حضور قلندر باباؒ …. اور مسلم سائنسدان

مکمل کتاب : موت اور زندگی

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47158

یہ دَور علم کا دَور ہے اور نئی نئی ایجادات کے حوالے سے سائنس کا زمانہ ہے آنکھ کا اندھا بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ موجود ہ زمانے کی ساری ترقی تحقیق اور علم کے اوپر قائم ہے۔

قو موں کے عروج و زوال کی تاریخ واضح طور پر یہ انکشاف کرتی ہے کہ جن قوموں نے جدوجہد نہیں کی وہ:

  • علمی خزانوں سے تہی دست ہو گئیں….
  • ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔

چودہ سو سال پہلے زمین پر جہالت کی سیاہ چادر پھیلی ہوئی تھی ہر طرف فساد برپا تھا۔ جہالت اور بربریت کی اس سے زیادہ بری مثال کیا ہوسکتی ہے کہ…. والدین اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بے حیائی اور فحاشی کوئی خلافِ عقل بات نہ تھی۔ زمین جب فساد اور خون خرابے سے بھر گئی اور اشرف المخلوقات نے انسانی حدود کو پھلانگ کر حیوانیت کو اپنا لیا اور اللہ کے عطا کر دہ انعام ‘‘في الارضِ خلیفہ’’ کے منصب کو یکسر بھول گیا تو اللہ نے زمین کو دوبارہ پُرسکون بنانے کے لئے اپنے محبوب بندے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔

اس برگزیدہ مقدس و مطہر بندے نے عجیب و غریب حیرت انگیز لا محدود رنگ اللہ کی نشانیوں کو اس طرح کھول کھول کر بیان کیا کہ ابتدا ئی دَور میں زمین و آسمان کی حقیقت عربوں پر عیاں ہوگئی۔

قرآن نے بتایا:

بےشک زمین و آسمان کی پیدائش،رات اور دن کے بار بار ظاہر ہونے اور چھپنے میں ان عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں (190)

جو لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا اور ہمیں دوزخ کی آگ سے محفوظ کر دے۔ (191)

(سورۃ – آلِ عمران)

کیا ان لوگوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو آراستہ کیا اور اس میں کسی قسم کا سقم نہیں ہے (6)

اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے اور اس میں سے ہر قسم کی خوشمنا چیزیں لگائیں (7)

یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو دانا اور بینا ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں (8)

(سورۃ –   ق)

عربوں پر علم و دانش آشکار ہوگئی اور جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ ہوگئے تو انہوں نے علم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جوان کی تحقیقات سے تشنہ رہا ہو۔ اُن کی تحقیقات پوری امّت مُسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی ممالک کی لائبریریاں آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ یہ وہ دانشور مسلمان تھے جنہوں نے تحقیقات کر کے علوم کی شمعیں روشن کیں۔ مسلمانوں نے عالَم میں اس وقت روشنی پھیلائی جب دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان میں سے چند محقّقین، مفکّرین اور سائنس دانوں کے نام یہ ہیں۔

  1. عبد الملک اَسمعی نے علمِ ریاضی، علمِ حیوانیات، علمِ نباتات اور انسان کی پیدائش اور ارتقاء پر تحقیق کی، عبدالملک اسمعی علمِ سائنس کا پہلا بانی ہے۔
  2. جابر بن حیّان کی کتابوں کے ترجمے پندرہویں صدی عیسوی تک یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ اُس نے کپڑوں کو واٹر پروف، لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے اور شیشہ کو رنگین کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
  3. محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے صِفر کا اضافہ کر کے ہندسوں کی قدر کو بڑھادیا۔ اس نے کرۂِ ارض اور ستاروں کے نقشے بنائے اور جغرافیہ میں تحقیقات کیں۔
  4. علی ابن سہی ربّان الطّہری نے فردوسَ الحکمت کے نام سے طبّ پر ایک مکمل کتاب لکھی۔
  5. یعقوب بن اسحاق الکِندی علم فلکیات، کیمسٹری، موسیقی اور طبیعات میں ماہر تھا۔ یعقوب بن اسحاق الکِندی 225کتابوں کا مصنف ہے۔
  6. ابو القاسم عباس بن فَرتاس ہوا میں اڑنے کے تجربے کرتا رہا۔ اسی کی کوششیں ہوائی جہاز بننے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ دھوپ گھڑی بھی اسی کی ایجاد ہے۔
  7. ثابِت ابنِ قَرّۃ نے لیور اور گئیر ایجاد کئے۔ لیور اور گئیر نہ ہوتے تو آج ہم بڑی بڑی مشینوں کے ذریعے نئی ایجادات نہیں کرسکتے تھے۔
  8. ابو بکر محمد بن زکریا الرّازی کو سرجری میں مہارت حاصل تھی۔ آپریشن کے بعد جِلد کو سینے کا طریقہ بھی اسی کی ایجاد ہے۔
  9. ابو النّصر الفارابی نے موسیقی کا ایک آلہ ایجاد کیا تھا جس کی آواز سے سننے والا کبھی سو جاتا تھا، کبھی روتا تھا، کبھی ہنستا تھا۔
  10. ابو الحسن المسعودی سب سے پہلا شخص ہے جس نے بتایا کہ زمین کی جگہ سمندر تھا اور سمندر کی جگہ زمین۔ یہ بات اس نے اس وقت بتائی تھی جب پیمائش کے لئے کوئی سائنسی آلہ موجود نہیں تھا۔
  11. ابنِ سینا میڈیکل سائنس کا ماہر تھا۔ اس نے علم الاَبدان کا نقشہ بنایا اور اس کے الگ الگ حصے کر کے ان کی تصویریں بنائیں۔ موجودہ میڈیکل سائنس میں اناٹومی اس ہی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔ ابن سینا نے جسمانی حرارت ناپنے کا آلہ ایجاد کیا تھا جو تھرمامیٹر کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔

علیٰ ہذا القیاس بیان کردہ سائنس دانوں کے علاوہ انیس یا بیس مسلمان سائنس دان اور ہیں جنہوں نے تحقیق و تلاش کے بعد سائنسی علوم کی بنیاد رکھی۔

عربوں سے پہلے یورپ، امریکا، مصر اور ایشیائی ممالک چین، ہندوستان اور جاپان وغیرہ میں سائنس کا عمل دخل نہیں تھا البتہ یونان میں کسی قدر علم موجود تھا۔

علمی تحقیقات اور نئی نئی ایجادات کی طرف رغبت پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔ قرآن پاک کے نازل ہونے کے بعد سرزمینِ عرب جب علم کی روشنی سے منوّر ہوئی، اس وقت مغربی ممالک میں تہذیب و تمدّن کا کوئی نشان نہ تھا۔ روس کے لوگ انسانی کھوپڑیوں میں پانی پیتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے علمِ قرآن سے مسلمان صحرا نشینوں کی زندگی بدل دی۔ قرآن کے علم اور قرآن کے بنائے ہوئے روشن راستے پر چل کر پچاس سال کی مختصر مدت میں مسلمانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کر لی تھی۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں مسلمانوں کے قدموں پر جھک گئیں۔ قرآنی آیات کے انوار سے روشن دل مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب بر پا کردیا اور دنیا کو ایک نئی تہذیب و تمدّن سے آراستہ کردیا۔

قرآنی نظریہ کے مطابق مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہاں یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔ مختلف علوم، سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتابیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مؤرّخ اس بات پر متفق ہیں کہ عرب نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔

پانچویں اور چَھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ امّت مُسلمہ قرآن کے انوار و حکمت سے دُور ہو گئے۔ پھر یہ سلسہ دراز ہوتا چلا گیا۔ قرآنی علوم اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی، قوم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ تسخیرِ کائنات، جو قرآن کا پورا اور مکمل تیسرا علم ہے، اُس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی اور عالمِ اسلام اُس شعور سے محروم ہو گیا جو چودہ سو سال پہلے قرآن نے عطا کیا تھا۔ اور جب کوئی قوم تفکر تحقیق و تلاش، بصیرت و حکمت اور نور علیٰ نور، فہم و فَراست سے محروم ہو جاتی تو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے۔

اس گروہ بندی اور فرقوں میں تقسیم مسلمان قوم کی حالت زار دیکھ کر حضرت عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے امّت مُسلمہ کی شیرازہ بندی کے لئے پروگرام ترتیب دیا۔ انہوں نے یہ بات باطنی اور ظاہری طور پر محسوس کر لی تھی کہ مسلمانوں کا زوال دراصل قرآنی تعلیمات سے دوری اور روحانی قدروں سے انحراف ہے۔ کسی بھی قسم کا علمی ادراک اسی وقت ممکن ہے جب جسم کو متحرک کرنے والی جسم کو زندگی عطا کرنے والی جسمانی شعور کو فیڈ کرنے والی روح موجود ہو۔

