بیٹی کا خط باپ کے نام

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47156

پیارے اباجی !

السّلام علیکم

اللہ کی ڈھیر ساری عنایتیں اور رحمتیں آپ کے اوپر مزید ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے…. اس لئے کہ آپ ہم سب کے لئے ابرِ رحمت اور سایۂِ شفقت ہیں۔ ہماری آنکھوں کی روشنی اور ہمارے دل کا قرار ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی بھلا کیسے مدہم ہوسکتی ہے! اتنے سارے لوگوں کا سکون، بے قرار ہوجائےتو لوگ خوف اور غم سے نڈھال ہو جائیں گے اور اللہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی مخلوق خوف اور غم میں مبتلا ہو کر زندگی گزارے۔

ابّا جی! آپ میرے باپ ہیں۔ لیکن ایک اور رشتہ یہ ہے کہ میں آپ کی روح کا ایک حصّہ ہوں۔ آپ کے اندر نورانی وجود کا پرَت ہوں۔

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور ساری روشنی اللہ کے نور کا عکس ہے۔ میں آپ کی بیٹی آپ کی روشنی کا عکس ہوں۔

چار مہینے پاکستان میں رہنے کے بعد زندگی کی روٹین بالکل ہی بدل گئی تھی۔ یہاں پہنچ کر وقت مختلف لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے، زندگی جن لمحات پر رَواں دَواں ہے، اُن میں سُکوت پیدا ہوگیا ہے۔ کیفیات میں وقت ٹھہر گیا ہے۔ رات کو دس بجے مغرب ہوتی ہے۔ صبح پتہ نہیں کب ہوتی ہے۔ یہاں تو مرغا بانگ بھی نہیں دیتا۔

آپ نے دوران تعلیم مجھے بتایا تھا….

‘‘ہم آئینہ کو نہیں…. آئینہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہم آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں’’۔

اس کا مطلب یہ ہو ا کہ….

‘‘آئینہ کے دکھانے میں گڑبڑ اور نقص ہے۔ آئینہ ٹھیک ہونا چاہیے!’’

میں نے آپ سے کہا تھا:

‘‘اگر آئینہ کو توڑدوں؟’’

آپ لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا….

‘‘نہیں نہیں!…. آئینہ کیوں توڑدیں! ….. آئینہ ٹوٹ جائے گا تو زندگی بکھر جائے گی۔ آئینہ کو اس یقین کے ساتھ دیکھو کہ تمہاری تصویر تمہیں متوازن نظر آجائے’’۔

میں نے یہاں آکر تجربہ کیا اور سوچ لیا کہ میں ایک متوازن لڑکی ہوں…. لیکن آئینے کے سامنے جا کر میں اپ سیٹ ہوگئی۔

ابّا جی!

مجھے یقین چاہیے…. ایسا یقین جس کی روشنی میں مجھے ہر چیز روشن نظر آئے….

میں دبے قدموں(کہ آپ بے آرام نہ ہوں) اوپر کی منزل میں آپ کے کمرے میں آپ کو دیکھنے گئی تھی۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ آپ سو رہتے تھے۔ پتہ نہیں کیسے آپ نے کروٹ بدلے بغیر کہا…. کون؟  …. ہما بیٹی ہے؟

میں نے اپنی بھیگی آنکھوں کی پلکوں سے آپ کے تلوؤں کو چُھوا…. آپ اٹھ بیٹھے…. اور میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ مجھے لگا کہ میرا وجود مرکری روشنی میں منتقل ہوگیا ہے۔

آپ نے بتایا….

  • اگر نَسمہ میں خراشیں پڑجائیں تو جسم غیر متوازن ہو جاتا ہے۔
  • نَسمہ کی مُفرد لکیروں کو متوازن کر دیا جائے تو جسم متوازن اور صحت مندہو جاتا ہے

میں گھنٹوں سوچتی رہی یہ نَسمہ کی مرکب اور مُفرد لکیروں کا کیوں اور کیسے تذکرہ آگیا….

مجھے اس کا جواب یہاں آکر مل گیا ہے۔ ہر فرد…. بشر کو دو طرح کے خیالات آتے ہیں۔

  • متوازن…. اور
  • غیر متوازن خیالات

میرے ذہن میں یہ خیال القاء ہو اکہ لکیروں کو متوازن کرنے کے لئے لہروں اور شعاعوں کا سہار ا لینا چاہیے۔

ابا جی!

