سیرت طیبہ کی روشنی میں حکمتِ دین

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47294

حضرت عمرؓ ابنِ خطاب سے روایت ہے کہ ایک روز جبرائیلؑ  بہ صورتِ انسان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دو زانو مؤدب بیٹھ کر چند سوال کئے۔

اے محمدؐ بتایئے کہ اسلام کیا ہے؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ

  • اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں…. اور یہ کہ
  • محمدؐ اللہ کے رسول ہیں…. اور
  • قائم کرو صلوٰۃ…. اور
  • ادا کرو زکوٰۃ….. اور
  • رمضان کے روزے رکھو …. اور
  • بیت اللہ کا حج کرو اگر سفر خرچ کی استطاعت ہو۔

جبرائیلؑ نے کہا، سچ فرمایا آپؐ نے۔

 

پھر سوال کیا: یا رسول اللہ ﷺ !ایمان کیا ہے؟

آپؐ نے فرمایا کہ ایمان لاؤ:

  • اللہ پر …. اور
  • اس کے فرشتوں پر…. اور
  • اس کی کتابوں پر …. اور
  • اس کے رسولوں پر…. اور
  • قیامت کے دن پر …. اور
  • ایمان لاؤ اس کی تقدیر پر بھلی ہو یا بری۔

جبرائیلؑ نے کہا، سچ فرمایا آپؐ نے ۔

 

پھر سوال کیا: احسان کیا ہے؟

آپؐ نے فرمایا، احسان یہ ہے کہ:

  • تُو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے….
  • اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اس طرح عبادت کر کہ گویا اللہ تجھے دیکھ رہا ہے

جبرائیلؑ نے کہا، سچ فرمایا آپؐ نے۔

 

حضرت جبرائیلؑ کے اس استفسار میں تین باتیں بطور خاص فکر طلب ہیں۔

  • اسلام کیا ہے؟
  • ایمان کسے کہتے ہیں؟ اور
  • احسان کیا ہے؟

اسلام:

اللہ وحدہُ لاشریک کو ایک مان لینا اور اسی کو برحق معبود سمجھنا اسلام ہے۔ شریعت مطہرہ پر بِلاچُون و چَراں عمل کرنا، یہی امن اور سلامتی کا راستہ ہے۔

ایمان:

ایمان یہ ہے کہ اعمال و اَشغال کے نتیجے میں ایسا یقین حاصل ہوجائے جس میں شک کا شائبہ نہ رہے۔ ایمان یقین ہے اور یقین مشاہدہ سے مشروط ہے۔ کوئی عدالت عینی شہادت کے بغیر گواہی قبول نہیں کرتی۔

احسان:

احسان کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ کو دیکھ کر عبادت کرے یا بندہ اس کیفیت میں ہو کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ یقین کے اس درجے کو تصوّف میں مرتبۂِ احسان کہتے ہیں۔ اگر آدمی اسلام قبول نہیں کرے گا تو مسلمان نہیں ہوگا اور اگر مسلمان یقین کی دولت سے مالا مال نہیں ہوگا تو مومن نہیں ہوگا اور مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ کو دیکھتا ہے یا وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

 

علماء اس حدیث شریف کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

  • اسلام یہ ہے کہ شریعت کے آداب اور احکامات کا علم ہو اور اس پر عمل کیا جائے۔
  • ایمان یہ ہے کہ اللہ پر اعتقاد رکھا جائے کہ اس کی ذات و صفات اور اس کے فرشتے اللہ کے فرمان کے مطابق برحق ہیں۔ فرشتے اللہ کے فرمانبردار ہیں اور ہم اس کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ اس کا کلامِ قدیم ہے جو اس نے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا، اور رسولوں کو اللہ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ وہ معصوم و گناہوں سے پاک ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں قیامت، بہشت و دوزخ کے عذاب و ثواب پر۔

اہل تصوّف اس حدیث شریف کی تشریح یہ کرتے ہیں:

اسلام یہ ہے کہ احکام شریعت پر پوری طرح عمل کرکے، غیب کی دنیا میں فرشتوں کو دیکھنا اور اللہ ربّ العزت کے سامنے حضور قلب سے حاضر ہونا…. جاننا چاہئے کہ یہ مقام شہود و مشاہدہ ہے اور یہ کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے یا میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، یہ مقام مرتبۂِ احسان ہے۔

 

صوفی رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا نمونہ ہوتا ہے….

