محبت کیجئے …. نفرتوں سے نجات پائیے

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47314

انبیاء کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ…. پوری کائنات میں دوطرزیں کام کررہی ہیں:
ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے…. اور
دوسری طرز اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے….
ناپسندیدہ طرز کا نام شیطنیت ہے…. اور وہ پسندیدہ طرز جو اللہ سے بندے کو قریب کرتی ہے…. اس کا نام رحمت ہے۔

جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے سب کی طرزِ فکر یہ تھی کہ….
ماورائی ہستی اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہے، اور اللہ وحدہُ لاشریک ہے، اس کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے نوعِ انسانی کی بقاء کے جو اصول عطا فرمائے ہیں اس کی اساس توحید ہے یعنی حاکمیت اعلیٰ کا حق ذاتِ باری تعالیٰ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ حقوق اللہ میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے۔
بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو۔ اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہو۔ اس کے اندر عبادت کا ذوق اوراللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندے کا اللہ سے اس طرح تعلق استوار ہوجائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے۔
یہ بات بھی حقوق اللہ میں شامل ہے کہ…. بندہ اس بات سے باخبر ہو اور اس کا دل اس بات کی تصدیق کرے کہ….
• میں نے عالم ارواح میں عہد کیا ہے کہ میرا رب، مجھے بنانے والا، خدّوخال بخش کر میری پرورش کرنے والا اور میرے لئے وسائل فراہم کرنے والا اللہ ہے…. اور
• میں نے اللہ سے یہ عہد کیا ہے کہ…. میں ہر عالم کی زندگی آپ کا بندہ اور محکوم بن کرگزاروں گا
• شیطان میرا کھلا دشمن ہے۔ میں کبھی اس کی ذرّیت میں شامل نہیں ہوں گا۔ ہمیشہ شیطان مردود کے شر اور وسوسوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کروں گا

رسول اللہ ﷺ کے دیئے ہوئے ضابطۂ حیات کا دوسرا بنیادی حق حقوق العباد پورے کرنا ہے۔
حقوق العباد کی تعریف یہ ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے کہ سارے انسان اللہ کا کنبہ ہیں، اور میں بھی اس کنبہ کا ایک فرد ہوں۔ اور جس طرح کوئی فرد اپنی فلاح و بہبودکے لئے اہتمام کرتا ہے اسی طرح میں کنبہ کے تمام افراد کی آسائش اور بہبود کے لئے کام کروں گا۔ یہ مخلصانہ جذبہ انسا ن کے اندر محبت، اخوت، مساوات اور حسن سلوک کا ایسا بیج بودیتا ہے جو بڑھ کر تناور درخت بنتا ہے تو اس کی ٹھنڈی چھاؤں نہ صرف اس فرد کے لئے بلکہ پوری انسانی برادری کے لئے راحت کا باعث ہوتی ہے۔
حقوق العباد انسانوں میں باہمی معاملات اور تعلقات اور اجتماعی طرزِ عمل کا نام ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ کی کتاب چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنا اور اس میں مندرج اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنا اور تفرقہ میں مت پڑجانا۔ تفرقہ اجتماعیت میں دراڑیں ڈال دیتا ہے، اجتماعی طاقت انفرادی سوچ میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
ابلیس کا مشن ہی یہ ہے کہ انسان تفرقوں میں تقسیم ہوجائے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور تفرقہ نہ ڈالو’’۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔
‘‘ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے۔ جیسے عمارت کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کا سہارا بنتی ہے اور ہر اینٹ دوسری اینٹ کو قوت پہنچاتی ہے ( اس کے بعد آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوَست فرما کر مسلمانوں کے باہمی تعلق اور اخوت و محبت کی مثال دی)۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے: ‘‘تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، الفت و محبت اور آپس میں تکلیف و راحت کے جذبات میں ایسا پاؤ گے جیسے ایک جسم، کہ اگر اس کا ایک عضو بیمار ہوجائے تو سارا جسم بیماری اور بے چینی میں اس عضو کا شریک بن جاتا ہے’’۔

