آدم کی چھ ارب اولادیں

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47154

کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا سترہ (17) بار ختم ہو کر دوبارہ آباد ہوئی ہے۔

تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کاایک معیّن وقت کے بعد (معیّن وقت دس ہزار سال بھی ہو سکتاہے) خشک زمین پر آباد دنیا تہہِ آب آجاتی ہے۔سمندر زمین بن جاتے ہیں اور زمین سمندر بن جاتی ہے۔

تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان کاسفر ہر مرتبہ زمین کے اندر غاروں سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج شعور جوان ہوتا ہے اور جیسے جیسے شعور جوانی کی دہلیز پر قدم بڑھاتا ہے، انسان ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ لیکن یہ بات ہر زمانے میں موجود رہتی ہے کہ انسان شعوری تقاضے پورے کرتا ہے…. شعوری تقاضے کس طرح پورے کرتا ہے…. یہ ‘‘کس طرح’’ ہی ‘‘ارتقا ء’’ ہے۔  کسی زمانے میں انسان نے آگ کا استعمال سیکھ کر ترقی کی ہے۔ کبھی لوہے کی دریافت ترقی کا ذریعہ بنی ہے اور ارتقاء کی ایک صورت یہ بھی ہے ک انسان توانا ئی کے علم سے واقف ہو جائے۔

غاروں کی زندگی کا دَور ہو، دھات کی دریافت کا زمانہ ہو، آگ کی وا قفیت ہو یا انسانی ذہن توانائی کے فارمولوں سے واقف ہو جائے….  بہر حال انسان گھٹتا، بڑھتا،  مٹتا اور فنا ہوتا رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑےبڑے بادشاہ جو لوگوں سےخِراج وصول کرتے تھے…. جب زیرِ زمین دفن ہو جاتے ہیں…. تو لوگ جو خِراج دیتے تھے…. اُس زمین کو جس میں وہ دفن ہیں، پیروں تلے روندتے پھرتے ہیں۔

آبادی کی تو جیہہ کی جائے توآبادی دراصل بڑھنے اور گھٹنے کا نام ہے۔ اس وقت زمین پر چھ ارب انسان آباد ہیں۔ یقیناّ یہ آبادی پہلے بہت کم تھی اور ہوسکتا ہے کہ چھ ارب کی یہ آبادی اکیسویں صدی میں ایک ارب رہ جائے۔

زمین جس سسٹم پر چل رہی ہے، اس سسٹم میں بنیادی عنصر یہ ہے کہ ہر مخلوق ایک نقطہ ہے۔ سسٹم اس لئے ضروری ہے کا نقطہ کا پھیلاؤ تقسیم درتقسیم ہوتا رہے…. اگر ایسا نہ ہوتو سسٹم میں خرابی واقع ہو جائے گی اور سارا سسٹم تبا ہ و برباد ہو جائے گا اور جب سسٹم میں خرابی واقع ہوتی ہے تو زمین سمندر بن جاتی ہے اور سمندر زمین بن جاتا ہے۔

دانشور مساوات کا درس دیتے ہیں۔ مفکر ہیومن رائٹس (Human Rights) کا نعرہ لگاتے ہیں۔ سُو د و زِیاں کا ایک سلسلہ ہے، جو اُس وقت سے قائم ہے جب سے دنیا آباد ہے…. اور اُس وقت تک قائم رہے گا…. جب یہ سیارہ تباہ ہو جائے گا۔

کسی نظام کو چلانے اور قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ توانائی کی تخلیق ہوتی رہے۔ تخلیق کے لئے ضروری ہے کہ اسے فیڈنگ ملتی رہے۔ اور جب ہم فیڈنگ کا تذکرہ کرتے ہیں تو لامحالہ ذہن اس طرف جاتا ہے کہ کوئی ہستی ہے جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے۔

مُقتدرِ اعلیٰ ہستی جب کچھ کہتی ہے تو مثالوں اور ٹکڑوں میں سمجھاتی ہے۔ اس لئے کہ انسانی شعور ابتداءمیں بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن مسلسل بڑھتا رہتا ہے اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنے اندر موجود لگ بھگ دو کھرب صلاحیتوں میں سے دو سو یا اس سے کچھ زائد صلاحیتوں پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔ انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ دو کھرب صلاحیتوں میں سے صرف دو سو کے قریب صلاحیتوں پر عبور پالینے والا یہ بندہ اپنے وقت کا ذہین ترین فرد سمجھا جاتا ہے اور یہی علامہ مفکر اور دانشور اور سائنسدان کہلاتا ہے۔ شعور کی یہ محدودیت اس بات کی مُتقاضی ہے کہ بہت بڑی بات کو چھوٹی بات میں بیان کیا جائے ۔

مُقتدرِ اعلیٰ ہستی کہتی ہے:

…. نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ …. (سورۃ النّور – 35)

‘‘یہ نظام (سسٹم) نور علیٰ نور ہے…. اللہ جس پر چاہے اسے کھول دیتا ہے اور اللہ لوگوں کو مثالوں سے سمجھاتا ہے’’۔

 

