میرے مَن نے مجھے بتایا

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47162

صبح کے 6 بجے ہیں…. لیکن دھوپ کی تمازت سے لگتا ہے کہ سورج نصفُ النَّہار پر ہے۔ جسم عرق آلود ہے۔ ماتھا قطروں سے اس قدر بھیگا ہوا ہے جیسے کھولتے پانی سے بھاپ کے قطرے بڑے پتیلے کے ڈھکن پر جمع ہوجاتے ہیں۔ بدن میں خلاء ہے یا نہیں لیکن شاید گرمی سے جسم پکتے پانی یا کھولتے خون کی دیگ بنا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ جسم اسفنج ہے…. خیالات کی گرم لَو سے جسم ایسا بن گیا ہے کہ جیسے اسفنج کو پانی میں دھو کر نچوڑدیا جائے۔
انسان جو جنم دن سے ہی ناشکرا ہے، گرمی کو برا کہتا ہے۔ ناشکرا اِس لئے کہ…. جب سردی ہوتی ہے تو سردی کی شکایت کرتا ہے۔ بےصبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خالق بےصبر لوگوں کوپسند نہیں کرتا….!

پرندے ہرے بھرے درخت کی شاخ کے گہرے سبز پتوں کے سائے میں آنکھیں موندھے صابر و شاکر بیٹھے ہیں۔ وہ کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے۔ گرمی ہو سردی ہو یا کوئی اور موسم ہو، اِس کا تعلق انسان کی ذاتی کیفیت سے ہے…. اور انسان کی ذاتی کیفیات کا دارومدار خیالات پر ہے۔ خیال نہ ہو تو یہ ساری دنیا اور دنیا کی تمام دلچسپیاں ختم ہوجائیں گی۔

میں ایک بندہ بشر ہوں، آنکھوں میں خوشی ہے مگر جوانی کی چمک معدوم ہے۔ بھنویں سفید ہیں، کمر ابھی جھکی تو نہیں ہے…. لیکن دونوں ہاتھ بنیادی دو ستونوں کے اوپر رکھ کر اٹھنا پڑتا ہے۔ چال ٹھیک ہے لیکن مستانہ وار شان نہیں رہی۔ زمین پر اکڑ کر چلنے کا دَور اب ختم ہوگیا ہے۔ بچپن جوانی میں اور جوانی بڑھاپے میں دفن ہوگئی ہے۔ میں چاہوں…. تو بھی ماضی کے قبرستان سے اسے باہر نہیں نکال سکتا۔ عجیب بات یہ نظر آتی ہے کہ تقاضے سب وہی ہیں جو بچپن اور جوانی میں ہوتے ہیں…. پانی پیتا ہوں تو سیرابی آجاتی ہے…. روٹی چاول کھاتا ہوں تو انرجی ملتی ہے۔ میں خود کو اتنا بڈھا نہیں سمجھتا…. لوگ بڑے بڑے القاب سے نواز کر مجھے بوڑھا ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ بس میں سوار ہوتا ہوں حالانکہ میں تھکا نہیں ہوتا۔ کھڑے ہو کر سفر کرسکتا ہوں، لیکن بس میں بیٹھے ہوئے مسافر کہتے ہیں…. باباجی یہاں بیٹھ جایئے۔ میرے انکار کے باوجود وہ ہاتھ پکڑکر مجھے سیٹ پر بٹھادیتے ہیں۔ ان کے پُر اَدب رویے سے مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میں بڈھا ہوگیا ہوں۔ یہ صورتحال اس وقت شروع ہوتی ہے جب کالے بال چٹّے ہونا شروع ہوتے ہیں….
ہم تین دوست ایک جگہ بیٹھے تو ایک دوست نے کہا میں ساٹھ سال کا ہوں دوسرا بولا میں اٹھاون سال گزارچکا ہوں میں نے خوش ہو کر کہا میری عمر ایک کم ستر سال ہے۔ پہلے دوست نے منطقی انداز میں کہا، یارو….آؤ…. غور کریں کہ ہم نے کیا کھویا…. اور کیا پایا؟

پہلا بولا….

میں نے اس دنیا میں سب کچھ پالیا۔ جوان ہُوا، منہ زور جوانی کے بھرپور جذبات سے خوب خوب لطف اندوز ہوا۔ گھر بنایا، شادی کی، بچے ہوئے، بچوں کے بچے گود میں کھلائے….

دوسرا آدمی گویا ہوا….

یہ سب تو چرند، پرند، حشراتُ الارض بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ تجھ میں اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں ہے! چوپائے بھی یہی سب کرتے ہیں جس پر تُو فخر کررہا ہے!

