اللہ کا نائب
مکمل کتاب : نُورِ ہدایت
مصنف : آصف جاوید عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45795
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجْعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفْسِدُ فِیۡہَا وَیَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسْمَآءَ كُلَّہَا
ترجمہ :۔ جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا۔ میں ایک ایسی مخلوق بنانے والا ہوں جسے زمین کا اقتدار دیا جائے گا۔ انوُں نے عرض کیا ۔”کیا آپ اس میں وہ مخلوق بنائیں گے جو وہاں فساد اور خوں ریزی کرے گی؟ اور (ادھر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ) آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ آپ کی تسیبح و تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں” ۔ اللہ نے فرمایا”میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے”۔ اس کے بعد پروردگار نے آدم ؑ کو سب اسماءسکھا دیے۔
And ( remember) when your Lord said to the angels: “Verily, I am going to place (mankind) generations after generations on earth.”. They said: “Will You place theirin those who will make mischief therein and shed blood,-while we glorify You with praises and thanks and sanctify You.” He (Allah) said: “I know that which you do not know.” And He taught Adam all the names (of everything
جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا تو اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا :
اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرْضِ خَلِیۡفَۃً ؕ میں دنیا میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔
(سورۃ بقرۃ ،پارہ 1،آیت 30)
نائب کے معنی :
نائب کا مطلب یہ ہے کہ ایسا بندہ جو اﷲ کے دیے ہوئے اختیارات استماال کرے۔ اللہ نے اِنسان کو اپنا نائب بنایا ہے ۔ اس کے اندر اپنی صِفات کا عِلم پھونکا ہے۔ اِس کو اپنی صوُرت پر تخلیق کیا ہے۔ نائب کا مفہُوم یہ نہیں ہے کہ اگر ایک مملکت کا صدر اپنے اختیارات کو استعمال کرنے میں کا غذ قلم کا محتاج نہ ہو تو اس کا نائب اختیارات استعمال کرنے میں کاغذ قلم کا محتاج ہو ۔ اللہ وسائل کی محتاجی کے بغیر حاکم ہے تو اس کا نائب بھی وسائل کا دستِ نگر نہیں ہوتا ۔ جِس طر ح خدا نے “کُنْ”کہہ کر کائنات کو وجوُد بخشا ہے ،خدا کا نائب بھی اپنے ذہن کو حرکت دے کر خدا کی تخلیق میں تصرُّف کرسکتا ہے کیوں کہ اللہ کا نائب اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام مظاہر ایک ہی ذات سے ہم رشتہ ہیں۔
نائب کےاختیارات JURISDICTION :
اِنسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے یعنی اِنسان کی حاکمیّت کو تسلیم کرایا ہے لہٰذا اِس مخلوق کے لئے تمام خدمات فرشتوں سے لی جاتی ہیں جب اِنسان رُوحانی مدارج کے اعلیٰ عہدوں پر فائض ہو جاتا ہے تو وہ براہِ راست تمام احکامات اللہ سے لیتا ہےاور فرشتوں کے ذریعے اس پر عملدرآمد IMPLEMENT کراتا ہے۔اس شعبے کو شعبہ تکوین DEPARTMENT OF ADMINISTRATION کہا جاتا ہے۔جس میں بے شمار عہدے ایسے لوگوں کو دیے جاتے ہیں جن کا کام اس کائنات کو متحّرک رکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس کائنات کو متحرّک رکھنے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس نے اِنسان کو اپنا نائب بنا کر یہ اعزاز HONOR بخشا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیّت سے کائنات کو حرکت میں رکھتا ہے ۔