نوعِ انسانی کا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ آدمی آدم کا بیٹا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک باپ آدم کی چھ ارب اولادیں ہیں۔ یہ چھ ارب اولادیں وہ ہیں جو زمانے کی شکست ور یخت سے بچ گئی ہیں اور اب شکست وریخت کے بھنور میں آچکی ہیں۔

یہ کون نہیں جانتا کہ آدم کا ہر بیٹا اور بیٹی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات کھلونے میں جس طرح چابی بھر دیتے ہیں…. کھلونا چلتا ہے، کودتا ہے، روتا ہے، ہنستا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، جیتا ہے اور مرتا ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی یہ نہیں چاہتا کہ بوڑھا ہو…. لیکن بوڑھا ہو جاتا ہے…. جیتا ہے…. اور مرتا ہے۔ سنکھوں کی تعداد میں زمین پر آنے والے اور جانے والے لوگوں میں کوئی نہیں چاہتا کہ وہ مر جائے …. لیکن مرنا اتنا ہی یقینی ہے…. جتنا یقین زندگی پر ہے!

بات بہت بڑی ہے، بات کو چھوٹا کر کے بیان کرنا مقصود ہے۔ انسانی شماریات سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں موجود سسٹم کے کَل پرزوں پر غور کیا جائے تو اندھی آنکھ کو بھی نظر آتا ہے کہ…. یہ سارا سسٹم ٹکڑوں اور فنائیت پر تقسیم شدہ ہے۔

جیسے جیسے آدم کی اولاد زمین پر پھیلتی گئی اسی مناسبت سے سسٹم تقسیم ہوتا رہا۔ چار اولادوں کے لئے ایک مکان تعمیر کیا گیا۔ چارسے زیادہ اولادوں کے لئے دوسرا مکان بنا۔ جیسے جیسے تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، خاندان کنبہ، برادری،  قبیلے قومیں تشکیل ہوتی رہیں۔

حقیقت پر مبنی ان مثالوں سے ثابت ہو ا کہ:

  • جب تک کوئی چیز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نہیں پھیلتی…. اس کا وجود مظہر نہیں بنتا
  • زمین کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ…. ٹکڑوں کو ذرّات میں تبدیل کرے
  • یہ ذرّات ہی…. زمین کا کنبہ ہیں

مثال یہ ہے کہ ہم زمین کا ایک قَطعہ تیار کریں اور اس قَطعہ پر آم، بادام،  انار،  ناریل،  چیکو،  شریفہ،  جامن،  پپیتہ،  سیب،  گنا،  پھول،  ترکاریاں وغیرہ کاشت کریں۔ جیسے ہی کسی ایک نوع کا بیج…. جس کو ہم نُطفہ بھی کہ سکتے ہیں…. زمین کے رحم میں داخل ہوجاتا ہے، زمین اسے توڑدیتی ہے اور بیج زمین کے ذرّات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

بیج کافنا…. بیج کا مٹ جانا…. بیج کی اپنی حیثیت ختم ہو جانا…. دراصل زمین کے اوپر درختوں، پودوں،پھلوں اور پھولوں کا مظاہرہ ہے۔

یہ بات شعور کی ہے…. کس شعور کی؟

اس شعور کی جو دو کھرب خلیوں میں سے دو سو خلیوں پر قائم ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ:

ایک کھرب نناوے کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار آٹھ سوسے خلئے کہاں گئے؟

ہم ان سے واقف کیوں نہیں ہیں؟ جب کہ وہ ہمارے اندر موجود ہیں ….!

ہم اتنی بڑی تعداد کو اس لئے بھولے ہوئے ہیں کہ…. ہم دو سو صلاحیتوں کے گِرداب میں قید ہو چکے ہیں اور قید سے آزادی نہیں چاہتے۔ قانون یہ ہے کہ:

جو چیز خود کو فنائیت میں منتقل کردیتی ہے وہ چیز پھیلتی ہے…. بڑھتی ہے!

برگد کا در خت آپ کے سامنے ہے۔

مشہور ہے کہ برگد کے درخت کے نیچے باراتیں ٹھہرتی ہیں تھکے ماندے مسافربارش اور دھوپ میں برگد کا سایہ تلاش کرتے ہیں۔

آپ کیا سمجھے؟

میں کیا عرض کر رہا ہوں؟

آپ کیا سمجھے؟ کہ میں آپ کی توجہ کس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں؟

آپ کیا سمجھے؟ کہ میں آپ کو کن گہرائیوں سے آشنا کرانا چاہتا ہوں؟

آپ کیا سمجھے؟ کہ میں “علمِ لدُنّی” کا کون سا قاعدہ پڑھا رہا ہوں؟

برگد کا بیج خشخاش کے دانے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن جب زمین کے اند رجا کر اپنے مادّی جسم کو فنائیت میں تبدیل کردیتا ہے تو قدرت اس ایثار کو پسند کرتی ہے…. اور برگد کا بیج جو خشخاش سے چھوٹا ہوتا ہے….  بہت بڑا درخت بن جاتا ہے۔

اسی طرح ….

جب کوئی آدمی اپنے مادّی وجود کو روحانی نظام میں فنا کر دیتا ہے تو وہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق…. شجرِ سایہ دار بن جاتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 031 تا 035

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)