یقین کا پیٹرن

مکمل کتاب : نُورِ ہدایت

مصنف : آصف جاوید عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49931

بِسْمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَالرّٰسِخُوۡنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ

جو لو گ اس عِلم میں پختہ کار ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے ۔یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔
And those who are firmly grounded in knowledge say: “We believe in it; the whole of it (Clear and Unclear) are from our Lord.
جس طرح دنیاوی زندگی میں ماحول کا اثر ہوتا ہے اور آدمی اُس ماحول کی نقل کرتا ہے جس ماحول میں وہ رہتا ہے۔ اسی طرح رُوحانی دنیا کا بھی ایک ماحول ہے۔ اس ماحول میں رہنے والے لوگوں کا اخلاق اچھا ہوتا ہے۔ ان کے اندر شک اور وسوسے کی جگہ یقین کام کرتا ہے۔جس طرح آدمی کے اوپر ماحول اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح اخلاق اور شرافت کا اثر ہوتا ہے۔ رُوحانی دنیا میں بھی ماحول کا اثر ہوتا ہے اور اس کی ابتداء یقین سے ہوتی ہے۔ جب کوئی بندہ رُوحانی دنیا سے واقف ہو جاتا ہے اور رُوحانی دنیا کی طرزیں اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ :
وَالرّٰسِخُوۡنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ
جو لو گ اس عِلم میں پختہ کار ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے ۔یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ (سورۃ اٰل عمران، پارہ3، آیت 7)
یعنی میرا اس بات پر یقین ہے کہ دنیا میں آخرت میں دنیا میں آنے سے پہلے اور دنیا سے جانے کے بعد کی دنیا میں یعنی جی اٹھنے کے بعد عالم میں ، صبح ، دوپہر، شام اور رات میں جو کچھ ہوتا ہے ، ہو چکا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
رُوحانی طلباء و طالبات کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر استقامت اور اس بات کا یقین ہو کہ دنیا میں آنے سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور دنیا سے جانے کے بعد جو کچھ ہو گا وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اِنسان دو پیروں سے چلتا ہے ، دو ہاتھوں سے پکڑتا ہے ، دو آنکھوں سے دیکھتا ہے، دماغ سے سوچتا ہے، یہ سب اعضاء مرنے کے بعد بے حس و حرکت ہو جاتے ہیں اور مِٹّی میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ لیکن جو شئے اعضاء کو متحرک رکھتی ہے ، آنکھوں میں بینائی مُستقِل کرتی ہے ، جسمانی اعضاء کو حرکت دیتی ہے ، سوتے ہوئے کو جگاتی ہے، جاگتے ہوئے بندوں کو سلاتی ہے ، وہ رُوح ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے۔ لیکن رُوح برقرار رہتی ہے اور اس کا عِلم بھی قائم و دائم رہتا ہے۔
یہ بات اس لئے ذہن میں آتی ہے کہ ہم زندگی کو شعوری پیمانوں سے ناپتے ہیں ، مثلاً ہر آدمی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ میں پیدا ہوا اور میری پیدائش کا ذریعہ والدین بنے۔ علیٰ ہذالقیاس ہر مخلوق کے بارے میں اس کا شعوری مشاہدہ یہی ہے۔ لیکن اگر کوئی اِنسان شعوری حواس یعنی شک و شبہ اور بے یقینی کی دنیا
سے آزاد ہو کر یقین کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں اس کے سامنے یہ بات آجاتی ہے کہ وہ اور تمام مخلوقات کو ایک ہستی نے بنایا ہے تو یہ بات اس کے ذہن سے حذف ہو جاتی ہے ۔ یعنی اس لایعنی بات کا خانہ ہی ختم ہو جاتا ہےاور جب اس بات سے کہ خدا کو کس نے بنایا ہے، ذہن آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی طَرزِ فِکر یہ بن جاتی ہے کہ وہ ہر بات اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہے اور اللہ ہی کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قُرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا
وہ لوگ راسخ فی العِلم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارا ایمان ہے اور اس بات پر یقین ہے کہ ہر چیز ہمارے رب کی طرف سے ہے۔
(سورۃ اٰل عمران، پارہ3، آیت 7)