سورہ کہف آیت 60 تا82 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ایک بندے کی ملا قات کا ذکر ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے خاص عِلم بخشا تھاجس میں اس عہدے کے متعلق ارشادات ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب “کشف المحجوب “میں ان عہدوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔
فرشتوں نے نا ئب بنانے کے حکم کے بارے سن کر اﷲ تعالیٰ سے کہا:
اَتَجْعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفْسِدُ فِیۡہَا وَیَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ؕ
اے ہمارے رب یہ شخص زمین میں فساد برپا کرے گا اور زمین میں ہر طرف خون پھلامئے گااے پروردگار ہم تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاک ذات کو یاد کرتے ہیں۔ (سورۃ بقرۃ، پارہ 1، آیت 30)
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
اِنِّیۡۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ
جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ (سورۃ بقرۃ، پارہ 1، آیت 30)
اﷲتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کائناتی اموُر سِکھا کر فرشتوں سے پوچھا اگر تم اس عِلم سے واقف ہو تو بیان کرو۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیاہے۔آدمؑ نے علوم بیان کیے تو فرشتوں نے یہ جان لیا کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جو علوم سکھا دئیے ہیں، وہ ہم نہیں جانتے لہٰذا انہوں نے آدم علیہ السلام کی اطاعت اور فرمانبرداری کو قبول کر لیا۔
آدم ؑ کی حاکمیّت اورعِلم الاسماء:
تمام کائنات اللہ تعالیٰ کے اسما ءسے رنگین ہے ۔ہر ہر ذرّے میں اللہ تعالیٰ کا جلوہ اور صِفت موجود ہے ۔ اِنسان اگر تفکّر کی آنکھ سے کائنات میں غور کرے تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ ہر طرف عِلم الاسما ءمتحرک ہیں جو اس کائنات کی OPERATING KEYS یا کنجیاں ہیں یہی عِلم الاسما ءاللہ تعالیٰ نے اپنے نائب یعنی اِنسان کو عطا فرمائے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اپنی صِفات کی بدولت اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ظاہر ہے جب یہ اسما ءاِنسان کے اندر INSTALL کر دیے گئے یعنی جب یہ کنجیاں اِنسان کو نائب کی حیثیّت سے سپرد کر دی گئیں تو اِنسان میں بھی یہ صلاحیّت پیدا ہو گئی کہ کائناتی نظام کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اس نظام کو چلانے کے لئے عِلم الاسما ءکو اپنے زیر استعمال لا سکے۔
مسلمان ہونے کے ناطے اُمَّت مُحمّدی ﷺ قرآن پاک کو بحیثیتِ کلامِ الہٰی تسلیم کرتی ہے اور اس کی اکملیّت پر یقین رکھتی ہے اور اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس کتاب المبین کے تمام علوم آدم علیہ السلام کو عطا کئے گئے ہیں۔ جنہیں قرآن پاک کی زبان میں عِلم الاسماء کہا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم علیہ السلام کو اسمائے الہٰیہ کے کُل علوم عطا کر دیے۔ یہ بات نہایت ہی غور طلب ہے کہ جو لوگ کلامِ الہٰی کے کسی بھی اسم کسی بھی حرف کسی بھی آیت کے متعلق یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اس کے علوم آدم یا اِنسان کو عطا نہیں کئے گئے وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ اپنے نازل کردہ کلام کو خود ہی جھٹلا دے۔اللہ رب ذوالجلال کی بزرگی و برتری سے یہ بات بھی بعید اَز گمان ہے کہ وہ اپنے علوم کو کسی پر ظاہر کر دے اور کسی سے چھپا لے۔اپنی شانِ بُزرگی کی حکمتوں کو اس نے آدم کے اندر یہ کہہ کر پوشیدہ کر دیا ہےکہ ہم نے آدم علیہ السلام کو اسمائے الہٰیہ کے کُل علوم سکھا دیے۔ آدم تمام بنی نوع اِنسانی کا نمائندہ ہے۔یہ کسی ایک فردِ بشر کا نام نہیں ہے۔ پس جو لوگ قانوُن قُدرَت کے مطابق اسمائے الہٰیہ کے علوم سیکھنے میں جدوجہد اور غوروفکر کرتے ہیں۔ان پر اللہ تعالیٰ کے کلام کی وہ حکمتیں، اسرار و رموز کھول دیےجاتے ہیں جو اس کے حروف کے پردے میں پنہاں ہیں۔سب اِنسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔قُرآن کریم میں آپ علیہ السلام کی تخلیق اور خلافت کا ذکر عِلم کے ساتھ ہوا ہے۔مُعلمِ حقیقی، اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوعِلم الاسماء عطا کیا تو اِنسان کا شرف عِلم بن گیا۔اﷲ تعالیٰ نے اِنسان کو اشرف اس لئے بنایا ہے کہ سماوات ،زمین اور دونوں کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب اِنسان کے تابع ہے۔
کائناتی تزئین و آرائش کے روشن وسائل سورج،چاند،ستارے سب اِنسان کے محکوم ہیں اور یہ حاکمیّت اس عِلم کی بنیاد پر ہے جو عِلم اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سکھا دیا ہے۔
کائنات اللہ تعالیٰ کے عِلم کا جزو:
کائنات اور کائنات میں موجود تمام تخلیقات ، تخلیقات میں تمام نوعیں اور نوع کے الگ الگ افراد ، افراد کا پھیلنا اور سمٹنا،
پیدائش کا تسلسل اور موت کا وارد ہونا، زمین اور سماوات،سورج،چاند، ستارے، بےشمار کہکشانی نظام، جنّت، دوزخ، جنّت دوزخ میں زندگی گزارنے کے تمام حواس اور تقاضے، حواس میں ردوبدل کے ساتھ حواس میں کمی بیشی ، ذہنی رفتار کا گھٹنا یا بڑھنا، حواس کا الگ الگ تعین، سُننا ، دیکھنا، سونگھنا، چکھنا، محسُوس کرنا، جسمانی خدوخال کا اُلٹ پلٹ ہونا، جذبات میں اشتعال پیدا ہونا، کسی بندے یا کسی ذی شعور کا نرم خو ہونا یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود عِلم کا عکس ہیں۔
کائنات میں موجود کوئی ایک شے ، اس کی حیثیّت کسی بڑے سے بڑے ستارے کی ہو یا زمین کے چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کی ہواللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی۔جب اللہ تعالیٰ نے ذہن کے اندرموجود اس خوبصورت دنیا کو مظہر بنانا چاہا تو فرمایا”کُنْ” اور کائنات میں تمام چیزیں من و عن اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں تھیں، موجود ہو گئیں۔
علیم ہونا ذات باری تعالیٰ کی صِفت ہے اور ذات باری تعالیٰ اپنی تمام صِفات میں قدیم ہے ۔ اس کی صِفت علیم میں کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہے۔ صِفت علیم میں کائنات کی حیثیّت اللہ تعالیٰ کے ذاتی علوم کا ایک عنصر ELEMENT ہے۔ جب اللہ تعا لیٰ نے چاہا کہ کائنات کے علوم ظاہر کئے جائیں تو کُنْ کہہ کر کائنات کو تخلیقی صورت بخش دی اور کائنات کے اموُر کی ذمّہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے کائنات میں بسنے والی ایک مخلوق کو چن لیا۔ تا کہ کائناتی نظام اللہ تعالیٰ کے ارادے اور فطرت کے مطابق جاری و ساری رہے یہ منتخب شدہ ہستی آدم زاد ہےجس کو نظامِ کائنات کی اہم ذمّہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذاتی علوم میں سے ایک عِلم عطا فرمایا اور یہ عِلم، عِلم کائنات ہے۔ جس کو قُرآن پاک نے عِلم الاسماء کا نام دیا ۔ عِلم الاسماء اللہ تعالیٰ کی ایک فکریعنی UNIVERSE کا احاطہ کرتا ہے ۔
کائنات اور اللہ تعالیٰ کے اسما٫:
کائنات مجموعی طور پر اﷲ کی صِفات کا عکس ہے اور صِفات اﷲ کے اسماء ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ہر اسم ایک تجلّی ہے اور تجلّی کے ساتھ قُدرَت اور رحمت شامل ہے ۔گویا اﷲ تعالیٰ کا ہر اسم تین تجلّیوں کا مرکز ہے۔