اس کے اندر سیرتِ مطہّرہ کی جھلک نظر آتی ہے….

وہ غصہ نہیں کرتا…. عفو و درگذر سے کام لیتا ہے….

اس کے د ل میں ہر چھوٹے بڑے کا احترام ہوتا ہے….

دوسروں کے کام آتا ہے….

ایفائے عہد میں پُرعزم اور پختہ ہوتا ہے….

ہر اخلاقی برائی سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے…. اور ہر اچھی بات پر دِلجمعی سے عمل کرتا ہے…. اور دوسروں کو عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے

کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرتا اور نہ کسی کو بددعا دیتا ہے….

ہر کس و ناکس کے ساتھ خوش ہو کر ملتا ہے….. اخلاق، مروّت اس کی شناخت بن جاتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ‘‘خوش اخلاقی اللہ تعالیٰ کا خُلقِ عظیم ہے’’

اخلاق وہی اچھا ہے جس میں صفاتِ ربانی کا عکس ہو۔ کچھ صفات ایسی ہیں جن میں انسان برابری نہیں کرسکتا۔ مثلاً اللہ واحد ہے اور مخلوق کثرت ہے، اللہ خالق ہے مخلوق، مخلوق ہے۔ کبریائی اور بڑائی صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے بندے کا کمال یہ ہے کہ اس میں کبریائی کے مقابلے میں خاکساری اور تواضع ہو، قادرِ مُطلق اللہ کی صفات میں بندہ فَروتنی محسوس کرے، خوش اخلاق ہو…. کیونکہ اسلام نے انسان کی روحانی تکمیل کا ذریعہ اخلاق کو قراردیا ہے۔ صفاتِ الٰہیہ کے انوار سے بندہ بشر جس حد تک قریب ہوتا ہے اس کی روحانی ترقی ہوتی رہتی ہے۔

دنیا میں اخلاق کے بڑے بڑے معلم پیدا ہوئے ہیں اور سب نے اخلاقیات پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔ تمام مذاہب کی بنیاد پر بھی اخلاقِ حسَنہ پر رکھی گئی ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے سب نے اس بات کا اِعادہ کیا کہ سچ بولنا اچھا عمل ہے اور جھوٹ بولنا برائی ہے۔ انصاف بھلائی اور ظلم بدی ہے۔ خیرات نیکی ہے اور چوری جرم ہے۔ دوسرے کے کام آنا ایسی عادت ہے جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور حق تلفی کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔

آپؐ نے فرمایا: میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ‘‘میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقِ حسَنہ کی تکمیل ہوجائے’’

رسول اللہ ﷺ نے بعثتِ نبوی سے پہلے ہی اس فرض کو انجام دینا شروع کردیا تھا۔

ابوذرؓ نے اپنے بھائی کو رسول اللہ ﷺ کے حالات اور تعلیمات کی تحقیق کے لئے مکہ بھیجا تھا۔ انہوں نے واپس آکر اپنے بھائی کو بتایا:

‘‘میں نے دیکھا کہ آپؐ لوگوں کو اخلاقِ حسَنہ کی تعلیم دیتے ہیں’’۔
نجاشی نے جب مسلمانوں کو بلا کر اسلام کے بارے میں تحقیق کی تو حضرت جعفر طیارؓ نے کہا:

‘‘اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کوپوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، پڑوسیوں کو تنگ و پریشان کرتے تھے اور بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردَست زیردَستوں کو غلام بنالیتے تھے۔ اِن حالات میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا….  اس نے ہمیں سکھایا کہ ہم پتھروں کی پرستش چھوڑ دیں، سچ بولیں، خونریزیوں سے باز آجائیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسائیوں سے اچھا سلوک کریں، ضعیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں’’۔

