ترتیب و پیشکش

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47143

دورِ حاضر کے روحانی استاد اور بزرگ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب مدّ ظلّہ العالی کے کتابچوں پر مبنی تین کتابیں

1۔ اسم اعظم – (19 کتابچے) – 1995-7-9

2۔ قوس قزح – (14 کتابچے) – 2003-01-27

3۔ محبوب بغل میں – (13 کتابچے) – 2003-1-27

آپ نے پڑھی ہوں گی اور اپنے استاد کی زیر نگرانی تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل یعنی مراقبہ بھی اس کے مطابق کیا ہوگا۔

آپ سے وعدہ تھا کہ مزید کتابچے آئیں گےتو ان کو بھی کتابی شکل میں پیش کر دیا جائے گا۔ کتابچہ پڑھنے کے بعد اکثر طالب علم وہ کتابچہ کہیں رکھ دیتا ہے۔ پھر جب اس کو دوبارہ ڈھونڈتا ہے تو وہ ملتا نہیں اس لیے سب کتابچوں کو کتابی شکل دے دی گئی ہے تاکہ آپ جب چاہیں اور جہاں چاہیں مرشد کریم کے مضامین کو گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور ساتھ ساتھ اسی مناسبت سے پریکٹیکل یعنی مراقبہ کریں۔ اب چوتھی جلد میں مزید کتابچوں کو شامل کر کے موت و زندگی کے نام سے پیش کی جارہی ہے۔ اس میں کچھ کتابچے کراچی ورکشاپ کے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءکا ارشاد ہے اور ہر اولیاء اللہ کا قول بھی ہے کہ ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا۔ اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پایا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں سپیس (Space) کا علم مِلا ہُوا ہے۔ سپیس کا علم، علم کی تجلی کو دیکھتا ہے۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جائے، کانوں سے سنائی دے تو تجلی نظر آتی ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (سورۃ الشوریٰ – 51):

کسی کو طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کر ے مگر تین طریقوں سے

  1. وحی کے ذریعہ
  2. رسول کے ذریعہ یا
  3. حجاب سے

یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے۔

  • وحی اسے کہتے ہیں کہ جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جائے اور پردے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آ جائے اور ایک آواز آتی ہے۔
  • فرشتہ کے ذریعہ یا رسول کے ذریعہ کے معنی یہ ہیں کہ فرشتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طرف سے بات کرتا ہے۔
  • حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شکل سامنے آتی ہے او اس طرح بات کرتی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالی ہے حالانکہ وہ اللہ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے۔

مومن کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر حالت کو، چاہے وہ خوشی کی ہو، غم کی ہو یا مالی فراوانی کی ہو…. ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر مصیبت میں ثابت قدم رہتا ہے۔ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں وہ کبھی نا امیدی کی دلدل میں نہیں پھنستا ۔ اللہ کا شکر ادا کرنااس کا شعار ہوتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ جس طرح خوشی کا زمانہ آتا ہے ۔ اس طرح مصائب کا دَور آنا بھی ایک ردِّعمل ہے۔ وہ آزمائش کے زمانےمیں جدو جہد اور عمل کے راستے کو ترک نہیں کرتا ۔ کیونکہ اس کی پوری زندگی ایک پیہم جدّوجہد ہوتی ہے۔

آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ آپ علم حاصل کریں اور اس علم میں تفکر بھی کریں اور پریکٹیکل بھی کریں تاکہ آپ کے مشاہدے میں تفکر کے ذریعہ ساری بات آجائے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوِش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)

خشخش جِنّاں قدر نہ میرا…. مرشد نوں وَڈیائیاں

مَیں گلیاں دا رُوڑا کوڑا…. محل چڑھایا سائیاں!

 

میاں مشتاق احمد عظیمی

روحانی فرزند خواجہ شمس الدین عظیمی

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 006 تا 008

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)