جب ہم” اﷲ” کا تذکرہ کرتے ہیں یا اﷲ کا کوئی اسم ذہن یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو تجلّی اپنی صِفت اور قُدرَت کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔یعنی جب ہم اﷲ کو “بصیر” کہہ کر مخاطب کرتے ہیں یا اﷲکے اسم بصیر کاورد کرتے ہیں تو ہمارے اندر اﷲ کی نگاہ اور اﷲ کی نگاہ سے متعلق قُدرَت اور نگاہ سے متعلق رحمت کا عِلم متحّرک ہو جاتا ہے۔کائنات ایک عِلم ہے۔یہ عِلم نزول کرکے حواس کی شکل و صورت میں نمایاں ہو رہا ہے۔
عِلم کی تین جہتیںDIMENSIONS :
جب ہم عِلم کی ہئیت ، اصلیت اور حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے پاس یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عِلم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے ۔ عِلم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہونے کا عمل پیدا ہو جائے ۔جب تک ہمیں کسی چیز کے بارے میں عِلم حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ چیز ہمارے لئے معدوم کی حیثیّت رکھتی ہے۔
باطن روشن علماء، عِلم کے تین رُخ یا DIMENSION بیان کرتے ہیں۔پہلی DIMENSION یا رُخ تجلّی ہے جو لطیفہ اخفیٰ کے اندر نزول کرتی ہے اور تجلّی کا عِلم بن جاتی ہے۔دوسری DIMENSION یا رُخ اس تجلّی کا وصف ہے یعنی تجلّی کی INTERPRETATION تشریح ہے۔تجلّی کی یہ DIMENSION یا وصف لطیفہ سرّی میں متحرک ہوتی ہے۔ تیسری DIMENSION تجلّی کے وصف کی COMPLETION ہے یعنی تجلّی اپنے وصف کے ساتھPHYSICAL APPEARANCE اختیار کرتی ہے اور اس وصف کا نزول لطیفہ قلبی میں ہوتا ہے۔اس وصف کا نام نگاہ ہے ۔
لطیفہ قلبی کے اندر جب گفتار، سماعت اورشامہ شکل و صورت اختیار کر کے مزید حرکت کرتے ہیں تو نقش و نگار کا ایک رنگین پیکر بن جاتا ہے۔ گفتار، سماعت اور شامہ کایہ رنگین پیکر لطیفہ نفسی کو اپنی طرف کھنچتے ہیں۔لطیفہ قلبی اور لطیفہ نفسی کے درمیان کشش کا یہ عمل مااہراتی طور پرہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
تین حرکتیں بیَک وقت صادر ہوتی ہیں۔پہلی حرکت کسی چیز کو جاننا ہے۔جب ہم کسی چیز کو جاننے کا ارادہ کرتے ہیں ہمارے ذہن کی حرکت کسی چیز کو جاننے میں استماںل ہوتی ہے تو یہ عمل لطیفہ اخفیٰ میں ہوتا ہے۔جاننے کے بعد دوسری حرکت کسی چیز کو محسُوس کرنا ہے۔ محسُوس کرنا لطیفہ سری کا عمل ہے جاننے اور محسُوس کرنے کے بعد کسی چیز کے بارے میں خواہش پیدا ہوتی ہے ۔خواہش کے بعد عمل کا صدور ہوتا ہے۔خواہش اور عمل کا صادر ہونا لطیفہ قلبی اور لطیفہ نفسی کی حرکت ہے۔کسی چیز کا عِلم یا کسی چیز کو جاننے کی حرکت ثابتہ سے شروع ہو کر جویّہ پر ختم ہو جاتی ہے اور یہ عِلم ہر ہر اسٹیج پر ہر ہر نزول پرریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔جاننا لطیفہ اخفیٰ میں واقع ہوتا ہے اور اس کو لطیفہ خفی ریکارڈ کر لیتا ہے۔لطیفہ سری میں محسُوساتی عمل شروع ہوتا ہے جس کو لطیفہ رُوحی ریکارڈ کر لیتا ہے۔
لطیفہ قلبی میں جاننے اور محسُوس کرنے کے بعدعمل واقع IMPLEMENT ہوتا ہے اور یہ عمل لطیفہ نفسی میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔اخفیٰ،خفی یعنی رُوح اعظم نے جانا ۔سر اور رُوح یعنی رُوح اِنسانی نے محسُوس کیا قلب اور نفس یعنی رُوح حیوانی نے عمل کیا۔جاننا محسُوس کرنا عمل کرنا بیَک وقت صادر ہوتا ہے اور بیَک وقت ختم ہو جاتا ہے۔ختم ہونے سے مُراد یہ ہے کہ اﷲ کی تجلّی کا وصف قُدرَت اور رحمت کے ساتھ عِلم کی حیثیّت میں نزول کر کےپہلے جاننے کا عمل بنتا ہےپھر یہ عمل محسُوساتی عِلم بن جاتا ہے۔
آدم کا تعارُف:
آدم علیہ السلام کو بارگاہ رب العزّت سے عِلم الاسماء عطا ہوا۔ یہ علُوم تھے جو خلافتِ الٰہی کی گراں قدر ذمّہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے آدم کےاندر INSTALL کئے گئے تھے۔ ان علُوم سے نوازنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سامنے لا کر فرشتوں سے دریافت کیا اگر تم سچے ہو اِن علُوم کے بارے میں اظہار کرو۔
