قرآن علومِ ظاہری و باطنی کا مأخذ و مَنبع ہے

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47255

حضرت داؤد علیہ السلام

حضرت داؤد علیہ السلام حضرت یعقوبؑ کے پوتے تھے۔ آپؑ یروشلم کے ایک گاؤں بیتُ اللّحم میں رہتے تھے۔ آٹھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ رنگ انار کی طرح سرخ تھا۔ آنکھیں گول تھیں اور چہرے پر ہلکی خَشخشی داڑھی تھی۔ قد چھوٹا تھا لیکن نہایت وجیہہ تھے۔ بہادر اور طاقتور تھے۔ جوانمردی کا یہ عالم تھا کہ شیر یا بھیڑیا اگر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پر حملہ آور ہُوا تو آپ اسے مار ڈالتے تھے۔ حضرت داؤد فَلاخَن (سنگریزیوں سے بھری ہوئی تھیلیاں پھینکنے کا آلہ) چلانے میں ماہر تھے۔ فَلاخَن اور عصا ہر وقت ہاتھ میں رہتا تھا۔ فَلاخَن چلانے میں حضرت داؤدؑ کا چرچہ عام تھا۔ فَلاخَن اتنی طاقت سے پھینکتے کہ جس چیز پر بھی گرتا تھا، ریزہ ریزہ ہوجاتی تھی۔ گفتگو نہایت شیریں تھی۔ مہذب اور باادب تھے۔ پورے علاقے میں آپ کی قدرومنزِلت تھی۔ بانسری اور بربط بجانے میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپؑ نے عبرانی موسیقی، مصری اور بابلی مَزامیر (بانسریاں، مُطربوں کے ہر قسم کے ساز) کو ترقی دے کر نئے نئے آلات ایجاد کئے۔

حضرت طالوتؑ کے دربار تک آپؑ کی رسائی تھی۔ حضرت سموئیل ؑ کو عمر کے آخری حصے میں وحی کے ذریعے حضرت داؤدؑ کی نبوت اور بادشاہت کی اطلاع دے دی گئی تھی ۔ حضرت سموئیل ؑ بیتُ اللّحم تشریف لائے اور حضرت داؤدؑ سے ملاقات کرکے انہیں خیر و برکت کی دعا دی۔

 

پتھروں کی زبان

ایک روز حضرت داؤدؑ جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں پڑے ہوئے ایک پتھر نے مخاطب ہو کر کہا:

‘‘میں حجرِ موسیٰؑ ہوں، مجھے اٹھالیجئے۔ میں وہی پتھر ہوں جس سے حضرت موسیٰؑ نے فلاں دشمن کو ہلاک کیا تھا’’۔

آپؑ نے پتھر اٹھاکر اپنے تھیلے میں رکھ لیا۔ کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک اور پتھر بولا:

‘‘میں حجرِ ہارون ؑ ہوں’’

آپؑ نے اسے بھی اپنے تھیلے میں رکھ لیا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد ایک پتھراورملا اس پتھر نے کہا:

‘‘میں حجرِ داؤدؑ ہوں، جو خدا کے نبی ہیں اور میرے ذریعے جالوت کو ماریں گے’’

آپؑ نے یہ پتھر بھی اٹھا کر اپنے تھیلے میں رکھ لیا تینوں پتھر تھیلے میں جاکر ایک ہوگئے۔

 

سپہ سالارِ جالوت

حضرت طالوت ؑ اور جالوت کی کثیرُ التّعداد فوج کا جب آمنا سامنا ہوا تو فوج کا سپہ سالار جالوت خود اور زِرہ پہن کر میدان میں اترا اور مُبارزت کے لئے للکارا۔ جالوت کا قد چھ ہاتھ ایک بالشت (توراۃ کے مطابق چھ ہاتھ کا مطلب 9فٹ) تھا۔  جو زِرہ پہنی ہوئی تھی اس کا وزن پانچ ہزار مثقال (تقریباً اکیس سو کلوگرام سے زیادہ) تھا ٹانگوں پر سات یوش (پیر سے گھٹنوں تک پیتل کے موزے) تھے اور دونوں شانوں کے درمیان پیتل کی برچھی تھی بالے لوہے کی شہتیر کی مانند تھے اور نیزے کا پھل چھ سو مثقال لوہے کا تھا جسے ایک سپاہی جالوت کے آگے آگے لے کر چلتا تھا۔

میدان جنگ میں جالوت للکارا۔ آواز اتنی رعب دار تھی کہ میدان میں گونجار پیدا ہوگئی۔ حضرت داؤد ؑ نے حضرت طالوت سے اجازت طلب کی اور میدان میں آگئے۔ آپؑ کے ہاتھ میں تلوار تھی نہ برچھی۔ ایک ہاتھ میں بکریوں کو سنبھالنے کے لئے لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں فَلاخَن اور کندھے پر سنگریزوں سے بھرا ہوا تھیلا لٹک رہا تھا۔ نوعمر اور قدوقامت میں کم نوجوان کو دیکھ کر جالوت نے قہقہہ لگایا اور تمسخرسے بولا… ‘‘کیا تم مجھے کتّا سمجھ کر بھگانے آئے ہو!’’۔

حضرت داؤد ؑ نے تھیلے میں سے پتھر نکالا اور فَلاخَن میں رکھ کر جالوت کی طرف پھینکا۔ فَلاخَن سے نکلا ہوا پتھر ماتھے کی ہڈی توڑ کر کھوپڑی میں گھس گیا۔ کبرونخوت کا پتلا، دیوہیکل جالوت منہ کے بل زمین پر گرپڑا۔ حضرت داؤد ؑ آگے بڑھے اور اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا۔ فلسطینی فوج اپنے سردار کا کٹا ہوا سر دیکھ کر سراسیمہ ہوگئی۔ بنی اسرائیلی فوج نے حواس باختہ دشمن پر حملہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فتح سے نوازدیا۔

