رمضان المبارک

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47169

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس زمین پراپنی محدود سی زندگانی میں ہمیں ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، نعمتوں، مغفرتوں سے بھرپور ماہِ رمضان کے روز و شب نصیب ہورہے ہیں۔ رمضان کے روزے امّت مُسلمہ پر فرض ہیں۔ رمضان میں وہ مبارک ساعتیں بھی شامل ہیں جن میں اللہ کی آخری کتاب، نوعِ انسانی کے لئے تاقیامت ہدایت و رہنمائی کی جامع ترین الہامی دستاویز، قرآن کا نزول شروع ہُوا۔ اِن مبارک ساعتوں والی شب کا نام لیلۃُ القدر ہے۔ یہ وہ عظیم المرتبت شب ہے جسے ہزار مہینوں سے افضل قراردیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بنو’’۔

(سورۃ البقرۃ –  183)

کائنات کے تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ اِس زمین پر ہر دن ہر ہفتہ، ہر مہینہ ہر سال اللہ کا ہے۔ لیکن رمضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اسے اللہ نے خود اپنا مہینہ فرمایا ہے۔ نماز، زکوٰۃ ۔ حج،اللہ کے احکامات کی بجاآوری، حقوق العباد کی ادائیگی غرض اللہ کی عبادت و اطاعت و فرمانبرداری کا ہر اندازمقدس و متبرک ہے۔ ہر عبادت اللہ کی خوشی اور جزاء کے حصول کا ذریعہ ہے۔ تاہم جزاء کے معاملہ میں روزہ کو منفرد مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کی جزاء میں خود ہوں۔

اللہ کے آخری رسول، معلّمِ اعظم، حضرت محمد ﷺؐ نے شعبان میں رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں امّت مُسلمہ کو آگہی بخشتے ہوئے فرمایا۔

لوگو!تم پر ایک بہت عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزارمہینوں سے افضل ہے۔ اس مہینہ میں دن کے اوقات میں روزہ فرض کیا گیا ہے اور رات میں قیام کرنا نفل عبادت ہے۔

آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ:

رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں فراخی اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کروایا تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے۔ اُسے روزہ دار کے برابر اجر ہوگا اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

اس موقع پر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک کو افطار کروانے کے وسائل میسر نہیں۔

نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر اس کے لئے بھی ہے جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی کے گھونٹ پر ہی کسی روزہ دار کو افطار کروادے۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کردے گا جس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔

مختلف روایات میں ملتا ہے کہ کئی آسمانی کتابیں اس ماہ میں نازل ہوئیں۔

حضرت ابراہیمؑ کے صحیفے یکم تا تین رمضان ،

حضرت داؤدؑ کو زبور 12 یا 18 رمضان کو،

حضرت موسیٰ ؑ کو توریت 6 رمضان کو … اور

حضرت عیسیٰؑ کو انجیل 12 یا 13 رمضان المبارک کو عطا ہوئی۔

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں اللہ کے آخری رسول محمدؐ کے قلب اطہر پر قرآن نازل ہوا۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۖ  وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

(سورۃ البقرۃ – 185)

ترجمہ:

‘‘رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مبنی ہے جو درست راستہ دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق واضح کردینے والی ہیں، جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس مہینہ میں روزہ رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے، سختی نہیں چاہتا تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور اللہ نے تمہیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار کرو اور اللہ کے شکرگزار بنو’’۔

 

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

(البقرۃ – 186)

ترجمہ:

‘‘اے نبی (ﷺ) میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو انہیں آگاہ کردو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں تو انہیں چاہیے کہ میرا حکم مانیں اورایمان لائیں تاکہ راہِ راست پالیں’’

رمضان کے مہینہ کی نزولِ قرآن سے نسبت اور اس ماہِ مبارک میں روزہ کی فرضیت سے آگہی عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ آیات میں دو باتیں بہت زیادہ غور طلب ہیں:

  • ایک توامت محمدیؐ کے لئے یہ اظہار کہ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا
  • دوسرے اس حقیقت کا اظہار کہ اللہ ہم سے بہت قریب ہے وہ ہماری ہر پکار کو سنتا ہے اوراس کا جواب عطا فرماتا ہے۔

ذہن میں سوال آتا ہے کہ اِن اُمور کا اظہار بطورِ خاص نزولِ قرآن کے ذکر اور روزے فرض قرار دیتے ہوئے کیوں کیا گیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روزہ کا نتیجہ یا اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان متقی ہوجائے۔ انہی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں۔