اسلام مکمل اجتماعی پروگرام ہے…. اسلام کا ہر رکن اجتماعی ہے۔ ایک آدمی انفرادی طور پر کام کرتا ہے اور دوسری طرف ایک لاکھ آدمی اجتماعی طور پر کام کرتے ہیں۔ اگر اجتماعی قوت کے اصول کے مطابق دین کا کوئی بھی کام کیا جائے تو اس میں فتح و کامرانی فرد کی بجائے افراد کو حاصل ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے امّت مُسلمہ کو غیر متغیر اجتماعی پروگرام عطا فرمایا ہے لیکن مسلمانوں نے اجتماعیت کو نگل لیا ہے اور مسلمان اللہ کے حکم پر کاربند نہیں رہے۔ نتیجہ میں پست حالی اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسا جذبہ انسان میں کیسے پیدا ہو کہ وہ ذاتی مفاد کے اوپر اجتماعی مفاد کو ترجیح دے؟
جواب: رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں تفکر کی جائے تو حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آپؐ نے معاشی جدوجہد، معاشرتی روابط اور زندگی کے دیگر معاملات میں ایسا نظام قائم فرمادیا ہے جس کے ذریعہ معاشرہ خلوص، عفوو درگذر، ایثار اور اخلاقی طرزوں پر استوار ہے۔
اجتماعی سوچ اور عمل سے انسان کے اندر مال و دولت کی محبت اورخودغرضی ختم ہوجاتی ہے۔ پوری زندگی اللہ کی رضا کا حصول بن جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حصول معاش میں اعلیٰ معاشرتی، اخلاقی اور روحانی قدروں کی پاسداری کرکے عملی مثالیں قائم کی ہیں۔ پیغمبرانہ تعلیمات کے ان عملی نمونوں کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو ایک آدمی کا عمل دوسرے فرد کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بن جائے اور دوسری طرف معاشی سرگرمیوں میں بھی بندے کا رشتہ اللہ سے قائم رہے۔
عدل و انصاف کے اصولوں پر کاربند رہنے سے ہی معاشرتی امن اور سکون کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ جس معاشرے میں سماجی انصاف میسر نہ ہو اور استحصالی قوتوں نے عدل کا راستہ بند کررکھا ہو، وہاں جرائم، لوٹ کھسوٹ، ظلم و جبر کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
‘‘تم سے پچھلی قومیں اس لئے تباہ کردی گئیں کہ ان میں جب کوئی بااثر آدمی جرم کرتا تھا تو اسے چھوڑدیا جاتا تھااور جب کوئی عام آدمی جرم کرتا تھا تو اسے سزا دی جاتی تھی’’۔

متوازن و مہذب معاشرے کی اکائی، ‘‘خوشحال گھرانہ’’ ہے اور گھر کی بنیاد اور رونق عورت ہے۔ معاشرے میں راحت و سکون کو یقینی بنانے کے لئے اورمعاشرتی اکائی کو مضبوط کرنے کے لئے قرآن اور شارحِ قرآن ﷺ نے عورت کی عزت و ناموس کو وہ تحفظ فراہم کیاجس کا تصور موجود نہیں تھا۔ عورتوں پرذ ہنی و جسمانی تشدد ہر دَور کی روایت رہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ جس معاشرہ میں تشریف لائے اس کا چہرہ ہزار ہا برائیوں سے داغدار تھا۔ زمانۂِ جاہلیت کے عرب معاشرہ میں بیٹی کی پیدائش سے طرح طرح کے توہمات وابستہ تھے۔ ایک قبیح برائی جس سے اس معاشرہ کا چہرہ جھلس گیا تھا وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جاہلانہ طرزِ عمل کو ختم کیا اور عورت کو سماج میں ایسا باعزت مقام دلایا جس کی وہ مستحق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘عورتیں ریاست کا ستون ہیں۔ اگر وہ اچھی تو ریاست بھی اچھی ہے اگر وہ خراب ہیں تو ریاست بھی خراب ہوگی’’۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری وصیت میں فرمایا: ‘‘لوگو! خبردار ہوجاؤ میں تم کو دو کمزوروں کے حقوق ادا کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس میں کوتاہی کرنے سے ڈراتا ہوں۔ ایک یتیم اور دوسری عورت’’۔
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل سے عورت کو جب بنیادی حقوق عطا ہوگئے تو محبت اور خلوص پر مبنی معاشرے کی تشکیل ہوگئی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں نہ کوئی مرد کسی عورت پر تشدد کرے نہ طعن وتشنیع اورگالم گلوچ سے اسے ذہنی اذیت پہنچائے اور نہ عورت زبان درازی کرکے معاشرتی اکائی یعنی ‘‘خوشحال گھرانے’’ کا ماحول خراب کرے۔
آج امّت مُسلمہ کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کو رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق قائم نہیں رکھا۔ ہم بحیثیت مجموعی کسی نہ کسی طرح حق تلفی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت معیشت اوراقتصادیات کی نئی جہت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی سے عوام الناس کی معلومات اور شعوری سکت میں بہت اضافہ ہوچکا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے تناظر میں رسول اللہ ﷺ کی طرز فکر کے مطابق اشاعت و فروغ میں ہی ہمار ی کامیابی اور بقا ہے۔
ہم اگراپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرز فکر کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور آپؐ کی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل کریں۔
فطرت انسانی کے رازدار، انسان کامل حضرت محمدؐ نے ایک روز دعا فرمائی۔
‘‘اے اللہ! میں کفر اورافلاس سے پناہ مانگتا ہوں’’۔
کسی نے پوچھا۔‘‘کیا یہ دونوں برابر ہیں’’۔ آپؐ نے فرمایا ‘‘ہاں دونوں برابر ہیں’’۔ آپؐ نے تاکید فرمائی ‘‘مسلمانو! محتاجی و مفلسی اور ذلّت و خواری سے پناہ مانگا کرو’’۔
آپؐ دنیا اور آخرت دونوں کو بہترین اندازمیں چلانے کی ہدایت کیا کرتے تھے۔
آپؐ کا فرمان ہے،، تم میں سے وہ شخص بہتر نہیں جو آخرت کی وجہ سے اپنی دنیا کو چھوڑ دے اور نہ وہ جو دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت کو چھوڑدے، یہاں تک کہ وہ دونوں کو حاصل کرے کیونکہ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور تم لوگوں پر بوجھ نہ بنو’’۔

