مخلوق کی خدمت

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47171

طرز فکر

 

دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا تعلق طرزِ فکر سے ہے۔

ایک طرز فکر وہ ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے…. اور

ایک طرز فکر وہ ہے جس طرز فکر کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرز فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خود بھی قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

‘‘ہماری نشانیوں پر غور کرو، تفکر کرو اور عاقل، بالغ، باشعور، سمجھ دار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے ہیں’’

(سورۃ البقرۃ – 269 …. سورۃ آلِ عمران – 7 …. سورۃ الرعد – 19 …. سورۃ الزّمر – 9، 18، 21)

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں ظاہری، حواس سے دیکھی جانے والی نشانیاں جن سے ہم ہر وقت مستفیض ہوتے رہتے ہیں ہوا، پانی، دھوپ اور رنگ ہیں۔
یہ ساری چیزیں براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں۔ ان تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ان تمام تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے ایسا فائدہ جس فائدہ کے پیچھے کوئی غرض، کوئی صلہ، کوئی مقصد، کوئی لین دین اور کوئی کاروبار نہیں ہے۔

انبیاء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ بندے کی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑدیا جائے۔

اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر صلاحیتوں کا ذخیرہ جمع کردیا ہے تو ….  جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیں اور وہ ان صلاحیتوں کا استعمال کرے….  تو اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میری صلاحیتوں کا اظہار اس لئے ہو کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے۔

 

اللہ کے دوست

 

آپ کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ نمازی بن جاتے ہیں۔ کسی تاش کھیلنے والے سے دوستی قائم کرنا چاہتے ہیں تو تاش کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ:

  • اگر ہم شیطان سے قربت کے خوگر ہیں تو شیطان کے اَوصاف پسند کرتے ہیں
  • اگر ہم رحمان سے قربت چاہتے ہیں تو رحمان کی عادات و صفات اختیار کرتے ہیں

رحمان کی عادت یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ پس، اگر آپ اللہ، اپنے خالق، سے متعارف ہو کر اس کی قربت اختیار کرکے کائنات پر اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنالیجئے۔ بلاشبہ اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنے والے لوگ اللہ کے دوست ہیں اور دوست پر ساری کائنات کے مالک کی نوازشات کی بارش برستی ہے۔

اللہ کی رضا کے حصول اور اس کے راستے کی طرف دعوت دینے کا مؤثر ذریعہ مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو خالص انسانی قدروں اور خلوص و محبت اور خیرخواہی کے جذبات پر قائم ہو…. نہ کہ بدلے اور گھٹیا سودے بازی پر۔

اللہ کی مخلوق سے محبت کا تعلق استوار رکھنا  اور اللہ کی مخلوق ہونے کے ناطے سے ان کی خدمت کرنا خالق کی رضا اور خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

 

بغاوت

انسان سمجھتا ہے کہ مال و دولت کے انبار اس کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ گن گن کر مال و دولت جمع کرتا ہے اور اس یقین کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ مرتے دم تک مال و دولت کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اِس دَوڑ میں وہ اپنے بھائیوں کے حقوق کے اِتلاف کی بھی پروا نہیں کرتا۔ قدرت نے اُسے توانائیوں کے جو بیش بہا خزانے کسی اور مقصد کے لئے عطا کئے ہیں وہ انہیں ہوس زر میں صَرف کردیتا ہے۔

انسان کہتا ہے کہ جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے…. اس لئے میں جس طرح چاہوں اسے خرچ کروں …. کوئی مجھے روکنے والا نہیں ہے…. اور یہی وہ طرز فکر ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت بن جاتی ہے تو اللہ سے اس کا ذہنی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور آدمی کا شمار ذُرّیتِ قارون میں ہونے لگتا ہے۔

انفرادی حدود میں دولت پرستی کی بیماری آدمی کی انا اور اس کی ذات سے گھن بن کر چپک جاتی ہے۔ انسانی صفات کو چاٹتی رہتی ہے اور خالق کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیتی ہے۔ آدمی کے باطن میں ایک شیطانی وجود پرورش پانے لگتا ہے جو لمحہ بہ لمحہ بڑا ہو کر اس کی ذات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ آدمی کی بہترین تخلیقی صلاحیتیں دولت کی حفاظت میں صَرف ہوجاتی ہیں۔ اگر دولت پرستی کا مرض معاشرہ میں پھیل جائے تو قوم کے افراد ایک دوسرے کے حق میں بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔

 

دولت کے دو رُخ

 