میں نے لیمپ کے اوپر نیلے رنگ کا سیلوفین پیپر لگا کر منہ میں شعاعیں ڈالنے کا عمل شروع کیا۔ لہروں اور شعاعوں کو گھونٹ گھونٹ کر کے پی گئی۔ اِس عمل سے میرے اندر یقین فوّارہ بن کر اُبل پڑا۔

مجھے یاد آیا آپ نے کہا تھا:

یقین سے پہاڑبھی…. نہ صرف ہل جاتے ہیں…. بلکہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ…. یقین کرنے سے میرے وجود میں بشری تقاضوں کے تحت جو کمزوریاں ہیں…. کیا وہ دُور ہو جائیں گی؟

آپ نے کہا تھا…. ہاں دور ہو جائیں گی۔

روشنیوں کو اِن ہیل (Inhale) کرنے سے ایک مضمون ذہن میں آیا ہے۔

قرآن بتا تا ہے۔

انسان کی تخلیق روشنیوں کی وہ معیّن مقداریں ہیں جو جسمانی ساخت کو ایک خاص حرکت اور پروسس کے تحت خصوصی اعداد و شمار سے قائم رکھتی ہیں۔ جسمانی اعضاء دراصل لاکھوں، کروڑوں خلیات کا ایسا وجودی عمل ہے جیسے ہمارے منہ میں بتیس (۳۲) ایک مرکب ہندسہ ہے…. جو دو (۲) اور تین (۳) سے مل کر بنا ہے…. سولہ(۱۶)  کی جمع بتیس (۳۲) ہے۔

دو (۲)  کا نصف ایک (۱)ہے۔ یعنی آخری ایک (۱) ہُو ا۔ دراصل ایک (۱) ہی کا ہندسہ یا عدد ہے،  جو اپنے اندر بے شمار ہندسوں کو تخلیق کر رہا ہے۔ ایک (۱) کا ہندسہ…. ایک لکیر ہے…. اس لکیر کی آڑھی ترچھی شکلیں ہی دوسرے اعداد یا ہندسہ کی شکل ہیں۔ لکیر کے جتنے زاویے بنتے رہیں گے اعداد بھی بنتے رہیں گے۔ لکیر کو اگر لہر تسلیم کر لیا جائے…. جیسے کہ لکیر لہر ہے…. تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ لہروں کی تقسیم اگر درست ہے اور لہروں میں مقداریں متوازن ہیں…. تو آدم زاد متوازن، صحت مند اور خوب رُو ہے۔ لہروں میں مقداریں متوازن نہیں، تو آدمی غیر متوازن، بیمار اور بدصورت ہے۔

آپ نے کہا تھا

نَسمہ کی مُفرد لکیروں کو متوازن کر دیا جائے تو جسم متوازن اور صحت مند ہوجاتا ہے۔

ابا جی!

آپ نے چند جملوں میں علم کا دریا بہا دیا ہے۔ میں نے آپ کی بات پر جب اور زیادہ غور کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ…. ہر انسان اپنے آپ کو اپنے چہرے کی مناسبت سے دیکھتا ہے۔ جب وہ چہرے میں توازن نہیں پاتا تو عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔

خود کو ٹھیک کرنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے۔

بتیس (۳۲) ایسی تصویریں جو آپ کو ہر لحاظ سے خوش شکل نظر آئیں جمع کر لیں۔ لیکن سب تصویریں ہنستی ہوئی ہونی چاہیں۔ اُن ۳۲  تصویروں کو دن رات میں دو، تین اور پانچ مرتبہ دیکھ لیا کریں۔

میں نے مشاہداتی تجربہ کیا ہے کہ…. نَسمہ کی لکیروں اور زندگی بخشنے والی لہروں میں توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ اپنے اندر یقین کی روشنیاں بیدار اور متحرک ہوجاتی ہیں۔

آخر میں یہ دعاہے:

اللہ تعالیٰ ہر عظیمی بہن بھائی کو ہمیشہ مسکراتا رکھے۔ آمین!

پیارے ابا جی!

صُلبی رشتہ سے آپ کی شفقت آپ کی دعاوں…. اور روحانی رشتہ سے نظر کرم کی محتاج ہوں۔

میری خوشدامن صاحبہ حضرت سعیدہ خاتون عظیمی نے مجھے ماں کا پیاردیا ہے۔ اُن کے اعلیٰ درجات کے لئے آپ سے توجہ کی درخواست ہے۔

آپ کی بیٹی

ہُما فاران شہزاد عظیمی

سالفورڈ، انگلینڈ

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 036 تا 040

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)