آپؐ کی دعا سورۃالبقرۃ میں اس طرح ہے:
‘‘اے میرے رب! میری دنیا کو اچھا بنا، اور آخرت کو بھی اچھا بنا اور آگ کے عذاب سے بچا’’۔
(سورۃ البقرۃ – 201)

رُوئے زمین پر قائم کوئی بھی معاشرہ ہو، کوئی بھی نظام ہو اگر اس میں انسانوں کے بنیادی حقوق کا تعین ہے، خواتین، بچوں اور کمزوروں کو تحفّظ کا احساس ہے، حق تلفی اور ظلم کا راستہ روکا گیا ہے، جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت قائم ہے تو درحقیقت وہ معاشرہ ہے، اب چاہے وہ سائبیریا کے سرد علاقے میں ہو، عرب کے صحراؤں میں ہو، مشرقی دنیا کا کوئی پسماندہ علاقہ ہو یا امریکہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کا جدید معاشرہ ہو…. پست حالی اور ذلت و رسوائی کی زندگی سے نجات حاصل کرکے فتح و کامرانی حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے امّت مُسلمہ کو غیر متغیر اجتماعی پروگرام عطا فرمایا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں:
اللہ تعالیٰ پر ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، جو کہ حقوق اللہ کے زُمرے میں آتا ہے۔
اس کے بعد حقوق العباد ہیں جس میں اخلاقی قدروں کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے۔
ان دونوں بنیادی باتوں کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور میں غور و فکر، تلاش و جستجو اور ریسرچ کی دعوت ہے جو تعلیمات نبویؐ کے ہمہ گیر ہونے کی دلیل ہے۔

یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے عظیم الشان انقلاب نے نوعِ انسانی کو ایسا علمی اور عملی عروج عطا کیا اور ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن کردیا جو حیوانیت سے اُسے ممتاز کرتی ہے۔ حقوق و فرائض کے تعین کے لئے آپؐ کے انقلابی اقدامات سے ذہنوں کے بند دریچے کھل گئے، غور و فکر، تفکر اور عمل کی بنیادیں مستحکم ہوگئیں۔
حالات میں مثبت تغیر پیدا کرنے اور صراطِ مستقیم پر معاشرہ کی تشکیل کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم اسوۂ حسَنہ پر عمل کریں۔ نوعِ انسانی کے لئے بالعموم اور امّت مُسلمہ کے لئے بالخصوص اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
‘‘اللہ کی رسی کو متحدہو کر مضبوطی کے ساتھ تھام لواور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو’’۔
خالق ومخلوق کے رشتہ کو برقرار رکھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے جو نظام عطا فرمایا ہے اس میں تغیراور تعطل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
‘‘یہ اللہ کی سنت ہے جو چلی آرہی ہے پہلے سے، اور نہ پاؤ گے تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی’’۔
(سورۃ الفتح، آیت نمبر 23)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 174 تا 181

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)