نظامِ کائنات اور روحانی سائنس

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47302

رسول اللہ ﷺ اور انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ہر انسان دو رخوں سے مرکب ہے۔

  • انسان کا ایک رخ جسمانی رخ ہے…. اور
  • دوسرا رخ روحانی جسم ہے….

مادّی جسم کی تعریف یہ ہے کہ ا س میں ہر لمحہ ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔ مٹی کا جسم فنا ہو کر مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

روحانی جسم اللہ کا امر ہے۔

ہر مادّی وجود کی حرکت روحانی وجود کے تابع ہے….  مادّی وجود روحانی وجود کے تابع ہو کر حرکت کرتا ہے۔ روح اگر جسمانی وجود سے رشتہ منقطع کرلے تو مادّی وجود میں کسی بھی طرح کی حرکت نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، غم اور خوشی سے متاثر ہونا، شادی بیاہ، اُس ہی وقت ممکن ہے جب روح جسم کو سہارا دے۔ دنیا ہزاروں سال سے موجود ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ہے کہ کسی مردہ جسم نے کوئی ایجاد کی ہو۔ یا مردہ اجسام سے کوئی اور انسانی عمل سرزد ہُوا ہو۔

آسمانی کتابوں اور قرآن حکیم میں اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیاکہ دنیا عارضی دنیا ہے۔ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جس میں جا کر ہمیں اپنے اعمال کی سزا یا جزاء کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ جس طرح اس دنیا کے بعددوسری دنیا عالمِ آخرت ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ایک دنیا ہے۔ جہاں سے ہم آئے ہیں۔ اس کا نام عالمِ ارواح ہے۔

سورۃ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے!
‘‘اے گروہِ جنات اور گروہِ انسان! تم آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے’’۔

(آیت نمبر 33)
تصوّف میں سلطان کا مطلب چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

کوئی انسان زمینی شعور میں رہتے ہوئے چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کرلے تو وہ زمینی شعور سے باہر نکل سکتا ہے۔

ہر آسمان ایک شعور ہے۔ آسمانی دنیا کو پہچاننے کے لئے ان شعوروں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے آسمانی دنیا سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔ جب انسان ساتویں شعور کا ادراک حاصل کرلیتا ہے تو اس میں عرشِ معلیٰ کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
مثال:
بورڈ کے اوپر گھڑی بنی ہوئی ہے۔ گھڑی میں سوئی کے ساتھ ایک سے با رہ تک ہندسے لکھے ہوئے ہیں۔

ہندسے جس جگہ لکھے ہوئے ہیں وہ اسپیس ہے اور سوئی کا گھومنا ٹائم ہے۔

اگر سوئی کو اتنی رفتار سے گھمایا جائے کہ وہ پلک جھپکتے سے پہلے 12 سے 6 کے ہندسے پر پہنچ جائے تو شعور پردے میں چلاجائے گا اور جو شعور ایک، دو، تین کے وقفوں میں سے گزر کر چھ تک پہنچتا ہے وہ حذف ہوجائے گا۔ یعنی ذہن کی رفتار اتنی تیز ہوجائے گی کہ اسپیس کے وقفے نظرانداز ہوجائیں گے۔

اور جب سوئی کو اس طرح گھمادیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے بارہ پر پہنچ جائے تو ذہن کی رفتار اتنی زیادہ ہوجائے گی کہ ایک سے بارہ تک وقفوں کو نظرپھلانگ جائے گی۔
انسان کے اندر بیک وقت دو نظریں کام کررہی ہیں:

  • ایک نظر وقفہ وقفہ سے کام کرتی ہے… اور
  • دوسری نظر وقفوں کی نفی کرکے آگے اور بہت آگے دیکھتی ہے۔

 

ریورس میں بارہ سے گیارہ، گیارہ سے دس اور اسی طرح گزر کر ایک پر آجائے تو اسے وہ شعور حاصل ہوجائے گا جو پیدائش کے وقت تھا۔
اگر سوئی بارہ کے ہندسے سے ریورس بیک وقت دس پر آجائے تو انسان کو وہ شعور حاصل ہوجاتا ہے جو اسے خواب دکھاتا ہے۔