دولت کے دو رخ ہیں۔

  1. دولت کا ایک رخ یہ ہے کہ انسان کو دولت عذابِ جہنم بن کر خاکستر کردیتی ہے
  2. دولت کا دوسرا روپ یہ ہے کہ رنگینیوں، رَعنائیوں، قناعت، مسرت اور شادمانیوں سے دماغ معمور ہوجاتا ہے۔ اِس روپ کا دولت مند بیواؤں اور یتیموں کے لئے پناہ گاہیں تعمیر کرتا ہے۔ سینکڑوں بپتاؤں اور مصیبتوں کے مارے ہوئے لوگوں کے لئے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ حیوانِ محض بن کر زندہ نہیں رہتا۔ دل کی دنیا میں جگ مگ روشن روشن قمقمے سجا کر دل کی دنیا کو آباد کرلیتا ہے۔ وہ عقل کے لحاظ سے احمق اور آنکھوں کے لحاظ سے اندھا نہیں ہوتا۔ حیوانیت سے دُور ہوتا ہے اور اس عادت کو اپنالیتا ہے جو اللہ ربّ العالمین، رزّاق کی عادت ہے۔

 

قانونِ قدرت سرمایہ پرستی اور لالچ کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ وہ ایسی قوموں کو غلامی، ذلت اور افلاس کے عمیق غار میں دھکیل دیتا ہے۔
قرآن پاک سرمایہ پرستوں کے اس اوّلین دعوے پر کاری ضرب لگاتا ہے کہ ان کی کمائی اور ان کی دولت ان کی ہنرمندی کا نتیجہ ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ…. رزق کا حصول اور اس کی پیدائش تمہارے زور بازو کا نتیجہ ہے، ایک خام خیال ہے۔ فطرت کے قوانین اور اس کے وسائل خود تمہارے لئے مسلسل رزق کو بہم رسانی میں مصروف ہیں۔ سمندروں سے پانی بخارات کی شکل میں زمین پر برستا ہے اور زمین کی مردہ صلاحیتوں میں جان ڈال کر اسے وسائل کی تخلیق کے قابل بنادیتا ہے۔ زمین طرح طرح کی پیداوار کو جنم دے کر انسان کی پرورش کرتی ہے اور اس کی زندگی کے قیام کے وسائل فراہم کرتی ہے۔ ہَوا، سورج کی روشنی اور بہت سے دوسرے عوامل اس دوران فصلوں کو بار آور کرنے میں سرگرم رہتے ہیں اور بلامعاوضہ آدمی کی خدمت کرتے ہیں۔ رزق اور وسائل کے حصول اور عمل میں انسان کی کوشش صرف ہاتھ بڑھا کر روزی حاصل کرلینا ہے۔

 

‘‘تم نیکی اور اچھائی کو نہیں پاسکتے، جب تک وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دو، جو تمہیں عزیز ہے’’۔ (سورۃ آلِ عمران – 92)

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی حد کو وسیع کرتے ہوئے کہا گیا کہ:

‘‘اے نبیؐ وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ کہہ دو کہ اپنی ضرورت سے زائد’’ (سورۃ البقرۃ – 219)

ان احکامِ خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کیجئے۔ معذور لوگوں کے لئے پناہ گاہ بنوایئے۔ یتیم اور لاوارث بچوں کے لئے اسکول کھولئے۔ نادار بچیوں کی شادی کرایئے۔ بیواؤں کی مدد کیجئے۔ بے ہنر بچوں کو ہنر سکھایئے۔ اجتماعی اور انفرادی طور پر لوگوں کو علم سکھایئے۔ یہ کام سب سے پہلے اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور پھر اس میں دوسرے ضرورت مندوں کو بھی شامل کرلیجئے۔

یاد رکھئے….

  • جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو…. اُس میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ ہو
  • ضرورت مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تاکہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو اور نہ ان کی عزتِ نفس مجروح ہو
  • کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتائیں اور نہ نمود و نمائش کا اظہار کریں

آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اللہ کی دی ہوئی دولت کو دوسروں پر خرچ کرنے کے بعد غریبوں کی خودداری کو ٹھیس لگانا اور ان سے اپنی برتری تسلیم کرانا، احسان جتا کر ٹوٹے ہوئے دلوں کو دُکھانا، بدترین گھناؤنے جذبات ہیں۔

وہ اللہ…. جس نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ دوسروں کی مدد کریں…. فرماتا ہے:

‘‘مومنو! اپنے صدقات اور خیرات کو احسان جتا جتا کر اور غریبوں کا دل دکھا کر اس آدمی کی طرح خاک میں نہ ملادو جو محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے’’

