آدم و حوّا

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47160

آدمی چل رہا ہے۔ زمین، چاند، سورج اور ستارے گردش میں ہیں۔ کہکشائیں حرکت میں ہیں۔ غرضیکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ متحرّک ہے۔ زمین کے اوپر پانی نشیب میں بہہ رہاہے۔ پانی جس کی فطرت نشیب میں بہنا ہے، درختوں میں ایک خاص پروسس کے تحت اپنی فطرت تبدیل کرکےاوپر جارہا ہے…. نہ صرف اوپر جا رہا ہے بلکہ نئے نئے روپ میں جلوہ گر بھی ہو رہا ہے ۔ پانی جس کو آسمانی کتابوںمیں “ماء ” کہا گیا ہے…. ہرڈائی میں، خدّوخال میں مظاہرہ کرتا ہے۔

پانی ربِّ ذوالجلال کا عطیہ ہے۔ سمندر کا پانی کڑوا ہے تو کنویں کا پانی کھارا یا میٹھا ہے۔ دریا کا پانی مٹیالا ہے تو چشموں کا پانی موتی کی طرح شفاف ہے، چمکدار ہے۔ پانی کائنات کے ہر یونٹ کے لئے حیات ہے، شریانوں وَریدوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ آدمی جو کھاتا ہے، چوپائے جو چرتےہیں، چڑیا جو چگتی ہے، مچھلی جو پیتی ہے، سب میں تین حصے پانی ہے۔ پانی نطفہ ہے، پانی علَق ہے، پانی مَضغہ ہے، پانی عضو کی تشکیل ہے اور پانی جسم ہے۔ پانی زندگی ہے اور پانی سے قطع تعلق موت ہے۔

دستر خوان پر ایک باپ تین بیٹے اور ایک بیٹی کھانا کھارہےتھے۔ اَنواع و اَقسام کے کھانے دسترخوان پر چنے ہوئے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے روٹی کا ٹکڑا باپ کے حلق میں پھنس گیا …. آنکھیں ابل پڑیں اور چہرہ لال ہوگیا۔ بیٹی دَوڑی اور گلاس بھر لائی۔ پانی حلق میں اُنڈیلا تو جان میں جان آئی۔ کھانے کی طرف سے ذہن ہٹ کر روٹی کے ٹکڑے میں اٹک گیا….!

ایک وقت تھا جب آدم نہیں تھا لیکن گندم تھی۔

آدم و حوّا برسوں کی مُفارقت کے بعد ملے تو ایک سے دو ہوئے اور دو …. دو میں جمع ہوئے تو ضرب کا فارمولا وُجود میں آیا۔ ضرب دَر ضرب…. حاصلِ ضرب سے آبادی میں اضافہ ہوا۔ نوعِ انسانی کا شعور ارتقائی مراحل طے کرتا رہا۔ حیوانات اور آدم زاد میں فرق واضح ہونے لگا۔ آدم زاد نے گھاس پھونس چھوڑ دیا اور جڑیں کھانے سے انکار کر دیا۔ صورتِ حال خراب سے خراب ترہوتی چلی گئی۔ ابّا آدم اور امّاں حوّا سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ طے پایا کہ گندم کی کاشت کی جائے۔ زمین کے چھوٹے چھوٹے حصےکر کے کھیت بنے۔ زمین کرید کر آسمان سے اترا ہوا دانۂِ گندم زمین میں ڈال دیا گیا۔ گندم کی بالیں بھر گئیں۔ گندم کوپیسنے کے لئے پتھروں کی چکی ایجاد ہوئی۔ آٹا  پِس گیا…. روٹی پک کر تیار ہوگئی۔

 

گندم کے دانے نے کہانی سنائی….!

دنیا کا جب ظہور ہُوا…. جدِّ گندم کو زمین پر پھینک دیا گیا۔ وہ تنہا تھا، کوئی ہم نشین و غم گسار نہیں تھا۔ زمین، جو سب کی ماں ہے، اُس نے اپنے لخت جگر کی آہ و زاری سنی تو ممتا کے جوش سے باوا گندم کے لئے اپنی آغوش وا کردی۔ ماں کی گود کے لمس سے باوا گندم کو قرار آیا، سکون ملا، راحت سے آشنا ہوئے۔ سکون کی لہروں میں جب زمین کے اندر دَوڑنے والی رنگ رنگ لہریں ملیں اور ایک دوسرے میں پیوَست ہوئیں تو باوا گندم کی نسل چل پڑی۔ اِدھر گندم کی نسل پروان چڑھی، اُدھر باوا آدم کی اولاد دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ آدم کی نسل نے اپنی خوراک کے لئے گندم کا انتخاب کرکے دراصل گندم کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ گندم کی حفاظت کی ہے۔ ہماری نسل نے بھی اپنے محسن، آدم کی خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ آدم کی طرح میرے آباؤ اَجداد گندم کا بھی خاندان ہے۔ اُس خاندان میں بھی پستہ قد اور دراز قد ہوتے ہیں۔ میرے خاندان کا وصف یہ ہے کہ ہم سب گندم خاندان کے افراد آدم کی بہتر سے بہتر خدمت کے لئے اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ہماری ایک صلاحیت یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر خودسپردگی کا عنصر نمایاں ہے۔ روٹی کو آپ قورمے سے کھائیں چٹنی سے کھائیں شب دیگ سے پیاز سے کھائیں یا پانی سے کھائیں روٹی کبھی آپ کا ہاتھ نہیں روکے گی۔

