قرآن و سنت کی روشنی میں شیطانی قوتوں پرغلبہ حاصل کرنے کے طریقے

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47308

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

‘‘یقیناََ تمہارے لئے اللہ کے رسولؐ میں ایک نہایت اعلیٰ نمونہ ہے’’۔

(سورۃ الأحزاب، آیت نمبر 21)

آیتِ کریمہ میں‘‘لَكُمْ’’  (تمہارے لئے) کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کسی خاص گروہ، قبیلہ یا قوم کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ قیامت تک پیداہونے والے ہر انسان کیلئے کامل نمونہ ہے۔

لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

‘‘ہر اس شخص کے لئے (رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں اعلیٰ نمونہ ہے) جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے’’۔

(سورۃ الأحزاب، آیت نمبر 21)

 

دین حنیف میں ایمان کی عمارت کے تین بنیادی ستون ہیں۔

  1. ایمان باللہ یا توحید
  2. ایمان بالآخرۃ…. اور
  3. ایمان بالرِّسالت

یہ تینوں یقین ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

اگر آدمی توحید کی بجائے شرک پر کاربند ہے تو وہ اللہ کے محبوبؐ کی ذاتِ اقدس کو اپنے لئے نمونہ نہیں بناسکتا۔

جو شخص اللہ کی رضا کا امیدوار ہے، ہر کام اور ہر معاملہ میں اللہ کے احکامات اور اس کے اَوامرونَواہی کا اہتمام کرتا ہے، اُسے یقین ہے کہ وہ دن آکر رہے گا جس روز جزاء و سزا کے فیصلے ہوں گے
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اتباعِ رسولؐ کی اہمیت واضح کردی ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ  ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (31)

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ  ۖ  فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (32)

ترجمہ:

کہہ دو اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے تو اِتّباع کرو میری، محبت کرے گا تم سے اللہ اور معاف کرے گا تمہارے گناہ، اور اللہ تو ہے ہی بڑا معاف کرنے والا نہایت رحم کرنے والا۔ (31)

کہہ دو اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی پھر اگر منہ موڑیں (تو وہ کافر ہیں) اور بےشک اللہ نہیں پسند کرتا کافروں کو (32)
(سورۃ آلِ عمران)

 

آیتِ مبارکہ میں اللہ کی اطاعت اور محبت کو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و محبت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔

  • اللہ کی اطاعت اور اللہ کی محبت کا ماحَصَل عبادت ہے…. جبکہ
  • رسولؐ کی اطاعت اور رسولؐ کی محبت کا ماحَصَل‘‘اِتّباع’’ کہلاتا ہے

عبادت کا مفہوم ‘‘انتہائی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اللہ کی بندگی اور پرستش کرنا’’ ….  اور

اِتّباع کا مفہوم یہ ہے کہ ‘‘محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر پیروی کرنا’’۔

مکہ میں حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام اور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے سخت ترین مصیبتیں جھیلیں۔ مشرکین کے جور و ستم اور اِیذا رَسانی نے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر کر دیا۔ آپؐ کے ساتھیوں کو مکہ کی سنگلاخ اور تپتی زمین پر لٹا کر سینے پر پتھر کی بھاری سِل رکھ دی گئی اور گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹا گیا۔ اسلام کی اوّلین شہید ایک مؤمنہ کو انتہائی کمینگی سے مارا گیا کہ برچھی پشت کے پار ہو گئی۔ ایک اور صحابی کے ہاتھ پیر اونٹوں کے ساتھ باندھ کر اونٹوں کو مخالف سمت میں ہانک دیا گیا۔ خود رسول اللہ ﷺ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ راہ میں کانٹے بچھائے گئے سنگ باری کی گئی، جسم مبارک لہولہان ہوا۔ آپؐ کے مکان میں نجاست ڈالنا اور راہ چلتے آپؐ پر گندگی پھینکنا عام بات تھی، تمسخر، اِستہزاء اور طعن و تشنیع روز کا معمول تھا، چچا اور چچی آپؐ کی جان کے دشمن تھے۔ عبادت کے دوران گردن میں چادر ڈال کر اس طرح بل دیئے گئے کہ آپؐ کا سانس گھٹنے لگا۔ سجدے کی حالت میں اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی سر اور گردن پر ڈال کر کس دی گئی۔