(سورۃ البقرۃ – 264)

 

اس انعام کا شکر ادا کرنے کے لئے کہ …. خدا نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں آسانی اور سہولت دی ہے اور ہمیں دنیاوی آسائشیں عطا کی ہیں….
کبھی کبھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے غریبوں اور مساکین کو کھانا، پیسہ اور کپڑا وغیرہ بھی دلوایئے تاکہ ان کے اندر غریبوں کے ساتھ سلوک، سخاوت و خیرات کا جذبہ پیدا ہو۔ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔ ان کے منہ میں نوالے دیجئے۔ اُن سے بھی کہئے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔ اس عمل سے حقوقُ العباد کا احساس اور انصاف کے تقاضے اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ قالبِ انسان میں نَمو پاتے ہیں۔

گرم لہریں

 

اللہ کی مخلوق کی ذہنی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان کے اندر آپس میں بھائی چارہ ہو، ایثار ہو، خلوص ہو اور وہ ایک دوسرے سے محبت کریں۔

  • جس  معاشرے میں محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے، وہ معاشرہ ہمیشہ پرسکون رہتا ہے…. اور
  • جس معاشرے میں بیگانگی اور نفرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے، اُس معاشرے کے افراد ذہنی خلفَشار اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں

محبت سراپا اخلاص ہے

نفرت مجسم غیظ و غضب ہے

غصہ بھی نفرت کی ایک شکل ہے

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

جو لوگ غصہ کو کھاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے احسان کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ (آلِ عمران – 134)

نفرت کا ایک پہلو تعصّب بھی ہے…. تعصّب کرنے والا بندہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی شفاعت سے محروم رہتا ہے….!

محبت کیونکہ پرسکون زندگی اور اطمینان قلب کا ایک ذریعہ ہے اس لئے کوئی انسان جس کے اندر محبت کی لطیف لہریں دَور کرتی ہیں، وہ مصائب و مشکلات اور پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے چہرے میں ایک خاص کشش پیدا ہوجاتی ہے۔

اِس کے برعکس نفرت کی کثیف اور گرم لہریں انسانی چہرہ کو جھلسادیتی ہیں بلکہ اس کے د ماغ کو اتنا بوجھل، پریشان اور تاریک کردیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وُدیعت کردہ زندگی میں کام آنے والی لہریں مسموم اور زہریلی ہوجاتی ہیں۔ اس زہر سے انسان طرح طرح کے مسائل اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

نفسیات داں یہ بات جانتے ہیں کہ ہر انسان روشنیوں سے مرکب ہے اور روشنی کی یہ لہریں انسان کے اندر سے غیرمحسوس طریقے پر نکلتی رہتی ہیں۔

کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا آتا ہے کہ ہم اس چہرہ کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا بھی آتا ہے کہ ہم اس چہرے میں سے نکلنے والی لہروں سے بیزار ہوجاتے ہیں۔

جن لوگوں کے دل اللہ کے نور سے معمور ہوتے ہیں اور جن لوگوں کے دماغ میں خلوص، ایثار، محبت، پاکیزگی اور خدمت خلق کا جذبہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کے چہرے خوش نما، معصوم اور پاکیزہ ہوتے ہیں ان چہروں میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ ہر شخص ان سے قریب ہونا چاہتا ہے۔

اس کے برعکس ایسے لوگ جو تکبر، نفرت یا احساس گناہ کے اضطراب میں مبتلا ہیں ان کے چہروں پر خشونت، خشکی، یبوست، بے آہنگی اور کراہت کے تاثرات پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ تاثرات دوسرے آدمی کے د ل میں دُور رہنے کا تقاضا پیدا کرتے ہیں۔

قانون فطرت یہ ہے کہ:

① انسان کے ہر عمل کی فلم بنتی رہتی ہے…. اور

② ہر آدمی کی اپنی اس فلم کے لئے اس کا اپنا چہرہ  اسکرین ہے

③ کراماً کاتبین کی بنائی ہوئی فلم انسانی چہرے پر چلتی رہتی ہے

حقوق العباد

 

قرآن پاک نے ہم پر حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق پورا کرنا لازم و ملزوم کردیا ہے اور اس کی بہت تاکید کی ہے۔
حقوق العباد کی ادائیگی رشتہ داروں سے شروع ہوتی ہے جن میں والدین سب سے پہلے مستحق ہیں۔

ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اوّلین فریضہ اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی حقوق العباد میں سے ہے۔