اس شجاعت، بہادری اور جوانمردی کی وجہ سے حضرت داؤد ؑ کو بنی اسرائیل میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت طالوتؑ نے اپنی بیٹی عینیاہ کی شادی حضرت داؤد ؑ سے کردی اور ایک ہزار فوجی جوانوں کا دستہ آپ کی کمان میں دے دیا۔

‘‘اے داؤد! ہم نے کِیا تجھ کو نائب ملک میں، سوتو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے، اور خواہش کی پیروی نہ کرکہ تجھ کو بھٹکادے اللہ کی راہ سے، جو لوگ اللہ کی ر اہ سے بھٹکتے ہیں ان کو سخت عذاب ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلادیا’’۔  (سورۃ ص –  آیت 26)

حضرت طالوتؑ کی وفات کے بعد حضرت داؤد ؑ مقامِ نبوّت سے سرفراز ہوئے۔ آپؑ ان نبیوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ بادشاہی بھی عطا کی تھی۔

 

فکر و تدبر اور علم و حکمت

حضرت داؤد ؑ کی فکر وتدبر، شجاعت اور علم و حکمت کی بدولت بنی اسرائیل کا شمار جلد ہی دنیا کی مہذب اقوام میں ہونے لگا۔ بہت سے علاقے بھی اسرائیل کے زیرِتسلّط آگئے اور ایک عالیشان سلطنت وجود میں آگئی۔ حضرت داؤدؑ نے شرعی حدود جاری کیں، کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا۔ بنی اسرائیل کے مختلف قبائل میں باہمی ربط و تعلق استوار کیا… اور  بندگان خدا کو نیکی و ہدایت کی تلقین کی۔

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو کمال درجے کا فہم و ادرک اور عقل و دانش عطا فرمائی تھی۔

اور ہم نے ان کی سلطنت کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا کی اور بات کا فیصلہ کرنا سکھایا۔ (سورۃ ص –  آیت 20)

حضرت داؤدؑ کے معمولات میں شامل تھا کہ آپؑ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے اور تہائی رات میں عبادت کے لئے اٹھتے تھے۔

حضرت داؤدؑ کو زبور عطا ہوئی۔ زبور پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔ ہر کتاب میں متعدّد ‘‘مزمور’’ (حصّے) ہیں۔ ہر مزمور اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش، دعا، عاجزی اور دنیا و آخرت میں بھلائی اور اللہ سے پناہ مانگنے کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔ حوادثِ زمانہ سے زبور بھی متاثر ہوئی۔ زبور اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ہے۔

حضرت داؤدؑ بہت خوش الحان تھے جب آپؑ لحن کے ساتھ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو چلتا پانی ٹھہرجاتا، اڑتے پرندے آپ کے قریب آکر بیٹھ جاتے تھے، پہاڑ اور چرند پرند آپؑ کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح کرتے تھے۔

‘‘ہم نے تابع کئے پہاڑ، اس کے ساتھ پاکی بولتے شام کو اور صبح کو  ۝ اور اُڑتے جاندار جمع ہو کر سب تھے اس کے آگے رجوع رہتے۝’’

(سورۃ ص،  آیت 19-18)

حکمت:

آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آواز آپس میں رابطے کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔ آواز کی بدولت ہم بہت ساری چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ درختوں میں بیٹھی ہوئی چڑیوں کی چہکار، ہوا کی سائیں سائیں، کوؤں کی کائیں کائیں، کوئل کی کوک، بلبل کا ترانہ، پنگوڑے میں کھیلتے ہوئے بچوں کی کلکاریاں، گلی میں پھیری والے کی صدا …. اور اس طرح کی کئی آوازیں ہماری سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ بہت سی آوازیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ یہ آوازیں ہماری سماعت سے ٹکراتی تو ہیں مگر ہمارے کان انہیں نہیں سنتے…. ان آوازوں کا طول مَوج ہماری سماعت سے زیادہ یا کم ہوتا ہے۔

سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی سماعت کا دائرہ، بیس ہرٹز (20 Hz) سے بیس ہزار ہرٹز (20 kHz) فریکوئنسی تک محدود ہے …. جبکہ وَرائے صَوت مَوجوں (Ultrasound Waves) کی فریکوئنسی بیس ہزار ہرٹز سے دو کروڑ ہرٹز تک ہوسکتی ہے…. اس لئے ہم ان آوازوں کو سن نہیں سکتے۔

مَوج (Wave) مخصوص فاصلے کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طول مَوج (Wavelength) کہلاتا ہے۔ طُول مَوج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ نیچے دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی مَوج کے جتنے سائیکل (Cycle) گزرجاتے ہیں وہ مَوج کی فریکوئنسی کہلاتی ہیں۔ طول مَوج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے جبکہ طول مَوج کم ہونے کی صورت میں فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔ فریکوئنسی اگر بہت بڑھ جائے تو لہریں یا موجیں شعاعیں بن جاتی ہیں جو سیدھی چلتی ہیں۔ کم طول مَوج اور زیادہ فریکوئنسی ہونے کی وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزرجانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج، صنعت و حَرفت اور تحقیق و تلاش کے لئے الٹراساؤنڈ ویوز (Ultrasound Waves) کا استعمال اب عام ہوگیا ہے۔ صدائے بازگشت (Echo) کے اصول اور اِرتعاش (Vibration) کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں اور مادے کی مختلف حالتوں کے درمیان امتیاز کرسکتی ہیں۔

قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز ہماری حمد و ثناء بیان کرتی ہے۔ یعنی کائنات میں موجود ہر شے بولتی ہے، سنتی ہے اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔

‘‘ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان کررہی ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں، کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھنے نہیں ہو’’  (بنی اسرائیل، آیت 44)

پرندوں اور پہاڑوں کا حضرت داؤدؑ کے ہمراہ تسبیح کرنے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ

‘‘ قوی ہمت والا نفس جب کسی کیفیت سے بھرجاتا ہے تو اس کے قریب رہنے والے نفوس اور ان کی طبیعت میں بھی اس کی کیفیت سرائیت کرجاتی ہے اور جب قوی ہمت نفس کسی پتھر یا درخت سے وقت کے موافق کوئی معرفت سنتا ہے تو اس کی قوت دوسرے لوگوں میں بھی سرائیت کرتی ہے اور پھر وہ بھی اسی طرح سنتے ہیں جس طرح اُس نے سنا تھا’’۔

‘‘اور ہم نے دی داؤد کو اپنی طرف سے بڑائی…. اے پہاڑو! پڑھو اُس کے ساتھ اور اُڑتے پرندو! ….. اور نرم کردیا ہم نے اُس کے آگے لوہا  ۝

کہ بنائے کشادہ زِرہیں اور اندازے سے جوڑ کر کَڑیاں…. اور کرو تم سب سے کام بھلا، میں جو کچھ کرتے ہو دیکھتا ہوں’’ ۝

(سورہ سبا، آیت11-10)

 

لوہے سے ایجادات کا ظہور

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا فرمائی تھی اور آپؑ لوہے کو ہاتھوں کے ذریعے ڈھالنے پر مُلکہ رکھتے تھے۔ آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ لوہے کا باقاعدہ استعمال پہلے پہل 1000 ق م میں ہُوا اور یہ حضرت داؤدؑ کا زمانہ ہے۔ آپؑ کے زمانے میں لوہے کو پگھلانے اور اس سے چیزیں تیار کرنے کے طریقے دریافت ہوچکے تھے لیکن وہ اتنے پیچیدہ تھے کہ ان سے تیار کی جانے والی اشیاء بہت قیمتی تصور کی جاتی تھیں۔ حضرت داؤدؑ نے آہن سازی کے نئے طریقوں کو فروغ دیا جس کی بدولت لوہے کا استعمال عام ہوگیا اوراس تحقیق کی بدولت آپؑ کی قوم کو جنگوں میں بھی برتری حاصل ہونے لگی کیونکہ اس زمانے میں جنگ کے دوران حفاظت کا سب سے مؤثر ذریعہ زِرہیں( آہنی لباس) اور خود (آہنی ٹوپی) تھے۔ آپؑ نے آہن سازی کی صنعت کو عروج پر پہنچادیا۔

موسیقی، ساز اور آواز میں خوبصورت آہنگ ہے۔ نئے سُر اور ساز تخلیق کرنا اُس وقت ہی ممکن ہے جبکہ موسیقار ساز و آواز کے قوانین سے واقف ہو اور ان پر عبور بھی رکھتا ہو۔ حضرت داؤدؑ خوش الحان تھے اور آوازوں کے علم کے ماہر تھے۔ ان صلاحیتوں کی بناء پر آپؑ نے عبرانی موسیقی کو نئے زاویئے دیئے اور اُس کے اصو ل مُدوَّن کئے۔ ساتھ ہی آپؑ نے مصری اور بابلی مَزامیر پر تجربات کئے اور نئے آلات موسیقی ایجاد کئے۔
حضرت داؤدؑ ذکر الٰہی میں مشغول تھے کہ اندر کی آنکھ نے دیکھا، بیت المقدس پر ملائکہ اتر رہے ہیں۔ بیت المقدس جالوت نے منہدم کرادیا تھا اور اس کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ آپ نے ربّ کریم کے حضور استدعا کی کہ بیت المقدس کی تعمیر کو ان کی نیکیوں میں سے ایک نیکی بنادے۔

حضرت داؤدؑ کے دَور میں لوگوں نے سنیچر کے دن کا احترام ترک کردیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ کی شریعت کے مطابق بنی اسرائیل کو سنیچر کے احترام کی تاکید کی گئی تھی۔ انہیں حکم تھا کہ ہفتہ کا دن عبادت کے لئے مخصوص ہے، اس روز شکار نہ کریں اوردنیاوی مشاغل ترک کردیں۔ شہر اِیلہ میں آباد اسرائیلیوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا کہ دریا کے کنارے بہت سے گڑھے کھود کر نالیاں بنارکھی تھیں۔ جمعہ کے روز نالیاں کھول دیتے تھے۔ دریا کا پانی گھڑوں میں جمع ہوتا رہتا تھا اور پانی کے ساتھ مچھلیاں بھی گڑھوں میں پہنچ جاتی تھیں جنہیں وہ اتوار کی صبح پکڑلیتے۔ اس تدبیر سے بنی اسرائیل ہفتہ کے دن کے کاروباری نقصان کو پورا کرلیتے تھے۔

حضرت داؤدؑ نے انہیں اس عمل سے باز رہنے کی ہدایت کی لیکن بنی اسرائیل نے یہ وَطیرہ ترک نہیں کیا۔ نافرمانی کی سزا کے طور پر ان کی شکلیں مسخ کرکے بندر بنادیا گیا۔ ان کے عقل و حواس قائم رہے لیکن قوت گویائی ختم ہوگئی۔ ان کے جسم سے بدبو کے بھپکے اٹھنے لگے اور تین روز تک روتے روتے ہلاک ہوگئے۔ اُن کی تعداد ستر ہزار بتائی جاتی ہے۔

