ایثار

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47147

اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں تاکہ وہ عارف ہو جائیں اور کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں (75)

پھر جب رات کی تاریکی دن پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا،  حضرت ابراہیم نے فرمایا…. یہ میرا ربّ ہے…. سو جب وہ غروب ہوگیا تو کہا ….،، میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا،،  (76)

پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو کہا….،، یہ میرا ربّ ہے،،  …. سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا،، اگر مجھ کو میرا ربّ ہدایت نہ کرتا رہے تومیں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں  (77)

پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا….،، یہ میرا ربّ ہے،  یہ سب سے بڑا ہے،، ….  سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا….،، اے قوم! بےشک میں تمہارے شرک سے بیزارہوں (78)

اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (79)

اور ان سے ان کی قوم نے حُجّت کرنا  شروع کردی، حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا….  تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حُجّت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلادیا تھا، اور اُن چیزوں سے جن کو تم اللہ کا شریک بتاتے ہو میں نہیں ڈرتا….  ہاں لیکن اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے…. میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم کے گھیرے میں لئے ہوئے ہے…. کیا تم پھر خیال نہیں کرتے (80)

اور ان میں ان چیزوں سے کیسےڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ سو ان دو جماعتوں میں سے امن کی زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو (81)

جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہ ہی راہ ہدایت پر چل رہے ہیں (82)

اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قو م کے مقابلے میں دی تھی،  ہم جس کو چاہتے ہیں رتبہ میں بڑھادیتے ہیں، بےشک آپ کا ربّ بڑا علم والا بڑا حکمت والا ہے (83)

(سورۃ الأنعام)

 

حضرت ابراہیم کے والد،، آذَر،،  بت تراش تھے۔ اپنے فن میں یگانۂِ روزگار تھے۔ فنِ بت تراشی میں انہیں اتنا زیادہ کمال تھا کہ ان کے بنائے ہوئے بتوں کو بادشاہ پوجتے تھے۔ فرزندِ آذَر، حضرت ابراہیمؑ نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں انہیں دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔ زروجواہرات سے خزانے بھرے ہوئے تھے۔ اِس آسائش و آرام کی زندگی میں انہوں نے سوچا:

میں کون ہوں؟

کہاں سے آیا ہوں؟ اور

میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

اگر میں صرف آذَر کا بیٹا ہوں تو آذَر کون ہے؟

اگر میرا باپ آذَر ایک بہترین بت تراش ہے تو میرے باپ نے بت تراشی کا انتخاب کیوں کیا؟

بادشاہ کو فہم و عقل کا اعلیٰ کردار سمجھا جاتا ہے۔ یہ کیسا بادشاہ ہے کہ اپنے جیسے فانی انسان کے ہاتھ سے تراشے ہوئے پتھر کو خدا مانتا ہے اور اس کے سامنے سر بَسُجود ہو جاتا ہے؟

 

روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم سوچ میں گم کھڑے تھے کہ ایک کتا آیا اور اس نے ٹانگ اٹھا کر ان کے سب سے بڑے بت پر پیشاب کردیا…. اور کتا وہاں سے چلا گیا۔  حضرت ابراہیمؑ نے سوچا….  بناوٹی خدا کے لئے اس سے بڑی تذلیل اور کوئی نہیں ہو سکتی اور حضرت ابراہیم نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا شروع کر دیا…. میں کون ہوں؟ …. کہاں سے آیا ہوں؟ ….  مجھے کس نے پیدا کیا ہے؟ ….. اور میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

حضرت ابراہیم نے زمین کے اوپر موجود اللہ کی بے شمار تخلیقات پر غور و فکر کیا تاکہ انہیں یقین کی قوت حاصل ہو جائے۔ ذہن گہرائی کے عروج تک پہنچا تو گہرائی میں،،  عُلو،،  پیدا ہوا اور آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں اور انہوں نے رات کی تاریخی میں ایک ستارہ دیکھا فرمایا یہ میرا ربّ ہے۔  جب وہ غروب ہوگایا تو اس سے زیادہ چمک دمک والے ستارے،، چاند،،  کو دیکھااور فرمایا… یہ میرا ربّ ہے… وہ بھی غروب ہوگیا تو سورج کے بارے میں فرمایا… یہ سب سے زیادہ روشن اور تابناک ہے… سو جب سورج بھی غروب ہو گیا تو فرمایا کہ میں اپنا رخ اُس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔

زمینی زندگی پر غور فکر کرتے ووقت یقیناََ یہ بات بھی حضرت ابراہیم کے سامنے آئی ہوگی کہ انسان کے اوپر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مرجاتا ہے۔ اگر انسان کی زندگی کا دارومدار پانی، ہوا، آکسیجن اور فِضاء میں موجود دوسری گیسز ہیں تو مردہ حالت میں بھی یہ سب چیزیں موجود رہتی ہیں۔ اگر ہوا، پانی اور غذا ہی انسانی زندگی کا سبب ہیں تو کسی مردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا نا ممکن نہ ہوتا۔

اس تفکر سے یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا سبب ہوا، پانی اور غذا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ ہم جب آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی برابر برابر دو حصوں میں تقسیم ہے:

ایک حصہ سارے کا سارا مادّی ہے…. اور

دوسرا حصہ سارے کا سارا مادّیت کی نفی ہے

مادّیت کی نفی دراصل غیر ربّ کی نفی ہے۔

حضرت ابراہیم کے واقعہ میں مادّیت یا غیر ربّ کی نفی کی واضح اور روشن مثالیں ہیں۔

 

حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کر رہے ہیں۔ چونکہ یہ عمل انہوں نے خواب (غیر مادّی شعور) میں دیکھا تھا اس لئے مادّی شعور کی نفی کر کے اس خواب کو پورا کر دکھایا….  یعنی اپنے عمل سے غیر ربّ کی نفی کردی۔

اللہ تعالیٰ نہایت رحیم و کریم ہے کہ اللہ کو غیر ربّ کی نفی کا یہ عمل اتنا زیادہ پسند آیا کہ انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کے اس ایثار کو…. اِس قربانی کو… اور مادّیت کی نفی کو قبول کیا …. اور پوری امّت مُسلمہ پر قربانی فرض کر دی گئی۔

حضرت ابراہیمؑ جب حضرت باجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو بےآب و گیا ہ  وادی…  مکہ میں چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت باجرہؑ نے پیچھے سے آواز دی …. حضرت ابراہیمؑ رک گئے ۔ حضرت ہاجرہؑ نے اپنے ہم سفر رفیق…. اپنے مقدس و منوّر شوہر سے کہا:

،، میں صرف یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کا یہ عمل اللہ کی طرف سے ہے؟،،

حضرت ابراہیم نے فرما یا….،، ہاں!،،

حضرت ہاجرہ علیہ السلام پانی کی تلاش کے لئے صفا سے مروہ کی طرف اور مروہ سے صفا کی طرف دوڑتی تھیں۔ قدرت کو حضرت ہاجرہ علیہ السلام کا یہ کہنا کہ،، ہمارے ساتھ اللہ کا ہونا کافی ہے،،  پسند آیا اور زمین سے زم زم کا چشمہ ابل پڑا ۔ اور اللہ نے اپنی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حضرت ہاجرہؑ کے اس عمل کو حج اور عمرہ کے لئے لازم قرار دے دیا۔

اور فرمایا

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللہ ۖ

(سورۃ البقرۃ – 158)

قربانی، حج، صفا مروہ پر سعی، طوافِ کعبہ…. سب دراصل غیر ربّ کی نفی اور ایثار کے تمثّلات ہیں۔

عید الاضحیٰ کی تقریب ایک ارب مسلمانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ:

اپنے جدِّ اَ مجد، حضرت ابراہیم، اور اپنی دادی محترمہ حضرت باجرہؑ کی طرزِ فکر کے مطابق متحد ہو کر مسلمان غیر ربّ کی نفی کے لئے ایثار کریں تو ان کے اوپر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور خوشنودی عام ہو جائے گی۔

ارکانِ اِسلام پر غور کرنے سے یہ بات ایک چھوٹا سا بچہ بھی جان لیتا ہے کہ اسلام مکمل طور پر اجتماعی پر وگرام ہے۔

چھوٹے چھوٹے اجتماعی پروگرام (مساجد میں پانچ وقت باجماعت صلٰوۃ،  جمعہ کی نماز، سحروافطار) کی کامیابی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے عید الفطر، حج اور عیدِ قرباں کا اجتماعی پروگرام عطا کیا ہے تا کہ ایک ارب مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر اِجماعِ امّت ہے تو ترقی ہے…. عروج ہے…. حکمران ہے…. اِختراعات و اِیجادات ہیں…. علوم میں فروغ ہے۔

اس کے برعکس اگر اِجماعِ امّت نہیں ہے، دیو ندی، بریلوی، غیر مقلّد، شیعہ، نجدی، وبابی، اور نا معلوم کتنے فرقوں میں لوگ بٹے ہو ئے ہیں تو یہ عمل تفرّقہ ہے…. حکمرانی کے عمل سے فرار ہے…. عروج کی جگہ ذلّت و مَسکنت ہے…. حاکمیت کی جگہ غلامی ہے…. قوم کی تذلیل ہے…. اور علوم سے محرومی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 014 تا 019

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)