تصوّف کیا ہے؟

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47271

روحانیت اور تصوّف کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے، ایک گروہ کا خیال ہے کہ اکثر صوفیاء چونکہ اُون کا لباس پہنتے ہیں اس لئے لوگ انہیں صوفی کہتے ہیں۔ اُون کو عربی میں صَوف کہتے ہیں۔ وہ لوگ یہ لباس اس لئے پہنتے تھے کہ صَوف کا لباس پہننا اکثر نبیوں، ولیوں اور برگزیدہ ہستیوں کا معمول رہا ہے۔ بعض حضرات کے خیال میں اصحابِ صُفّہ کے ساتھ نسبت رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ صُوفی کہلاتے ہیں، جبکہ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ صوفی…. صَفاء سے مَشتق ہے…. لیکن ان تشریحات سے دل مطمئن نہیں ہوتا۔

تصوّف کے اِصطلاحی معانی دراصل ‘‘نفس کا تزکیہ’’  ہے۔

تصوّف اس جذبۂِ اِخلاص کا نام ہے جو ضمیر سے متعلق ہے اور ضمیر نورِ باطن ہے۔

صوفی اللہ کی معرفت سوچتا ہے۔ اس کی گفتگو کا محور اللہ ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ جیتا ہے اور اللہ کے نام کے ساتھ مرتا ہے۔

اُسی کا کلمہ پڑھتا ہے اسی کے گُن گاتا ہے اور اسی کے عشق میں ڈوبا رہتا ہے۔

اللہ کو دیکھنے اور اللہ سے ملاقات کے شوق میں اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔۔۔

مظاہرِ فطرت، سمندر کی طغیانی اور سکون میں، اپنے آگے، پیچھے اوپر، نیچے…. صوفی کو ہر طرف اللہ نظر آتا ہے۔

ہر دور میں فلسفی مُوشِگافیاں کرتے رہے، جو فلسفی اللہ کی ہستی کے قائل ہیں، وہ اللہ کو صرف کائنات کا صنعت کار قراردیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخلوق کا اللہ سے رابطہ قائم نہیں ہوتا۔اللہ کسی انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا!

تفکر کیا جائے تو سائنسدانوں اور فلاسفہ کے بیان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سائنس دان کہتا ہے کہ اللہ اس لئے نظر نہیں آتاکہ اس کی موجودگی دلیل کی محتاج ہے اور انسان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے اللہ کو دیکھنا، تسلیم کرلیا جائے۔

سائنس کاعقیدہ ہے کہ کائنات حادثاتی مظاہرہ ہے۔ حالانکہ سائنسدان الیکٹران کو تخلیق کی اکائی مانتا ہے جو نظر نہیں آتی اور کبھی نظر نہیں آئی۔ سائنس اور فلسفہ کی بنیاد عقل پر ہے جبکہ لاکھوں سال میں عقل کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہوسکی۔

سائنس اور فلسفہ کے برعکس مذہب کہتا ہے کہ صحیح عقیدہ کی بنیاد وحی اور الہام ہے اور عقل کا وحی اور الہام میں کوئی دخل نہیں ہے۔

تصوّف کے معنی ہیں صوفی ہونا اور

صوفی کا مطلب ہے…. ظاہر سے زیادہ باطن کا خیال رکھنے والا

صوفی وہ ہے …. جو خود کو تنہا کرکے اللہ سے متعلق رہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کا خلوص اور حقائق کے ادراک کی استعداد ہو۔

صوفی کا یقین ہے کہ اللہ خود اپنا کلام کسی بندے پر نازل کرتا ہے اور انسان اس سے رابطہ میں ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

کسی بشر کی قدرت نہیں ہے کہ وہ اللہ سے ہمکلام ہو۔ مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے۔ یا کسی قاصد کے ذریعہ۔ یا اللہ جس طرح چاہے

(سورۃ الشوریٰ – آیت 51)

قرآن پاک میں یہ بھی ہے:

اگر تم پکارو گے تومیں جواب دوں گا۔ تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ (سورة غافر – 60)

میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں (سورۃ  ق – 16 ….. سورۃ واقعہ – 85)

میں تمہارے اندر ہوں۔ تم دیکھتے کیوں نہیں؟ (سورۃ الذاریات – 21)

 

جن لوگوں پر عقل کا غلبہ تھاانہوں نے اطاعت کو کافی سمجھا اور جنت کو اپنامقصد بنالیا۔