جسمانی تکالیف کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو جو ذہنی اذیتیں دی گئیں اس کے تذکرہ سے نوعِ انسانی کا سر شرم و ندامت سے جھک جاتا ہے۔ جس معاشرہ میں بیٹیوں کو اس لئے زندہ دَرگور کردیا جاتا تھا کہ بیٹی کا باپ کہلانا باعثِ ندامت تھا۔ جس معاشرہ میں اولاد نرینہ سے محروم باپ ایک بے نشان فرد کی حیثیت سے زندگی گزارتا تھا۔ اُس معاشرے میں رسول اللہ ﷺ کے دونوں صاحبزادے حضرت قاسمؓ اور حضرت عبداللہؓ کم سنی میں انتقال کرگئے تو ابلیس کے نمائندوں نے رسول اللہ ﷺ کے ‘‘بے نشان’’  ہوجانے کی خوشی میں جشن منائے۔ رسول اللہ ﷺ کے دوسرے صاحبزادے کے انتقال کی خبر جب ابولہب کو ملی تو وہ خوشی سے چلاتا ہوا اور دوڑتا ہوا کفارِ مکہ کے پاس آیا اور کہا…. ‘‘محمدؐ اَبتر ہوگئے…. محمدؐ اَبتر ہوگئے’’۔ اِس کے بعد جہاں سے بھی آپؐ کا گزر ہوتا مشرکینِ مکہ آوازیں کستے، وہ دیکھو! محمدؐ جارہا ہے جو ‘‘اَبتر’’ ہے۔

(اَبتر کے لفظی معانی ایسے درخت کے ہیں جس کی جڑ کٹ گئی ہو، یعنی ایسا آدمی جس کی نسل کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہو۔) معنوی طور پر ابتر کا لفظ لوگوں کے لئے ہتک آمیز اور گالی کے مترادف تھا۔ بشری لحاظ سے دیکھا جائے تو

  • اوّل اولاد کی جدائی کا دکھ
  • دوم معاشرتی طرزیں
  • سوم مخالفین کا خوشیاں منانا اور ڈھول تاشے پیٹنا
  • چہارم ہر گلی کوچے سے اَبتر…. اَبتر کی صداؤں کا بلند ہونا….

کس درجہ تکلیف دہ عمل ہے؟

کفار کی ہَرزَہ سَرائیوں کا جواب رسول اللہ ﷺ نے تو نہیں دیا لیکن اللہ نے اپنے محبوبؐ کی تسلّی و تشفّی فرمائی اور سورۃ الکوثر نازل ہوئی۔
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1)

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2)

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (3)
ترجمہ:

ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا۔

پس اپنے ربّ کے لئے صلوٰۃ قائم کیجئے اور قربانی دیجئے۔

بےشک آپؐ کے دشمن ہی اَبتر ہیں

(سورۃ الکوثر)

شِعبِ ابی طالب کی قید میں…. ایسا وقت بھی آیا کہ کھانے کو کچھ نہیں تھا۔

بھوک اور پیاس کی شدت سے بنو ہاشم کے بچوں کی زبانیں خشک ہوگئیں اور حلق میں کانٹے پڑ گئے۔

موسم کی سختیوں نے جسم لاغر اور کمزور کر دیئے تھے۔

قوم کا اشرف ترین خاندان عُسرت، تنگدستی اور لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا تھا….

حتیٰ کہ بیماروں کو دَوا اور مرنے والوں کو کفن تک میسر نہیں تھا….

طائف کے سرداروں نے دعوتِ حق کو جس حقارت سے ٹھکرایا دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

نقلِ کفر ، کفر نہ باشد۔۔۔

ایک سردار نے کہا…. تم جیسے مفلس و قلاش کے سوا اللہ کو رسول بنانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا، اس طرح تو وہ گویا خود کعبہ کے غلاف کو چاک کر رہا ہے….

تمسخر اور بدتمیزی کا طوفان ہی کھڑا نہیں کیا گیا، انسانیت کو رسوا بھی کیا گیا، غنڈے آپؐ کے گرد جمع ہو گئے۔ شانِ اقدس میں صرف گستاخانہ جملے ہی نہیں کسے گئے، پتھر بھی برسائے گئے۔

جسمِ اطہر لہو میں نہا گیا….