‘‘اور جان چکے ہو کہ جنہوں نے تم سے زیادتی کی ہفتے کے دن میں تو ہم نے کہا ہوجاؤ بندر پھٹکارے ہوئے’’

(سورۃ البقرہ آیت 65)

 

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تشریح

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے شکلیں مسخ ہونے کی تشریح اس طرح کی ہے کہ مچھلی فاسد المزاج اور بدبودار ہوتی ہے اللہ کے حکم کے خلاف نافرمانی کرکے جب بنی اسرائیل اس کو کھاتے رہے تو فساد مزاج ان میں بھی سرائیت کرتا رہا اور ان کے جسم مثالی میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منع کرنے کے بعد حلال غذا حرام ہوگئی حلال خوراک سے جو انرجی بنتی تھی اس میں تبدیلی آگئی یہ تبدیلی بڑھتے بڑھتے جب ایک حد کو پہنچ گئی تو ان کے جسموں پر پرندوں کی طرح بال نکل آئے اور وہ بندر بن گئے اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط ہوگئی۔

لیزر شعاعیں

حضرت داؤد علیہ السلام کے واقعہ میں تفکر موجودہ دَور کی جدید ترین ایجاد ‘‘لیزر بیم’’  کے اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے۔

روایت ہے کہ حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں میں ایسی توانائی تھی کہ‘‘لوہا’’  ان کے ہاتھوں میں موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا اور وہ بڑی آسانی سے لوہے کو ہاتھوں کی توانائی سے جوڑ کر زِرہ اور کَڑیاں بنا کر زنجیر بنالیتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت داؤدؑ لیزر شعاعوں سے واقف تھے۔ اس لئے جب وہ لیزر شعاعوں کا استعمال کرتے تھے تو سخت لوہا نرم ہوجاتا تھا اور وہ اس سے زِرہ، کَڑیاں، زنجیریں اور خود بنالیتے تھے۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ لیزر کیا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے؟

لیزر واحد رنگ کی ایک طاقتور اور توانا ترین شعاع ہے جو کہ سخت سے سخت دھات کو لمحوں میں پگھلاسکتی ہے۔

لفظ لیزر  (Laser) انگریزی جملے ‘‘Light Amplification by Stimulated Emission of Radiation’’  کا مخفف ہے۔

جس کا مطلب ہے….  ‘‘توانا ترین شعاع اَفشانی کے ذریعے روشنی کا پھیلاؤ’’

لیزر شعاع اور عام روشنی میں یہ فرق ہے کہ:

  • عام روشنی سات مختلف رنگوں سے مل کر بنی ہے لیکن لیزر یک رنگ شعاع ہے۔
  • عام روشنی کو منشور سے گزارا جائے تو وہ سات مختلف ر نگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے لیکن لیزر شعاع منشور میں گزرنے کے بعد بھی اپنے ایک رنگ میں برقرار رہتی ہے۔
  • عام روشنی کی بیم 1000 فٹ دور کسی دیوار پر ڈالی جائے تو یہ روشنی تقریباً 200 فٹ علاقہ میں پھیل جائے گی اور اس کی طاقت کم ہوجائے گی جبکہ لیزر شعاع کا پھیلاؤ کا قُطر (ڈایا میٹر) زیادہ سے زیادہ ایک فٹ ہوگا اور اس کی طاقت بھی برقرار رہے گی۔ وجہ یہ ہے کہ عام روشنی میں شامل ہر رنگ کی لہر کا طول مَوج مختلف ہے جب ایک لہر کا فراز دوسری لہر کے نشیب سے ٹکراتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو ردّ کردیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روشنی اپنے منبع سے اخراج کے بعد مختلف سمتوں میں سفر شروع کردیتی ہے جبکہ لیزر شعاع میں لہروں کے نشیب و فراز یکساں ہوتے ہیں اس لئے یہ ایک دوسرے میں پیوَست اور متحد رہتی ہے اور ایک سیدھ میں طویل فاصلہ طے کرلیتی ہیں اور ہمیشہ یکساں حالت میں رہتی ہیں۔

لیزر کی کہانی تب شروع ہوئی جب طبعیات دان ایٹم کے راز فاش کررہے تھے۔

1920ء  میں امریکی طبعیات داں ٹی ایچ مائی مین  (Theodore Harold Maiman)نے پہلا لیزر عملی طور پر بنایا۔ اُس نے مصنوعی یاقوت کی ایک سلنڈر نما سلاخ استعمال کی جس کے سروں کو کاٹ دیا گیا تھا اور پالش کرکے بالکل ہموار اور متوازی بنالیا گیا تھا۔ اِس سے مختصر فا صلے تک جانے والی خالص سرخ روشنی کی لہریں خارج ہوئیں، جن کی شدت سورج کی کرنوں سے ایک کروڑ گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ آج بھی سب سے طاقتور لیزر وہی ہے جس میں‘‘یاقوت’’  استعمال کیا جائے۔

روبی لیزر (یاقوت والے لیزر) کے بعد 1920 ء ہی میں گیس لیزر بنایا گیا اسے امریکا کی مشہور فرم ‘‘بیل ٹیلیفون لیبارٹریز’’ (BTL) میں …. علی جوان (Ali Javan) اور ڈبلیو آر بینٹ جونیئر (William R. Bennett, Jr.) نے بنایا۔ گیس لیزر سے مسلسل شعاع حاصل ہونے کے باوجود اس کی طاقت روبی لیزر سے کم ہے، جس کی شعاع غیرمسلسل ہے۔

لیزر اور اس کی کارکردگی کو سمجھنے سے پہلے ایٹم سے متعلق چند بنیادی معلومات کا ہونا ضروری ہے۔

