طرزِ فکر

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47166

سوال:

فیض سے کیا مراد ہے؟ مرشد جب اپنے مرید کو فیض منتقل کرتا ہے تو وہ کیا چیز منتقل کرتا ہے؟ کیا اس کا تعلق ماورائی لہروں سے ہے؟  ماورائی لہریں اگر منتقل ہوتی ہیں تو کیا مرید کے اوپر کسی قسم کے تاثرات قائم ہوتے ہیں یا تاثرات قائم نہیں ہوئے؟

جواب:

دوسرے علوم کی طرح روحانیت بھی ایک علم ہے۔ اس سے آدمی کافی حد تک متاثر ہوتا ہے۔  استاد کی جو طرز فکر ہے…. اُس کو قبول کرکے اس کے مطابق چلتا ہے۔ لیکن جب روحانی استاد یا روحانی شاگرد کا تذکرہ آتا ہے اور کوئی روحانی استاد روحانیت منتقل کرتا ہے تو روحانی شاگرد کو اس کی طرز فکرمنتقل ہوجاتی ہے۔

مثلاً ایک روحانی آدمی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا توکل اللہ کے اوپر ہو، اس کے اندر استغنا ہو۔ جب حالات اچھے ہوتے ہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب وہ خراب حالات سے گزرتا ہے تو اللہ سے رجوع کرتا ہے…. معافی مانگتا ہے…. استغفار کرتا ہے…. اور یہ بھی سوچتا ہے کہ اب جو پریشانی لاحق ہے اس میں بھی اللہ کی طرف سے کوئی بہتری ہے…. لیکن ہم کمزور ہیں ضعیف ہیں ان پریشانیوں کو برداشت نہیں کرسکتے…. اِس لئے اے باری تعالیٰ آپ ہمیں معاف فرمادیں اور ہمارے لئے اچھا راستہ کھول دیں۔

مقصد یہ ہے کہ روحانیت ایک طرز فکر ہے اور روحانی علوم کا تعلق طرز فکر سے ہے اور وہ طرز فکر یہ ہے کہ روحانی آدمی کا ذہن ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔

تمام پیغمبروں کی تعلیمات پر اگر غور کیا جائے اور الہامی کتابوں کا خلاصہ بیان کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آئے گی کہ:

بندے کا اللہ کے ساتھ ایک رشتہ جب استوار ہوجاتا ہے…. تو بندہ اپنے ہر عمل کو اللہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔

مثلاً اگر وہ کھانا کھاتا ہے تو کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وسائل مہیا کئے۔ پہلے اچھا کھانا کھلایا پھر یہ کہ مجھے اچھا ہاضمہ دیا…. یہ نہیں ہوا کہ کھانا کھاکے قے ہوجائے یا اِسہال ہوجائیں۔ مطلب یہ کہ…. میں نے کھانا کھایا اور وہ پیٹ میں رہا اور ہضم ہُوا اور اس کا خون بنا۔ خون سے انرجی بن کر جسم میں دوڑ رہی ہے۔

مسلسل غور و فکر اور صبر و شکر کے اعمال سے بندہ یہ جان لیتا ہے کہ زندگی میں اس کا اپنا ذاتی عمل دخل کچھ نہیں ہے۔

ایک آدمی کھانا کھاتا ہے۔ اگر اندر کی مشینری بند ہوجائے، اگر آنتیں چلنا بند ہوجائیں، تو کھانا ہضم نہیں ہوگا۔ بندے کی یہ طرز فکر بن جاتی ہے کہ انسان دَروبَست اللہ کے تابع ہے، اور جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کررہا ہے، اور جو کچھ اس کو مل رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے مل رہا ہے۔

 

‘‘اور جن کا ایمان پختہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم اِس پر ایمان لائے، جو کچھ بھی ہے سب ہمارے ربّ کی طرف سے ہے’’۔  (سورۃ آل عمران – 7)

اللہ اگر بارش نہ برسائیں، زمین نہ بنائیں، دھوپ نہ نکالیں، چاند نہ نکالیں، زمین میں پانی پیدا نہ کریں تو زمین میں کوئی چیز اُگ ہی نہیں سکتی۔ آپ زمین نہیں بناسکتے، پانی نہیں بناسکتے، بیج نہیں بناسکتے…. اگر گیہوں کا بیج زمین سے ناپید ہوجائے تو بتائیں کون سی ایسی سائنس ہے جو بیج بنادے گی؟ آپ جو بھی چیز استعمال کرتے ہیں وہ بہرحال قدرت کی پیداکردہ ہے۔ ہم زمین کی پیداوار بڑھانے کے لئے کھاد استعمال کرتے ہیں۔ اگر قدرت زمین میں وہ چیزیں پیدا نہ کرے جن سے کھاد بنتی ہے تو کھاد کیسے بنے گی؟ آپ اپنی مرضی سے پیدا بھی نہیں ہوسکتے…. اگر اللہ نہ چاہیں کون آدمی پیدا ہوسکتا ہے؟

اللہ پیدائشی پاگل کردیں…. کون سا ایسا علاج ہے جو پاگل پن کو صحیح کردے؟ پاگل پن کا کوئی علاج نہیں۔ نئی نئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً کینسر کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہُوا۔ بڑے بڑے سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ ہم چاند پر چلے گئے ہیں۔ خلاء میں چہل قدمی کر آئے ہیں۔ وہ بڑے سائنٹسٹ سارے مرگئے۔ وہ سائنسی ایجادات سے موت کے ہاتھ میں کیوں پنجہ نہ ڈال سکے؟ کیوں موت کو نہیں روک سکے؟

جب ہم غور کرتے ہیں اپنی زندگی پر، زمین کی زندگی پر، مستقبل کے اوپر، ماضی کے اوپر، تو اِس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ جو کچھ ہورہا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ کررہے ہیں۔ مثلاً جب بچہ پیدا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتے ہیں۔ اگرماں باپ کے دل میں محبت نہ ڈالیں تو بچہ کی پرورش ہی نہیں ہوسکتی۔

ماں چاہے بلی ہو، بکری ہو، بھینس ہو یا انسان کی ماں ہو…. جب بچہ پیدا ہوتا ہے اُس کی پرورش کے لئے، اُس کی نشوونما کے لئے، اللہ تعالیٰ ماں باپ کے دل میں محبّت ڈال دیتے ہیں۔ اگر ماں باپ کے دل میں محبّت نہ ڈالیں تو کوئی بچہ پرورش نہیں پاسکتا۔

پیدائش سے پہلے اللہ ماں کے سینے کو دودھ سے بھردیتے ہیں۔ دودھ بنانے میں ماں کون سا کردار ادا کرتی ہے؟

آپ جتنا بھی گہرائی میں تفکر کریں آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ انسان کچھ نہیں کررہا ہے…. سب کچھ اللہ کررہے ہیں۔ یہ انسان کی نادانی ہے کہ انسان سمجھ رہا ہے کہ سب کچھ میں کررہا ہوں۔ اچھا اگر آپ سب کچھ کررہے ہیں تو کاروبار میں نقصان کیوں ہوتا ہے؟ آپ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟

حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا؟

حضرت علیؓ نے فرمایا:

ارادوں کی ناکامی سے…. جو میں نہیں چاہتا وہ ہوتا ہے…. اور جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں ہوتا!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 068 تا 071

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)