اسی طرح قیصرِ روم کے دربار میں ابوسفیان نے (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے)، رسول اللہ ﷺ کی اِصلاحی دعوت کا جو مختصر خاکہ بیان کیا اس میں یہ تسلیم کیا کہ…. رسول اللہ ﷺ خدا کی توحید اور عبادت کے ساتھ لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ پاک دامنی اختیار کریں، سچ بولیں اور قرابت داروں کا حق ادا کریں۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی تعریف میں کہا:

‘‘یہ پیغمبر جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو پاک و صاف کرتاہے اور ان کو حکمت سکھاتا ہے’’ (سورۃ الجمعۃ – آیت نمبر 2)

اس آیت میں دو لفظ بہت زیادہ تفکر طلب ہیں۔

نمبر 1 : تزکیہ

نمبر 2: حکمت

تزکیہ کے معنی ہیں….  پاک صاف کرنا، نکھارنا۔

قرآن پاک کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ نفسِ انسانی کو ہر قسم کی نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کرکے صاف ستھرا کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘بلاشبہ جس نے اپنے نفس کو صاف ستھرا بنایا وہ کامیاب ہوا۔ جس نے اسے مٹی میں ملایا وہ ناکام رہا’’ ۔ (سورۃ الشمس، آیت 9 تا 10)
ان آیات میں تزکیہ، جسے پیغمبر اسلام رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت قراردیا گیا ہے، کا مفہوم واضح ہے۔ یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ  کی نبوت و رسالت کا سب سے بڑا منصب یہ تھا کہ وہ انسانی نفوس کو برائیوں، نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کریں، اور ان کے اخلاق و اعمال کو درست اور صاف ستھرا بنائیں۔

حکمت کا لفظ نور کی صورت میں نبی کو وُدیعت کیا گیا ہے، جس کے آثار و مظاہررسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنن و احکام کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔
سورۃ لقمان آیت 12 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘اور ہم نے لقمان کو حکمت کی باتیں بتائیں تاکہ خدا کا شکر ادا کریں’’۔

رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں اخلاق کے مرتبے کو حکمت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسلام میں عبادات اور دوسرے احکام کو جو حیثیت حاصل ہے، اخلاق کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

‘‘اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو اپنے ربّ کو پُوجو اور نیکی کرو تا کہ تم فلاح پاؤ’’۔ (سورۃ الحج، آیت 10)

حقوقُ العباد انسانوں میں باہمی معاملات اور تعلقات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے اس کی رحمت کا دروازہ کسی نیک و بد بندے پر بند نہیں ہوتا۔ شرک و کفر کے سِوا ہر گناہ قابلِ معافی ہے مگر حقوق العباد، اخلاقی فرائض میں کوتاہی اور تقصیر کی معافی اللہ تعالیٰ نے اُن بندوں کے ہاتھ میں رکھی

ہے جن کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

‘‘جس بھائی نے کسی دوسرے بھائی پر ظلم کیا تو ظالم بھائی کو چاہئے کہ وہ اس دنیا میں ظلم کو معاف کرالے ورنہ یومِ حساب میں تاوان ادا کرنے کے لئے کسی کے پاس کوئی دِرہم و دِینار نہیں ہوگا، صرف اعمال ہوں گے، ظالم کی نیکیاں مظلوم کو مل جائیں گی اور مظلوم کے اعمال میں لکھ دی جائیں گی’’۔

بے سمجھ واعظوں اور اِبنُ الوقت مذہبی دانشوروں کی غلط بیانی سے یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ اسلام کی بنیاد صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ پر قائم ہے۔ اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ چار ستونوں پر کھڑی ہوئی اسلام کی اس عمارت میں اخلاقِ حسَنہ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حالانکہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض اور عبادات سے اخلاقِ حسَنہ کی ہی تکمیل ہوتی ہے۔

قرآن حکیم بتاتا ہے کہ…..

نماز کا فائدہ یہ ہے کہ وہ بری باتوں سے روکتی ہے….

روزہ تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے….

