موت و زیست

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47145

سب تعریف اللہ کو ہے جو ربّ ہے عالمین کا۔

مہربان اور رحم کرنے والا

انصاف کے دن کا مالک ہے۔

تیر ی ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھ سے ہی رحم کی مدد کے خواستگار ہیں۔

چلا ہم کو سیدھے راستے پر، جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن کے اوپر تو نے اپنا فضل کیا ہے۔

اور حفاظت کر ہماری ان لوگوں سے جن سے تو ناراض ہے، اور بچا ہم کو بہکنے والوں سے۔

کائنات کی تنظیم اس طرح کی گئی ہے کہ:

  • ایک ہستی کا کائنات کے اوپر پورار پورا کنٹرول ہے ۔
  • کائنات کے اندر احتیاج ہے…. کائنات ہر قدم پر مجبور ہے۔
  • کائناتی کنبہ کا ہر فرد دوسرے فرد کے ساتھ اس طرح ہم رشتہ ہے کہ باوجود یہ کہ وہ اپنی ذات میں منفرد ہے لیکن دوسرے فرد سے خود کو دور کر سکتا ہے اور نہ آزاد کر سکتا ہے۔
  • زمان اور مکان کائنات کی بساطِ اول ہے۔

مکان( زمین) اور زمان (آسمان) نہ ہوں تو زندگی عدم ہے ۔

عدم پر نقش و نگار حیات ہے۔

حیات حرکت ہے….

حرکت تقاضا ہے….

تقاضا جذبہ ہے…. اور

جذبہ حِس ہے…. جس سے حواس بنے ۔

حواس سے خود آگاہی حاصل ہوئی….

خود آگاہی نے مَن و تُو میں امتیاز بخشا…. یہ جان لیا کہ میں جُزو ہوں…. وہ کُل ہے…. کُل ہے تو میں ہوں …. وہ ابتداء ہے…. میں ابتداء کی انتہا ہوں…. وہ انتہا ہے تو میں اس کا پَرتَو ہوں ۔ پَر تَونے اصل کی آوازِ اَلَست سنی تو کان بن گئے۔ دیکھا تو آنکھیں روشن ہو گئیں۔ نور کا جھماکا ہوا تو بارہ کھرب سیل چارج ہوگئے۔ سیلز کھلے تو ایک نقطہ سے کھربوں نقطے متحرک ہوگئے ….،، وہی ہے جس نے تخلیق کیا تم کو ایک نفس سے،،  …. کی تفسیر سامنے آگئی۔ (النساء – 01)

خالق کائنات اللہ کریم کا ارشاد ہے (سورۃ الأعلیٰ – )