انبیاء ؑ کی طرزفکر:
تمام انبیاء کی تعلیمات کی ایک بنیاد ہے اور یہ بنیاد توحید ہے ۔توحید ایک خالق کو ماننا ہے۔بنیادی تفکّر کے ساتھ دوسرا اصول جو ہر اُمَّت کے لئے لازم قرار دیا گیا وہ مقام صلوٰۃ ہے ۔صلوٰۃ خالق سے رابطہ قائم کرنے کا بہترین اور یقینی ذریعہ ہے ۔اللہ کے ساتھ مرکزیت قائم ہونے سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے پیغمبران کی سنت پر عمل کر کے اگر کوئی بندہ توحید کے بنیادی اصولوں پر کاربند ہو جائے تو اس کے اندر رُوحانی شعور بیدار ہو جاتا ہے اور رُوحانی شعور ہی اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
جتنے پیغمبر علیہم السلام تشریف لائے ان سب کی طَرزِ فِکر یہی رہی کہ ہمارا بشمول کائنات اللہ تعالیٰٰ کے ساتھ ایک رشتہ براہِ راست قائم ہے اور یہ رشتہ ہی کائنات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات بھی یہی رہیں کہ بندے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ بندہ ذات باری تعالیٰ کے رشتہ کے سوا کوئی حیثیّت نہیں رکھتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو کچھ جس طرح اور جب کرنا چاہتے ہیں وہی اِنسان کا عمل بنتا ہے۔ پیغمبر علیہم الصلوۃو السلام نے اسی طَرزِ فِکر میں ایک اور طَرزِ فِکر شامل کی اور وہ یہ کہ انہوں نے اچھائی اور برائی کا تصوّر اس لئے ظاہر فرمایاہے کہ خود اللہ تعالیٰ یہی چاہتے ہیں ۔ اگر اچھائی اور برائی کا تصوّر نہ ہوتا تو اختیارات نیکی اور بدی نا قابل تذکرہ ہو جاتے۔ اس بات سے کوئی آدمی انکار کی مجال نہیں رکھتا کہ شیطان کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ کہنا یہ ہے کہ شیطان اور شرکو ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے جدا نہیں کر سکتے۔ لیکن شیطان زندگی کا ایک ایسا رُخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ناپسندیدہ ہے اور شیطنت کے برعکس اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اللہ تعالیٰ کے لئے پسند یدہ عمل ہے ۔ لیکن جو لوگ تخلیق کے اس رُخ سے واقف ہیں اور جن کا ایمان ، یقین اور مشاہدہ یہ ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ یہ بات بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل کیاہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کو اپنی زندگی بنالیتے ہیں تو ان کے اندر سے شر نکل جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر شیطان ان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔

خیر یا شر:
برائی اور بھلائی کا جہاں تک تعلق ہے، کوئی عمل دنیا میں برا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمل میں معنی پہنانا اچھائی یا برائی ہے۔ معانی پہنانے سے مرادنیّت ہے۔ عمل کرنے سےپہلےاِنسان کی نیّت میں جو کچھ ہوتا ہے وہی خیر اور شر ہے ۔
اللہ نے آدم ؑ کو اپنی نیابت عطا فرما ئی تو فرشتوں نے عرض کیا کہ یہ زمین پر فساد پھیلائے گا ۔ یہ بتانے کے لئے آدمؑ کے اندر شر اور فساد کے ساتھ خیرو فلاح کا سمندر بھی موجزن ہے، اللہ نے آدمؑ سے کہا کہ ہماری تخلیقی صِفات بیان کرو ۔ جب آدم نے تخلیقی صِفات اور تخلیق میں کام کرنے والے فارمولے)اسمائے الٰہیہ (بیان کئے تو فرشتے بر ملا پکار اٹھے ۔”پاک اور مقدؔس ہے آپ کی ذات ، ہم کچھ نہیں جانتے مگر جس قدر عِلم آپ نے ہمیں بخش دیا ہے، بے شک و شبہ آپ ہی کی ذات علیم اور حکیم ہے”۔تفکّر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرشتوں نے جو کچھ کہا اللہ نے اس کی تردید نہیں کی ۔ بات کچھ یوں بنی کہ آدم کی اولاد کو جب تک اللہ کی صِفات کا عِلم منتقل نہیں ہو تا وہ سرتاپا شر اور فساد ہے اور تخلیق کا عِلم منتقل ہونے کے بعد سراپا خیر ہے ۔
حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی نے سوال کیا آپ نے شادی نہیں کی کیا آپ کو شیطان سے ڈر نہیں لگتا؟ حضرت صاحبہؒ نے فرمایا۔ ’’مجھے رحمان سے ہی فرصت نہیں ۔‘‘ جب رحمان سے ہی فرصت نہیں تو شیطان کا خیال ہی نہیں آتا۔ اسی بات کو خواجہ غریب نوازؒ نے یوں فرمایا ہے۔ “یاردم بہ دم وباربارمی آید۔” حضور غریب نوازؒ فرماتے ہیں ۔”میری ہر سانس میں اللہ بسا ہوا ہے اور میرا ہر سانس اللہ کے ساتھ وابستہ ہے”۔ ظاہر ہے کہ جب ہر سانس کی وابستگی براہِ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو تو وہاں شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ بات مشکل ہے لیکن واقعتاً ایسا ہوتا ہے کہ ایسے برگزیدہ اور پاک نفس بندے موجود ہوتے ہیں جن کے ذہن سے شر کا خانہ نکل جاتا ہے ۔ اور جب شرکا خانہ نکل جاتا ہے تو خیر کا خانہ بھی حذف ہو جاتا ہے۔ شر اور خیر دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے روشنی اور تاریکی ، گرم و سرد ، تلخ و شیریں ، راحت اور تکلیف، خوشی اور غم، غصہ اور محبت وغیرہ لازم و ملزوم ہیں ۔ بظاہر یہ بات خلاف عقل اور خلاف شرع معلوم ہوتی ہے۔لیکن ایسا ہے ۔یہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہمارے بندے ایسے بھی ہیں جو ہماری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، ہماری زبان سے بولتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں ۔ ان بندوں کی طَرزِ فِکر میں یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری حیثیّت ایک معمول کی سی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں ۔
مشیت جو چاہتی ہے اور جیسا حکم دیتی ہے وہی ہوتا ہے۔ اگر مشیت یہ چاہتی ہے کہ کسی زمین پر آباد بستی کو ختم کر دیا جائے تو ایسے بندے کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ قتل عام ہے۔ بس اس کے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ زمین کا تختہ الٹ دیا جائے۔ یہ تعریف ہے ان لوگوں کی جن کو صاحب خدمت کہا جاتا ہے ۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جن کے اندر اچھائی برائی کا تصوّر ہے اور وہ اچھائی کو اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتے ہیں اور برائی سے اس لئے بچتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ خاتم النبین حضرت محمدﷺ سے فکر کی دونوں طرزیں ان کی اُمَّت کو منتقل ہوئی ہیں۔