یونانی زبان میں‘‘ایٹم’’ (Ατομο) کے معنی ہیں…. ‘‘نہ تقسیم ہونے وال’’

یونانی زبان میں‘‘ٹوم’’ تقسیم کرنے کو کہتے ہیں۔ آریائی زبانوں میں‘‘آ’’  نفی کا کلمہ ہے۔ جس طرح ہندی زبان میں‘‘اٹل’’  کے معنی…. ‘‘نہ ٹلنے والا’’  کے ہیں…  اسی طرح یونانی زبان میں ایٹم کے معانی ‘‘ناقابلِ تقسیم’’  کے ہیں۔

ایٹم کا نام یونان کے فلسفی دِ مِقراط (Democritus) کا وضع کردہ ہے۔

اُس کا نظریہ تھا کہ دنیا کی ہر شئے نہایت چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذرّوں (ایٹموں) سے بنی ہے۔ اُس کے خیال میں ہر ایٹم کا ایک سائز ہے، لیکن وہ اتنا کم ہے کہ آنکھ سے دکھائی نہیں دے سکتا۔ بعد کی تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ ایٹم کا سائز ایک انچ کا ڈھائی کروڑواں حصہ (1/25,000,000) ہے …. گویا سوئی کی نوک پر ایک لاکھ ایٹم رکھے جاسکتے ہیں۔ پنسلوینیا یونیورسٹی (University of Pennsylvania) میں چند سال پہلے ایک الیکٹرانک خوردبین کی مدد سے ایٹم کو دو لاکھ پچھتر ہزار (275,000) گُنا بڑا کرکے نہ صرف دیکھا گیا بلکہ ایٹم کے اولین فوٹو گراف بھی لئے گئے۔

 

دِمِقراط کے مطابق:

‘‘ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے ایٹم بھاری ہوتے ہیں۔

انسان اور دوسرے جانداروں کی روح بھی ایٹموں سے بنی ہے۔

روح کے ایٹم دیگر تمام اشیاء کے ایٹموں سے چھوٹے اور ہلکے ہوتے ہیں۔

جب روح کے تمام ایٹم انسان کے بدن سے نکل جاتے ہیں تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔،،

 

ایٹم کا جدید نظریہ برطانیہ کے ماہر طبعیات جان ڈالٹن (John Dalton) نے 1808ء میں پیش کیا۔

ڈالٹن نے کہا کہ:

مادّہ خواہ کسی بھی شکل میں ہو، ایٹموں سے بنتا ہے۔

کسی عنصر (Element) کے تمام ایٹم سائز اور وزن میں ایک جیسے ہوتے ہیں… اور

جو خصوصیات کسی عنصر کی ہوتی ہیں وہی تمام خصوصیات ہوبہو اس کے ایٹم کی بھی ہوتی ہیں

ایٹموں کی باہمی ترکیب اور اتحاد سے‘‘سالمہ’’  (Molecule) بنتا ہے

اگرچہ ایٹموں کے مختلف مرکبات (Mixture) سے مختلف اشیاء بنتی ہیں لیکن سالمے کے ایٹم کبھی تبدیل نہیں ہوتے

ڈالٹن نے بتایا کہ….

خاص اشیاء بنانے کے لئے ایٹم خاص مرکبات کی صور ت میں یکجا اور متحد ہوجاتے ہیں…. مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم کے ساتھ مل کر پانی بناتے ہیں۔ ہائیڈروجن کے تین ایٹم نائٹروجن کے ایک ایٹم کے ساتھ مل کر امونیا بناتے ہیں۔

برطانیہ ہی کا مشہور طبعیات داں سر جے جے تھامسن (J. J. Thomson) پہلا شخص تھا جس نے طویل تحقیق کے بعد بتایا کہ :

ایٹم کے اندر برقی لحاظ سے مثبت میدان ہوتا ہے جس میں منفی الیکٹران باہم گتھے ہوئے ہوتے ہیں

‘‘الیکٹران’’  کی دریافت کا سہرا سر جے جے تھامسن ہی کے سر ہے۔

 

تھامسن کے بعد لارڈ اَرنیسٹ  رُتھرفورڈ (Lord Ernest Rutherford) نے نظریہ پیش کیا کہ…

ایٹم میں انتہائی مضبوط مرکزہ  (Nucleus) ہوتا ہے جس کے گرد بہت سے الیکٹران گردش کرتے ہیں

‘‘مرکزہ’’  مثبت برق دار (Positive Charged) ہوتا ہے اور ایٹم کی اصلیت و قوت اسی مرکزہ پر منحصر ہے۔

لارڈ  رُتھرفورڈ نے یہ بھی بتایا کہ

ایٹم زیادہ تر کھوکھلا ہوتا ہے یا ‘‘خلاء’’  پر مشتمل ہے۔

ایٹم کے مرکزے میں پروٹانز کی تعداد مرکزے کے گرد مَدار (Orbit) میں موجود الیکٹرانز کی تعداد کے برابر ہوتی ہے۔

ایٹم جتنا چھوٹا ہوتا ہے اس کے اندر ‘‘خالی پن’’  اتنا زیادہ ہوتا ہے۔

 

ایٹم کے اندر خلا کو سمجھنے کے لئے تخیلاتی طور پر اپنے ذہن میں ایٹم کے مرکزے کو ایک فٹ بال کے برابر تصور کرلیں۔

اس تناسب سے الیکٹران مرکزے سے ایک ایک میل کے فاصلے پر اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہوئے ایک دائرہ بنارہے ہوں گے