ز کوٰۃ سر تا پا انسانی ہمدردی اور غم خواری کا درس ہے…. اور

حج مختلف طریقوں سے ہماری اخلاقی اصلاح اور ترقی کا ذریعہ ہے….

اسلام کے ان چاروں ارکان کے نام الگ الگ ہیں مگر ان کا بنیادی مقصد اخلاقی تعلیم ہے۔

اگر ان عبادات سے روحانی اور اخلاقی ثمر حاصل نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ احکام الٰہی کی حقیقی تعمیل نہیں ہوئی…. یہ عبادات ایسا درخت ہیں جس میں پھل نہیں آتا، ایسے پھول ہیں جن میں خوشبو نہیں ہے، یہ اعمال ایسے قالب ہیں جس میں روح نہیں ہے۔

 

احیاء العلوم میں امام غزالیؒ  لکھتے ہیں:

‘‘اور اللہ فرماتا ہے میرے لئے نماز قائم کرو۔ بھولنے والوں میں نہ ہوجاؤ، نشہ کی حالت میں اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ تم کیا کررہے ہو’’۔
سوال یہ ہے کہ کتنے نمازی ایسے ہیں کہ جو شراب نہیں پیتے مگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نہیں جانتے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ان کے سامنے معانی اور مفہوم نہیں ہوتے۔ ان کا دل نماز میں نہیں ہوتا۔ وسوسوں کا ایک طوفان انہیں گھیرے رکھتا ہے۔
آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘میں ہر آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا۔ میں اس کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری بڑائی کرتا ہے اور بندوں پر اپنی بڑائی نہیں جتاتا اور جو بھوکے محتاج کو میرے لئے کھانا کھلاتا ہے’’۔
صلوٰۃ ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اختیار فرمایا ہے۔ اس طریقہ میں بڑی اہمیت تفکر کو حاصل ہے۔ صلوٰۃ میں اللہ کے ساتھ بندے کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ جب بندہ اس تفکر کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہوتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے تو اللہ کی صفات میں ذہن مرکوز ہوجاتا ہے۔ روحانی کیفیات میں تفکر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک طویل مدت تک غارِ حرا میں اللہ کی نشانیوں پر تفکر فرمایا ہے۔ تفکر کا مفہوم یہ ہے کہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ کی نشانیوں پر غور کیا جائے۔ ارکانِ اِسلام کی تکمیل کے بعد بندہ کا اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رہتا ہے۔
صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ کی بڑائی، تعظیم اور اس کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ نماز ہر پیغمبر اور اس کی امّت پر فرض ہے۔ نماز قائم کرکے بندہ اللہ سے قریب ہوجاتا ہے۔ نماز فواحشات اور منکرات سے روکتی ہے۔ صلوٰۃ دراصل اللہ سے تعلق قائم کرنے کا یقینی ذریعہ ہے۔ مسلسل مراقبوں (تفکر) کے ذریعہ سالک کو ذہنی مرکزیت قائم کرنے کی مشق ہوجاتی ہے۔ اس لئے مراقبہ کرنے والے حضرات و خواتین جب نماز ادا کرتے ہیں تو آ سانی سے ان کا دلی تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے۔
بندہ جب اللہ سے اپنا تعلق قائم کرلیتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک دروازہ کھل جاتا ہے جس سے گزر کر وہ غیب کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ صلوٰۃ ذہنی مرکزیت (Concentration) کو بحال کردیتی ہے۔ انسان ذہنی یکسوئی کے ساتھ شعوری کیفیات سے نکل کر لاشعوری کیفیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر،شعوری دنیا سے نکل کرلاشعوری دنیا یعنی غیب کی دنیا سے آشنا ہوجائے۔
بندہ جب ذہنی توجہ کے ساتھ کلام اللہ کی تلاوت کرتا ہے تو اسے انہماک نصیب ہوجاتا ہے۔ قرآنی آیات کو بار بار پڑھنے سے ملاءِ اَعلیٰ سے ایک ربط پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جس قدر قلب کا آئینہ صاف ہوتا ہے اسی مناسب سے معانی و مفاہیم کی نورانی دنیا اس کے اوپر ظاہر ہونے لگتی ہے۔
اللہ کی دوستی حاصل کرنے کے لئے قرآن حکیم نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا ہے اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔

‘‘ قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ ’’  (البقرہ آیت نمبر 43)

قرآنی پروگرام کے یہ دونوں اجزاء، نماز اور زکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔

وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ نماز میں وظیفۂ اعضاء کی حرکت کے ساتھ ا للہ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔

  • ذہن کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا رُوح کا وظیفہ ہے…. اور
  • اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ ہے۔

قیامِ صلوٰۃ کے ذریعے کوئی بندہ اس بات کا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ جس حد تک حضورؐ کے اسوۂ حسَنہ پر کسی امتی کا عمل ہوتا ہے، اسی مناسبت سے اسے حضوری نصیب ہوجاتی ہے۔

قلب میں جَلاء پیدا کرنے کے لئے :

  • ہمیں خود کو ان چیزوں سے دُور کرنا ہوگا جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں
  • اس دماغ کو رد کرنا ہوگا جو ہمارے اندر نافرمانی کا دماغ ہے
  • اُس دماغ سے آشنائی حاصل کرنا ہوگی جو جنت کا دماغ ہے…. اور جس دماغ پر تجلیات کا نزول ہوتا ہے

طواف ایک ایسی عبادت ہے جو بیت اللہ شریف میں کی جاتی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کی مرکزیت کا Symbol ہے۔

ہر شئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آرہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب لوٹ جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی…. ہر شئے کی صفت کائنات کا شعور ہے …. اور کائنات کا علم لاشعور ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات علیم ہے اور علم کا سورس اللہ ہے۔

علم الٰہیہ کے انوار و تجلیات کا مظاہراتی سطح پر نزول کرنا کائنات کی نزولی حرکت ہے۔ نزولی حرکت میں علم کی تجلی اپنے علوم کا مظاہرہ کرتی ہے۔

بیت اللہ شریف کے طواف میں یہ نیت ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے گھر کا طواف کررہے ہیں۔ طواف صعودی اور نزولی دونوں کیفیات پر مشتمل ہے۔

  • صعودی حرکت یہ ہے کہ بندہ اپنے ربّ کی جانب متوجہ ہوتا ہے…. اور
  • نزولی حرکت یہ ہے کہ بندہ مقدس زمین پر جسمانی طور پر اللہ کے گھر کے ارد گرد گھومتا ہے۔

حجر اسود کے سامنے تھوڑی دیر قیام کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرنا اور خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا طواف ہے۔

طواف کعبہ میں شعور و لاشعور میں روشنیوں کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ روشنیوں اور نور کا ذخیرہ ہوجانے کی وجہ سے روح، حق کے مشاہدہ میں مصروف ہوجاتی ہے۔ طواف کرنے والے پر بے خودی طاری ہوجاتی ہے۔ بیت اللہ شریف پر ہر لمحہ اورہر آن انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ فرشتے ہمہ وقت طواف کرتے رہتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء اللہ کی ارواحِ طیبہ طواف میں مشغول رہتی ہیں۔ فرشتوں اور انبیاء علیم السلام کے انوار اور اولیاء کرام کی فراست کی روشنیاں ایسا ماحول بنادیتی ہیں کہ طواف میں حاجی کے اوپر انوار کی بارش برستی ہے۔ نور کی بارش اور تجلی کی لطافت کثیر تعداد میں لوگ محسوس کرتے ہیں اور اس سے پوری طرح فیضیاب اور متاثر ہوتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
‘‘جس کی نماز اس کو برائی اور بدی سے نہ روکے، ایسی نماز اس کو اللہ سے دور کردیتی ہے’’۔

آپؐ نے فرمایا

‘‘روزہ رکھ کر جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہ چھوڑے، اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے’’۔

 