اس کے بعد دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا نمبر آتا ہے۔

آخر میں تمام انسان حقوق العباد کے دائرے میں آتے ہیں۔

حقوق العباد میں مالی حق بھی ہے…. اور اخلاقی حق بھی۔

قرآن پاک نے جا بجا اس کی حدود بیان کی ہیں اور اس کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

‘‘نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق اور مغرب کی طرف کرلو لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور آسمانی کتابوں پر اور نبیوں پر اور مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں’’۔  (البقرۃ – 177)

اگر ہم اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ مالی لحاظ سے کسی کی مدد کرسکیں تو خدمت کے اور بھی ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے ہم ان صلاحیتوں سے لوگوں کی خدمت کریں۔

اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کرسکتے تو اس کے لئے برائی کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ خیرخواہی کے لئے محض مالی حالت کا اچھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سلام میں پہل کرنا، کسی کی غیبت نہ کرنا اور نہ سننا، اللہ کی مخلوق سے حسن ظن رکھنا، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کردینا، کسی ضعیف یا بیمار کو سڑک پار کرادینا، بیمار کی مزاج پُرسی کرنا، سڑک پر پڑے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو راہ سے ہٹادینا، بے علم کو علم سکھانا، حقوق العباد کے زُمرے میں آتے ہیں۔

دنیا کا ہر آدم زاد آپ کا بھائی ہے۔ میں آپ کا بھائی ہوں…. آپ میرے بھائی ہیں…. وہ میری بہن ہے…. میں اس کا بھائی ہوں۔

ان سب بہن بھائیوں میں مِن حَیثُ القَوم پہلے قرابت داروں کا حق زیادہ ہوتا ہے…. لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے اوپر نوعِ انسانی کے حقوق عائد نہیں ہوتے!

کنبہ، برادری، ملک و قوم اپنی جگہ، ہر آدم زاد کا دوسرے آدم زاد پر حق ہے، اور وہ حق یہ ہے کہ ایک باپ آدم اور ایک ماں حوّا کے رشتے سے ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کو… خواہ وہ کسی علاقے کا ہو، کسی رنگ اور نسل کا ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، آپ کا اس سے تعارف ہو یا نہ ہو، آپ اس کے ساتھ خلوص اور محبت کا اظہار کریں۔ اُس کو بتائیں کہ مادّی جسم عارضی ہے۔ اس میں اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے۔ اصل انسان اس کی روح ہے اور جسمانی تمام حرکات روح کے تابع ہیں۔ روح جسم سے نکل جاتی ہے تو مادّی وجود کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

 

ماورائی کیمرہ

 

طرز گفتگو میں آدمی کی شخصیت کا عکس جھلکتا ہے۔ خوش آواز آدمی کے لئے اس کی آواز تسخیر کا کام کرتی ہے۔ کسی بھی مجلس یا نجی محفل میں وقار اور سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کیجئے۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ریکارڈ ہوتا ہے۔ آدمی جو بات بھی منہ سے نکالتا ہے فرشتے اسے ماورائی کیمرے میں محفوظ کرلیتے ہیں۔

مسکراتے ہوئے نرمی کے ساتھ میٹھے لہجے اوردرمیانی آواز میں بات کرنے والے لوگوں کو اللہ کی مخلوق عزیز رکھتی ہے۔ چیخ کر بولنے سے اعصاب میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے اور اعصابی کھنچاؤ سے با لآخر آدمی دماغی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مخاطب یہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر رعب ڈالا جارہا ہے اور وہ اس طرز کلام سے بد دِل اور دُور ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر خلوص اور محبت کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں۔ شیریں مَقال آدمی خود بھی اپنی آ واز سے لطف اندوز اور سرشار ہوتا ہے اور دوسرے بھی مسرور و شاداں ہوتے ہیں۔ اچھی میٹھی اور مسحور کن آواز سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔

 

دعا

تمام لوگوں میں خدا کے نزدیک زیادہ محبوب وہ آدمی ہے جو انسانوں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے اور نفع پہنچانے والا کوئی بندہ…. بلاتخصیصِ مرد و عورت…. نوعِ انسانی کا دوست ہوتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا دیدار ہُوا۔

خدا نے اپنے پیارے نبیؐ سے کہا…. ‘‘ مانگیئے’’

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا مانگی:

‘‘اے خدا! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں اور برے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرمادے اور مجھ پر رحم فرما اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھالے کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ ہے’’۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 093 تا 103

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)