اگر سوئی بارہ سے اچھل کر نو پر آجائے تو اسے مراقبہ کا شعور حاصل ہوجاتا ہے۔

اگر سوئی آٹھ پر آجائے تو اسے وہ شعور حاصل ہوجاتا ہے جس کو وحی کہتے ہیں…. اور یہ وہی وحی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی پر وحی کی۔

اگر بارہ کے ہندسے پر قائم سوئی تیزی کے ساتھ حرکت کرکے ایک دم سات پر آجائے تو انسان کے اوپر کشف کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے…. اور

اگر سوئی چھ پر آجائے تو انسان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جس کو قرآن نے سلطان کہا ہے۔ یعنی اب انسان زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے۔
زمین کے کناروں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت کے حامل سالک کے اندر پہلے آسمان کا شعور پیدا ہوجاتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس طرح سات آسمانوں کو وہ دیکھ لیتا ہے اور سات آسمانوں میں وہ داخل بھی ہوجاتا ہے۔
اللہ کریم نے فرمایا:
‘‘ہم نے آسمان اور زمین کو تہہ در تہہ بنایا ہے’’ (سورۃ الملک، آیت نمبر 3)

 

‘‘اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم بھی انہی کی مانند ہے’’۔ (سورۃ الطلاق، آیت نمبر 12)

‘‘اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے تخلیق کے کام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں’’۔  (سورۃ المومنون آیت نمبر 17)

تہہ در تہہ سے مراد دراصل وہ شعوری صلاحیتیں ہیں جو اللہ نے انسان کو وُدیعت کی ہیں۔

سات تہوں والے آسمانوں یا زمین سے مرادیہ ہے کہ ہر تہہ ایک مکمل نظام ہے اور ہر نظام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے۔ ایسا ضابطہ حیات جس کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا ان سب کا رشتہ خالقِ کائنات کے ساتھ قائم ہے۔

تمام چیزیں اور مخلوقات اس بات کا علم رکھتی ہیں کہ ہمارا خالق اللہ ہے اور اس علم پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتی ہیں اور شکر ادا کرتی ہیں۔ اربوں کھربوں سے زیادہ ان چیزوں یا مخلوقات میں سے کوئی ایک مخلوق بھی اللہ کی خالقیت سے انحراف کرے تو نظامِ زندگی میں خلل واقع ہوجائے گا۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اللہ کی حمد بیان کرتی ہیں۔ یعنی اللہ کی خالقیت سے انحراف نہیں کرتیں۔

سوال یہ ہے کہ:
ہمارے اشغال و اعمال جو جسمانی اعضا کے ذریعے صادر ہوتے ہیں….  کہاں تخلیق پاتے ہیں؟  …. اور ….. ان کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے؟

صوفیاء حضرات بتاتے ہیں کہ:
کسی شے کی ماہیت کی طرف رجوع کیا جائے تو ہم کتنی ہی انواع و مخلوقات کو پہچان سکتے ہیں۔ شیر، شاہین، چاند اور سورج، زمین و آسمان، جن و انس، ہَوا، پانی، فرشتے، پہاڑ، سمندر اور حشرات الارض یہ سب مخلوق ہیں۔ ان کا مظاہرہ ایک ہی طرز پر ہوتا ہے۔ جیسے شیر ایک شکل و صورت اور ایک خاص طبیعت رکھتا ہے، اس کی آواز بھی مخصوص ہے۔ یہ چیزیں اس کی پوری نوع پر مشتمل ہیں، بالکل اسی طرح انسان بھی خاص شکل و صورت، خاص عادتیں اور خاص صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن یہ دونوں اپنی ماہیتوں میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ البتہ دونوں میں یکساں تقاضے پائے جاتے ہیں۔ یہ اشتراک نوع کی ماہیت میں نہیں بلکہ ماہیت کی‘‘اصل’’  میں ہے۔

اس قانون سے ہمیں روح کے دو حصوں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں….

