اللہ کی مُہر

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45768

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ ؕ وَعَلٰۤی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّلَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾
ترجمہ: اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعتوں پر مُہر لگا دی ہے۔اور ان کی آنکھوں پر پردہ )پڑ گیا (ہےاور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔
Allah hath sealed their hearing and their hearts, and on their eyes there is a covering. Theirs will be an awful doom.
اگر کوئی بندہ باوجود اس کے کہ روشن راستہ اس کے سامنے ہے باوجود اس کے کہ اس کو روشن راستے پر چلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور باوجود اس کے کہ روشن راستے پر انعامات و اکرامات کی جو بارش برس رہی ہے اس کی بھی اطلاع اس کو دی جا رہی ہے وہ پھر بھی اس روشن راستے کو قبول نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ اس کا تاریک راستے پر چلنا قبول کر لیتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ اس بندے کا تاریک راستے پر چلنا اس لئے قبول کر لیتے ہیں کہ وہ شیطان کی طرح نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ ہے تو اس کے اوپر روشن راستے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں یعنی دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی نے از خود وہ راستہ اختیار کر لیا جس راستے پر چل کر آدمی عقل سلیم سے بے بہرہ ہو جاتا ہے،سماعت سے محروم ہو جاتا ہے اور بینائی پس پردہ چلی جاتی ہے۔اﷲ تعالیٰ اسے اس بات سے منع نہیں کرتے کیونکہ اﷲ تعالیٰ اس کا یہ عمل قبول کر لیتے ہیں چنانچہ وہ اب کبھی روشن راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا ۔یہ اس آیت مبارکہ کی عِلمی توجیہ بیان ہوئی ۔
اب ہم ا س آیت کی تفسیر رُوحانی نقطہ نظر سے بیان کرتے ہیں رُوحانیّت سے تعلق رکھنے والے حضرات کم و بیش اس بات سے واقف ہیں کہ مخلوق کے اندر ایسے GENERATORS یانقطے موجود ہیں جن نقطوں میں زندگی میں کام آنے والی روشنی ذخیرہ ہوتی رہتی ہے۔یہ نقطے فرشتوں میں بھی ہوتے ہیں،جنّات میں بھی ہوتے ہیں،سیاروں میں بھی ہوتے ہیں،درختوں میں بھی ہوتے ہیں یوں کہیے کہ نباتات،جمادات،حیوانات سب میں ہوتے ہیں۔یہ نقطے ایک ہاتھی کی زندگی کو بھی فیڈ کرتے ہیں اور ایک چیونٹی کے اندر رہ کر بھی اس کی زندگی کو جاری اور ساری رکھتے ہیں۔یہ بات طویل ہو جائے گی کہ چیونٹی کے اندر کتنے نقطے کام کرتے ہیں جنّات کتنے نقطوں سے مُرکّب ہیں،فرشتے کتنے نقطوں کی مخلوق ہیں ،پہاڑ کے اندر یہ نقطے کس فامولے کے تحت کام کرتے ہیں اور گھاس کے اندر یہ نقطے کس فارمولے پر متحرک ہیں۔
لطائف GENERATORS:
اس وقت ہمارے پیش نظر آدم زاد ہے اس لئے کہ یہ آیت مبارکہ
خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ ؕ وَعَلٰۤی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّلَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ
نوع اِنسانی کے لئے نازل ہوئی ہے ۔تصوّف اور رُوحانیّت سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ان نقطوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور ان نقطوں کو چھ لطیفوں یاGENARATORS سے تعبیر کرتے ہیں۔رُوحانیّت میں ان کا اِصطلاحی نام لطائف ستہ ہے ۔
لطا ئف کےنام:
1۔ اخفٰی(بنفشی- Purple)
2۔ خفی (نیلگوں – Blue)
3۔ رُوحی (زرد – Yellow)
4۔سری(سبز – Green)
۔5۔قلبی(نارنجی – Orange)
6۔نفسی (سرخ – Red)