روٹی ہی فساد کی جڑ ہے۔ جتنا فساد روٹی خور آدم کرتا ہے، گوشت خور شیر بھی نہیں کرتا! یہ روٹی بھی عجیب شئے ہے…. ارتقا کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوگئی، مگر روٹی… روٹی ہی رہی۔  روٹی خور آدمی ترقی کے مراحل طے کرتا رہا لیکن روٹی ہر مرحلہ پر اس کی لازمی ضرورت رہی اور رہے گی۔

پتھروں کی چکی ایجاد ہوئی آٹا پس گیا آٹے میں پانی ڈال کر اسے گوندھا گیا آگ روشن ہوئی، لوہا دریافت ہوا تو  تَوا  بَنا۔ آگ جلا کر تَوے پر آٹا ڈالا گیا تو روٹی پک کر تیارہوگئی۔

ایک فقیر ایک قاضی دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔ قاضی کہتے تھے اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔ فقیر کا خیال تھا ایک چھٹا رکن بھی ہے جسے روٹی کہتے ہیں۔ قاضی صاحب حج کو گئے اس زمانے میں ہوائی جہاز تو ہوتے نہیں تھے…. پانی کا جہاز طغیانی میں آگیا۔ سمندر کی لہروں نے تین منزلہ جہاز کو آسمان کی طرف اچھال دیا۔ دوسرے مسافروں کا کیا بنا…. یہ تو معلوم نہیں…. مگر قاضی صاحب ڈوبتے ابھرتے ساحل پر جاگرے۔ ہوش و حواس درست ہوئے تو بھوک پیاس لگی، سخت بے چینی اور اِضطراب میں تھے کہ دُور سے آتا ہوا ایک سایہ نظر آیا۔ قاضی صاحب اپنی ہمت جمع کرکے اس سائے کی طرف بڑھے۔ سایہ ان کے قریب آگیا۔ گوشت پوست سے بے نیاز سائے نے قاضی سے پوچھا کیا بات ہے؟ کیا پریشانی ہے؟ کیوں بے قرار ہو؟ قاضی صاحب بولے پیاس لگی ہے…. بھوکا ہوں۔ ماورائی وجود نے کہا ساری عمر کی کمائی آدھی نیکیاں اس پرچہ پر میرے نام لکھ دو۔ قاضی نے آدھی نیکیاں لکھ دیں اور پانی پی لیا۔ بھوک بڑھی تو روٹی مانگی۔ ماوارائی شخص نے کہا روٹی کھانی ہے تو باقی آدھی نیکیاں بھی لکھ دو۔ روٹی کے لئے مُضطرب قاضی نے آدھی عمر کی نیکیاں بھی ماورائی شخص کے نام کردیں اور روٹی کھالی۔ قاضی صاحب جب گھر لوٹے تو اپنے دوست فقیر کے پاس گئے۔ فقیر نے پوچھا…. اے قاضی! اسلام میں رکن پانچ ہیں یا چھ؟ قاضی بولا…. اسلام کے رکن پانچ ہیں۔ فقیر نے اپنی گُدڑی ٹٹولی اور قاضی کے لکھے ہوئے دونوں پرچے سامنے رکھ دیئے۔

روٹی کیا ہے؟ روٹی بھوک کا تمثّل ہے۔ اطلاع کی عکاسی ہے…. اور بھوک کی کیفیت کا مظہر ہے، ایسا مظہر جس کے اوپر تمام اخلاقیات کی بنیاد قائم ہے…. اسی کی وجہ سے حسّیات زندہ یا مردہ ہیں۔

جو لوگ اس راز سے واقف ہوگئے ہیں انہوں نے چالاکی سے ایک جال بُن لیا ہے…. خدا دشمنی کا جال….  جب وہ یہ جال کسی قوم پر پھینکتے ہیں اور قوم ان کے پھینکے ہوئے جال میں پھنس کر اسے اپنے لئے وسیلۂِ ترقی سمجھ لیتی ہے…. تو ایک ایک روٹی کے لئے ان کی محتاج بن جاتی ہے اور پھر روٹی کے لئے محتاج قوم ان کی غلام بن جاتی ہے۔ ایسا ہوجانے سے قوم کا تشخص برباد، کردار تباہ اور شناخت ختم ہوجاتی ہے، ذہن ماؤف ہوجاتا ہے، دل مردہ ہوجاتے ہیں اور پوری قوم پر بےحسی طاری ہوجاتی ہے۔ ایسی قوموں پر ان کی اپنی زمین تنگ ہوجاتی ہے اور وسائل پر دوسری قومیں قابض ہوجاتی ہیں۔ زمین اپنے محور پرگھومتی رہتی ہے اور زمین پر رہنے والے اپنی بے حسی کی وجہ سے غلام بنتے رہتے ہیں۔ اللہ کی محبت سے دُور وہ نامراد قوم ہے جس کے لئے ارشاد الٰہی ہے:

‘‘مہر لگادی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کانوں پر اور دبیز پردے ڈال دیئے ہیں ان کی آنکھوں پر’’ (البقرۃ – 7)

کیوں…..؟
اس لئے کہ یہ سب اللہ کی مملکت میں رہتے ہوئے اللہ کے باغی ہیں۔

‘‘وہ لوگ جو سود لیتے ہیں سود دیتے ہیں سودی معیشت میں زندگی گزارتے ہیں بلاشبہ اللہ کے دشمن ہیں۔’’ (البقرۃ – 279)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 051 تا 055

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)