ان آیات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کے روز و شب میں روزہ رکھ کر اور قیامُ اللیل میں قرآن کی تلاوت اور سماعت کے ذریعہ بندہ کا وجود اللہ تعالیٰ کے اَنوار کو قبول و جذب کرنے کی اِستعداد و سکت حاصل کرنے لگتا ہے۔

قرآن پاک سے صحیح طور پر ہدایت حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہدایت کا خواہشمند تقویٰ کے گوناگوں اَوصاف کا حامل ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

الٓمٓ ١ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ٢

یہ کتاب ہر قسم کے شک و شبہ سے مبرا ہے یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے  ž

(سورۃ البقرۃ : 2 – 1)

قرآن سے فائدہ تو ہر کوئی اٹھاسکتا ہے لیکن اس سے ہدایت حاصل کرنا متقیوں کے لئے ہی مخصوص ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سرخروئی کے لئے قرآن سے ہدایت پانے کے لئے ایک مخصوص فکر کی ضرورت ہے۔ قرآن اس طرز فکر کی حامل شخصیت کا تعارف ‘‘متقی’’  کی حیثیت سے کرواتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟

قرآنی تعلیمات کے مطابق تقویٰ محض کسی ایک وصف یا صفت کا نام نہیں بلکہ یہ کئی صفات یا اَوصاف پر مشتمل ایک پیکج ہے۔ یہ تمام صفات اللہ کے حکم سے اختیاری و اکتسابی ہیں۔ انسان چاہے توانہیں اپنالے چاہے تو خود کو محروم رکھے۔ قرآن پاک کے مطابق تقویٰ میں شامل ہیں:

  1. ایمان
  2. قیامُ الصلوٰۃ
  3. روزہ رکھنا
  4. زکوٰۃ دینا یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا
  5. اللہ کے گھر کی زیارت یعنی حج
  6. حق داروں کو ان کا حق دینا
  7. حلال روزی کا حصول
  8. عہد کو پورا کرنا
  9. عدل و انصاف کا مکمل اہتمام
  10. سختی اور تکلیف کے وقت ثابت قدم رہنا
  11. اللہ کی راہ میں قربانی دینا
  12. ظاہری و باطنی پاکیزگی کا اہتمام کرنا۔ ظاہری پاکیزگی کا مطلب ہے ذاتی اور ماحول کی صفائی کا اہتمام کرنا…. جبکہ باطنی پاکیزگی سے مراد نیت کی صفائی و پاکیزگی
  13. راست بازی اور مثبت طرز فکر یعنی Positive Thinking
  14. اللہ کے مقرر کردہ ادب و شعائر کی تعظیم و احترام
  15. معاشرہ میں ظلم و فسادسے باز رہنا

یہ ہیں چند نمایاں اَوصاف جن کا تذکرہ قرآن پاک میں تقویٰ کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔

تقویٰ کے اس پیکج میں جن اُمور کا تذکرہ ہوا ہے انہیں ہم دو بڑے حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

  • ایک حصہ کا تعلق خالصتاً عبادات سے ہے…. جب کہ
  • دوسرے حصہ کا تعلق معاملات سے ہے

عبادات کا تعلق اللہ اور بندہ سے ہے جبکہ معاملات انسانوں کے مابین عمل پذیر ہوتے ہیں۔

قرآن کے مطابق روزہ کا حاصل تقویٰ ہے۔  حدیث قدسی کے مطابق روزہ کی جزاء  اللہ ہے۔

رمضان کا مہینہ تقویٰ حاصل کرنے کے لئے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ روزہ اور قیامُ اللیل کے ذریعہ اللہ سے تعلق استوار کرنے کا مہینہ ہے۔ قرآن سے ہدایت متقیوں کو ملتی ہے۔

روزہ انسان میں تقویٰ کے اَوصاف پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ

  • رمضان المبارک کو اُس کے صحیح آداب کے ساتھ بسر کرنے والا بندہ ایسی جسمانی، ذہنی و روحانی کیفیات سے گزرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس پر اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے راز آشکار ہوتے ہیں
  • بندہ کا ذہنی، قلبی و روحانی تعلق اپنے خالق اپنے مالک اللہ وحدہُ لاشریک کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
  • روزہ کے ذریعہ بندہ کے اندر وہ حواس بیدار ومتحرک ہوجاتے ہیں جن حواس کے ذریعہ انسان فرشتوں کی موجودگی اور اللہ کے انوار کو محسوس کرسکتا ہے…. اور
  • اللہ چاہے تو بندہ ان انوار کا مشاہدہ بھی کرسکتا ہے ۔ شبِ قدر اس مشاہداتی نظر کے حصول کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔

رمضان کے ماحول کو کوئی نام دینا چاہیں تو ہم کہیں گے کہ…. رمضان المبارک ایک خاص روحانی ماحول فراہم کرتا ہے۔ یہ ماحول بندۂ عاشق صادق کو اپنے ربّ، اپنے محبوب کے خیال میں محو و سرشار رکھتا ہے۔ روزہ دار اپنے محبوب کی رضا کے لئے خوشی خوشی بھوک، پیاس برداشت کرتا ہے۔ محبوب کے تصور اور اس کے جلوؤں کی جاہ میں قیام کرتے ہوئے رات کا بڑا حصہ جاگ کر گزارتا ہے۔ آخری عشرہ کی طاقت راتوں میں ساری ساری رات جاگ کر اپنے محبوب ربّ سے اس کی رضا کا، مغفرت کا طلبگار رہتا ہے۔ یہ مہینہ بندہ میں عشق کی شدّت کو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو بڑھاتا ہے۔ اس مہینہ کے روز و شب میں مرتّب ہونے والی روحانی کیفیات اللہ وحدہُ لاشریک پر ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔

رمضان کے مہینے میں مبارک و منّور ساعتوں والی وہ رات جس میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا…. لیلۃُ القدر ہے۔

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1)

بے شک ہم نے اُس کو شبِ قدر میں نازل کِیا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2)

اورآپ کیا سمجھے کہ شبِ قدر کیا ہے؟

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3)

یہ رات (شبِ قدر) ہزارمہینوں سے بہتر ہے۔

(پارہ نمبر 30 – سورۃ القدر)

 

شبِ قدر کی مبارک ساعتوں میں غار حرا میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے مقرّب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ کے پاس آئے اور نوعِ انسانی کے لئے رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت و کامرانی کے فارمولوں پرمشتمل دستاویز کا آغاز ان آیات سے ہوا۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1)

خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2)

اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3)

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4)

عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)

ترجمہ:

پڑھو اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا (1)

جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی (2)

پڑھ اور تمہارا ربّ بڑا کریم ہے (3)

جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا (4)

انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا (5)

(پارہ نمبر 30 – سورۃ العلق)

 

قرآن اللہ کا کلام ہے جواس نے اپنے محبوب ترین بندے محمد ﷺ کے ذریعہ نوعِ انسانی کے لئے نازل فرمایا۔ جن ساعتوں میں اس کے نزول کا آغاز ہُوا، اُن کی شان یہ ہے کہ وہ ہزارمہینوں سے بہتر ہیں۔ اُس وقت جو آیات نازل ہوئیں، اُن میں…. پڑھنے کا…. اللہ کی ربوبیّت…. انسان کی تخلیق کا…. اللہ کی شان کریمی کا…. علم اور قلم کا تذکرہ ہے۔

یہ علوم کیا ہیں؟

اور

قلم کا کیا مطلب ہے؟

سلسلہ عظیمیہ کے بزرگوں اور دیگر صوفیاء کی تعلیمات سے حاصل ہونے والی فہم و دانش کے مطابق یہاں علم کا مطلب دراصل اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہے۔

  • یہ ساری کائنات، آسمان، زمین، فرشتے، جنات، انسان، چرند، پرند، نباتات و جمادات
  • ان میں پائے جانے والے تمام نظام، تقاضے، مثلا پیدائش، بھوک، پیاس، بڑھوتری، بقائے نسل وغیرہ…. اور
  • تمام جذبات مثلات محبت، نفرت، پیار، غصہ، مسابقت وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں

ان سب چیزوں کے بارے میں جاننا اور سمجھنا علم کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ زندگی کے مختلف تقاضوں کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نوع کو حسبِ ضرورت علم عطا کیا ہے۔

مثلاً مچھلی کو زندگی گزارنے کے لئے ضروری دوسرے علوم کے ساتھ پانی میں تیرنے کا علم وُدیعت کردیاگیا ہے۔ اسی طرح پرندوں کو فضاء میں اڑنے کا علم وُدیعت کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو علم عطا کیا۔ جنات کو علم عطا کیا۔ ان کے بعد انسان کو علم عطا کیا۔ مگر انسانوں کو فرشتوں اور جنات سے بہت زیادہ علم عطا کرکے فضیلت عطا فرمادی۔