پاکی بول اپنے ربّ کے نام کی جو سب سے اعلیٰ ہے۔

جس نے بنایا بھر ٹھیک کیا۔

اور جس نے معیّن مقداروں سے ہدایت دی۔

اور جس نے نکالا چارا پھرکر ڈالا اس کو کوڑا کالا

ہم پڑھادیں گے تجھ کو پھر تو نہ بھولے گا۔

مگر جو چاہے اللہ وہ جانتا ہے ظاہر اور چھپا ہوا۔

اور آہستہ آہستہ پہنچائیں گے ہم تجھ کو آسانی تک

سوتو سمجھا اگر کام کرے سمجھانا ۔

سمجھ جاوے گا جس کو ڈر ہوگا۔

اور سرک رہے گا اس سے بڑا بد بخت

اور جو پہنچے بڑی آگ میں ۔ پھر نہ مرے گا اس میں نہ جیوے گا۔

بےشک بھلا ہو اس کا جو سنورا۔

اور پڑھانا م اپنے ربّ کا پھر نماز قائم کی

کوئی نہیں تم آگے رکھتے ہو دنیا کا جینا۔

اور پچھلا گھر بہتر ہے اور رہنے والا

یہ کچھ لکھا ہےپہلے وَرقوں میں اورصُحفِ ابراہیمؑ  میں اور صُحف موسیٰؑ  میں

óóóóó

سورۃ الغاشیہ

کچھ پہنچی تجھ کو بات اس چُھپالینے والے کی؟

کتنے منہ اس دن خوف زدہ ہیں۔

محنت کرتے تھکتے۔

پہنچیں گے دھکتی آگ میں۔

پانی ملے گا ایک چشمہ کھولتے کا۔

نہیں آس پاس کھانا مگر جھاڑ کانٹے

نہ موٹاکرے نہ کام آوے بھوک میں۔

کتنے منہ اس دن آسودہ ہیں۔

اپنی کمائی سے راضی

اونچے باغ میں

نہیں سنتے اس میں لَغو بات

اُس میں ہےایک چشمہ بہتا۔

اُس میں تخت ہیں اونچے بچھے

اورآب خورے دھرے۔

اور غالیچے (قالین) قطار در قطار پڑے۔ (Wall to Wall Carpeted)

مخمل کے نہالچے (چھوٹی توشک )…. کھنڈرہے (رنگین ٹکڑوں سے بنی چادر) ….

بھلا کیا نگاہ نہیں کرتے اونٹوں پر…. کیسے بنائے ہیں!

اور آسمان پر…. کیسا بلند کیا ہے!

اور پہاڑوں پر…. کیسے کھڑے ہیں!

اور زمین پر…. کیسی صف بجھائی ہے!

سو تو سمجھا…. تیرا کام یہی ہے…. سمجھانا۔

تو نہیں ہے اوران پر داروغہ

مگر جس نے منہ موڑا اور منکر ہُوا۔

تو عذاب کرے گا اس کو اللہ…. وہ بڑا عذاب۔

بےشک ہمارے پاس ہے ان کو واپس آنا۔

پھر بےشک ہمارا ذمہ ہے ان سے حساب لینا۔

سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ میں کائناتی کنبہ کے سرپرست اعلیٰ کہکشانی نظاموں کے خالق اکبر اور عالمین کے ربّ نے اپنی صفات بیان کر کے واضح کیاہے کہ کائنات دو رخوں سے مرکب ہے۔  ایک یونٹ یکتا…. واحد…. نِرادَھار…. بے نیاز…. اور ہر قسم کی احتیاج سے پاک ۔۔۔۔۔۔ خالق۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دیتا ہے لیکن کہیں سے کچھ لیتا نہیں۔ایک زندگی سے  دوسری زندگی میں اور دوسری زندگی سے تیسری زندگی میں الٹ َپلٹ کرتا رہتا ہے ۔ خود زندہ ہے، قائم بالذّات ہے،  حیات و ممات سے ماوراء ہے۔ جس نے زمین کو بچونا بنادیا ہے۔ جس نے پہاڑوں کو میخیں بنا کر زمین میں گاڑ دیا ہے۔ جس نے سات آسمانوں کی چھتوں کو دیواروں اور ستونوں کے بغیر کھڑا کر دیا ہے۔ جس نے سورج کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ زمین میں سے اگتی ہوئی کھیتیوں کو پکائے اور جس نے چاند کوحکم دے دیا ہے کہ وہ کھیتوں میں اور زمین میں مٹھاس منتقل کرتا رہے ۔زمین سے قطار در قطار درخت اُگا دیئے ہیں، رنگ رنگ کے پھول زمین کے لیے جھومر بنا دیئے ہیں۔

اوردوسرا یونٹ زمین کی مخلوق ہے۔ جس میں سے سب سے افضل مخلوق آدم ہے۔ وہ آدم جو محتاج ہے بے اختیار ہے۔ کبھی موت کا پنجہ اسے دبوچ لیتا ہے اور کبھی حیات اسے سہارا دیتی ہے۔

اور اگر خالق کائنات اللہ کریم کے اِرشادات کے مطابق وہ خالق اکبر اللہ کو جان لیتا ہے کہ وہ کل کاجز و اور اصل کا پَر تَو ہے تب مَن و تُو کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ بندہ اپنی نفی کر کے پکاراٹھتا ہے:

میرا یقین ہے کہ….  ہر امر اللہ کی طرف سے ہے….

میرا جینا میرا مرنا….  سب اللہ کے حکم کے تابع ہے….

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 009 تا 013

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)