اس دائرے کا قُطر ایک سرے سے دوسرے سرے تک دو میل ہوگا

اب پورے دائرے پر نظر ڈالیں، کتنی جگہ ٹھوس ہے؟ اور کتنی جگہ میں خلاء ہے؟

اس تخیلاتی ایٹم کی تمام کمیّت جو کہ ایٹم کے وزن کی ذمہ دار ہے اس کے مرکزے میں جمع الیکٹران جو اس کے گرد فاصلے پر گھوم رہے ہیں، فی الحقیقت بالکل بے وزن ہیں۔

آسان اور سادہ ترین ایٹم ہائیڈروجن کا ہے، جسے بعض سائنسدان ‘‘بنیادی ایٹم’’  کہتے ہیں۔ یہ سب سے ہلکا ہے۔ اس کے مرکزے میں صرف ایک ذرّہ پروٹان ہوتا ہے اور اس کے گرد صرف ایک الیکٹران گھومتا ہے۔ ایٹم کو سمجھنے کے لئے نظام شمسی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے…. جس طرح نظام شمسی کا مرکز سورج ہے جس کے گرد سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں اسی طرح ایٹم کے قلب میں مرکزہ ہے اور اس کے گرد الیکٹران سیاروں کی مانند اپنے مداروں میں گھوم رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ الیکٹران مرکزے کے گرد کیوں گھومتے ہیں وہ کون سی قوت ہے جو الیکٹرانوں (سیاروں) کو مرکزے (سورج) کے گرد گھمائے رکھتی ہے؟

جواب یہ ہے کہ…. مثبت برق دار ذرّہ اس ذرّے کے لئے زبردست کشش رکھتا ہے جو منفی برق دار ہے۔ تمام الیکٹران منفی چارج کے حامل ہوتے ہیں۔ مرکزے میں مثبت برق دار ذرّہ پروٹان ہوتا ہے۔ مثبت اور منفی کی باہمی کشش مرکزے اور الیکٹرانوں کو ایک دوسرے سے باہم مربوط و پیوَست رکھتی ہے۔ ایٹمی پیمانے کے دوسرے انتہائی سرے پر یورینیم کا ایٹم ہے، جو تمام قدرتی عناصر میں سب سے بھاری ہے اس کے مرکزے کے گرد 92الیکٹران گھومتے ہیں۔

چونکہ ایٹم کا تمام تر وزن فی الحقیقت اس کے پروٹان میں ہوتا ہے…. اس لئے یہ فرض کرلیا گیا کہ ہیلیم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے ایٹم سے دُگنا ہونا چاہئے۔ چوتھا عنصر بیری لیم جو چار پروٹان اور چار الکیٹرون پر مشتمل ہے اسے ہائیڈروجن سے چار گنا وزنی ہونا چاہئے…. لیکن صورت حال مختلف ہے اس کا وزن نو گنا زیادہ ہے۔

اب سائنسدانوں کے سامنے یہ سوال درپیش تھا کہ یہ فالتو وزن کہاں سے آگیا؟

اس کی تحقیق میں سر جیمز چَیڈوِک (Sir James Chadwick) نے ‘‘نیوٹران’’  دریافت کیا۔ یہ تحت ایٹمی ذرّہ (Sub Atomic Particle) ہے اور جوہری توانائی (Atomic Energy) کا پورا نظریہ اس ذرّے پر منحصر ہے۔

سر چَیڈوِک نے دریافت کیا کہ نیوٹران کا وزن لگ بھگ وہی ہے جو پروٹان کا ہے، لیکن یہ برقبار (Charged) نہیں ہوتا۔ ایٹم کے اندرونی نظام میں اس کا کام کمیّت بڑھانا ہے…. اس صورت میں کہ کمیّت بڑھانے کے معاوضے میں فالتو الیکٹران کا تقاضا نہ کرے۔ اس دریافت پر اُسے  1935ء میں طبعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔

مختلف ایٹموں کا وزن مختلف ہونے کا راز فاش ہونے کے بعد پتہ یہ چلا کہ…. ہائیڈروجن کے سوا باقی تمام عناصر کے مرکزوں میں نیوٹران کی تعداد کم از کم اتنی ضرورہوتی ہے جتنے کہ پروٹان ہوتے ہیں اور کبھی کبھی یہ تعداد زیادہ بھی ہوجاتی ہے۔

ایٹم کے اندرونی نظام کی ایک اور دلچسپ اور مفید سراغ رسانی روس کے سائنس دان دِمِتری مَیندیلیف (Dmitri Mendeleev) نے کی۔ اُس نے دریافت کیا کہ عناصر میں باقاعدہ کیمیائی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اس نے عناصر کا ‘‘بنیادی نقشہ’’ (PeriodicTtable)  مرتّب کیا جس سے ظاہر ہوا کہ عناصر کے بعض گروپ یکساں قسم کی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں، حالانکہ ان کے ایٹمی وزن بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ عناصر کے ان گروپوں کا نام خاندان (Group or Family) رکھا گیا۔

مثال کے طور پر…..

تمام جامِد گیسیں (ہیلیم، نیون، کریپٹان، ریڈان) مقررہ سانچے کے ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

تانبے، چاندی اور سونے کا اپنا الگ خاندان ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے …. ہر ایٹم میں الیکٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ یہ الیکٹران مرکزے کے گِرد بِلامقصد، بے ہنگم اور بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے نہیں ہوتے۔ نظریہ یہ کہتا ہے کہ الیکٹران انتہائی ترتیب اور توازن کے ساتھ اپنے مداروں میں تہہ در تہہ گندھے ہوئے ہیں۔ مرکزے کے قریب والی تہہ دو الیکٹرانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ والی دوسری تہہ میں آٹھ الیکٹران اور تیسری تہہ میں بھی آٹھ الیکٹران ہوتے ہیں ۔نظریے کی رُو سے ایٹم کو اپنی بیرونی سطح میں آٹھ الیکٹرانوں کی مرکب تعداد پسند ہے۔ یعنی آٹھ، سولہ، بتیس وغیرہ۔ اگر ایٹم میں حسنِ ترتیب کے لحاظ سے الیکٹرانز کی صحیح تعداد موجود نہ ہو تو وہ کسی اور عنصر کے ایٹم کی جستجو میں رہتا ہے…. تاکہ اس کے الیکٹرانز کی شراکت اور ملاپ سے اپنا بیرونی خول صحیح معنوں میں مکمل بناسکے۔