فضیلت دلوانے والا یہ علم کیا ہے؟

یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ وہ علم ہے جسے علم الاسماء کہا جاتا ہے۔ اسی علم کی وجہ سے انسان کو اللہ کا نائب اور مسجودِ ملائک ہونے کا شرف ملا ہے۔

علم الاسماء کیا ہے؟

یہ کائنات کے ایک ایک ذرّہ، ایک ایک فرد، ایک ایک نوع، زمین، آسمان، ستاروں، نظام ہائے شمسی، کہکشاؤں میں جاری و ساری اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا مظہر یا ڈسپلے ہے۔ یہاں کوئی چیز کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے احاطۂِ  علم اور قدرت سے باہر نہیں ہے۔ ہر چیز کی فطرت اور مقدّر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعیّن کردہ ہے۔

علم الاسماء کی کئی جہتیں ہیں۔ مثلاً ایک درخت ہے اس میں پھول اور پھل آتے ہیں ایک درخت بیج کے کونپل، کونپل سے پودا، پودے سے درخت بننے تک جن جن مراحل سے گزرتا ہے یہ سب علم ہے۔

درخت میں یہ تمام مراحل کس کس وقت اور کس طرح طے ہوتے ہیں….. یہ معلوم کرنا اس علم کی تفہیم ہے۔  کسی چیز کا ہونا علم ہے…. اور

  • کسی چیز کے بارے میں جاننا اور اسے دریافت کرنا، اس میں تصرف یہ سب کا سب‘‘قلم’’  کے دائرہ میں آتا ہے۔
  • معروف معنوں میں…. پین ہو یا پینسل، ٹائپ رائٹر ہو یا کمپیوٹر، یا آئندہ وقتوں میں سامنے آنے والی کچھ اور چیزیں…. یہ سب بنیادی طور پر قلم کے زمرہ میں آتی ہیں۔
  • سیکھنے کا عمل اور سکھانے کے تمام آلات علم کی تشریح، تجزیہ، ترتیب و تدوین کے تمام کام ‘‘قلم’’ سے تعلق رکھتے ہیں۔

شبِ قدر میں بہ ترتیب نزول قرآن کی ابتدائی آیات میں ہی انسان کی تخلیق…. اس کے شرف…. علم کے حصول اور اس پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا ذکر بڑا معنی خیز اور فکر انگیز ہے۔

ان آیات میں تفکر سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات دراصل:

  • خالق حقیقی اور انسان کے درمیان عبد اور معبود کے تعلق…. اور
  • انسان اور کائنات کے درمیان پائے انے والے تعلق کو سمجھنے کی شاہ کلید،ماسٹر کی یا پاس ورڈ ہیں۔
  • ان پاس ورڈز کو سمجھنے یا اس ماسٹر کی کو بروئے کار لانے کے لئے ایک خاص اہلیت درکار ہے
  • یہ اہلیت صاحب قران حضرت محمدؐ کی تعلیمات اور طرز فکر کے تحت قرآن میں تفکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے
  • جو افرادیاجو قومیں قرآن کے حقیقی فہم سے رہنمائی اور ہدایت حاصل کرکے قدم اٹھاتی ہیں کامیابی ان کے راستہ میں آنکھیں بچھائے کھڑی ہوتی ہے

یہ کوئی خوش عقیدگی پرمبنی دعویٰ نہیں اس حقیقت کی گواہی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔

سب سے پہلی گواہی دورِ نبویؐ سے ملتی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب تک امّت نے قرآن سے تعلق قائم رکھا اور قرآن سے ہدایت حاصل کرتی رہی، اسے ترقی و کامیابی حاصل رہی۔

جب امّت نے قرآن سے عملاً لاتعلقی اختیار کرلی اور اسے محض دعا و تعویذ کے لئے گھر میں برکت یا ایصال ثواب کے لئے پڑھنے لگی…. اجتماعی معاملات میں قرآنی احکامات سے چشم پوشی یا انحراف کیا جانے لگا…. تو ایک متحد و مضبوط امّت منتشر لوگوں کے گروہ کی طرح ہوگئی۔