قرآن نے اس حقیقت کو معاد کے نام سے بیان کیا ہے۔

حضرت پیران پیر دستگیر نے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے مسلم معاشرہ کی درجہ بندی کے لئے مجلسیں منعقد کیں، وعظ و نصیحت کی محفلیں سجائیں اور ان کی اس کاوش سے سلسلۂِ قادریہ کی بنیاد پڑی اور یہ سلسلہ ان کے جانشیوں نے، اُن کی اولادوں نے رسول اللہ ﷺ کی امّت کے علماءِ حق نے جاری رکھا۔

روحانی سلسلوں میں بھی سازشی لوگوں نے اپنا عمل دخل جاری رکھا اور لوگوں کی توجہ کشف و کرامات کی طرف مبذول کر دی۔ اس طرز فکر کو کچھ اس طرح آگے بڑھایا گیا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ روحانیت کا مطلب کشف و کرامات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس طرح پیرانِ پیر دستگیر کی کاوش اور جدوجہد پر ایک نیا پردہ آگیا۔ دوسری بات جو حقیقت کے برخلاف بیان کی گئی وہ یہ تھی کہ تسخیرِ کا ئنات یا روحانی علوم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا بیزار ہو کر جنگل میں جا بیٹھے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہواکہ مسلمان قوم ریسرچ سے محروم ہوئی اور غیر مسلم اقوام نے علمِ کائنات میں ترقی کر لی۔ جب حالات بہت زیادہ دگرگوں ہوگئے، تحقیق و تلاش پر غیرمسلم اقوام نے پہرے بٹھا دیئے، تو قدرت نے اس جمود کو ختم کرنے کے لئے حسن اخری سید محمد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ کی ذات کو ظاہر کیا۔

آج کے دَور میں ہر آدمی یہ بات جانتا ہے کہ سَو سال پہلے جو باتیں کرامات کے زمرے میں بیان کی جاتی تھیں وہ سائنسی نظام کے تحت عام ہوگئی ہیں۔ اب یہ کہناکہ فلاں بزرگ کو پانچ جگہ یا سات جگہ دیکھا گیا تھا، ایک بہت کم وزن بات ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ حسب ذیل گیارہ سلاسل سے فیض یافتہ ہیں:

  1. قلندریہ: امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ
  2. نوریہ: امام سلسلہ حضرت امام موسیٰ کا ظم رضاؒ
  3. چشتیہ: امام سلسلہ حضرت ممشاد دینوریؒ
  4. نقشبندیہ: امام سلسلہ حضرت شیخ بہاء الحق نقشبند اور خواجہ باقی باللہؒ
  5. سہروردیہ: امام سلسلہ حضرت ابو القاہرؒ
  6. قادریہ: امام سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
  7. طیفوریہ: امام سلسلہ حضرت بایزید بسطامیؒ
  8. جنیدیہ: امام سلسلہ حضرت ابوالقاسم جنید بغدادیؒ
  9. ملامتیہ: امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصری ؒ
  10. فردوسیہ: امام سلسلہ حضرت نجم الدین کبریؒ
  11. تاجیہ: امام سلسلہ حضرت محمد صغری تاج الدینؒ

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے نوعِ انسانی کی باطنی ترقی کے لئے نظریہ توحید و رسالت کے تحت پروگرام ترتیب دیا۔ اس پروگرام کو سائنسی بنیاد پراس لئے استوار کیا گیا کہ اس دور میں کوئی بات اس وقت قابل یقین سمجھی جاتی ہے جب اُس کے پیچھے سائنسی بنیادپر دلیل موجود ہو۔اس طریقہ کار کو متعارف کرانے کے لئے سلسلہ عظیمیہ کا نام تجویز ہوا۔ سلسلہ عظیمیہ دراصل مادّی سائنسی ترقی کی چکا چوند میں ایک مینارہ نور ہے، جس کی روشنی اب ترقی پذیراور ترقی یافتہ ملکوں میں پہنچ چکی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

‘‘روحانی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان ہرلمحہ مرتا ہے اور ایک لمحے کی موت انسان کے اگلے لمحے کی زندگی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے’’

حضور قلندر بابا اولیاء ؒفرماتے ہیں:

‘‘تھوڑے سے تفکر سے پتا چلتا ہے کہ زندگی کی جتنی بھی کاوشیں ہیں، چاہے وہ اعمال ہوں، علم ہو، فہم ہو، اخلاقیات ہو، یہ سب قبر تک کے معمولات ہیں۔ اگر زندگی اور حیات کی ہم آہنگی کا ادراک انسان کر لے تو آدمی حیاتِ اَبدی کا مزہ اسی زندگی کے لیل و نہار میں حاصل کر لیتا ہے۔’’

