہوتی ہے اورجسم سے رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں ایک خاص وقت پر بالاخر کائنات میں پرواز کرجاتی ہے۔
اس تھیوری کو ORCHESTRATED OBJECTIVE REDUCTION نام دیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں مصروف دونوں سائنسدانوں نے بیان کیا ہے کہ ہماری روحیں دماغ کے نیورونز کے باہمی اختلاط سے مزین ہیں ۔جو شاید کائنات کے وجود میں آنے کے وقت بھی موجود تھیں۔ یہ حقیقت میں کائنات کے انتہائی اعلیٰ فیبرک سے تشکیل پائی ہیں ۔
ڈاکٹر ہیمر آف کے وضاحت کردہ اس اعلیٰ فیبرک کو ہم تانا بانا بھی کہہ سکتے ہیں ۔
اعلیٰ فیبرک یا تانابانا:
یہاں آپ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ اعلیٰ فیبرک کیا ہے؟ یا اس تانا بانا سے کیا مراد ہے ؟۔
دوسرا سوال یہ کہ ان مائیکرو ٹوبیولز کو اطلاع کہاں سے ملتی ہیں ؟
اگر زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر خلیہ ان مائیکرو ٹوبیولز کی ہدایت پر عمل پیرا ہے تو پھر یہ مائیکرو ٹوبیول کس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں؟
سائنسدان اس کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہیں سائنسی تحقیقات کو فی الحال خاصا وقت اور خاصے مراحل بھی درکار ہیں۔بہر حال اگر اس لمحہ ذرا دیرٹھہر کر ہم اپنے اسلاف اور روشن ضمیر بزرگوں کی کتابوں اور ان کی تعلیما ت پر غور فکر کریں تو اس کا جواب با آسانی پا سکیں گے ۔
لوح و قلم اورنظریہ رنگ و نور میں قلندر بابا اولیاء ؒ اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اعلی فیبرک یا تانے بانے کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں کہ پوراکائناتی ڈھانچہ اور سارا ماورائی نظام لہروں کے تانے بانے پر قائم ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے اور آئن سٹائن کی نظریہ اضافیت کے بعد ثابت ہوچکا ہے کہ ہر شئے دو رخوں پر قائم ہے۔ اسی طرح نوع ِآدم بھی روشنی اور عناصر کا مجموعہ ہے۔
آپ وضاحت فرماتے ہیں کہ کائنات میں موجود کوئی بھی وجود دو رخوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
کتاب لوح و قلم میں حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ روشنی کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روشنی خلا ء ہے ۔اس خلا کا ایک وجود ہے ۔ خلا کا وجود ہے تو اس میں حرکت بھی ہے یعنی خلاء میں مسلسل ایک ارتعاشی عمل جاری ہے ۔جس کا سفر ازل سے ابد تک طرف ہے۔اب خلا کی اکہری حرکت کومفرد لہر یا نسمہ مفرد کہا جاتا ہے۔در حقیقت یہی مفرد اکہری لہر ہی ہے جو تمام حیات کی بنیاد یا بساط یا بیسBASE ہے۔
بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں کہ کائنات میں موجود ہر شئے کی زندگی کی بنیاد اسی روشنی کی اکہری
مفرد لہر کی حرکت پر قائم ہے ۔ جب روشنی کی اس اکہری مفرد لہر میں افقی سمت میں دوسری مرکب لہر کا اضافہ ہوتا ہے تو تانے بانے کی صورت میں ایک جال یا گراف کی تشکیل ہوتی ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح دھاگوں کی انتہائی باریک ڈ وریں عمودی اور افقی سمت میں ایک دوسرے میں پیوست ہوکر ایک کپڑے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں ۔یہ دھاگوں کی ڈوریں بظاہرایک دوسرے میں پیوست نظر آتی ہیں مگر ایک دوسرے سے الگ بھی ہوتی ہیں ۔اسی طرح روشنی کی دو لہریں مل کر تانابانا بُنتی ہیں جن کے درمیان موجود کشش کا قانون انہیں ایک دوسرے میں توازن کے ساتھ پیوست یا جوڑے رکھتا ہے۔ اس تانے بانے کو قلندر بابا اولیاء نے اپنی کتاب لوح و قلم میں نسمہ کا نام دیا ہے۔
یہ تانابانا ہی ہے جوزمان و مکان کہلاتا ہے ۔شعور لاشعور کہلاتا ہے ۔جس میں حیات کے خدوخال تشکیل پاتے ہیں ۔مخلوق کے نقش و نگار بنتے ہیں۔آپ مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ ہر تخلیق کے لئے اس تانے بانے کی تشکیل معین مقداروں پر ہوتی ہے۔یہی معین مقداریں مختلف نوعوں جمادات،حیوانات ،نباتات، بشمول آدمی کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے۔یعنی اس تانے بانے میں مرکب لہر پر نقش و نگار بنتے ہیں اور روشنی کی مفرد لہر زندگی کے ان نقش و نگار کو فیڈکرتی ہے۔
اس جملے کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جس رخ کا دنیا میں ظہور ہوا وہ مادیت یا مکانیت ہے اور جو رخ بظاہر نظر نہیں آتا اس میں ظاہر ہونے والے ان نقش ونگار کی اطلاع یا انفارمیشن موجودہے۔ یعنی کہ باطن زمانیت یا روشنی ہے جو زندگی کو فیڈ کرتی ہے ۔
قلندر بابا اولیاءؒ کے بتائے ہوئے ان کلیات کے مطابق اگر کسی بھی وجہ سے روشنی کی اس اکہری یا مفرد لہر کا مرکب لہر پر غلبہ ہوجائے تو انسان کو OBE بیرون ِجسم تجربات کا مشاہدہ ہو سکتاہے۔ اس کی ایک انتہائی سادہ اور جامع مثال نیند کے دوران خواب کی حالت ہے ۔ہم گہری نیند میں ہوتے ہوئے بھی خواب کے دوران بیداری کے حواس کی طرح کھاتے پیتے بھی ہیں ،چلتے پھرتے بھی ہیں ۔اگر خواب میں ڈر جائیں تو بیدار ہونے پر ہم اس ڈر کو محسوس کرتے ہیں ۔کوئی چوٹ لگے تو اس کے درد کو محسوس کرتے ہیں جبکہ بحیثیتِ مادی جسم ہم بستر پر تقریباً بے جان حالت میں پڑے ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر ہیمر آف اور پین روز کی تھیوری آف کونشیس نیس اور مائیکرو ٹو بیولز کے کردار پر بحث سے کم سے کم یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب سائنسدان شعور کے ساتھ لاشعور اور زمان و مکان کے اس تانے بانے کوصحیح رخ پر سمجھ پائیں گے۔
حوالہ جات:
1۔ ماہنامہ “روحانی ڈائجسٹ” موضوع” زمان و مکان کے تانے بانے میں روح کی تلاش”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 60 تا 66
نُورِ ہدایت کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