  • رمضان کا مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے
  • روزوں کا مہینہ ہے
  • رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے
  • صبر اور ایثار اور انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے
  • اپنی حالت زار پر غور کرنے کے لئے اس مہینہ میں میسر ماحول سے بہترماحول اور کون سا ہوسکتا ہے!
  • رمضان المبارک کے اجتماعی تربیتی پروگرام سے مسلم معاشرہ میں ایک نہایت پاکیزہ اور ایمان افروز کیفیت پیدا ہوتی ہے
  • ایک مہینے کی یہ تربیت انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ مسلمان پورا سال اسی طرح زندگی گزاریں کہ ہر لمحہ خود احتسابی ان کی زندگی کا حصہ بن جائے۔ کسی بھی کام کی انجام دہی سے قبل ان کے ذہن میں یہ خیال غالب رہے کہ میرا یہ عمل اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا نہیں۔

 

رمضان المبارک کے روحانی تربیتی پروگرام

 

قران کے ارشاد کے مطابق:

وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  (سورۃ الذّاریات – 49)

ترجمہ: اور ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے شاید تم دھیان کرو۔

 

انسانی حواس کے بھی دو رخ ہیں۔ کائنات میں ہر ذی روح کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں۔

  1. وہ حواس جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔
  2. وہ حواس جو اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والے حواس سب کے سب غیب ہیں۔

مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید ہے اور غیب میں زمانیت اورمکانیت انسان کی پابند ہے۔

جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اورمتعارف کراتے ہیں قرآن پاک میں ان کا نام ‘‘لیل’’  یعنی رات ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔ (سورۃ لقمان – 29)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

‘‘ایک نشانی ہے اُن کیلئے رات، کھینچ نکالتے ہیں اُس میں سے دِن کو’’  (سورۃ یٰس – 37)

یعنی حواس ایک ہی ہیں ان میں صرف درجہ بندی ہوتی ہے۔

دن کے حواس میں زمان اور مکان کی پابندی لازمی ہے، لیکن رات کے حواس میں مکانیت اورزمانیت کی پابندی لازمی نہیں ہے ۔ یہی حواس ہیں جو غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس سے انسان برزخ، اعراف، ملائکہ اور ملاءِ اَعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔

حضرت موسیٰ ؑ کے تذکرہ میں اللہ ربّ العزّت فرماتے ہیں۔

ترجمہ: ‘‘اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ ؑ سے  تیس (30)  رات کا اور پورا کیا اس کو دس (10) سے تب پوری ہوئی مدت تیرے ربّ کی چالیس (40) رات’’۔

(سورۃ الاَعراف – 142)

اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ کو چالیس راتوں میں تورات (غیبی انکشافات) عطا فرمائی۔

فرمان خداوندی بہت زیادہ غور و فکرطلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ فرمایا۔ صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جب کہ حضرت موسیٰ نے چالیس دن اور چالیس رات کوہ طور پر قیام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰ ؑ پر رات کے حواس غالب رہے۔

رات کے حواس میں یا سونے کی حالت میں:

  • ہم نہ کھاتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں… اور
  • نہ ہی ارادہ یا ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں
  • اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہوجاتے ہیں

روزے کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔

روزے میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر مسلط ہوجاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔

  • گفتگو میں احتیاط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنا…. بات نہ کرنے کے عمل کے قریب کرتا ہے۔
  • ذہن کااس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام ہم صرف اللہ کے لئے کررہے ہیں…. ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹاتا ہے۔
  • زیادہ وقت بیدار رہ کر رات (غیب) کے حواس سے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔

رمضان کا پورامہینہ دراصل ایک پروگرام ہے…. اِس بات سے متعلق کہ…. انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

‘‘روزہ کی جزاء میں ہوں….  روزہ کا بدل میں ہوں…. روزہ میرے لئے ہے’’

(صحیح بخاری: کتاب الصیام، حدیث رقم  – 1904) اور (صحیح مسلم: کتاب فضل الصّیام، حدیث رقم  – 2704، 2706، 2707)

 

دراصل روزہ ہی ہمارے ہاں وہ نظام ہے جو ‘‘تَرک’’  سے تعلق رکھتا ہے۔

آپ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارتے ہیں۔ اس وقت آپ کاروبار کو بھی ترک کردیتے ہیں۔ معاش بھی آپ کے ذہن میں نہیں ہوتی۔ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے صاف ستھری زندگی، صحیح نظام الاوقات کی حدود میں گزارتے ہیں، تو وہاں اللہ خود آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ خود آپ کے ساتھ ہوتا ہے ……… اب آپ اس بات کا اندازہ لگایئے کہ اس وقت آپ اللہ سے کتنے قریب ہوتے ہیں!