میری باری آئی تو مجھے کچھ سُجھائی نہیں دیا…. اس لئے کہ مجھے بُرا لگا کہ میرا شمار چوپائیوں میں ہو۔ میں اپنے اندر گم ہوگیا۔ ایک دنیا نظر آئی جو ایک آنکھ سے حسین نظر آتی ہے اور دوسری آنکھ سے نہایت بدصورت اورڈراؤنی۔ میں نے جلدی سے حسین دنیا کی طرف قدم بڑھایا اور بدصورت دنیا میرے راستے میں مزاحم ہوگئی۔ بدصورت دنیا نے نحوست آثار چہرے پر بکھری زلفوں کو اٹھایا، غیظ و غضب اور سرخ آنکھوں سے مجھے اس طرح دیکھا کہ میرے اوپر دہشت طاری ہوگئی۔ میں سارے کا سارا جل گیا۔ میری خوبصورت کھال جو میرے وجود پرمونڈھی ہوئی ہے، سیاہ ہو کر سکڑ گئی۔ اب میں نے خود کو بدصورت اور کریہہ شکل دیکھا اور خود سے خوف کھاکر لرزنے لگا۔ لطیف احساسات پرکثافت کی دھند چھاگئی۔ وجود کا ہر خلیہ پتھر کی طرح بھاری ہوگیا۔ دوسرا قدم اٹھایا تو ایک پیر من بھر کا لگا۔ میں نے اپنے مَن کوآواز دی اور اس سے مدد چاہی….

میرے مَن…. میرے ضمیر نے راہنمائی کی اور مجھے بتایا کہ….

بدصورت اور ڈراؤنی دنیا تیرے نفس کا وہ کھوٹ ہے جو تو عمر بھر جمع کرتا رہا۔ میں نے دہائی دی…. ‘‘اس کھوٹ میں مجھے ملوث نہ کیا جائے’’۔

من نے کہا!

یہاں کسی کو کھوٹ میں ملوث نہیں کیا جاتا۔ آدمی جب زمین پر پہلا قدم رکھتا ہے تو وہ پھول کی طرح خوبصورت اور کلیوں کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ پھول میں خوشبو اس لئے ہوتی ہے کہ پھول لطیف خیالات میں کثیف معنی نہیں پہناتا۔ آدمی اس لئے بدصورت ہوجاتا ہے کہ لطیف اور پاکیزہ خیالات پر تہہ در تہہ کثافت کے ڈھیر جمع کردیتا ہے۔

میرے من نے مجھے بتایا کہ….

بھولے بادشاہ آدمی!  تو خود کوانسان کہتا ہے…. جبکہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ زندگی کا ایک عمل بھی خیال کے حلقہ سے باہر نہیں ہے۔ تیری عمر ایک کم ستر سال ہے۔ ایک کم ستر سال کی عمر میں انسان ہونے کا دعویٰ کرنے والے آدمی تو نے…. چودہ کروڑ پچاس لاکھ پینسٹھ ہزار چھ سو خیالات قبول کئے اور یہی تیری زندگی ہے۔ اے نادان بشر! کیا تو بتاسکتا ہے کہ 145,065,600 اعمال میں کوئی ایک عمل تُو نے خیال آئے بغیر کیا ہے؟
ہرگز نہیں…. بلاشبہ ہرگز نہیں…. خیال کے علاوہ نہ تُو پانی پی سکتا ہے…. نہ تُو روٹی چاول کھاسکتا ہے…. تجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ خیال کیا ہے؟ اور کہاں سے آتا ہے؟

اے محدود شعور میں بند آدمی! دنیا نہ خوبصورت ہے اور نہ بدصورت ہے۔ تُو نے خیال میں جیسے معانی پہنادیئے، وہی تیری دنیا ہے۔ تیرے اندر ہی سب کچھ ہے۔ جب تیرے اندر کا انسان تجھ سے روٹھ جاتا ہے تو خود  تُو بدصورت اور گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔

میں نے روتے ہوئے لرزتے ہوئے نَحیف ونَزار…. مردہ آواز میں اپنے دوستوں کو بتایا….

میرے عزیز دوستو! …. سنو!

جو آدمی اس دنیا میں آتا ہے نہ کچھ ساتھ لاتا ہے اور نہ کچھ ساتھ لے جاتا ہے۔ دراصل انسانی زندگی خیالات میں خوبصورت…. بدصورت معانی کا ریکارڈ ہے۔

‘‘جو شخص دنیا میں ذرّہ برابرنیکی کرے گاوہ اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرّہ برابربدی کرے گاوہ اس کو دیکھ لے گا’’  (سورۃ الزلزال)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 055 تا 059

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)