شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47152

موجودہ سائنس تلاش و جستجو کے راستے پر چل کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پوری کائنات ایک ہی قوت کا مظاہر ہ ہے۔

یہ انکشاف نیا نہیں ہے ہمارے اسلاف میں کتنے ہی بزرگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات کے تمام مظاہرکو ایک ہی توانائی کنٹرول کر رہی ہے اور اس قوت کا براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ ہے۔

قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔ (سورۃ النور – 35)

ہم مادّی سائنس اور اپنے اسلاف کے علوم کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمارے اوپر حیرت کے باب کھل جاتے ہیں کہ اب سے تقریباَ آٹھ صدی پہلے حضرت شیخ عبدا القادر جیلانیؒ ایک ایسے عظیم سائنس دان تھے جو فطرت کے قوانین کو جانتے تھے، جن کے وجودِ مَسعود سے آفاقی قوانین کے راز ہائے سربستہ کا انکشاف ہوا ہے۔ حضرت شاہ جیلانیؒ فطرت کے قوانین کے استعمال کا جو طریقہ بتا گئے ہیں، انہوں نے قوانین کو سمجھنے کی جو راہ متعین کی ہے، وہاں آج کی سائنس کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔

سائنسی علوم کی ترقی اور کامیابی کا ایک بڑا فیکٹر بجلی یا الیکٹریسٹی ہے اور اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ہر موجود شے میں برقی اور مقناطیسی لہریں موجود ہیں۔ مختلف اشیاءمیں یہ لہریں مختلف تناسب اور مقداروں میں کام کرتی ہیں، جب کہ ان لہروں کو ایک بنیادی قوت، زندگی مہیا کر رہی ہے۔ یہی لہریں ہیں جو زندگی اور زندگی کے تمام عوامل و حرکا ت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی نے بتایا ہے کہ:

  • زمین اور آسمان کا وجود اُس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔
  • اگر نوعِ انسانی کا ذہن مادّہ سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوز ہوجائے تو وہ یہ سمجھنے پر قادر ہوجائے گا کہ انسان کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحیتیں ذخیرہ کر دی گئی ہیں جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی اشیاء کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور لہروں کو حسبِ منشاء استعمال کر سکتا ہے۔
  • پوری کائنات ایک نقطہ یا دائرہ بن کر اس کے سامنے آجاتی ہے۔
  • اس مقام پر انسان مادّی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔ وسائل اس کے سامنے سر بَسجُو د ہوجاتے ہیں ۔ “

ہم جب قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ قرآن کی حقیقی تعلیم اور مسلمانوں کے عمل میں بہت بڑا تضاد واقع ہو چکا ہے۔ قرآن جس راہ کا تعین کرتا ہے اور مسلمان جس راستہ پر چل رہا ہے یہ دوایسی لکیروں کی طرح ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں۔

اللہ نے انسان کو اپنا نائب بنایا ہے، اس کو اپنی صفات کا علم عطا کیا ہے، اس کو اپنی صورت پرتخلیق کیا ہے، اللہ وسائل کی محتاجی کے بغیر حاکم ہے۔ جس طرح خدا نے کُن کہہ کر کائنات کو وجود بخشا ہے، خدا کا نائب بھی اللہ کے عطا کردہ اختیارات سے تخلیق میں تصرف کر سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا نائب اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام مظاہر ایک ہی ذات سے ہم رشتہ ہیں جو خالق و مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب (خلیفہ) بنایا ہے۔ مسلمان کے پاس ماورائی علوم کا جتنا بڑا سرمایہ موجود ہے وہ اسی مناسبت سے مفلوک الحال ہے۔ مسلمان کے اسلاف نے اس کے لئے حاکمیت اور تسخیر کائنات کے بڑے بڑے خزانے چھوڑے ہیں لیکن یہ اس قوم کی بد نصیبی ہے کہ اس نے ہیرے کو پتھر سمجھ لیا ہے اور اس خزانے سے مستفیض ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مصلحتوں کے پیش نظر مسلمان کو تفکر کی راہ سے دور ہٹا دیا گیا ہے، اور اس کے سامنے ایسی نہج آگئی ہے جہاں اس کا بیشتر عمل کاروبار بن گیا ہے۔

کتنی مضحکہ خیز ہے…. یہ بات کہ…. قرآن کائنات پر ہماری حاکمیت اور سرداری تسلیم کر رہا ہے…. ہمارے اوپر حاکمیت اور سرداری کے دروازے کھول رہا ہے اور ہم قرآن کو محض برکت کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں سجائے رکھتے ہیں….  جب کوئی اُفتاد پڑتی ہے تو اس کی آیات تلاوت کر کے دنیا وی مصائب سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اس طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی کہ قرآن میں تفکر اگر ہمارا اشعار بن جائے اور ہم اس تفکر کے نتیجے میں میدان عمل میں اُتر آئیں تو کائنات پر ہماری سرداری مُسلَّم ہے….. افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دستِ نگر بنے ہوئے ہیں۔

قرآن کے ارشاد کے مطابق:

اللہ نے ہمیں شمس و قمر، نجوم، ارض و سماوات سب پر حاکم بنا دیا ہے «  اور اس حاکمیت کو حاصل کرنے کے طریقے بھی بتا دیئے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں دوسروں کے پس خوردہ نوالوں کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں۔

«(سورۃ النحل – 12، سورۃ ابراھیم – 33 ….سورۃ الجاثیہ – 13 ….سورۃ لقمان – 20 وغیرہ)

ہماری زندگی محض دنیا کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری عبادتوں میں دکھا وا آگیا ہے۔ ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر باطن میں بہتے ہوئے سمندر میں سے ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے۔

آسمانِ علم و آگاہی کے خورشیدِ منفرد اور تسخیر کائنات کے فارمولوں کے ماہر شیخ عبدا قادر جیلانی فرماتے ہیں:

‘‘اے منافقو! کلامِ نبوّت سنو ….

آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کرنے والو!

باقی کو فانی کے بدلے کاروبار کرنے والو !

تمھارا بیوپار سراسر خسارے کا سودا ہے…. تمہارا سرمایہ تمہیں بربادی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے….

افسوس تم پر  …. تم اللہ کے غضب کا ہدف بن رہے ہو!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 027 تا 030

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)