ان تعلیمات سے منکشف ہوتا ہے کہ عبادت کا ایک اہم مقصد اخلاق کا تزکیہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘بلاشبہ وہ ایمان والے کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی نماز میں خشو و خضوع کرتے ہیں اور جو لایعنی بات پر دھیان نہیں کرتے اور جو زکوٰۃ دیا کرتے ہیں’’۔

(سورۃ المؤمنون ۔ آیت 1 تا  4)

‘‘اور جو اپنی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے’’۔

(سورۃ المؤمنون ۔ آیت 8)

 

جب صوفی ان الفاظ کی اہمیت پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقربِ الٰہی اور دعا کی قبولیت کے بہترین موقع پر بھی اللہ تعالیٰ سے حسنِ اخلاق کے لئے درخواست کی ہے۔
صوفی یہ بات جانتا ہے کہ ایمان میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔

حدیث شریف میں ہے:
‘‘مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے’’۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

‘‘حسنِ اخلاق سے انسان وہ درجہ پالیتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات کو شب بیدار رہنے سے حاصل ہوتا ہے’’۔

خانقاہی نظام میں سالک کو پہلا سبق یہ دیا جاتا ہے:
‘‘ باادب بانصیب …. بے ادب بے نصیب’’

سالکین کو سیرت ِطیبہ کا ہر پہلو پڑھایا جاتا ہے اور اُس پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

ان کے ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ:

  1. اگر تمہیں کسی سے تکلیف پہنچے تو تم اسے معاف کردو، حالانکہ تم الٰہی قانون کے تحت بدلہ لے سکتے ہو لیکن معاف کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے
  2. اگر تم سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے، وہ اعلیٰ ذات ہو یا چھوٹی ذات میں شمار کیا جاتا ہو، کمزور ہو یا طاقت ور ہو تم اس سے معافی مانگ لو
  3. دین اور دنیا کے معاملات میں تُندہی کے ساتھ پوری کوشش کرو لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو
  4. قیامَ الصلوٰۃ کا مطلب ہے اللہ کے ساتھ رابطہ میں رہنا…. یعنی اللہ کو دیکھ کر یا اللہ کو محسوس کرکے اس کی عبادت کرنا
  5. جہاں بھی رہو…. علم دین کے ساتھ علم دنیا بھی سیکھو تاکہ شعوری اِستعداد میں اضافہ ہو اور اس علمی اِستعداد سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچاؤ
  6. اللہ کی پسندیدہ عادت مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ سالک کو چاہئے کہ بغیرغرض کے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے۔ جب کوئی بندہ مخلوق کی مخلصانہ خدمت کرتا ہے تو اسے اللہ کی دوستی کا شرف حاصل ہوجاتا ہے اور اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔
  7. قرآن ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان مشاہدہ سے مشروط ہے۔
  8. رسول اللہ ﷺ، اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سے محبت کرتے ہیں۔ جو لوگ رسول ا للہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ، اللہ کے فرَستادہ بندے اور رسول ہیں۔ اس ذات مبارکؐ سے محبت کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔
  9. اولیاء اللہ، رسول ا للہ ﷺ کی نسبت سے اللہ کے دوست ہیں۔ جب کوئی بندہ اللہ کے دوست سے دوستی نبھاتا ہے اور ان کی قدرومنزلت کرتا ہے تو ایسے بندوں پر رحمت کی بارش برستی ہے۔

انسان جس جسمانی وجود سے اس دنیا میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا ہے اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہتا ہے، وہ فانی ہے۔ ہر انسان کی اصل اس کی روح ہے۔ روح کا ادراک ہونے سے انسان اپنی اصل سے واقف ہوجاتا ہے اور اپنی اصل سے واقفیت ہی عرفان الٰہی کا وسیلہ ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
‘‘نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نماز میں اپنا منہ مشرق (بیت المقدس)یا مغرب (خانۂ کعبہ) کی طرف کرو بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو اللہ پر،قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور پیغبروں پر ایمان لائے اور خواہش کے باوجود، اللہ کی محبت میں اپنا مال، رشتے داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرے، نماز ادا کرتا رہے، زکوٰۃ دیتا رہے اور جو وعدہ کرے اپنے وعدے کو پورا کرتا رہے، اور جو مصیبت، تکلیف اور پریشانی میں ثابت قدم رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو راست باز ہیں اور یہی تقویٰ ہے’’۔

