بارہ کروڑ، اکسٹھ لاکھ، چوالیس ہزار – 126144000

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47164

اللہ کے کرم، سیدناحضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمت اور حضور قلندر بابا اولیاؒ کی نسبت سے اب روحانی ڈائجسٹ کی عمر ایک ہزار چھ سو تین (1603) ہفتے یعنی گیارہ ہزار دو سو اکسٹھ (11261) دن ہوگئی ہے۔ اِن ماہ و سال میں، گھنٹیوں کی آواز کو متوازن اور برقرار رکھنا انسانی جبلّت کے تحت سب سے زیادہ کٹھن کام ہے۔

تین سو ستر (370) مہینوں میں تقریباً اتنے ہی موضوعات نوک قلم پر آئے۔ حروف نے الفاظ کا، الفاظ نے جملوں کا، جملوں نے تحریر کا لباس زیب قرطاس کیا۔ جو بندہ 370 موضوعات پر طبع آزمائی کرچکا ہو اس کے لئے یہ خاصا مشکل ہے کہ وہ مزید کسی موضوع پر قلم اٹھائے۔ ایک قاری جس مضمون کو پندرہ منٹ میں پڑھ لیتا ہے اس کی تیاری میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ پہلے حافظے کا بند دروازہ کھلتا ہے، پھر انسپائریشن کی لہریں دماغ کے مخصوص خانے میں وصول ہوتی ہیں اور اس انسپائریشن کو کاغذ پر منتقل کرنے کے لئے الفاظ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔

انسانی دماغ میں حواسِ خمسہ (پانچ حواس) کی اطلاعات موجود رہتی ہیں یا اطلاعات حواسِ خمسہ بنتی ہیں۔ حواسِ خمسہ اعصاب کے ذریعے دماغ میں پہنچ کر نقش ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ یادداشتیں ہیں جنہیں حافظہ کہا جاتا ہے۔

دماغ کے دو حصے ہیں جو دائیں طرف اور بائیں طرف واقع ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام احساسات کو، جو پیدائش سے موت تک کے حالات پر مشتمل ہیں، یاد رکھتے ہیں۔

مضمون نگار جب مضمون لکھتا ہے یا کوئی شاعر جب شعر کہتاہے تو دماغ کے پچھلے حصے میں، جہاں گردن کے اوپر سر میں ابھارہوتا ہے تحریکات ہوتی ہیں اور یہ تحریکات لہروں کی شکل میں وارد ہوتی ہیں۔ انسان جب کوئی کام کرتا ہے یا کچھ سوچتا ہے اور کوئی حرکت کرتا ہے تو دراصل ریڑھ کی ہڈی میں موٹا تار ‘‘حرام مغز ’’ کرنٹ کی گزرگاہ بن جاتا ہے۔ اس ہی عمل سے حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی عمل کوئی فعل کوئی حرکت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک حرام مغز میں کرنٹ کا گزر نہ ہو۔ یہ کرنٹ ہی نظامِ کائنات میں جاری و ساری لہریں ہیں۔

آواز کیا ہے؟

آواز لہروں کے علاوہ کچھ نہیں…. اور یہ ساری کائنات آواز کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

میں جب صدائے جرس لکھنے بیٹھتاہوں تو میری ساری توجہ اس آواز کی طرف ہوتی ہے جو آواز لہروں میں منتقل ہو کر انفارمیشن بنتی ہے۔