حضرت مولانا رومؒ کا ایک شعر ہے… فرماتے ہیں:

‘‘ گفتہ او گفتہ اللہ بوَد ….. گرچہ اَز حَلقوم عبداللہ بوَد’’

مولانا جلال الدین رومی ؒ نے اسی حالت کے لئے یہ شعر کہا ہے۔ آپ اس کو پڑھ کر ذرا اُس کی گہرائی میں جائیں اور غور کریں…. بار بار غور کریں…. سوچیں اور بار بار سوچیں…. کہ یہ شعر کہتے وقت مولانا رومی ؒ پر کس قسم کی کیفیت طاری تھی۔ ایسی کیفیت محض لفظوں کے الٹ پھیر سے نہیں ہوتی بلکہ ایک حقیقت ہے جو اس قسم کے شعر کہلادیتی ہے۔

لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اس قسم کے پروگرام جن سے غیب کا انکشاف ہو، صرف خاص حضرات کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔

اگر اس قسم کے پروگرام مخصوص لوگوں کے لئے ہوتے…. تو ہم یہ پوچھتے ہیں کہ…. کیا مولانا رومی ؒ کی بیوی تھیں؟ بچے تھے؟ وہ حدیث کا درس بھی دیتے تھے…. کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ مجذوب تھے یا وہ ہوش میں نہیں رہتے تھے! ….

ایسا نہیں ہے….

وہ اسی طرح زندگی گزارتے تھے جس طرح ایک عام آدمی زندگی بسر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ تَرک کی لذّت سے آشنا تھے اور ہم تَرک کی لذت سے آشنا نہیں ہیں۔

کیا حضور اکرمؐ کے ہر امتی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے جو مولانا رومیؒ کے لئے ممکن ہوا؟

یقیناً ہم سب کے لئے یہ تَرک ممکن ہے…. لیکن ہم غفلت میں ہیں۔

قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلۃُ القدر رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔

رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے…. اس بات سے متعلق کہ انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہوجائے۔

ماہ رمضان میں عبادات

 

حضور اکرمؐ نے رمضان کے:

  • پہلے عشرے کو رحمت
  • دوسرے کو بخشش…. اور
  • آخری عشر ے کو جہنم سے رہائی فرمایا ہے۔

رمضان کے آخری عشرے میں حضور اکرم ؐ مسجد نبوی میں اعتکاف فرماتے۔ اس ماہ کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب بیداری کے ذریعہ شبِ قدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔

ترجمہ:

‘‘ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں روح (الامین) اور فرشتے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک سلامتی ہے۔’’

(پارہ 30: سورۃ القدر، آیت نمبر  5-1)

اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق لیلۃُ القدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔

اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ:

  • رات کے حواس کی رفتار اس رات میں (جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ ایک ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔
  • اس مبارک رات میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ: ‘‘بےشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے۔’’  (المائدہ – 15)

ترجمہ: ‘‘ماہِ رمضان جس میں نازل ہُوا قرآن، جس میں ہدایت ہے لوگوں کے واسطے اور راہ پانے کی کھلی نشانیاں ہیں۔’’ (سورۃ البقرۃ – 185)

رمضان کی دس تاریخ تک ہمیں اس بات کی عادت ہوجاتی ہے کہ ہم اُن حواس کی گرفت کو توڑسکیں جو گیارہ ماہ ہم پر مسلط رہے ہیں۔ پس روزے رکھنے کے بعد اگر ہم کوشش کریں تو بہت آسانی کے ساتھ روح کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرسکتے ہیں۔

اس مہینہ میں مکمل قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضور پاکؐ ماہِ رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن سنا کرتے تھے۔ رمضان المبارک کی خصوصی نماز تراویح ہے۔ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے خواتین کو بھی تراویح میں قرآن سننے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

حضورؐ نے فرمایا ہے کہ:

‘‘جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے تراویح پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہ معاف فرمادیں گے۔’’

(صحیح بخاری، کتاب صلوٰۃ التّراویح، حدیث رقم: 2008)

رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے بعد شوال کا چاند نظر آنے تک ہر روز بعد نماز عشاء یہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کے ذریعہ قیام اللّیل میں جب بندہ کی پوری توجہ اللہ کی جانب مرکوز ہوجاتی ہے تو اللہ ایسے بندے کے اَجر کی ذمہ داری لے لیتا ہے اور اسے اس کی عبادت اور نیت کا پورا پورا اجر ملتا ہے۔