الیکٹران کا یہ نظریہ کہ وہ اپنے مدار میں ترتیب سے جڑے ہوئے ہیں، اس وقت مفید اور مددگار ثابت ہوتا ہے جب ہم ایٹم کو کیمیائی شئے خیال کرتے ہیں۔ لیکن یہ نظریہ ایٹم کے طبعی خواص کی وضاحت نہیں کرتا۔

مثال کے طور پر یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ….

الیکٹران وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج تھکتے کیوں نہیں؟

ان کی توانائی میں کمی کیوں نہیں آتی؟

وہ ٹوٹ پھوٹ کر نڈھال ہو کر ایٹم کے مرکزے میں گر کیوں نہیں جاتے؟

ان سوالات کا جواب ڈنمارک کے ماہر طبعیات نیلس بوہر (Niels Bohr)نے معلوم کیا ۔ بوہر،  لارڈ رُتھرفورڈ کارفیق کِار بھی تھا۔ اس نے ایک خاصہ پیچیدہ نظریہ پیش کیا جسے آج دنیا بھر میں قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔

اس نے کہا کہ:

الیکٹران مرکزے کے گِرد اگِرد توانائی کی مختلف سطحوں (Orbits) پر ایک خاص ترتیب سے پھیلے ہوئے، گھوم رہے ہیں۔

وہ ایک سطح سے چھلانگ لگا کر دوسری سطح میں داخل ہوسکتے ہیں لیکن دو سطحوں کے درمیان معلّق نہیں رہ سکتے۔

جب کوئی ایٹم کسی بھی قسم کی اِشعاعِ حرارت (Thermal Radiation)، کاسمک ریز یا روشنی کی شعاعوں کے زیراثر آتا ہے تو اس کے الیکٹرانوں میں توانائی آجاتی ہے اور وہ چھلانگ لگا کر اونچی سطح میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جب بیرونی توانائی ختم ہوجاتی ہے تو الیکٹران چھلانگ لگا کر واپس قریب کی نچلی سطح میں آجاتے ہیں۔

کسی ایٹم کو جب عام حالت میں توانائی فراہم کی جاتی ہے تو وہ بلند سطح پر چلاجاتا ہے۔ اس حالت کو برانگیختہ حالت کہتے ہیں۔ قبول شدہ توانائی کی مقدار کو اصطلاح میں ‘‘پیکٹ’’  کہا جاتا ہے۔ ایٹم دوبارہ اپنی عام حالت میں آنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ توانائی جو اُس نے جذب کی تھی روشنی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں کی شکل میں خارج کرتا ہے۔ یہی پیکٹ فوٹان (Photon) کہلاتے ہیں۔ اب اگر کوئی ایسا طریقہ استعمال کیا جائے جس کے ذریعہ یہ فوٹان ایک ہی سمت میں اور ایک ہی فیز (Phase) میں حرکت کریں تو ہمیں طاقتور شعاع….  لیزر حاصل ہوجائے گی۔

ہر شئے کے مالیکیول ایک خاص فریکوئنسی سے حرکت کرتے ہیں۔ ان پر بجلی یا حرارت وغیرہ اثرانداز ہو تو ہر ایٹم سے جداگانہ طور پر فوٹان کا اخراج ہوتا ہے جس کی دوسرے ایٹموں سے خارج ہونے والے فوٹان سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ چنانچہ روشنی کی شعاع برقی مقناطیسی لہروں کا پیچیدہ آمیزہ بن جاتی ہے۔

لیزر کا اصول یہ ہے کہ فوٹان کا اخراج ہر ایٹم خود نہ کرے بلکہ اسے ایسے اخراج پر مجبور کیا جائے جس میں فوٹان ایک ہی سمت میں خارج ہوں اور ان سب کا فیز (نشیب و فراز) ایک ہی ہو۔

بعض عناصر سے توانائی اِشعاع (Radiation) کی صورت میں خود بخود خارج ہوتی رہتی ہے۔ ایسے عناصر میں سب سے پہلا عنصر جو دریافت ہُوا وہ یورینیم تھا….. لیکن توانائی کا اس سے بھی بڑا منبع ریڈیم ثابت ہوا ہے۔ یہ دریافت پائرے کیوری اور مادام کیوری نے کی۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ریڈیم ایک تابکار دھات ہے یعنی اس میں سے شعاعیں نکلتی ہیں جو دیکھی جاسکتی ہیں اور ان کی پیمائش بھی کی جاسکتی ہے۔ تجربات سے انہوں نے حرارت کی معمولی مقدار حاصل کی جس کی پیمائش بھی ہوسکتی تھی۔ بعض دوسرے سائنسدانوں نے، جو ایک مدت سے ریڈیم کا مطالعہ کررہے تھے، دریافت کیا کہ ریڈیم کی شعاعیں ناپی بھی جاسکتی ہیں اور مقناطیسی میدان کے ذریعے ان کا رخ بھی موڑا جاسکتا ہے اور اس عمل کے دوران میں ریڈیم سے ایک گیس نکلتی ہے جو ہیلیئم سے مشابہ معلوم ہوتی ہے…. ایسی گیس جس کے دو الیکٹران ضائع ہوچکے ہوں اور اس کا ذرّہ اتنا چھوٹا اور تیز رفتار ہوتا ہے کہ پتلے شیشے سے گزرسکتا ہے۔