انفارمیشن اور اطلاع کے بغیر کائنات کے وجود کا تذکرہ ممکن نہیں۔ انسان کی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں انفارمیشن کے علاوہ زندگی میں کچھ بھی نہیں ملتا۔ ہمارا پیدا ہونا، جوان ہونا، بوڑھا ہونا، خورد و نوش کی ضروریات پورا کرنا، سونا، جاگنا، رزق تلاش کرنا، پڑھنا، لکھنا، عروج و زوال کی راہ کا متعین ہونا سب انفارمیشن پر قائم ہے۔ اوسط عمر اگر ساٹھ سال ہو تو ایک آدمی بارہ کرووڑ اکسٹھ لاکھ چوالیس ہزار انفارمیشن میں زندگی گزارتا ہے۔ یعنی اوسط عمر (60 سال) میں انفارمیشن کا دورانیہ…. بارہ کروڑ، اکسٹھ لاکھ، چوالیس ہزار ہوا ۔ تقریباً پونے تیرہ کروڑ اطلاعات پیدائش سے موت تک انسانی زندگی کا سرمایہ ہیں۔ چونکہ انسان زندہ رہنے کے قانون سے واقف نہیں ہے، اسی لئے پچانوے فیصد اطلاعات یا پچانوے فیصد زندگی ضائع ہوجاتی ہے۔

  • یہی اطلاعات قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق اگر قبول کی جائیں اور اُن پر عمل درآمد ہوجائے تو انسان اشرف المخلوقات ہے….
  • اگر ایسا نہ ہو (جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے) تو انسان اشرف المخلوقات کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔

ادارتی صفحات پر قارئین، روحانی ڈائجسٹ میں تقریباً 370 موضوعات کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ ہر عنوان اس بات کی تشریح ہے کہ انسان اور حیوانات میں فرق یہ ہے کہ:

  • انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات کا وقوف حاصل کرسکتا ہے…. جب کہ
  • حیوانات اس علم تک رسائی نہیں کرسکتے….

پچھلے چند رسائل ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سے چند موضوعات کی تلخیص پیش خدمت ہے۔

کوئی اطلاع یا کسی شئے کا علم ہمیں لازمانیت سے موصول ہوتا ہے۔  یہی لازمانیت نئی نئی اطلاعات زمانیت (وقت) کے اندر ارسال کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم لازمانیت کو ایک لفظ سے تشبیہہ دیں تو یوں کہیں گے کہ اس نقطہ سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا ہے تو حافظے سے ٹکرا کر بکھر جاتا ہے۔ بکھرتے ہی ہر لہر مختلف شکل و صورت میں تصویری خدّوخال اختیار کرلیتی ہے۔ لہروں کا حافظہ کی سطح پر آکر بکھرنا ہی وقت کو وجود میں لاتا ہے۔ چونکہ حافظہ جبلی طور پر (فطری طور پر نہیں) محدود ہے، اس لئے تصویر کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے۔ اسی فاصلہ کا دوسرا نام دُوری کا احساس اور وقت کی طوالت ہے۔ اگر ہم اس نقطہ کو تلاش کرلیں جہاں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے تو فاصلہ کالعدم ہوجاتا ہے۔

 

ہزاروں سال کی تاریخ دراصل اس راز کی پردہ کشائی ہے کہ قومیں ترقی کے خوشنما دعوؤں میں اور نئی نئی ایجادات کی پردا ز نِگاری میں خود کو تباہ و برباد کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف قومیں زمین کو آتش فشاں بنا کر خود ایندھن بن جاتی ہیں اور دوسری طرف خالق و مالک ہستی اللہ تعالیٰ اَزسِرنَو زمین پر باغ کی آبیاری فرما دیتے ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ یہ ہے کہ جو قوم سب سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دے وہ ترقی یافتہ ہے اور جب اس ترقی کا فَسوں ٹوٹتا ہے تو زمین آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتی ہے اور چھ ارب کی آبادی سمٹ کر ایک ارب رہ جاتی ہے۔ پھر بچے کھچے، خستہ حال، اپاہج، معذور، اُدھڑی ہوئی کھال اورز خموں سے نڈھال افراد زمین کی اجڑی ہوئی مانگ میں سیندور بھرتے ہیں۔ اور ایک وقت آتا ہے  کہ زمین پر پیدا ہونے والے لوگ اِس سیندور   کو اتار کر، زمین کو دوبارہ اجاڑ دیتے ہیں۔

 

