پتھر میں زندہ کیڑا

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47149

کائنات دراصل گروہی تقسیم ہے۔

یہ گروہی تقسیم ایک ایسا سسٹم ہے کہ جس میں ہر گر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہے۔

گروہی تقسیم سے مراد کائنات میں مختلف النوع مخلوقات ہیں۔ ہر مخلوق شکل و صورت خدو خال، مزاج اور عملی کارکردگی کے اعتبار سے، گو کہ مختلف نظر آتی ہے، لیکن سسٹم کی اِکائی سے کوئی مخلوق فرار اختیار نہیں کرسکتی۔

ہر مخلوق، اُس کی حیثیت کچھ بھی ہو، اجتماعی ذہن رکھتی ہے اور یہ اجتماعی ذہن تقسیم ہو کر کسی مخلوق کا اِنفرادی عمل بنتا ہے۔

زمین پر لاکھوں کی تعداد میں مخلوقات موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حیوانات کی اقسام دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ زمین پر پودوں کی تعداد بھی کئی لاکھ ہے۔ اسی طرح اَشجار کی تعداد بھی کئی سو ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پانچ لاکھ قسم کے پرندے زمین پر موجود ہیں۔ سمندر کے اندر موجود مخلوق لاکھوں قسموں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اسی طرح زمین پر رینگنے والے کیڑے اور حشرات الارض کی قسمیں شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔

تمام مخلوقات کروڑوں اور اربوں سال سے زندہ ہیں اور زندہ رہنے کے لیے خوراک حاصل کرتی ہیں۔ ایسی مخلوقات بھی بے شمار ہیں جو خود اپنی اَصناف کو کھا کر زندہ رہتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہاں ہر مخلوق دوسری مخلوق کے لئے غذائی ایندھن بن رہی ہے، مخلوق ختم نہیں ہوتی مخلوقات جب ایک دوسرے کو کھا رہی ہیں تو یہ بات حیران کن ہے کہ زمین پر اتنی بڑی تعداد میں جاندار کس طرح زندہ ہیں۔ ہر مخلوق چاہے وہ کتنی بھی کمزو ہو، چھوٹی ہو، نا دید ہ ہو، اپنی نسل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ مردم شماری کے مطابق انسان زمین پر چھ ارب ہیں۔ ہر انسان دن میں تین مرتبہ کھاتاہے۔

دیمک چیونٹی سے چھوٹا ایک کیڑا ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ دیمک دوسرےحشرات کی طرح انڈے دے کر اپنی نسل بڑھاتی ہے۔ ایک دیمک عام طور پر ایک ہزار سے دو ہزار انڈے دیتی ہے۔ دیمک کی ایک دوسری قسم، ایک وقت میں بیس لاکھ انڈے دیتی ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ انڈے بہت سے دوسرے حشرات کے لئے بے حد لذیذ اور مرغوب غذا ہیں۔ اِن بیس لاکھ انڈوں میں سے پانچ چھ سو انڈے بچ جاتے ہیں اور اس طرح دیمک کی نسل چلتی رہتی ہے۔

کارخانۂِ حیات پر اور کارخانۂِ حیات کی قدرت پر غور کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ زمین پر موجود ہر شے دوسری شے کے لئے خواراک بن رہی ہے، اس کے باوجود نسلی سلسلہ قائم ہے۔ مخلوقات کے ذریعۂِ حیات کی ترسیل کا خدائی نظام موجود ہے۔

ایک خاص قسم کا الّو اپنی مخصوص جگہ پر حرکت کئے بغیر بیٹا رہتا ہے اور اپنے اِنّر سے ایک برقی شعاع خارج کرتا ہے جس کے اثر سے ایک چڑیا اس کے سامنے آکر بیٹھ جاتی ہے اور الّو اسے پکڑ لیتا ہے۔

راقم الحروف کا ذاتی مشاہد ہ ہے کہ جب ماربل کی سِل کو آرے سے چیرا گیا تو اسکے اندر سبز رنگ کا کیڑا موجود تھا۔

سائنس بتاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔

جلتے ہوئے آتش فشانوں سے بہنے والے لاوے غار بن جاتے ہیں۔چونکہ غار گرم لاوے سے وجود میں آتی ہے جس کا درجہ حرارت دو سو سے تین ہزار سینٹی گریڈ ہوتا ہے ان گاروں میں نئی زندگی کی تخلیق کے ممکنات پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے ایک گار میں سانپ سے ملتی جلتی ایک مخلوق کا سراغ لگایا ہے پہلے تو انہیں خیال آیا کہ یہ باہر کی عام دنیا کا ایک سانپ ہے مگر یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ اس مخلوق کا سانپ کی نسل سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ ایک دیو ہیکل کیڑا تھا جو تقریبا دو میٹر لمبا تھا مگر بہت زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب اس کا معائنہ لیبارٹری میں کیا گیا اس کیڑے میں نہ تو کوئی نطام ہضم تھا نہ ہی نظام تنفس تھا اس مخلوق میں صرف دل تھا یہ انکشاف ایک معمہ بن گیا کہ یہ کس طرح زندہ رہتا ہوگا؟

کیسے کھاتا ہوگا؟ اور کس طرح سانس لیتا ہوگا؟ اس مخلوق کی جلد پر تحقیق نے یہ معمہ حل کر دیا۔ اس کی جلد پر رہنے والے خورد بینی جراثیم، بیکٹیریا اسے خوارک مہیا کرتے ہیں، ان ہی کے ذریعہ یہ مخلوق آکسیجن حاصل کرتی ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیڑا اس غار میں پیدا ہوا جسے آتش فشاں کی بے پناہ آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔

یہ پیدا کیسے ہوا؟

زندہ کیسے رہا؟

نشونما کیسے ہوئی؟

دو میٹر لمبا کیسے ہو گیا؟

اس کا ارتقاء کس طرح ہوا؟

کروڑوں اربوں پرندے زمین کی فضا میں موجود رہتے ہیں یہ پرندے کھانا کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، اور حیات و ممات کے سلسلے میں دوسرے تمام گروہوں کے ساتھ قدر مشترک رکھتے ہیں۔

انسانی زندگی ہو، حیوانی زندگی ہو، حشراتُ الارض کی زندگی ہو یا پرندوں کی زندگی ہو، سب ایک زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں۔ حیات و ممات کی اس زنجیر سے زمین پر موجود کوئی بھی مخلوق آزاد نہیں۔۔۔۔۔ آزاد نہیں ہو سکتی، آزاد نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ حیات و ممات ایک مسلسل حرکت ہے او رحرکت توانائی کے بغیر ممکن نہیں اور توانائی کے لئے غذا کا ہونا ضروری ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں؟

اتنی بڑی تعداد میں پرندے اگر کھیتی باڑی سے حاصل شدہ گندم یا چاول کھانے لگیں تو انسان بھوکا مرجائے گا۔ کارسازِ حیات کی قدرت پر قربان جائیے کہ….

فضا ءمیں پرندوں کے غول اڑتے ہیں اور انہیں پرواز کے لئے انرجی کی ضرورت ہوتی ہے اور توانائی کے لئے غذا کاحصول ضروری ہے۔ پرندے فضا میں سے زمین پر اترتے ہیں، اس سے پہلے کہ انکے پنجے زمین پر لگیں، وہاں ان کے لئے غذا موجود ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

کتنے ہی جانوار ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے، اور تمھارا  رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔                                     (العنکبوت – 60)

زمین، فضا،  خلاء اور آسمان پر تفکر کرنے سے یہ ظا ہر ہوتا ہے کہ کائنات میں جتنی بھی اشیاء یا مخلوقات ہیں وہ سب اپنا ایک تشخص رکھتی ہیں ان کی اپنی انفرادیت ہے اور ان کے اندر ایثار ہے کہ وہ دوسری مخلوق کے کام آئیں۔

ہم زمین میں بیج بوتے ہیں۔ بیج مخلوق کی ایک قسم ہے۔ بیج ایک گروہ ہے۔ اس بنیادپر گروہ ہے کہ آم بیر نہیں ہوتا…. بیر اِنجیر نہیں ہوتا…. اِنجیر کیلا نہیں ہوتا….کیلا شہتوت نہیں ہوتا….. جس طرح بیج کی قسمیں الگ الگ ہیں اسی طرح درختوں کی قسمیں یا گروہ الگ الگ ہیں۔ آم کے درخت کے پتے شہتوت کے درخت کے پتوں کی طرح نہیں ہیں۔ بادام کے درخت کے پتے بیری کے پتوں سے مختلف ہیں۔ امرود کے درخت کے پتوں اور انار کے درخت کے پتوں میں نمایاں فرق ہے… نہ صرف یہ کہ گروہی اعتبار سے پتوں کے خدّوخال جُدا جُدا  ہیں بلکہ درختوں میں سے پیداہونے والے پھل بھی الگ الگ ہیں۔

انار، امرود، اِنجیر، آم، جامن، چیکو، شریفہ مختلف اقسام کے پھلوں کو ایک ٹرے میں سجائیے اور غور کیجئے

کیا یہ سب ایک ہیں؟

ہر گز ایک نہیں ہیں….

سب الگ الگ ہیں….

رنگ الگ ہے،  ذائقہ الگ ہے شکل و صورت الگ ہے،  خوشبو الگ ہے۔

جس طرح انسان انسان ہے…. پودے پودے ہیں…. جس طرح گھاس گھاس ہے…. لیکن نظامِ قدرت اور کائناتی گروہی سسٹم یہ ہے کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کے کام آرہا ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے لئے غذا بن رہا ہے، ہر گروہ دوسرے گروہ سے نہ تو مُتصادم ہے اور نہ ایک گروہ دوسرے گروہ میں تحلیل ہو رہا ہے۔

اس کے باوجود کے ہر شے دوسری شے کے لئےکسی نہ کسی حوالے سے غذا بن رہی ہے اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں۔

یہ وجود کس طرح قائم ہے؟

وجود کے قیام میں یہ اسرار ہے کہ تمام مخلوقات پر حاکمیت ایک ہستی کی ہے۔ اگر ایک ہستی کی حاکمیت نہ ہوتی تو ہر گروہ، ہر نوع،  نوع کی ہر قسم ایک دوسرے سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجاتی۔ واحد ہستی اللہ نے لوحِ محفوظ میں تمام مخلوقات کا ریکارڈ محفوظ کیا ہے…  جسے ایک کمپیوٹر کی طرح فیڈ کیا گیا ہے۔ لوحِ محفوظ میں یہ بات ریکارڈ ہے کہ کس طرح مخلوق مخلوق کے کام آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو اس کے باپ آدم کا ورثہ منتقل کیا ہے یہ وہ علم ہے جو آدم کے علاوہ کائنات میں کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے۔

قدرت کی سائنس کا یہ علم آدم زاد کو اس لئے دیا گیا ہے کہ….

وہ اللہ کی صنّاعی…. اللہ کی حاکمیت…. اللہ کی قدرت اور اللہ کی ربوبیت کا ادراک حاصل کرے۔ اِس کے بَرخلاف جو بھی سوچ ہے….  جو بھی تفکر ہے….  جو بھی علم ہے….  وہ سب خود فریبی اور سراب ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 020 تا 026

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)