فرشتوں کی عاجزی :
فرشتوں نے اپنی عاجزی کا اظہا ر کرتے ہوئے عرض کی:
“پاک ہے آپ کی ذات ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے سکھایا ہے اور حقیقت تو یہی ہے کہ فقط آپ ہی کی ذات علیم اور حکیم ہے۔”
آدم علیہ السلام کا اظہارِ علوم :
اس پراللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو عطا شدہ علوم کے اظہار کا حکم دیا۔ جب آدم علیہ السلام نے تعمیلِ حکم میں ان علوم کا اظہار کیا تو ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
” کیا میں نے تمہیں یہ نہ بتایا تھا کہ میں ہی زمین اور آسمان کے بھید جانتا ہوں اور میں وہ بھی جانتا ہوں جسے تم ظاہر کرتے ہو یا جسے تم چھپاتے ہو۔”
آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر برتری :
آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر برتری ثابت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں اور آدم علیہ السلام سے کہا :
وَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنۡتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئْتُمَا ۪ وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾
اور کہاکہ اے آدم تم اپنی بیوی کے ہمراہ جنّت میں رہو اور کھاؤ پیو جب اور جہاں سے تمہاری مرضی ہو لیکن اس ایک درخت کے قریب بھی مت جانا ورنہ تم اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔
(سورۃ بقرۃ ، پارہ 1،آیت 35)
اللہ تعالیٰ کا خزانہ:
حدیث قدسی کے مطابق اللہ پاک فرماتے ہیں:
ترجمہ:”میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا جب میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے محبت کے ساتھ کائنات تخلیق کر دی۔”
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو وہ تمام علوم دیے جن کو اللہ تعالیٰ نے خزانہ کہا ہے اور یہ علوم اسمائے الہٰیہ کے علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صِفات کے علوم ہیں۔اللہ کی صِفات ہی اللہ تعالیٰ کا خزانہ ہیں۔اِنسان کو اس خزانے کے علوم اس وجہ سے دیئے گئے ہیں۔تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو اس کی صِفات کے ساتھ پہچانے ۔جب تک کوئی بندہ خود اپنی ذات سے واقف نہ ہو گا وہ اللہ تعالیٰ سے بھی واقف نہیں ہو سکتااپنی ذات سے واقف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اس بات سے واقف ہو کہ :
وہ یہاں کیوں آیا ہے ؟کہاں سے آیا ہے؟کچھ عرصہ گزارنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے؟اس کی زندگی کی حرکات کی بنیاد کیا ہے ؟زندگی کی حرکات کی بنیادکا مطلب کیا ہے؟ زندگی کی حرکات کا محّرک کیا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات علوم کا وہ خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر INSTALL کر دیا ہے۔
اِنسان کا مقصدِحیات:
اِن علوم سے استفادہ کرنا آدم علیہ السلام کی میراث ہے اپنی میراث کو پانے کی تلاش و جستجو بنی نوع اِنسان کا مقصد حیات ہے ۔اسمائے الہیہ کے علوم اللہ تعالیٰ کی وہ امانت ہیں کہ کائنات کی کوئی اور CREATION اس کی متحّمل نہ ہو سکی سوائے آدم ؑکے۔اللہ تعالیٰ اس امانت کو کسی نہ کسی مخلوق کے سپُرد کرنا چاہتے تھے۔ جس کے بھی سپرد کی، اُس کا مقصد آفرینش ہی امانت کی ذمّہ داریوں کو سنبھالنا ہے ۔پس آدم کا مقصد حیات اس کے سوا کچھ نہیں ہےکہ وہ اپنی تخلیق کی اس حکمت کو پہچان لے،جس حکمت کے ساتھ اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔اور وہ حکمت اللہ رب العزّت کی ذات کا تعارُف حاصل کرنا ہے۔ ذات خالق کی پہچانے جانے کی یہی حکمت خود آدم بن کر خالق کے ارادے کی تکمیل میں کمر بستہ ہے۔