حوالہ جات: (سورۃ الرعد – 11 …. سورۃ فاطِر – 43 …. سورۃ الأعراف – 34 ….  آلِ عمران – 140 …. سورۃ محمد – 38)

 

تجرباتی دنیا یہ ہے کہ انسان کہیں سے آتا ہے…. یعنی وہ پہلے سے کہیں پر موجود تھا۔ جب وہاں کی موجودگی ختم ہوئی…. اس دنیا میں پیدا ہوگیا۔ یعنی اس دنیا میں آنے سے پہلے اس پر پہلے موت وارد ہوئی پھر پیدا ہوا۔ اس دنیاسے جانے کے بعد دوسری دنیا میں پیدا ہوا۔

اس کا منطقی استدلال یہ ہوا کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ہم کہیں پیدا ہوئے تھے…. یعنی موت سے زندگی اور زندگی سے موت پیدا ہوئی۔ اس کو اس طرح بھی کہا جاتا ہے کہ موت زندگی میں اور زندگی موت میں داخل ہو گئی۔ زندگی سے موت اور موت سے زندگی کا پیدا ہونا…. یا …. زندگی کا موت میں اور موت کا زندگی میں داخل ہوجانے کا پراسس (Process) یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جو اس پراسس کو قائم اور بغیر کسی تبدیلی اور تعطّل کے جاری رکھے ہوئے ہے۔

 

(حوالہ جات: سورۃ البقرۃ – 28 …. سورۃ الرّوم – 19)۔

 

جس قوم نے بھی ذاتی مفاد کے تحت گروہی تعصب کو ہوا دی…. ملّت میں تفرقہ ڈالااور اس تفرقہ کی بنیاد پر خود کو جنّتی اور دوسروں کو دوزخی قراردیا…. وہ تباہ کردی گئی…. اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا…. اُس کو ذلیل و خوار کرکے زمین پر دربدر کردیا گیا۔

اللہ فرماتے ہیں:

جو قوم اپنی حالت میں بہتری پیدا نہیں کرتی۔۔۔اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے…. (یعنی اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے)۔ ایسی قوم در بدر کی ٹھوکریں کھا کر بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔

جس نسل، جس ملک، جس قوم نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا اور اجتماعی سوچ کو نظرانداز کرکے ریشم کے کیڑے کی طرح انفرادی سوچ کے غلاف میں بند ہوگئی، وہ ختم ہوگئی۔ اپنی کوتاہ نظری، کوتاہ اندیشی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ ایسی قوموں کی زندگی کا تار و پود بکھرجاتا ہے۔

 

حوالہ جات: (سورۃ الرعد – 11 …. سورۃ فاطِر – 43 …. سورۃ الأعراف – 34 ….  آلِ عمران – 140 …. سورۃ محمد – 38)

 

کیا ایسا ہونا عقلی اعتبار سے صحیح نہیں کہ مذہب کو سائنسی بنیادوں پر بھی سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ کو بھی کائنات کی حیات کے اندر تلاش کیا جائے؟

کیا رات دن کا اختلاف، کہکشائی نظام اور ان نظاموں میں مسلسل حرکت اس لئے قائم نہیں ہے کہ انسان ان کے اندر تفکر کرے؟

جو انسان پیدا ہوتا ہے اس کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ میں پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا؟

کیوں پیدا ہوا؟

جس دنیا میں پیدا ہُوا…. یہ سارا عالم…. خوشبودار رنگ سے مَعمور عالم کی حیات…. عارضی اور فانی کیوں ہے؟

فانی حیات کے بعد اگر دوسری زندگی ہے تو وہ کیا ہے؟

کیا وہ دنیا بھی اس فانی دنیا کی طرح فنا ہونے والی ہے؟

لیکن جیسے جیسے آدم زاد زندگی کے شب و روز میں سانس لیتا ہے ایسے نظریات سے دوچار ہوتا ہے کہ بالآخر وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح اصلیت اور ماہیت کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا۔ چونکہ وہ نہیں سمجھتا کہ دنیا میں پھیلی ہوئی لاکھوں چیزوں کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ یہ سب اپنے اپنے محور پر ایک توازن کے ساتھ کیوں حیات ومَمات کے دوش پر سفر کررہی ہیں؟ ان کی ماہیت میں کیوں تبدیلی واقع نہیں ہو تی؟