  1. ہر نوع کی جداگانہ ماہیت
  2. تمام انواع کی واحد ماہیت

یہی واحد ماہیت…. روحِ اعظم اور شخصِ اکبر ہے…. اور

ہر نوع کی جداگانہ ماہیت…. شخصِ اصغر ہے اور اسی شخص اصغر کے مظاہر فرد کہلاتے ہیں۔ مثلاً تمام انسان شخصِ اصغر کی حدود میں ایک ہی ماہیت ہیں۔ ایک شیر دوسرے شیر کو بحیثیت شیر کے شخص اصغر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے

مگر یہی شیر کسی آدمی کو یا دریا کے پانی کو یا اپنے رہنے کی زمین کو یا سردی گرمی کو شخصِ اکبر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے۔

اصغر ماہیت کی صلاحیت ایک شیر کو دوسرے شیر کے قریب لے آتی ہے لیکن شیر کو جب پیاس لگتی ہے اور وہ پانی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں یہ تحریک اکبر ماہیت کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ صرف اکبر ماہیت کی بدولت یعنی شخصِ اکبر کی وجہ سے یہ بات سمجھتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس رفع ہوجاتی ہے۔
چنانچہ ذی روح یا غیر ذی روح، ہر فرد کے اندر اکبر صلاحیت ہی اجتماعی زندگی کی فہم رکھتی ہے۔ ایک بکری سورج کی حرارت کو اس لئے محسوس کرتی ہے کہ وہ اور سورج شخصِ اکبر کی حدود میں ایک دوسرے سے الحاق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی انسان شخصِ اکبر کی حدود میں فہم و فراست نہ رکھتا ہو تو وہ کسی دوسری نوع کے افراد کو نہیں پہچان سکتا نہ ان کا مَصرف جان سکتا ہے۔

جب آدمی کی آنکھ ستاروں کو ایک مرتبہ دیکھ لیتی ہے تو اس کا حافظہ ستاروں کی نوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر محفوظ کرلیتا ہے۔ حافظہ کو یہ صلاحیت شخصِ اکبر سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جب کوئی انسان اپنی نوع کے انسان کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ یہ کشش شخصِ اصغر کا خاصہ ہے۔

یہاں سے اصغر ماہیت اور اکبر ماہیت کی تخصیص ہوجاتی ہے۔

  • اکبر ماہیت، کششِ بعید کا نام ہے…. اور
  • اصغر ماہیت، کششِ قریب کا نام ہے

روحانی دنیا میں غیرارادی حرکت کا نام کشش اور ارادی حرکت کا نام عمل ہے۔

غیرارادی تمام حرکات شخص اکبر کے ارادے سے واقع ہوتی ہے۔ لیکن فرد کی تمام حرکات فرد کے اپنے ارادے سے عمل میں آتی ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

اللہ سماوات اور ارض کی روشنی ہے۔

(سورۃ النّور، 35)

اس کی تشریح یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوئی ہیں۔ چاہے وہ موجودات بلندی کی طرف ہوں یا پستی کی طرف ہوں۔

مذاہب عالم نے کسی نہ کسی طرح ایک نظر نہ آنے والی روشنی کا تذکرہ کیا ہے ایسی روشنی جو ساری روشنیوں کی اصل ہے اور تمام موجودات میں موجود ہے۔

انجیل میں ہے:
‘‘خدا نے کہا روشنی،  اور روشنی ہوگئی’’
حضرت موسیٰؑ نے وادئ سینا میں سب سے پہلے جھاڑی میں روشنی کا مشاہدہ کیا اور اسی روشنی کی معرفت اللہ کے کلام سے مشرف ہوئے۔

ہندومت میں اسی روشنی کا نام‘‘جوت’’  ہے۔

تصوّف کے مطابق کائنات کی تخلیق کا بنیادی عنصر‘‘نور’’ ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
‘‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے’’۔

(سورہ نور آیت نمبر 35)