لارڈ رتھرفورڈ اور فریڈرک سوڈی (Frederick Soddy) نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس سے ایٹم کی تحقیق میں نئے باب کا اضافہ ہوگیا۔

اوّل روز سے یہ کہا جارہا تھا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے لیکن انہوں نے ثابت کردیا کہ ایٹم قابل تقسیم ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ریڈیم کا ایٹم مسلسل انتشار اور تقسیم در تقسیم کی حالت میں رہتا ہے۔ فعال ذرّات ایک طرف ہٹ جاتے اور ایک ہلکا پھلکا ایٹم رہ جاتا ہے جو طبعی اور کیمیائی لحاظ سے اصلی ریڈیم سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ باقی ماندہ ایٹم ایک عام سا عنصر ہے جسے سیسہ کہا جاتا ہے۔

مقناطیسی لہروں پر مشتمل لیزر شعاع اصل میں یک رنگی روشنی کی ایک انتہائی طاقتور صورت ہے جو کہ طَیف (Spectrum) کے مَرئی حصّے (Visible Part) کے علاوہ بالائے بنفشی (Ultraviolet) اور زیریں سرخ (Infrared) حصہ میں بھی ہوتی ہے۔

اس کی مثال مرکری اور سوڈیم سے خارج شدہ روشنی ہے۔ ٹھوس اشیاء کو کاٹنے اور ان میں سوراخ کرنے کے لئے جو لیزر استعمال ہوتی ہے وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ لیزر کہلاتی ہے جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائیٹروجن کے باہمی ملاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہایت طاقتور زیریں سرخ شعاعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایسی لیزر کسی جسم میں داخل ہو کر اس کی اندرونی توانائی بڑھادیتی ہے۔ نتیجتاً اس حصے کا درجہ حرارت لیزر کے ٹکراؤ کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور وہ بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔

 

تحقیق روشنی کے تانے بانے پر قائم ہے

تحقیقی پراسس کے مطابق ہر فرد روشنی کے جال پر نقش ہے۔ یہ جال مُفرد اور مرکب لہروں سے بنا ہوا ہے۔ ہر انسان میں مرکب لہروں کے ساتھ مُفرد لہریں بھی موجود ہیں۔ اسمائے الٰہی کے علوم کے تحت مُفرد لہروں کو کہیں بھی عارضی طور پر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت داؤدؑ جب لوہے کی زِرہیں، خود اور دوسری اشیاء بناتے تھے تو مُفرد لہروں یعنی لیزر شعاعوں کو ہاتھوں اور انگلیوں میں جمع کرکے سامانِ حرب تیار کرلیتے تھے۔ ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں حضرت داؤدؑ کے زمانے کی لوہے کی ہنڈیا رکھی ہوئی ہے جو اس طرح بنائی گئی ہے جیسے کمہار ہاتھ سے مٹی کی ہنڈیا بناتا ہے۔

کائنات کی ساخت دو رُخوں پر کی گئی ہے۔ کائنات میں بے شمار مخلوقات میں قابلِ تذکرہ مخلوقات فرشتے، جنات اور انسان ہیں۔ یہ تینوں مخلوقات ہماری زمین کی طرح ہر عالَم اور ہر زمین پر موجود ہیں۔ ہر مخلوق کو روشنیاں فیڈ کرتی ہیں۔ روشنی لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ فرشتوں اور جنات کی تخلیق میں مُفرد لہریں اور انسان کی تخلیق میں مرکب لہریں کام کرتی ہیں۔

کپڑے کی مثال سے بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔

کپڑا تانے بانے سے بُنا جاتا ہے۔ تانے اور بانے کو شعاع یا لہر قراردے دیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ متحرک لکیریں(دھاگے کے تار) اگرچہ ایک دوسرے سے الگ ہیں مگر ایک دوسرے میں پیوَست بھی ہیں۔ اس کپڑے کے اندر اگر نقش و نگار بنادیئے جا ئیں تو یہ انسان اورانسان کی دنیا ہے۔ یعنی تانے بانے یا مرکب لہروں پر نقش و نگار کا نام …. آدمی ہے۔

مرکب لہروں کی بجائے ایک سیدھی لہر (ایک دھاگہ) سے کپڑا بنایا جائے اور اس کپڑے کے اوپر اعضاء کے نقوش سے تصویر بنائی جائے تو یہ فرشتے یا جن کی تصویر ہوگی۔

ایک لہر یا مُفرد حرکت، جنات کی دنیا ہے…. اور

دوسری لہر یا مرکب حرکت انسان کی دنیا ہے

مُفرد لہر یا نَسمہ مُفرد کا جسم مادّی آنکھ سے نظر نہیں آتا…. البتہ

مرکب لہر سے بنا ہوا مادّی جسم گوشت پوست کی آنکھ دیکھ لیتی ہے

مُفرد لہر ہر شئے میں سے گزر جاتی ہے۔ اگر انسان کے اوپر مُفرد لہر کا غلبہ ہوجائے تو وہ ٹھوس دیوار میں سے گزرسکتا ہے۔ آسمانوں میں پرواز کرسکتا ہے۔ کسی شئے کی ماہیت قلب میں تبدیلی کرسکتا ہے۔

فرشتوں کے لئے ہماری ٹھوس دنیا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ موٹی سے موٹی دیوار میں سے اس طرح گزرجاتے ہیں جس طرح ہَوا کھلی کھڑکی میں سے گزر کرکمرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جنات بھی مرکب لہروں سے بنے مادّے (Matter) کے ٹھوس پَن سے متاثر نہیں ہوتے۔

 

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 104 تا 124

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)