اُس وقت آدم زاد ایسے لوگوں کی طرف دیکھتا ہے جنہوں نے زندگی کے تجربات سے کوئی نتیجہ اخذ کرلیا ہے۔

ہر آدم کے طرز عمل کی بنیاد یہ بنتی ہے کہ وہ ان سوالوں کا جواب چاہتا ہے۔

میں کون ہوں؟

میں کیا ہوں؟

عقل کیا ہے؟

شعور کیا ہے؟

عقل و شعور میں جو باتیں وَجدان کی صورت میں نازل ہوتی ہیں ان کا میری ذات سے کیا رابطہ ہے؟

میں زندگی کے بار ے میں جو بھی فیصلہ کرنا چاہتا ہوں ان فیصلوں کے نتائج میرے حق میں ہوں گے یا یہ فیصلے مجھے نقصان پہنچائیں گے؟

مستقبل اگر ہے تو کیا میں اپنے مستقبل سے مطمئن ہوسکتا ہوں؟

میں جو کچھ کرتا ہوں اس کی بازپرس ہوگی؟

اگر باز پرس ہوگی تو کیا عمل میں تبدیلی ممکن ہے؟

 

حوالہ: ( آلِ عمران – 191)

 

راکٹوں، میزائلوں اورلانچرز کی تباہی و بربادی کے آتشیں سامان کی بوچھاڑ سے کسی نے اپنی شیر خوار بچی کو بچانا چاہا اور کوئی اپنی ضعیف اور بوڑھی ماہ کا ہاتھ تھامے ہوئے خالی ہاتھوں سے محفوظ جگہ کی تلاش میں سرگرداں ہوگیا۔ خوبصورت طویل و عریض گھر اور ان گھروں میں آسائش و آرام کا قیمتی سامان ٹوٹ پھوٹ کر زمین پر اس طرح بکھرگیا جیسے کوئی بے وقعت چیز ہو۔ خلاء سائنسی آتش فشاں کے دھوئیں سے اس طرح بھرگیا کہ زمین سورج کی کرنوں سے محروم ہوگئی۔ دیکھنے والوں نے قیامت کا جو منظر دیکھا ان کے دل ڈوب گئے اور آنکھوں میں خون آنسو بن گیا…. دل کی دنیا زیر و زبر ہوگئی۔
نوعِ انسانی کے دانشوروں، عقل مندوں اور بذاتِ خود ہیومن رائٹس کا پرچار کرنے والوں نے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے زمین پر آتش فشاں مادّے کا ایسا پہاڑ کھڑا کردیا ہے جس کے سامنے زمین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ سائنس دانوں نے اپنی نوع کو برباد کرنے کے لئے ایسی ایسی اختراعات کیں کہ زمین کا کلیجہ چھلنی ہوگیا۔ نوعِ انسانی میں سے بزُعمِ خود باشعور انسانوں نے خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے نوعِ انسانی پر ایسا جال پھینک دیا ہے جس کا ہر سوراخ ایک مہلک ہتھیار ہے۔ نوعِ انسانی کے ان دانشوروں نے جو بلاشبہ اللہ کے دوست نہیں ہیں، نت نئے مہلک ہتھیاروں کی ایجاد سے خود اپنی پیشانیوں کو داغ دار بنالیا ہے۔ ترقی یافتہ قوم کے باشعور افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں چالیس ہزار سے زائد ایٹم بم موجود ہیں دیگر چھوٹے اور بڑے اسلحوں کا تو کوئی شمار و قطار نہیں….!

کیا یہ کہنا بے جا ہوگا کہ یہ لوگ ترقی کے نام پر زمین کو اجاڑ دینا چاہتے ہیں….!!!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 060 تا 067

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)