ہمارے پیارے رسُول پاک صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کا قول مبارک ہے کہ:
‘‘اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا’’
دراصل صورت سے مراد فواد یا ذہن ہے۔ وہ ذہن جس سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِنسان کے اندر عِلم الاسماء کی شکل میں وہ ذہن منتقل کردیا ہے ۔اور اسی کے علوم اسمائے الہٰیہ کے علوم کہلاتے ہیں۔ورنہ اللہ تو ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے پاک اور ماورأ ہے۔ وہ تو نُور کا ایک بحر بیکراں ہے جو شکل و صورت اور نقش و نگار سے ماوراء ہے۔ مگر یہ نُور علیٰ نُور ہستی اپنی ذات و صِفات میں ایسی عظیم و یکتا ہے کہ اس کی عظمت و توحید کائنات کے ذرّے ذرّے میں نمایاں ہے۔ بلا شبہ یہی ہستی ذاتِ خالق ہے جو اِنسان کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور اس ہستی نے اِنسان کواپنی قربت سے بہرہ مند ہونے کے لئے ایسے حواس عطا کئے ہیں۔ جن کے ذریعے اِنسان اللہ تعالیٰ کو اپنی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب تر محسُوس کر لیتا ہے۔ اور جب محبوب اتنا قریب ہوگا۔ تو اس سے راز و نیاز کی باتیں بھی ہوں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ذہنی ہم آہنگی ہی ایک دوسرے کو قریب لاتی ہے۔ اور ذہنی ہم آہنگی ایک سی عادات و اطوار اور صِفات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دو ذہن جب ایک ہو جائیں، تو ان دونوں کے درمیان ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اِنسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت و نیابت کے لئے منتخب کر لیا۔ تو اِنسان کو کائناتی علوم کے ساتھ ساتھ اپنی ذات و صِفات کے علوم بھی عطا کردیئے۔ تا کہ اس کا خلیفہ و نائب کائناتی امور میں خالقِ کائنات کے ذہن سے تفکّر کرے اور اُس کے احکامات کو صحیح طریقے سے انجام دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے اِنسان کے لئے ساری کائنات کو مسخر کر دیا ہے۔ یعنی اِنسان کائنات کی ہر شے کو اپنے ارادے و مرضی کے مطابق اپنے تصّرف میں لا سکتا ہے۔مگر ایک شے کے صحیح استعمال سے آدمی فائدہ اٹھاتا ہے اور غلط استعمال سے نقصان کی تکلیف جھیلنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصول و قوانین ِ فطرت کو جاننا اور سمجھنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔کائنات اللہ تعالیٰ کا ملک ہے اور حکومت کے قوانین سنّتِ الہٰیہ ہیں۔ اس ملک کا بادشاہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور بادشاہ کا نائب اِنسان ہے۔ بس بادشاہ کے بنائے ہوئے قوانین کا جاننا نائب کے لئےبھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے بلکہ نائب کے لئے تو اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے ۔ کہ وہ سنتِ الہٰی یا حکومت کے قوانین کو اچھی طرح جانے۔ جانے گا نہیں تو نیابت کے فرائض کیسے انجام دے گا؟
انسان کا حقیقی شرف ،اللہ کی نیابت:
سالک جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات یا علم الاسماء کا علم حاصل ہے اگر ازل سے ابد تک کا پورا پروگرام دیکھنا چاہے تو لوح محفوظ پر دیکھ سکتا ہے ۔ اسی طرح اس اجتماعی پروگرام میں کائنات میں موجود الگ الگ نوعوں کا پروگرام دیکھنا چاہے تو وہ لوح دوئم یا عالم جو میں دیکھ سکتا ہے۔ کائنات کا اجتماعی پروگرام لوح محفوظ پر نقش ہے ۔ جس طرح پروگرام لوح محفوظ پر نقش ہے اسی طرح ہر فرد کے اندر بھی موجود ہے۔ کائنات کا اجتماعی پروگرام جب نزول کرتا ہے تو تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