نور اس خاص روشنی کو کہتے ہیں جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔

روشنی، لہریں، رنگ،اِبعاد،یہ سب نور کی گوناگوں صفات ہیں۔

نور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت ماضی اور مستقبل دونوں میں سفر کرتا ہے اور ماضی و حال کا آپس میں ربط قائم رکھتا ہے۔ اگر یہ ربط قائم نہ رہے تو کائنات کا رشتہ ماضی سے منقطع ہوجائے گا۔

بےشک زمین و آسمان کی پیدائش اور دن کے بار بار ظاہر ہونے اور چھپنے میں ان عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۝

جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا اور ہمیں دوزخ کی آگ سے محفوظ کردے ۝

(سورۃ آلِ عمران،  آیت نمبر 190)

عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے انکشا ف کیا ہے کہ:

‘‘روح’’،  ….  تجلی، نور اور روشنی سے مرکب ہے۔
کائنا ت میں ہر فرد قدرت کا بنا ہوا کمپیوٹر ہے اور اس کمپیوٹر میں کہکشانی نظاموں سے متعلق تمام اطلاعات فیڈ ہیں اور کمپیوٹر ڈسک کی طرح یہ اطلاعات ہر کمپیوٹر میں ذخیرہ ہیں۔

کہکشانی نظاموں میں جاری و ساری یہ اطلاعات، لہروں کے دوش پر ہر لمحہ سفر کرتی رہتی ہیں۔ ہر موجود شے کا دوسری موجود شے سے لہروں کے ذریعہ اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

سائنس دان روشنی کی رفتار کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں کہ زمانی مکانی فاصلوں کومنقطع کردے۔ زمانی اور مکانی فاصلے لہروں کی گرفت میں رہتے ہیں۔

اگر کسی فرد کے ذہن میں جنات، فرشتوں، آسمانوں اور زمین سے متعلق ا طلاعات کا تبادلہ نہ ہو تو انسان فرشتوں، جنات، درخت، پہاڑ، سورج اور چاند کا تذکرہ نہیں کرسکتا۔

کہکشانی نظام اور کائنات میں جتنی بھی نوعیں اور نوعوں کے افراد ہیں ان کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری زندگی سے متعلق تمام خیالات، لہروں کے ذریعہ ہر مخلوق کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات اس قانون سے واقف نہ ہوں۔

خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہم کسی آدمی یا کسی مخلوق کے فرد سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ مخلوق کے فرد کی لہریں ہمارے اندر دَور کرنے والی لہروں میں جذب ہورہی ہیں۔ انسان کا لاشعور کائنات کے دُور دراز گوشوں سے مسلسل رابطہ رکھتا ہے۔ اس رابطہ کے ذریعہ انسان اپنا پیغام کائنات کے ہر ذرّہ تک پہنچاسکتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہوسکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان اس قانون سے واقف ہوجائے کہ کائنات کی تمام مخلوق کا خیالا ت کی لہروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق ہے۔ خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ زندگی سے قریب کرتی ہے یا دنیاوی زندگی سے دور کردیتی ہے۔

‘‘پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات ۝

جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا ۝

اور پھر اس تخلیقی فارمولوں سے آگاہ کیا ۝

(سورۃ الأعلیٰ، آیت نمبر 1 تا 3)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو معیّن مقداروں (ایٹم) سے بنایا ہے اور معیّن مقداریں دراصل اس شے کے ظاہر اور باطن میں کام کرنے والی صلاحیتیں ہیں جو ایک قانون اور Discipline کے تحت ہیں، ایک واحد ہستی کی نگرانی میں برقرار ہیں۔ بڑے بڑے اجرامِ سماوی معمولی اور ننھے سے ایٹم، ایٹم کے اندرونی خول یا اجزاء، الیکٹران، پروٹان، اور نیوٹران اس ذاتِ واحد کی نظروں کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی ذرّہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے احاطۂِ قدرت سے باہر نہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:
‘‘وہ ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے،  اس کے علم سے کوئی رَتّی برابر چیز باہر نہیں، وہ چیز آسمانوں میں ہو یا زمین میں، اور ان تمام چھوٹی بڑی چیزوں کاعلم  اور ان چیزوں کی تمام اقسام کے فارمولے کھلی کتاب میں موجود ہیں’’۔