رمضان کے آخری عشرہ کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا گیا ہے اور حضور پاکؐ کے ارشادات کے مطابق….  رمضان کی آخری طاق راتوں میں شبِ قدر ہے۔ شبِ قدر نہایت قابل قدر چیز ہے اس رات میں شب بیداری کرنی چاہئے اور اللہ کی عبادت کرنی چاہئے، کوشش اور دعا کرنی چاہئے کہ شب قدر کی برکات عطا ہوں۔ اس رات کی فضیلت قرآن کے مطابق یہ ہے کہ اس میں فرشتے او روح نازل ہوتے ہیں…. یعنی انسان غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرلیتا ہے۔ اُن لوگوں کو کفِ افسوس ملنا چاہئے جو اس رات کی رحمت و برکت سے محروم رہ گئے۔

حدیث شریف میں ہے کہ:

‘‘جو اس رات سے محروم ہوگیا وہ بڑی دولت سے محروم ہوگیا’’

رمضان کے آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ عبادات، اعتکاف اور شب بیداری کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اگر تمام رات شب بیداری ممکن نہ ہو تو رات کا کچھ حصہ جاگ کر گزارلینا چاہئے۔

 

مراقبہ

 

مراقبہ ایک طرز فکر ہے اور ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جو خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار اور متحرک کردیتی ہے۔

رمضان المبارک میں چونکہ یکسوئی کا حصول اور غیب کے بارے میں جستجو اور مشاہدہ کا ذوق بڑھ جاتا ہے، اِس لئے اگر کچھ وقت مراقبہ کے لئے وقف کیا جائے تو غیبی صلاحیتوں کے حصول میں مزید آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ ذہنی صلاحیتوں کو جَلاء ملے گی اور دین و دنیا کے معاملات میں بہتری پیدا ہوگی۔ رمضان المبارک کی عبادت، روزہ، درحقیقت ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان اپنے جذبات اور تقاضوں کو اللہ کے سپرد کرکے اپنے دل کو یاد الٰہی میں مشغول کرلیتا ہے۔

یوں تو مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی اور ان کی دستگیری کے اہتمام کے لئے کوئی وقت، مہینہ یا دن مخصوص نہیں، لیکن رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور صدقہ و خیرات کرنے کی جانب مَیلان میں تیزی آجاتی ہے۔

عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ:

‘‘حضرت محمدؐ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں رسول اللہ ﷺ عام دنوں سے زیادہ سخاوت فرماتے’’۔

(صحیح بخاری ۔ کتاب الصّیام، حدیث نمبر 1902)

امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ:

ماہِ صیام دراصل خلوت اور خاموشی کا مہینہ ہے’’۔

ذہنی یکسوئی کے لئے ایسا ماحول تشکیل دیا جائے جہاں ہر شخص اپنی ضروریات کی تکمیل کی طرف سے بے فکر ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ اس کے لئے زکوٰۃ خیرات اور فطرانہ وغیرہ کی مدّ میں مسلمان بھائیوں کی مالی استعانت پر زور دیا گیا ہے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

‘‘تم میں کوئی شخص اپنے عزیز و اقارب کو فَقر و پریشانی میں مبتلا دیکھے تو (کم از کم) اتنا مال خرچ کرکے ان کی مدد کردے کہ….

  • اگر وہ اسے کہیں اور خرچ نہ کرے تو اس کے مال و دولت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا…. اور
  • اگر خرچ کر ڈالے تو کمی نہ ہوگی

وہ شخص جو اپنے لوگوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اس کا ایک ہاتھ رکتا ہے تو بہت سے ہاتھ رک جاتے ہیں۔،،

 

تَرک کی نفسیاتی گہرائیوں پر غور کریں کہ انسان خالصتاً اللہ کے لئے چند پیسے خرچ کرکے کتنی بڑی خوشی حاصل کرلیتا ہے کہ وہ خوشی اس کی روح کے اندر سما جاتی ہے۔ یہ خوشی اس کے کونے کونے کو منور کردیتی ہے۔ اس خوشی سے اسکی روح اتنی ہلکی ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو بھول جاتا ہے۔

 

زکوٰۃ


زکوٰۃ اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ سال میں ایک بار مال کی متعیّن کردہ شرح کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔

زکوٰۃ کا مقصد دل کو مال و جاہ کی محبت سے خالی کرنا ہے۔ تاکہ بندہ کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہوجاے کہ اس کی زندگی، مال و دولت سب کچھ اس کے خالق و مالک کا عطا کردہ ہے۔

جب سال پورا ہوجائے تو زکوٰۃ ادا کرنے میں جلدی کرے۔ جو شخص قدرت کے باوجود زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کرے، وہ گنہگار ہے۔

زکوٰۃ ادا کرتے وقت اس بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ زکوٰۃ چھپا کر دی جائے۔ چھپا کر دینے میں ریاکاری اور طلبِ جاہ کا گمان نہیں ہوتا۔

زکوٰۃ کسی بھی مستحق فرد کو دی جاسکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کاخیال رکھا جائے۔

 

حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں:

‘‘زکوٰۃ اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ دولت مندوں کو آزمایا جائے اور ناداروں کی مدد ہو اگر لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے رہتے تو کبھی کوئی مسلمان فقیر اور محتاج نہ ہوتا’’۔

صدقہ و خیرات:

 

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

جو لوگ مال و دولت چھپا کر رکھتے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو المناک عذاب کی خوشخری سنادیجئے

(سورہ الانفال – آیت 36)

 

صدقہ و خیرات کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ…

اسے بوجھ سمجھ کر اتار کر نہ پھینکا جائے…. اور

صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ ایسے ضرورت مند کو دی جائے جو کہ اپنی ضرورت کو چھپاتا ہو…. اپنی تکالیف اور شکایات کا بہت زیادہ اظہار نہ کرتا ہو…. یا وہ جو کسی وجہ سے اب صاحبِ ثروت نہ رہا ہو اور شرافت اور وضع داری قائم رکھے ہوئے ہو….

ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے:

‘‘اور جو مال خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہ کیا جائے گا۔ ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو پہچان لو کہ حاجت مند ہیں اور شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتے اور لپٹ کر نہیں مانگتے’’

(سورۃ البقرہ:  273-272)

روزہ دار کو افطار کرانا ایک نہایت مستحسن عمل ہے۔ رمضانُ المبارک کے مہینہ میں سحر و افطار میں مسلمانوں میں اجتماعیت اور دوسرے کی خیرخواہی کا جذبہ ہمیں عام دنوں کی نسبت زیادہ متحرک نظر آتا ہے۔ اس مہینہ میں مسلمان اپنے سال بھر کی روٹین ترک کرکے اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ شیڈول کے مطابق اپنی زندگی میں خودکار تبدیلی لے آتے ہیں۔ فجر سے پہلے کی رونقیں، مساجد میں نمازیوں کا اژدھام، تراویح کی باجماعت نماز اور ختم قرآن کی محافل کی وجہ سے پورا ماحول پاکیزہ اور نورانی محسوس ہوتا ہے۔ زکوٰۃ و خیرات کی مد میں بھی پورے سال سے زیادہ اس ماہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ مساجد میں روزانہ روزہ داروں کے لئے افطار کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ناگزیر وجوہات کی بناء پر جو روزہ دار افطار کے وقت اپنے معاش کے کاموں سے فارغ ہو کر گھر نہیں پہنچ پاتے اُن کے لئے مختلف چوراہوں پر ایسے اسٹالز لگائے جاتے ہیں جہاں افطار کے تمام لوازمات مہیا کئے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کار خیر کا یہ جذبہ پورے سال اور ہر مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہو۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ رحمت و مغفرت اور ایک انتہائی بابرکت رات اپنے دامن میں لئے ہوئے، یہ مہینہ ہماری زندگی میں آیا ہے۔ اللہ نے ہمیں بے حد و بے حساب اجر سے نوازنے کے لئے پکارا ہے۔ قدرت نے ہمیں اپنا تزکیہ کرنے کا موقع عنایت فرمایا ہے۔ ہمارے سامنے ہدایت کی شاہراہ کھلی ہوئی ہے۔ اگر خود کو اس راہ کا مسافر بنانا ہے اور رمضان سے بھرپور فیض حاصل کرنا ہے تو پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ اپنے خالق و معبود کی طرف متوجہ ہو کر اپنی روح کی بالیدگی کا سامان کرلیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور قربت حاصل کرنے کے لئے‘‘تَرک’’  کی لذّت سے آشنا ہو کر بے شمار فیوض و برکات اور رضائے الٰہی کا سامان کریں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی برکتوں سے مالا مال کرے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 72 تا 92

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)