طرزفکر کے حصول کا طریقہ:
رُوحانی استا د یا مراد انبیا ءؑ کی طَرزِ فِکر کا وارث ہوتا ہے۔ جب کوئی شاگرد اپنے رُوحانی استا د کی طَرزِ فِکرکو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ استاد کی نسبت حاصل کرے، نسبت حاصل کرنے کا پہلا سبق تصوّرہے۔ جب رُوحانی شاگرد یا سالک آنکھیں بند کر کے ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اپنے رُوحانی استاد کو تصوّر کرتا ہے تو رُوحانی استاد کے اندر کام کرنے والی لہریں اور طَرزِ فِکر شاگرد کو منتقل ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ طَرزِ فِکر روشنیوں کا وہ ذخیرہ ہے جوحواس بناتی ہیں ، شعور بناتی ہیں زندگی کی ایک نہج بناتی ہیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ جب کوئی رُوحانی شاگر د اپنے رُوحانی استاد کے تصوّر میں گم ہو جاتا ہے تو اس کی چال ڈھال ، انداز گفتگو اور شکل و صورت میں ایسی نمایاں مشابہت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ پہچاننا مشکل نہیں رہتا کہ یہ اپنے رُوحانی استا د کا عکس ہے۔ تصوّر کا قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے ذہن کو ہر طرف سے آزاد کر کے بند آنکھوں سے یہ تصوّر کیا جائے کہ رُوحانی استاد کی طَرزِ فِکر میں کام کرنے والی روشنیاں میرے اندر منتقل ہو رہی ہیں۔
اگر آدمی کوئی عِلم نہیں جانتا تو اس عِلم کو سیکھنے کے لئے ان تمام علوم سے جو وہ سیکھ چکا ہے صرف نظر کر کے اسے نرسری کا بچہ بننا پڑے گا۔استاد جب کہتا ہے پڑھو الف۔ بچہ یہ نہیں کہتا کہ الف کیا ہے۔ استاد کی تقلید میں بچہ کہہ دیتا ہے”الف”عقل و شعور استعمال کر کے کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ یہ وصف بچے کو قدم قدم آگے بڑھاتا ہے اور بچہ پڑھ لکھ کرPh.D کر لیتا ہے۔
دنیاوی علوم کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک عقل و شعور کی نفی کر کے طالب عِلم سکھائے جانے والے عِلم کو قبول نہ کرے۔ معاشرتی طرزیں بچے میں ماحول اور ماحول میں رہنے والے افراد سے منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ماں آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہتی ہے وہ چاند ہے۔ بچہ چاند کو اسی طرح چاند سمجھتا ہے ، جس طرح ماں کے شعور میں چاند ہے۔ باپ کہتا ہے یہ درخت ہے ، بچے کے اندر درخت سے متعلق باپ کا عِلم منتقل ہو جاتا ہے۔ بہن بھائی ، دادی نانی، بچے کو پانی پلاتے ہیں۔ بچے کی آنتیں پانی سے اسی طرح سیراب ہوتی ہیں ۔ جس طرح گھر کے دوسرے افراد پانی پی کرسیراب ہوتے ہیں۔ بچہ اگر چاند کو چاند تسلیم کرنے سے انکار کر دے، درخت کو درخت نہ مانے پانی سے پیاس بجھنے پر اعتراض کرے، ماں کو ماں نہ کہے، باپ کو باپ تسلیم نہ کرے تو معاشرے کی اقدار بچے میں منتقل نہیں ہونگی۔رُوحانی استاد کہتا ہے۔ اندھیرا روشنی ہے۔چھ ارب لوگ کہتے ہیں اندھیرا اندھیرا ہے تاریکی ہے۔ اگر شاگرد عامل معمول کے طریقہ پر حاصل ہونے والے شعور سے اعتراض کر دے کہ اندھیرا روشنی کیسے ہو سکتا ہے؟ اندھیرا تو اندھیرا ہے۔ تو رُوحانی عِلم نہیں سیکھ سکتا۔
جس طرح بچے نے اے، بی، سی، ڈی پڑھنے میں اپنی عقل استعمال نہیں کی اسی طرح جب تک رُوحانی شاگرد اندھیرے کو روشنی تسلیم نہیں کرے گاتو اگلی کلاس میں داخل نہیں ہو سکتا۔
رُوحانی استاد کہتا ہے۔ مادی جسم فکشن ہے۔ اس کی اپنی ذاتی کوئی حیثیّت نہیں ہے۔ شاگرد حجت پیش کرتا ہے اگر جسمانی نظام فکشن ہے تو روٹی نہ کھانے سے ہم کمزور کیوں ہو جاتے ہیں؟ اگر روٹی کھانا فکشن ہے تو ہمارے اندر کھانا کھانے سے طاقت کیوں آ جاتی ہے؟رُوحانی استاد بتاتا ہے کہ ہمارا مادی جسم اس لئے فکشن ہے کہ ہم روٹی بھی کھا رہے ہیں پانی بھی پی رہے ہیں فضا سے آکسیجن بھی ہمیں مل رہی ہے لیکن جسم انحطاط پذیر DETERIORATIVE ہے آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
روٹی کھا کر آدمی بوڑھا کیوں ہو رہا ہے؟
جوان آدمی سوکھی روٹی کھا کر بھی صحت مند ہے۔ بوڑھا آدمی طاقتور غذائیں کھا کر روز بروز کمزور ہوتا رہتا ہے۔ رگ پٹھوں سے مُرکّب جسم کے خوبصورت خدوخال سکڑ جاتے ہیں اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں چہرہ پر جھریاں پڑ جاتی ہیں۔

