پتھر کا دور
مکمل کتاب : روحانی ڈاک (جلد دوئم)
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=48030
سوال: حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد عالی مقام ہے کہ قلم لکھ کر خشک ہو گیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہونا تھا یا جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ پہلے سے لکھ دیا گیا ہے۔ جب ہم مجبوری کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں تو ہمارا اختیار کیوں زیر بحث آتا ہے؟
جواب: قلم لکھ کر خشک ہو گیا معانی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ازل سے پہلے جو کچھ موجود تھا اللہ تعالیٰ نے کن کہہ کر اس کا مظاہرہ فرمایا۔ اس بات کو ہم موجودہ دور میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ ان کے ذہن میں تھا اس کی ایک فلم بن گئی اور یہ فلم مسلسل، متواتر اور بغیر کسی وقفے کے چل رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ہی فلم بار بار Displayہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نوع اپنے خدوخال، مزاج و جذبات و احساسات کے اعتبار سے ایک ہی دائرے میں سفر کر رہی ہے۔ مثلاً گائے کی شکل و صورت مقرر ہے۔ آج سے کئی ہزار سال پہلے گائے کی جو شکل و صورت اور حیات تھیں وہی آج بھی ہیں۔ نوع انسانی کی جو شکل و صورت آج سے ہزاروں سال پہلے تھی وہی آج بھی ہے۔ اب سے سینکڑوں اور ہزاروں سال پہلے زندگی گزارنے کے جو تقاضے موجود تھے وہی آج بھی ہیں۔ مثلاً ہزاروں سال پہلے آدمی کو بھوک لگتی تھی، پیاس محسوس ہوتی تھی۔
اولاد کا تقاضہ اس کے اندر پیدا ہوتا تھا تو آج بھی یہ سب تقاضے اسی طرح موجود ہیں۔ سب کچھ عملاً وہی ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا ہے کہ جذبات میں کبھی تیزی آ جاتی ہے اور کبھی سست روی پیدا ہو جاتی ہے۔ اب ہم اسی بات کو اس طرح کہیں گے کہ ’’ماضی دہرایا جا رہا ہے‘‘ تہذیبی اور تمدنی نقطہ نظر سے بھی اگر غور کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ماضی دہرایا جاتا ہے۔ دس ہزار سال پہلے پتھر کا زمانہ تھا۔ پتھر کے زمانے سے ترقی کر کے انسان آج ایٹمی دور میں داخل ہو گیا ہے۔ لیکن پھر دس ہزار سال بعد وہ پتھر کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ یعنی ایک زنجیر ہے جہاں جس میں آدمی حواس کے اعتبار سے بچپن میں ہوتا ہے اور پھر اس کا شعور ترقی کر کے بالغ ہو جاتا ہے۔ جب تصوربلوغت کے دور میں پہنچتا ہے تو آدمی اس کے اوپر اپنی عقل سے موت وارد کر دیتا ہے اور Chainپھر الٹ جاتی ہے۔
اس مختصر تمہید سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ساری کائنات ہر لمحہ ہر آن پیدا ہو رہی ہے اور ہر لمحہ موت سے گزر رہا ہے۔ جب پہلے لمحے پر موت وارد ہوتی ہے تو دوسرا لمحہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ رہا ہے۔ اسی بات کو قرآن پاک میں اس طرح ارشاد فرمایاگیا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔ اس بات سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آدمی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا جو پروگرام بنایا ہے اور جو بار بار اپنا مظاہرہ کر رہا ہے اس کا ایک جزو وہ حدود(اختیار) بھی ہیں جو اس نے انسان کو عطا کی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 45 تا 46
روحانی ڈاک (جلد دوئم) کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