یعنی ایک آدم زاد انفرادی طور پر یا اجتماعی اعتبار سے چھ نقطوں کے اندر سفر کرتا ہے ان چھ نقطوں کو قُرآن پاک کے قانوُن کے مطابق تین دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ایک دائرہ وہ ہے جس کے اندر وہ نقطے موجود ہیں جوآدمی کے اوپر دو راہیں کھولتے ہیں۔ ایک وہ راستہ جو شیطنت ہے اور دوسرا وہ راستہ جو رحمت ہے۔ ایک دائرہ رحمت کی طرف سفر کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور ایک دائرہ منزل ہے۔یعنی اس دائرے میں بندے کو اﷲ تعالیٰ کا عِرفان حاصل ہوتا ہے۔ یہ تینوں دائرے ہمہ وقت چار نُورانی نہروں سے فیڈ ہوتے رہتے ہیں ۔
دائرے تین ہیں نہریں چار ہیں۔ان نہروں کا سورس کیا ہے؟یہ نہریں کہاں سے نکلتی ہیں؟ان نہروں میں کس قسم کے انوار کا نزول یا صعود ہوتا ہے؟ نہروں کے اندر نازل ہونے والے انوار یا روشنیاں کس طرح وہم، خیال، تصوّر، ادراک اور احساس میں تبدیل ہوتی ہیں۔یہ ایک لمبا بیان ہے۔
مختصر یہ کہ ان چار نہروں میں سے ایک نہر اس دائرے کوجس میں شیطینت اور رحمت کے راستے متعیّن ہیں، سیراب کرتی ہے۔اگر آدمی باوجود ترغیب کے، باوجود تلقین کے،باوجود سمجھانے بجھانے کے ضد بحث اور نافرمانی کا مرتکب ہو کرصراط مستقیم سے ہٹ کرتاریکی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے توتینوں میں سے ایک دائرےکا پہلا نقطہ زہریلا ہو جاتا ہے اور یہ زہر اس کو ایک متعفّن پھوڑا بنا دیتا ہے ۔اِس نقطے کے اندر ایک ایسی سڑاند اور بدبو پیدا ہو جاتی ہے کہ اوپر کے دو دائرے اسے زندہ رکھنے کے لئے فیڈ تو کرتے ہیں، لیکن ان کا ذہنی رابطہ یا ہمدردی تیسرے نقطے کے ساتھ نہیں رہتی ۔دوسری طرف کیونکہ اوپر کے دو دائرے سراپا نُور اور روشنی ہیں،لطافت اور خوشبو ہیں اس لئے یہ متعفن پھوڑا یا نقطہ ان کی طرف متوجّہ ہی نہیں ہوتا ۔جب متوجّہ ہی نہیں ہوتا تو وہ راستہ بھی نظر نہیں آتا۔جس راستے پر چل کر آدمی آسمانوں کی سیر کرتا ہے،فرشتوں سے ملاقات کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کا عِرفان حاصل کرتا ہے اس بات کو اﷲ تعالیٰ نے
خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمۡ ؕ وَعَلٰۤی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّلَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ
کہہ کر نوع اِنسانی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے۔
ایسا بندہ جس کے دل پر کانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے وہ اس دنیا میں سوچتا بھی ہے ، سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مہر اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دنیاوی طور پر اندھا ہو گیاہے یا اس کی عقل سلب ہو گئی ہے یا اس کے کانوں میں سیسہ ڈال دیا گیا ہے یا وہ بہرہ ہو گیا ہے۔ عقل پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر سے ان صِفات کو نکال لیا گیا ہے ،جن صِفات سے آدمی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اُس کی سماعت میں سے وہ صِفت نکال لی گئی ہے جس کے ذریعے سے غیب کی آوازیں سنتا ہے۔ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے ۔اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے جن آنکھوں سے وہ( اگر ان آنکھوں پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں حاضر ہو کر کھلی آنکھوں سے حضورﷺ کی ذات اقدس کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