لیکن جن لوگوں پرعشق کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کے علاوہ اللہ کے ساتھ تعلق اور محبت کو ضروری سمجھا اور اللہ کے دیدار کواپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔

 

روحانیت یا ‘‘تصوّف’’  روحِ انسانی سے واصل ہونے کا جذبہ ہے۔

تصوّف اپنی انا کا کھوج لگانے کا علم ہے۔

تصوّف من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ زندگی پاجانے کا نام ہے۔

 

علمِ روحانیت یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ:

ازل میں روح اللہ کو دیکھ چکی ہے۔

روحیں اللہ کی آوازیں سننے کے بعد ‘‘قالو بلیٰ’’   کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کرچکی ہیں۔

صوفی کہتا ہے اگر میری روح اللہ کو نہ جان سکتی تو اللہ مجھے اپنی ذات سے محبت کا حکم نہ دیتا۔

صوفی پر اِسرار و رُموز کا انکشاف ہوتا ہے۔

صوفی کے اوپر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ روح ایک ایسی ہستی سے محبت کرنا چاہتی ہے جو اس کا خالق ہے اور وہ کائنات میں حسین ترین ہستی ہے۔

صوفی کے یقین میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میری روح بھی اس سے محبت کرتی ہے۔۔۔

روحانی بندہ اللہ کی تلاش میں، ارتکازِ توجہ Concentration سے استغراق حاصل کرکے حقیقت الحقائق سے واقف ہوجاتا ہے۔

 

دانشور پوچھتے ہیں کہ …. غیرصوفی کو وہ مشاہدات کیوں نہیں ہوتے جن کا صوفی اعلان کرتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ…. انسان روح سے واصل نہیں ہونا چاہتا اور جب اپنی انا (روح) سے واقف نہیں ہونا چاہتا تو روح کی حقیقت اس کے لئے پردہ بن جاتی ہے۔

 

انسان مادّی اور دنیاوی علوم کے لئے اپنی ساری توانائی اورمال و دولت خرچ کرتاہے۔ آدمی میٹرک پاس ہونے کے لئے 35600 گھنٹے اور کثیر سرمایہ خرچ کرتاہے لیکن روح کا عرفان حاصل کرنے کے لئے دن رات میں 20 منٹ بھی یکسو نہیں ہوتا ۔

اللہ کے پاس جانے کے خیال سے ہی دنیا دار کے اوپر مردنی چھاجاتی ہے جبکہ اللہ کی ہر نعمت اسے اچھی لگتی ہے۔

ہر فرد و بشر جانتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ عام لوگوں کے برعکس اللہ کے دیدار کے لئے صوفی اس وقت کا شوق سے انتظار کرتا ہے۔

احسان و تصوّف کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بالخصوص امّت مُسلمہ اور بالعموم نوعِ انسانی، اپنی پیدائش، حیات ومَمات اورمنصبِ خلافت فی الارض کی حقیقت سے واقف ہوجائے اور یہ بات اس کے علم میں آجائے کہ….

کائنات میں ہر مخلوق باشعور ہے لیکن انسان واحد باشعور مخلوق ہے جو یہ جان لیتی ہے کہ:

اُس کو کس نے پیدا کیا ہے؟

کیوں پیدا ہُوا؟

مرنے کے بعد کس دنیا میں چلا جاتا ہے؟ اور

اُس دنیا کے شب و روز کیا ہیں؟
تصوّف پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہر کتاب تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتی ہے۔ لوگوں نے تصوّف کے اوپر بے پناہ اعتراضات کئے ہیں اورتصوّف کی فضیلت میں قصیدہ خوانی بھی کی گئی ہے۔ تنقید و تعریف کے انبارمیں تصوّف کوایک الجھا ہُوا مسئلہ سمجھا جانے لگا۔

کوئی کہتا ہے کہ تصوّف دنیا بیزار اور کاہلُ الوُجود لوگوں کا مسلک ہے۔ کسی نے کہا گدی نشین حضرات کا محبوب مشغلہ ہے اور مریدین سے خدمت لینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کسی نے بتایا کہ یہ مسمریزم، ہپناٹزم اور عامل معمول کا کھیل ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ‘‘نظریۂِ تصوّف’’  گانے بجانے اور دھمال ڈالنے کا اچھا طریقہ ہے۔
صاحبِ قلب و نظر افراد نے پُروقار، پُراعتماد اور سچائی کی عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ:

قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوّف ہے۔

صوفی کے دل کی ہر دھڑکن اللہ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔

حضرت خواجہ غریب نوازؒ کہتے ہیں کہ۔۔۔

‘‘ یار دَم بہ دَم وبار بارمی آید ’’

اہلِ عقل و دانش نے فلسفیانہ استدلال، منطق اور عقلی توجیہات سے تصوّف کو اس قدر الجھادیا ہے کہ تصوّف ایک علمِ چِیستان بن گیا ہے۔ انہوں نے اس علم کو یہودی، عیسائی، ویدانت اور بدھ ازم کا لباس پہنادیا ہے۔

قوم کے ہمدرد اور مخلص حضرات و خواتین نے تصوّف کے اعلیٰ ذوق کو اختیار کرکے توکل، قناعت اور استغناء کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے عملاً اس بات کا مظاہرہ کیا کہ….

تصوّف ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کرانسان دنیا اور دین کی ہر بھلائی حاصل کرلیتا ہے۔

تصوّف کے پیروکار راہب نہیں ہوتے۔ وہ محنت مزدوری کرکے، حقوق العبادپورے کرتے ہیں اور شب بیدار ہوکر اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔

میری دانست میں تصوّف کی تعریف یہ ہے کہ:

تصوّف ایک ایسا School of Thought ہے جس میں انسان کو انبیاء علیہم السّلام کی طرز فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔ انسان تعلیم مکمل کرکے جب اِس اسکول سے نکلتا ہے تو وہ آدمی سے ممتاز ہو کر انسان بن جاتا ہے اور اس کے اندر خاتم النبیین ﷺ کی طرز فکر نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ کو دیکھنے اور اس سے قریب تر ہونے کی آرزو کرتاہے۔

ایک علم ظاہری ہے۔ دوسرا علم باطنی علم ہے۔ ظاہری علم معیشت و معاشرت کا علم ہے اور باطنی علم تصوّف ہے۔

تصوّف کا آغاز اس وقت ہوا …. جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا : ‘‘میں زمین پراپنا نائب بنانے والا ہوں’’۔  آدم ؑ  کو علم الاسماء سکھانا، باطنی علوم کے زمرہ میں آتا ہے۔ باطنی اور آسمانی علوم، بنی نوع آدم کے لئے حضرت آدم ؑ کا ورثہ ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تصوّف کی ابتداء حضرت آدم ؑ سے ہوئی اور اس طرح نوعِ انسانی میں حضرت آدمؑ پہلے صوفی ہیں۔

پیغمبروں کی تعلیمات رہنمائی کرتی ہیں کہ ہر پیغمبر نے نوعِ انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہ کیا ہے اور خود اس پر عمل کرکے بامقصد زندگی گزارنے کا درس دیا ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق واحد ذات اللہ کی پرستش نہ ہو تو وہ ہرگز تصوّف نہیں ہے۔

انبیاء علیہمُ السّلام بتاتے ہیں کہ:

ایک اللہ وَحدہُ لاشریک کی عبادت کرو۔

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں بھائی چارہ چاہتے ہیں۔

اپنی مخلوق کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔

مخلوق کا بےسکون رہنا اللہ کو پسند نہیں ہے۔

اللہ مخلوق کو خوش دیکھنے کے لئے مخلوق کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے راستے پر چلنے کو اپنا راستہ قرار دیتے ہیں۔

 

پیغمبروں کی زندگی پر تفکر کیا جائے توان پر صراطِ مستقیم پر قائم رہنے اور صراطِ مستقیم پر دعوت دینے کا بھرپور عزم ہوتا ہے۔ پیغمبر عفوّ و  درگزر سے کام لیتے ہیں۔ حق تلفی نہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہر پیغمبر کی تعلیمات کا مقصد توحید پرستی ہے۔ یہی سب باتیں پیغمبرانِ کرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا صوفی بتاتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔

یہ اعتراض کہ تصوّف رہبانیت کی طرف آمادّہ کرتا ہے اور صوفی کاہل الوجود ہوتے ہیں…. نہایت مضحکہ خیز بات ہے۔ صوفی کے علاوہ جو لوگ کام نہیں کرتے ہڈحرام ہوتے ہیں۔ بچوں کے حقوق پورے نہیں کرتے، بیویاں دن بھرکام کرتی ہیں، شوہر گھر میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ کیا یہ سب صوفی ہیں؟