(سورۃ البقرہ –  آیت 177)

آیت کی تفہیم یہ ہے کہ راست بازی اور تقویٰ کا:

  1. پہلا نتیجہ جس طرح ایمان ہے….
  2. اس ہی طرح دوسرا لازمی نتیجہ بہترین اَوصاف، فیاضی، ایفائے عہد اور صبر و ثبات وغیر ہ ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اور رحم والے اللہ کے بندے و ہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ناسمجھ لوگ ان سے بات کریں تو وہ سلام کہیں ۝

اور جو اپنے پروردگار کی عبادت کی خاطر قیام اور سجدے میں رات گزارتے ہیں ۝

اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کا عذاب دُور کر، کہ اس کا عذاب بڑا تاوان ہے ۝

اور جہنم بُرا ٹھکانہ اور مقام ہے ۝

اور جو خرچ کرتے ہیں وہ فضول خرچ نہ کریں اور نہ تنگی کریں، بلکہ ان دونوں کے درمیان ۝

اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور جو کسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے، جس کو اللہ نے منع کیا ہے، اور نہ بدکاری کرتے ہیں اور جو ایسا کرے گا وہ گناہ سے پیوَست ہوگا ۝

(سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63 تا 68)

اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لغویات سے گزر رہے ہوں تو سنجیدگی اور وقار سے گزرجاتے ہیں ۝

اور جب اللہ کی نشانیاں ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر ان کو نہیں سنتے ۝

اور یہ دعا مانگتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے ۝

(الفرقان، آیت 72 تا 74)

اللہ تعالیٰ، رسول اللہ ﷺ کی زبانی اہلِ ایمان (یعنی صاحب مشاہدہ خواتین و حضرات) کے اخلاقی اَوصاف اس طرح بیان کرتے ہیں:
اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ۝

اور بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جو غصے کی حالت میں معاف کرتے ہیں ۝

اور اپنے پروردگار کی پکار کا جواب دیتے ہیں (یعنی اللہ ان سے ہمکلام ہوتا ہے) نماز قائم کرتے ہیں (یعنی ان کا اللہ سے رابطہ ہوتا ہے) اور ان کے کام باہم مشورے سے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو دیا ہے ان میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں ۝

اور جو ان پر چڑھائی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں ۝

اور برائی کا بدلہ ویسے ہی برائی ہے، تو جو کوئی معاف کردے اور نیکی کرے تو اس کا درجہ اللہ کے ذمے ہے، وہ ظلم کرنے والوں کو پیار نہیں کرتا ۝

اگر مظلوم ہو کر بدلہ لے لے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ۝

ملامت تو ان پر ہے جو لوگوں پر ازخود ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد برپا کرتے ہیں، ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے ۝

بلاشبہ جو مظلوم ہونے پر بھی ظالم کو معاف کردے اور سختی سہہ لے تو یہ ہمت کے کام ہیں ۝

(سورۃ الشوریٰ، آیت نمبر 36 تا 43)

 

یہ وہ ہیں جن کو دوہرا، اجر ملے گا، اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی سے دُور کرتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۝

اور جب کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں، اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے، تم سلامت رہو ہم ناسمجھوں کو نہیں چاہتے ۝

(سورۃ القصّص، آیت نمبر 54، 55)

اور کھانے کی خود ضرورت ہوتے ہوئے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلادیتے ہیں۔

(سورۃ الدہر / سورۃ الاِنسان، آیت 8)

رسول اللہ ﷺ نماز میں جو دعا مانگتے تھے اس میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا:
‘‘اے میرے اللہ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی عطا کر، تیرے سوا کوئی بہتر سے بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھاسکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے پھرا دے اور کوئی ان کو نہیں پھیرسکتا لیکن تُو’’۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 136 تا 152

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)