1۔ روح اعظم
2۔ روح انسانی
3۔ روح حیوانی
تمام علوم کی بنیاد علم الاسماء پر قائم ہے ۔ قرآن میں اللہ نے جہاں آدم علیہ السلام کی نیابت اور خلافت کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بات بنیادی طور پر بیان ہوئی ہے کہ آدم علیہ السلام کو علم الاسماء عطا کیا گیا ہے۔ جو کائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہے اور یہ عمہ الاسماء ہی ہے جس کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔ جو علم آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اس کو روحانیت میں ” تدلیٰ” کہتے ہیں۔
انسان کا شرف اس بات پر قائم ہے کہ اسے اللہ کی نیابت حاصل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کے اختیارات حاصل ہیں کوئی بندہ جب
تکوینADMINISTRATION کے شعبے میں داخل ہوتا ہے تو یہ اطلاعات اس کو فراہم کر دی جاتی ہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نیابت کے
اختیارات حاصل ہیں اور نیابت کے اختیارات کو جاننے ، سمجھنے اور استعمال کرنے کے لئے اسے یہ علم حاصل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر
اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔اور یہ صفت بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ازل میں حاصل ہو گئی تھی۔بندے سے مراد نوع انسانی اور نوع انسانی کے تمام افراد ہیں ۔ مطلب یہ کہ آدم کو جب اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء عطا کر دیا اور اپنی تخلیقی صفات سے آدم کو آگاہ کر دیا تو آدم کا یہ علم پوری نوع انسانی کا ورثہ بن گیا۔ا س علم کو پریکٹیکل میں لانے کے لئے مراقبے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ مراقبہ صرف ایک عمل کا نام نہیں بلکہ مختلف علوم کے حصول کے لئے مختلف مراقبہ جات ہیں ۔ حضور مرشد کریم الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے ان کی تعداد سترہ بتائی ہے۔
حوالہ جات:
1۔ کتاب”کشکول” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،موضوع نمبر 75،صفحہ نمبر 85
2۔ کتاب “خلیفۃ الارض” اَز نعمان ریاض عظیمی، موضوع متوقع جواب نمبر 3 ، صفحہ نمبر 10
3۔ کتاب “بارانِ رحمت” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی، موضوع تعلیمی نظام، صفحہ نمبر 256
4۔ کتاب “خلیفۃ الارض” اَز نعمان ریاض عظیمی، موضوع تفکرّات متوقع جواب نمبر 4،صفحہ نمبر 10
5۔ کتاب “معرفتِ عشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی، موضوع ایک نکتہ،صفحہ نمبر 235
6۔ کتاب” یہ تیرے بندے” اَز میّاں مشتاق احمد عظیمی،باب اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس،صفحہ نمبر 215
7۔ کتاب “معرفت ِعشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی،موضوع حقیقتِ محمدیﷺ،صفحہ نمبر 122
8۔ کتاب “شرح لوح وقلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،لیکچر نمبر 9 تجلّیات،صفحہ نمبر 80 تا 82
9۔ کتاب “معرفتِ عشق”اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی، موضوع رُوحانی شعور،صفحہ نمبر 203 تا 204
10۔ کتاب “معرفتِ عشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی،موضوع راہِ طریقت، صفحہ نمبر 18 تا 19
11۔ کتاب “شرح لوح وقلم” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی،باب نیابت و خلافت، موضوع تدلیٰ، صفحہ نمبر 71 تا 72
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 34 تا 42
نُورِ ہدایت کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