(سورۃ سبا آیت نمبر 3)

  1. رَتّی برابر ذرہ
  2. اس سے چھوٹا
  3. نسبتاً اس سے چھوٹا

تخلیق میں تین قسم کے ذرّات پائے جاتے ہیں:

ایک ایٹم

دوسرے ایٹم کے اندرونی اجزاء…. اور

سوم ایٹم کے مرکبات

  1. ‘‘مثقالَ ذرّہ’’ یعنی وہ رَتّی برابر چیز ہے جس میں وزن پایا جاتا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ رتی چھوٹے سے چھوٹے وزن کا تشخص ہے۔ ذرّہ برابر چیز کا مطلب یہ ہوا جس میں کوئی وزن اور معیّن مقدار یا مقداریں ہوں۔ ایٹم چونکہ ایک ایسی اکائی ہے جس کے اندر الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران موجود ہیں۔ اس لئے اس میں مقدار اور وزن دونوں ہیں۔
  2. اس سے چھوٹا یعنی ایٹم سے نسبتاً چھوٹا الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ اور ایٹموں کے مرکزوں سے خارج ہونے والی الفا، بیٹا اور گاما شعاعیں
  3. اور اس سے بڑا (ایٹم سے بڑا) یعنی قیامت تک دریافت ہونے والے ہر ایٹم کے ذرّات اور اجزاء خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے ہوں اور کتنے ہی بڑے ہوں

قرآن میں تفکر کرنے سے انسان کی نظر میں اتنی وسعت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایٹم کی اکائی میں روشنی کے جال کو دیکھ لیتی ہے۔ ایک صوفی یہ جان لیتا ہے کہ ایٹم کا، ایٹم کے اندرونی اجزاء اور ارض و سماء کا خالق ایک ہے اور پوری کائنات اس کی ملکیت ہے۔ اُس نے اِس کائناتی سسٹم کو ایک ضابطہ کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کو معیّن مقداروں کے ساتھ وجود بخشا ہے۔

مقداروں کا یہ علم وہ لوگ سیکھ لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:
‘‘اور وہ جن لوگوں نے میرے لئے یعنی میری تخلیق کو جاننے کے لئے جدوجہد اور کوشش کی میں انہیں اپنے راستے دکھاتا ہوں’’۔

(سورۃ العنکبوت، آیت نمبر 69)

 

مرشد کی نگرانی میں تصوّف کے اسباق کی تکمیل کرنے والا فرد جب ان مقداروں سے واقف ہوجاتا ہے، جو اشیاء کی تخلیق میں کام کررہی ہیں، تو وہ مقداروں کو کم و بیش کرکے شے میں ماہیت قلب کرسکتا ہے۔

مقداروں کا علم اس طرف ا شارہ کرتا ہے کہ دھات سیسہ میں ایسی مقداریں موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آسکتی ہیں۔

کائنات چار نہروں یا چار توانائیوں سے فیڈ ہورہی ہے:

  1. نہر تسوید
  2. نہر تجرید
  3. نہر تشہید
  4. نہر تظہیر

یورینیم (Uranium) اور لَیڈ (Lead) دونوں دھاتیں تسویدی لہروں سے فیڈ ہوتی ہیں۔

لَیڈ کے اوپر ایسی لہروں کا غلاف بنا ہوا ہے کہ اگر اسے تلاش کرلیا جائے تو دنیا ایٹم کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘ زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ بھی ہے۔ سب کا سب انسانوں کے لئے مسخر کردیا گیا ہے’’۔

(سورۃ الجاثیہ، آیت نمبر 13)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان میں موجود کسی بھی شے کے اندر جب تفکر کرے گا تو اس شے کے اندر کام کرنے والی مقداروں کا علم اسے حاصل ہوجائے گا۔