دنیاوی علوم کا استاد ہو یا رُوحانی استاد ہو، دونوں کا ادب و احترام ضروری ہے۔ رُوحانی استاد اور عِلم حصولی کے استاد میں فرق یہ ہے کہ رُوحانی استاد کے پیش نظر صرف اللہ ہوتا ہے۔ دنیاوی غرض لالچ طمع کچھ نہیں ہوتا۔ رُوحانی استاد کے ذہن میں شاگرد کی اصلاح و تربیّت کا ایک مکمل پروگرام ہوتا ہے کہ شاگرد غیب کی دنیا سے واقف ہو جائے اسے عِرفان ذات حاصل ہو جائے۔
رُوحانی استاد تعلیم دیتا ہے کہ اللہ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔ رُوحانی استاد بتاتا ہے کہ رُوحانی اِنسان کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہے۔ رُوحانی اِنسان وہی کام کر کے خوش ہوتا ہے جو اللہ کی صِفت ہے۔
جواری کی دوستی کا تقاضہ ہے کہ دوست کے ساتھ کلب میں جا کر جوا کھیلے۔ شطرنج کے کھلاڑی سے دوستی شطرنج میں مہارت حاصل کرنے کی متقاضی ہے۔ مصوّر کی دوستی آدمی کو ماہر مصوّر نہ بھی بنائے اسے اس قابل ضرور بنا دیتی ہے کہ وہ کینوس پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر خدوخال اور نقش و نگار واضح کر دے۔ سینما دیکھنے کا شوقین پیسے خرچ کر کے دوست کو فلم دکھانے لے جاتا ہے۔دنیا داری میں بھی دوستی اس وقت تک بااعتبار نہیں ہے جب تک دوست وہی اوصاف اختیار نہ کرے جو اس کے دوست کے ہیں۔
بچے کا نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں بظاہر حیاتیاتی ضابطوں کے خلاف پرورش پانا، پیدا ہو کر دنیا میں آنا، غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ماں کے سینے سے دودھ کا چشمہ ابل پڑنا، پیدائش سے موت تک حفاظت و سائل کا مہیا ہونا ،یہ سب بندوں کی خدمت ہے جو اللہ کے قائم کردہ نظام کے تحت جاری و ساری ہے۔