حضور قلندر بابا اولیاء ؒفرماتے ہیں:

‘‘ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں آج کا انسان مادّی ماحول میں اس قدر گھر چکا ہے کہ وہ مذہب (جس کا کام ہی انسان پر باطنی دنیا روشن کرنا ہے) کو بھی مادّی لذّتوں کا وسیلہ بنانے پر بضد ہے ۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے تو بہت ہیں مگر ایمان، یقین اور مشاہدے کی طلب اس دَور میں ناپید ہو چکی ہے۔ جب صاحبِ ایمان ہی ناپید ہو جائیں تو ایمان کی طلب کون کرےگا’’۔

حضور قلندر بابا اولیاء ؒفرماتے ہیں:

‘‘آج کا سائنس دان موجودہ ترقی کو نوعِ انسانی کا انتہائی شعورسمجھتا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک گمراہ کن سوچ ہے۔ اس لئے کہ،ہمیں قرآن بتاتا ہے…. انسان کی ترقی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اتنی تھی کہ ایک شخص نے جوپیغمپر نہیں تھا پلک جھپکنے کے وقفے میں ڈیڑھ ہزار میل کے طویل فاصلے سے مادّی شکل میں تخت منتقل کر دیا تھا۔

یہ بات سائنس دانوں کے لئے لمحۂِ فکریہ ہے…. کیونکہ وہ اتنی ترقی ہوتے ہوئے بھی کسی معمولی چیز کو بغیر مادّی وسیلہ کے حرکت نہیں دے سکتے۔

حوالہ: (سورۃ النّمل: 44 – 15)

حضور قلندر بابا اولیاء ؒفرماتے ہیں:

‘‘دانشوروں کا کردار گزشتہ صدیوں سے آج تک انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ انہوں نے کبھی انسانی تفکر کو اس طرف مائل نہیں کیا اور انہوں نے کبھی نہیں بتایا کے آقائے نامدارﷺ بغیرکسی وسیلہ کے جسمانی طور پر کونسی سائنس کےذریعے معراج کے شرف سے مشرف ہوئے’’۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی کتا ب لوح و قلم میں اس طرف واضح اشارے کئے ہیں، کہا:

‘‘انسان روشنی سے بنا ہوا ہے۔ اس کے سارے محسوسات الیکٹران کے اوپر قائم ہیں۔ اگر انسان اپنے اندر دَور کرنے والی روشنی سے واقفیت حاصل کر لےتو وہ مادّی وسائل کے بغیر کسی بھی مادّی شے کو جہاں چاہے منتقل کر سکتا ہے۔’’

حضور قلندر بابا اولیاء ؒنے انسانی شعور کو روحانی سائنس کی بنیاد پر چار شعوروں میں تقسیم کیاہے اور ان چاروں شعوروں کے اِصطلاحی نام تجویز کر کے ان کی مساوات بنائی ہے۔ اپنی کتاب لوح و قلم میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے نوعِ انسانی کو موجودہ بےسکون زندگی اور پُرمصائب حالات سے آزاد ہونے کا نہایت مختصر مگر جامع حل بتایا ہے:

‘‘قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ساتھ ضرور دیتا ہےمگر پھر ناکام ہوجاتا ہے…. لوگوں نے بذات خود جتنے طریقے وضع کئے سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہوئے ہیں۔ توحید کے علاوہ جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئےہیں وہ تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔’’

کتاب لوح و قلم میں تحریر ہے کہ:

‘‘آج کی نسلیں گزشتہ سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور زیادہ مایوس ہوں گی۔ نتیجہ میں نوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂِ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ مَوجودہ دَور کے مفکر اور سائنس دان کو چاہیے کہ وہ وحی کی طرز کو سمجھے اور نوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کَش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور قوموں کے وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ تمام نوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے ۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف توحید ہے ۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کرکے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کرسکیں تو وہ اقوامِ عالم کو وظیفۂِ روحانی کے تحت ایک ہی دائرے میں اکٹھا کر سکتے ہیں۔’’

 

سلسلۂِ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ایک ایسے عظیم روحانی سائنسدان ہیں جن کے پیش نظر نوعِ انسانی کو بحیثیت مخلوق کے، توحید کے پلیٹ فارم پرجمع کرنا ہے ۔

قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ارشادات کاخلاصہ یہ ہے کے وہ نوعِ انسانی کو پُرسکون دیکھنا چاہتے ہیں اور خوف و غم کی زندگی سے نوعِ انسانی کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 041 تا 050

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)