مختصر یہ کہ ایٹم مقداروں کا ایک مرکب ہے اور یہ مقداریں مادّیت کی اکائی ہیں۔

مادّیت کی ہر اکائی نور کے غلاف میں بند ہے۔

نور کے اوپر روشنی کا غلاف ہے۔ روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل بتائی جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار سے ہزاروں گنا نورانی لہروں کی رفتار ہے۔

نور اور روشنی، مرکب اور مُفرد لہروں کا ایک جال ہے جس کے اوپر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ذرّہ بنا ہوا ہے۔

صوفی جب روشنی کی سطح سے نکل کر نور میں داخل ہوجاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے ذرّہ میں ناقابل بیان طاقت (Energy) اس کے اوپر منکشف ہوجاتی ہے۔

موجودہ سائنسی ترقی میں جو عوامل کام کررہے ہیں ان میں انفرادی سوچ اور مادّی مفاد کا عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ ساری ترقی نوعِ انسانی کے لئے پریشانی اور بے سکونی کا پیش خیمہ بن گئی ہے۔ اگر یہی ترقی اور ایجاد پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق ہوجائے تو سائنس نوعِ انسانی کے لئے سکون و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔

فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ترقی کا فُسوں انسانی نسل کو آتش فشاں کے کنارے لے آیا ہے۔ اگر اس کا مثبت تدارک نہ کیا گیا تو یہ دنیا کسی بھی وقت بھک سے اڑ جائے گی۔ قانون یہ ہے کہ جو چیز وجود میں آجاتی ہے اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔

موجودہ سائنسدان اور صوفی سائنسدان میں یہ فرق ہے کہ سائنٹسٹ کے پیش نظر پہلے اپنا مفاد ہوتا ہے اور صوفی کا علم مخلوق کے لئے وقف ہوتا ہے۔

کائناتی نظام کو سمجھنے کی صلاحیت کو تصوّف میں مُغیَّباتِ اَکوان کہتے ہیں ۔ مُغیَّباتِ اَکوان کے حامل صوفی خواتین و حضرات کے اندر اتنی وسعت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے کے گزرے ہوئے حالات و واقعات اور ہزاروں سال بعد آنے والے حالات و واقعات کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی تفصیلات سے باخبر ہوجاتے ہیں۔
سائنس کے بقول انسان پانچ ارب سالوں میں انسانی صلاحیتوں کا پانچ سے دس فیصد تک استعمال جان سکا ہے۔ اس ترقی کو کیسے ترقی کے عروج کا زمانہ کہا جاسکتا ہے؟
سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں ایسی ایجادات ہوچکی ہیں جن ایجادات کے فارمولوں سے آج کی سائنس ابھی تک واقف نہیں ہوئی ہے۔
آسمانی کتابوں انجیل، توریت، زبور اور قرآنِ حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو سب کتابیں یہ درس دیتی ہیں کہ انسان دو رخوں سے مرکب ہے۔

ایک رخ مادّی جسم ہے…. اور

دوسرا رخ روحانی جسم ہے

مادّی جسم ماں کے بطن میں آنے کے بعد بنتا ہے۔ اسی کو شعور کہتے ہیں…. اور

روحانی جسم، ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے سے موجود ہے۔ اس کو لاشعور سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

  • اگر انسان شعور میں رہتے ہوئے ریسرچ اور تلاش کرتا ہے تو وہ اربوں سال میں پانچ سے دس فیصد صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے…. اور
  • اگر انسان اپنی روح سے واقف ہو کر لاشعور میں ریسرچ اور تلاش کرتا ہے تو اس کے اوپر قلیل عرصے میں باقی نوّے فیصد صلاحیتیں بھی منکشف ہوسکتی ہیں۔ زمان اور مکان کے فارمولوں کا انکشاف اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔

 

قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
‘‘ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو قرآن میں وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے’’۔

(سورۃ السّبا، آیت نمبر 3)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 153 تا 166

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)