صوفی روحانی صلاحیت اور باطنی استعداد کو متحرک کرنے کے لئے جب خانقاہ میں داخل ہوتا ہے…. چند سال تک خانقاہ کے ہاسٹل میں رہتا ہے …. تو اسے مخالفین راہب اور تارکُ الدّنیا کہتے ہیں…. اور جب کوئی طالبِ علم دنیاوی علم حاصل کرنے کے لئے…. کارپینٹر کا کام سیکھنے کے لئے، ملازم حکمران کی اطاعت کے لئے، مزدور مزدوری کے لئے، اجیر فیکٹری میں کام کرنے کے لئے جب سالہا سال گھر اور وطن سے دُور رہتا ہے تو کوئی نہیں کہتا یہ تارکُ الدّنیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ راہب ہے۔

سالک خانقاہ میں رہ کر اپنی باطنی کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے۔ اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ بلاصلہ و ستائش اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے خود کو اہل بناتا ہے۔ اللہ کا دوست بن کر خوف اور غم سے نجات حاصل کرلیتا ہے تو اسے راہب اور دنیا سے بیزار کے القاب سے نوازاجاتا ہے۔

تصوّف مذہب کی روح ہے اور اسلام کے اصولوں پر اس کی تدوین ہوئی ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ دوسرے علوم کی طرح روحانی طالبِ علم شب و روز محنت کرکے، وقت لگا کر یہ علم سیکھتا ہے اور جب علم کی تکمیل ہوجاتی ہے تو گوشہ نشینی یا ہوسٹل کی رہائش ترک کردیتا ہے اور دنیا کے سارے کام پورے کرتا ہے۔

سالکین کے اوپر یہ الزام ہے کہ وہ تارکُ الدّنیا ہوتے ہیں۔ کیا ہم لاہور میں مقیم حضرت داتا گنج بخشؒ اور ملتان میں موجود حضرت بہاؤالدین زکریا ؒ کو تارکُ الدّنیا کہہ سکتے ہیں؟ داتا صاحبؒ کا مزار مَرجعِ خَلائق ہے جہاں ہزاروں انسان روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔ کیا ہم اس دعوتِ عام کو ترکِ دنیا کا نام دے سکتے ہیں؟

اعتراض کیا جاتا ہے کہ صوفی کا لفظ رسول اللہؐ کے زمانے میں رائج نہیں تھا اس لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ہم سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ صحابۂ کرام کے زمانہ میں اہلحدیث، اہلِ قرآن، دیوبندی، بریلوی، وہابی، شیعہ، سنّی وغیرہ کے الفاظ بھی رائج نہیں تھے۔ حکیم الامت، علامہ، مولانا، مولوی کے الفاظ کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ کسی نے مولائیت یا مولویت کے الفاظ کا اشتقاق کیوں تلاش نہیں کیا؟ کیا صحابہ کرامؓ کے زمانے میں کوئی بزرگ مولوی ابوہریرہؓ، مولانا معاذ بن جبلؓ یا ملّا ابنِ مسعودؓ یا علامہ ابنِ عباسؓ، حکیم الامت ابنِ عمرؓ، مولانا ابوبکرؓ، مفتی عثمانِ غنیؓ کے نام مشہور تھے؟
بحث و مباحثہ کا سارا  ز ور لفظ ‘‘ صوفی ’’   پر ہی کیوں ہے؟ ….. اس لئے کہ صوفی یہ کہتا ہے کہ قال کے ساتھ حال ضروری ہے…. ظاہر کے ساتھ باطن ضروری ہے…. ظاہر کے ساتھ اگر باطن نہیں ہوگا تو عبادت کی قبولیت کا مژدہ نہیں ملے گا۔ اگر اسلام کے ساتھ ایمان نہیں ہوگا تو اسلام کی تکمیل نہیں ہوگی۔ نماز میں اگر حضور نہیں ہوگا تو نماز معراجُ المومنین نہیں بنے گی۔ حقوق اللہ پورے نہیں کئے جائیں گے تو شرک سے نجات نہیں ملے گی۔ اللہ وَحدَہُ لاشریک کو دیکھ کر اس کا عرفان حاصل نہیں کیا جائے گا تو تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔۔۔

صوفی کا پیغام یہ ہے:

ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہوجاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے

دنیاوی علوم کی طرح سلاسل طریقت اور خانقاہی نظام میں بیعت (شاگردی اختیار کرنا) بنیادی عمل ہے۔ بیعت فرض نہیں ہے لیکن دنیا میں بہت سارے ایسے کام ہیں جو فرض نہیں ہیں، مثلاً کہیں نہیں لکھا ہے انجینئر بننا فرض ہے، بڑھی کا کام سیکھنا فرض ہے یا ڈاکٹر بننا لازم ہے لیکن بہرحال تعلیم حاصل کرنا معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بیعت کے فوائد یبان کئے ہیں۔

‘‘اے پیغمبر! جو لوگ آپ کے ساتھ بیعت کرتے ہیں، اللہ کے ساتھ بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔’’

(سورۃ فتح۔ آیت 10)
جس طرح دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا ہونا ضروری ہے اسی طرح علم طریقت، تصوّف یا روحانی علوم سیکھنے کے لئے درسگاہیں (خانقاہی نظام) ضروری ہے۔ جب سے خانقاہی نظام پر قدغن لگائی گئی ہے، اسی وقت سے انسان بے سکون، بے چین، پریشان اور طرح طرح کے موذی امراض کا شکار بن گیا ہے۔ اس لئے کہ انسان کا مادّی وجود سڑاند اور تعفّن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سڑاند اور تعفّن میں امراض ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔
دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک اور احادیث کی تعلیم کے مطابق جسمانی وجود کو زندہ رکھنے والی، سہارا دینے والی روح کا ادراک ضروری ہے اور روح کے ادراک کے لئے بیعت یعنی روحانی استاد کی شاگردی ضروری ہے۔

 

تصوّف کا اصل اصول یہ ہے کہ:

روح (انسان کی اصل) نور اور روشنیوں سے بنی ہوئی ہے۔ جب تک روشنیوں کا انسان مادّی جسم کو اپنا معمول بنائے رکھتا ہے انسان زندہ رہتا ہے اور جب روشنیوں کا انسان مادّی عناصر سے بنے ہوئے جسم کو چھوڑدیتا ہے تو آدمی مرجاتا ہے۔

 

روحانی استاد، عرف عام میں جسے مرشد کہا جاتا ہے، اِس قانون سے واقف ہوتا ہے اور یہ علم اسے اپنے مرشد اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوتا ہے۔

روحانی شاگرد یا مرید جب مرشد کے حلقہ میں آجاتا ہے تو مرید کے اندر Positive اور Negative روشنیوں کا نظام بحال ہوجاتا ہے۔ مرید کی روشنیوں میں مراد کی روشنیاں شامل ہوجاتی ہیں۔ اس عمل سے بتدریج تعفّن کم ہوتارہتا ہے۔ جس مناسب سے تعفّن کم ہوتا ہے اسی مناسبت سے لطیف روشنیوں کا ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔

مرید ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ شیخ کی زندگی کے احوال و اعمال سے مرید مطمئن ہو۔ اگر مرید اور مراد میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو مرید کرنا یا مرید ہونا دونوں باتیں عقل و شعور کے خلاف ہیں۔ مختصراً ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مراد اور مرید دونوں کے مزاج میں، عادات و خصائل میں، نشست و برخاست میں، وضع داری میں، طریقت و شریعت میں پوری طرح مطابقت نہیں ہوگی، بیعت کا فائدہ نہیں ہوگا۔

روحانی علم دراصل ورثہ ہوتا ہے۔ جس طرح صلبی باپ اولاد کی بہترین تربیت کرنا اپنا مقصدِ زندگی سمجھتا ہے اسی طرح مرشد بھی شب و روز روحانی اولاد کی تربیت میں مشغول رہتا ہے۔ بڑی بڑی اذیتیں، تکلیفیں اور پریشانیاں برداشت کرکے اپنے شاگرد کے اندر روحانی طرزِ فکر منتقل کرتا رہتا ہے۔ شاگرد کی کوتاہیوں پر صبر کرتا ہے۔ اس کی غلطیوں کو معاف کرتا ہے۔ مرشد اپنے شاگرد کے لئے مکمل ایثار ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق انسان کی تخلیق کا مقصد خود کو پہچان کر اللہ کا عرفان حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصل روح سے واقف ہونے کی توفیق دے۔
آیئے! جدوجہد کریں کہ ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہوجائے اور ہم سب اس طرح اللہ سے قریب ہوجائیں جس طرح اللہ چاہتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 125 تا 135

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)