اِس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اگر تفکّر کیا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے قلب میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کر سکیں۔ ان کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ فرشتوں کی آواز سن سکیں۔ ان کی آنکھوں میں اتنی چمک نہیں ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کر سکیں۔ وہ سب لوگ ذریت ابلیس میں آتے ہیں۔ بات بہت زیادہ سخت ہے لیکن امرِ واقعہ یہی ہے کہ ارکان اِسلام کی ماہیّت اور حقیقت میں اگر تفکّر کیا جائے تو ہر رکن اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق رُوحانی طرزوں، رُوحانی صِفات اور رُوحانی صلاحیتوں سے ہے۔ اِسلام میں بنیادی رکن اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ ایمان لانے کے بعد حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ہے لیکن دنیا کا کوئی قانوُن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر دیکھے شہادت معتبر ہو سکتی ہے۔ کلمہ شہادت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر اِنسان شیطانیّت سے آزاد ہو کر فی الواقع ایمان کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو سیّدنا حضورﷺ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور وہ برملا حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ قانوُن شہادت یہ ہے کہ شہادت بغیر دیکھے معتبر نہیں ہوتی۔ مسلمان ہونے کے بعد حق باتوں پر یقین ضروری ہے، جو ایمان کی شرائط میں داخل ہیں ان میں پہلی بات غیب پر یقین ہے۔ ہم غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ قانوُن یہ ہے کہ جب تک کوئی بات مشاہدے میں نہیں آتی، یقین متزلزل رہتا ہے ۔اس کے بعد ملائکہ کا تذکرہ آتا ہے پھر ان کتابوں کا تذکرہ آتا ہے جو حضورﷺ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئیں پھر یوم آخرت کا تذکرہ آتا ہے یہ تمام تذکرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اِنسان کے اندر کوئی ایسی آنکھ موجود ہے جو پردوں کے پیچھے دیکھتی ہے۔ اِنسان کے اند رایسے کان موجود ہیں جو ماورائی آوازیں سن کر ان کے معانی اور مفہُوم کو سمجھتے ہیں۔ ایسی آنکھیں موجود ہیں جو آنکھیں زمان و مکاں کی تمام حد بندیوں کو توڑ کر عرش پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتی ہیں۔ ایسا قلب موجود ہے جو محسُوس کرتا ہے۔ قلب اللہ کا گھر ہے اور اس گھر میں مکین کو دیکھتا ہے۔
رُوحانیّت اور تصوّف سالکانِ طریقت کو اسی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ آدمی ظاہری حواس سے ہٹ کر ان حواس کا کھوج لگائے جن حواس میں لطافت ہے، نرمی ہے، رحمت ہے، محبت ہے، حلاوت ہے، نُور ہے، روشنی ہے، جن حواس سے بندہ اپنے آقا رسوُل اللہﷺ کے قدموں میں سرنگوں ہوتا ہے۔ جہاں تک دنیاوی زندگی گزارنے کے لئے مفروضہ حواس کا تعلق ہے ان حوا س میں آدم، بکری اور کتا برابر کے شریک ہیں۔ کتا بھی عقل رکھتا ہے ، آدمی بھی عقل رکھتا ہے۔ دوسری بات جو زیر بحث آتی ہے وہ ساخت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو جس ساخت پر تخلیق کیا ہے وہ ساخت اس قسم کی ہے کہ اس ساخت کی وجہ سے وہ عقل سے زیادہ سے زیادہ کام لے سکتا ہے اگر بلی کی ساخت اِنسانوں کی طرح ہوتی اور جس طرح اِنسان دو پیروں پر چلتا ہے اسی طرح بلی بھی پیروں پر چلتی تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بلی کار ڈرائیو نہ کر سکتی۔ دنیاوی عقل کا تعلق جہاں تک ہے اللہ کی سب مخلوق عقل رکھتی ہے۔ جہاں تک عقل میں کمی بیشی کا تعلق ہے وہاں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ آدمی بھی سب عقل مند نہیں ہوتے۔ ہزاروں لاکھوں میں چند دانش ور نکلتے ہیں اور اس دانش وری کے اندر غوطہ لگا کر جب کوئی گوہر نایاب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں بھی بے عقلی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب “توجیہات” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع اللہ کی مُہر

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 30 تا 33

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)