دوست تک رسائی:
تمام پیغمبروں کا دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے علوم کی روشنیوں سے لوگوں کو متعارف کروانا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے پیغمبران کی ہدایتوں کو مان کر ان پر عمل کیا وہ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حواری کہلائے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی برات قبول کی گئی۔اور براہِ راست پیغمبروں کے ذریعے انہیں علوم حاصل ہوئے ۔کیا یہ تمام پیغمبروں کا مشترکہ معجزہ نہیں کہ ان کی قوم کو ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے علوم پہنچائے گئے۔آج جبکہ دنیا میں مختلف مذاہب کے پیروکار بستے ہیں ان سب کا ایک جھنڈے تلے آنا ممکن نظر نہیں آتا ۔ مگر رُوحانیّت جو حقیقت ہےیہ کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتی ۔رُوح تو ہر مخلوق کے اندر موجود ہے۔بغیر رُوح کے کسی ذرے کے وجود کا گمان بھی نہیں ہو سکتا۔آج اس بات کی ضرورت ہےکہ نسل اِنسانی اپنے اپنے پیغمبروں سے عشق کے درجے میں محبت کرے۔اور ان کی رُوح سے رابطہ قائم کرے اور ان کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرے تو سب کی منزل ایک ہی ہو جائے گی کیونکہ ہر پیغمبر حق تعالیٰ کا دوست اور حبیب ہے۔دوست کے ذریعے ہی دوست تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔اور رُوح کے ذریعے سے ہی رُوح تک رسائی ممکن ہے ۔رُوح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ اور امر اللہ تعالی کا جزو ہے ۔پس رُوحانیّت کی سیڑھی کے سوا اور کوئی زینہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا نہیں ہے۔جب لوگ جسم حیوانی کی زندگی اور اس کی توانائی پر اپنی تمام قوتیں خرچ کر دیتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں۔کہ جسم حیوانی کی زندگی بھی رُوح کی حیات کے ساتھ ہے کیونکہ رُوح کے تمام لطائف ہی اِنسان کی ایک ایک زندگی کا شعور ہے ۔اپنی رُوح سے غفلت برتنے والے خود اپنی حیات سے رشتہ توڑتے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔
اطمینانِ قلب کا حصُول :
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم ہو جانے سے اِنسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے ۔صوفیانہ تعلیمات کا مقصد بھی یہی ہے کہ رسُول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے خالق و مالک اللہ سے ہر حال اور ہر حرکت میں ربط و تعلق قائم ہو جائے۔اللہ تعالیٰ کی قربت پانے کا سب سے مؤثر ذریعہ صلوٰۃ ہے۔بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ حضوری قلب کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں ہوتا ہے۔صلوٰۃ کے ذریعے اللہ سے قربت پانے کی سعی کرنی چاہئے۔
روحانیت کے راستے پر چلنے والے سالک کے اندر یہ طرزِ فکر ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ
دے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:
وَالرّٰسِخُوۡنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ
یہی وہ اصل طرزِ فکر ہے جو انسان کے اندر إستغناء پیدا کرتی ہے۔ إستغناء کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھا رہے۔ کوشش اور جدّوجہد اس پر لازم ہے۔ کوشش اور جدّ و جہد کے ساتھ نتائج پر نظر نہیں ہونی چاہئے بلکہ نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ یعنی جو کچھ ہو رہا ہے یا ہم کر رہے ہیں وہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا چاہتا ہے۔ روحانیت میں اس بات کو ذہن نشین کرا دیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی اور زندگی کے تمام اعمال و اشغال سب مِن جانب اللہ ہیں۔ اس کی نظر عذاب ثواب، توقع اور صلہ و ستائش پر نہیں ہوتی وہ برائیوں سے اس لئے بچتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اچھائیوں کو اس لئے اختیار کرتا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ عذاب و ثواب کا جب تذکرہ آتا ہے تو اس میں ڈر، خوف، دہشت، ہیبت اور آسائش و آرام اور آسانیاں پیش نظر ہوتی ہیں۔ کسی سالک کے لئے یہ طرزِ فکر زہرِ قاتل ہے۔ اس طرزِ فکر کا بندہ روحانیت میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سراپا محبت ہے۔ جہاں ڈر آ جاتا ہے دوری واقع ہو جاتی ہے۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہو گیا اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا منشا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ہو۔
انسان کی ذہنی طرزِ فکر ماحول سے بنتی ہے۔ جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اس ماحول میں تمام اعمال کے نقوش در و بست یا کم و بیش ذہن پر مُرتسم ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش ہلکے یا گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسان کی زندگی کی ایک نہج بن جاتی ہے۔ اگر کوئی بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں والدین اور اس کے ارد گرد ماحول کے لوگ ذہنی پیچیدگی، بددیانتی اور ان اعمال کے عادی ہوں جو معاشرے کے لئے ناقابلِ قُبول اور ناپسندیدہ ہیں، وہ بچہ لازمی طور پر قبول کرے گا۔ اسی طرح اگر بچے کا ماحول پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہو گا۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو ماں باپ بولتے ہیں وہی عادات و اطوار اختیار کرتا ہے جو والدین سے ورثہ میں منتقل ہوتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ:
بچہ کا ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے اور آدھا ماحول کے زیر اثر بنتا ہے۔
یہ مثال صرف بچوں کے لئے مخصوص نہیں، اِس میں افراد اور قوموں پر بھی یہ قانون لاگو ہوتا ہے۔
ابتداءِ آفرینش تا اِیں دَم، جو کچھ ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب کا سب نوعِ انسانی کا ورثہ ہے۔ یہ ورثہ قوموں میں اور افراد میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو ہم ارتقاء کہتے ہیں۔ مختصراً کسی روحانی طالب علم کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ طرزِ فکر دو ہیں۔ ایک طرزِ فکر بندے کو اپنے خالق سے قریب کرتی ہے اور دوسری طرزِ فکر بندے کو اپنے خالق سے دور کرتی ہے۔ ہم جب کسی انعام یافتہ شخص سے قربت حاصل کرتے ہیں جسے وہ طرزِ فکر حاصل ہے جو خالق سے قریب کرتی ہے تو قانون کے مطابق ہمارے اندر وہی طرزِ فکر کام کرنے لگتی ہے اور ہم جس حد تک اس انعام یافتہ شخص سے قریب ہو جاتے ہیں اتنی ہی اس کی طرزِ فکر ہمیں حاصل ہو جاتی ہے اور انتہا یہ کہ دونوں کی طرزِ فکر ایک بن جاتی ہے۔

حوالہ جات:
1۔ کتاب ” معرفتِ عشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی، موضوع رُوحانی شعور، صفحہ نمبر 200
2۔ کتاب ” کشکول ” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، موضوع 264، صفحہ نمبر 178
3۔ کتاب” معرفتِ عشق” اَز سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی ، موضوع انبیاء اور ان کے معجزے، صفحہ نمبر 51 تا 52
4۔ کتاب ” روح کی پکار” اَز الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی ، موضوع ارتقائی منازل، صفحہ نمبر 175 تا 177

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 126 تا 133

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)