نَعلین مبارک خون سے بھر گئیں۔

ایک موقع پر جب آپؐ ضعف کے مارے بیٹھ گئے تو دو بدبخت غنڈوں نے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کردیا اور چلنے پر مجبور کیا تاکہ سنگ باری کا تماشہ جاری رہے۔

باقی لوگ کھڑے تالیاں پیٹتے رہے۔

حضرت عائشہؓ نے یومِ اُحد کے بعد رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا…. ‘‘یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس سے زیادہ سخت دن بھی آپؐ کی زندگی میں آیا ہے’’۔  ارشاد ہوا…. ‘‘ہاں! یومِ طائف میری زندگی کا سب سے زیادہ سخت دن تھا’’۔

الہامی کتابیں رہنمائی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے رسولوں کے ذریعہ نوعِ انسانی کو ایسا متوازن نظام عطا کیا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے۔
یقیناً بھیجا ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی کھلی نشانیاں دے کر اور نازل کی ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ قائم ہوں انسان انصاف پر۔

(سورۃ الحدید، آیت نمبر 25)

رسول اللہ ﷺ نے ابلیس کے نمائندوں کی جانب سے قدم بقدم کھڑی کی گئی مشکلات کا مردانہ وارمقابلہ کرکے، مصائب و تکالیف برداشت کرکے اور ظلم و ستم جھیل کر حقیقی نظامِ عدل قائم کردیا۔

ایک ایسا System of Social Justice وجود میں آگیا جس میں معاشرے کے ہر طبقے اور طبقے کے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین ہوگیا۔ زندگی کا ہر گوشہ اور ہر پہلو اللہ کے حکم کے تحت آگیا۔
اللہ کے دین کی سربلندی اور سرفرازی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانا اور دعوت حق کے غلبہ کے لئے باطل قوتوں سے ٹکراجانا، انبیاءِ کرام کی زندگی کا مقصد رہا ہے۔ انبیاء کرام کے پیروکار خواتین و حضرات جب تک اس مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بناتے، پیروی کا مفہوم پورا نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں حیاتِ مبارکہ کے ہر ہر پہلو کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ سیرت کی کتب کا مطالعہ بھی ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے اور نعرۂ تحسین بھی بلند ہوتا ہے۔ سیرت کے ان شہہ پاروں سے اخذ کردہ نتائج کو ہم اپنے لئے نمونہ بھی کہتے ہیں۔ لیکن ہم اسوۂ رسول اللہ ﷺ پر کَمَاحَقہُ عمل نہیں کرتے۔
پہلی وحی کے نزول کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کے غار حرا سے اُتر کر گھر تشریف لائے تو آپؐ نے اپنی زوجہ محترمہ سے صرف اتنا فرمایا….‘‘مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو’’۔  طبیعت بحال ہونے کے بعد حضرت خدیجہؓ کو جب رسول اللہ ﷺ نے پورا واقعہ سنایا تو انہوں نے آپ ؐ کو تسلی دی اور فرمایا….‘‘اللہ آپ ؐ کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑے گا۔ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، غریبوں کی دستگیری فرماتے ہیں، مہمان نوازہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، امانت دار ہیں اور دکھی دلوں کی خبرگیری کرتے ہیں’’۔
حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر اور پاکیزہ کردار کی پوری عکاسی کررہے ہیں۔

نزولِ وحی سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کے حسنِ اخلاق، سچائی، دیانتداری اورمعاملہ فہمی کے چرچے عرب کے طول و عرض میں پھیل چکے تھے۔ مکہ کے لوگ رسول اللہ ﷺ کو خوش اخلاق، راست گو، نرم دل، کریمُ الطّبع، پاکیزہ نفس اور اچھے کردار کے حامل فرد کی حیثیت سے جانتے تھے۔

سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سیرت طیبہؐ اور اخلاقِ حسَنہ ہماری زندگی پر کتنی محیط ہیں؟
تعلیمات نبویؐ پر عمل نہ کرنا…. نافرمانی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہر اُمتی پر لازم ہے کہ وہ قرآنی علوم کے مطابق اپنا محاسبہ کرے۔

‘‘پھر کیا کیفیت ہوگی (ان لوگوں کی) جب لائیں گے ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ اور لائیں گے تمہیں (اے محمدؐ) اُن پر بطور گواہ (41)

اس دن آرزو کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور نافرمانی کی رسول، کہ کاش! (وہ زمین میں سما جائیں اور) برابر کر دی جائے ان پر زمین اور نہ چھپا سکیں گے وہ اللہ سے کوئی بات(42)

(سورۃ النساء)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 167 تا 173

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)