لیکچر 25

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=52458

خلق اور امر

خلق اور امر کے سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کائنات کی مرکزیت اللہ تعالیٰ کا ذہن ہے۔ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود کائنات کا عکس ہے۔ چنانچہ تمام مخلوق جس طرح اللہ تعالیٰ کے ارادے میں محفوظ تھی اب بھی اسی طرح محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود کائنات کا عکس مختلف رنگ و روپ اور شکل و صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ کائنات کا ہر نقش اللہ تعالیٰ کے ذہن سے منعکس ہو رہا ہے اس عکس کے معیّن وُجود ہیں۔
۱۔ پہلے وُجود کا قیام لوحِ محفوظ ہے۔
۲۔ دوسرے وُجود کا قیام علم تمثال میں ہے۔
۳۔ تیسرے وُجود کا عکس عالم رنگ میں ہے۔

عالم رنگ سے مراد کائنات کے مادّی اجسام ہیں جو رنگوں کی اجتماعیت ہیں۔ کائنات میں جو کچھ ہے، مَوجودات میں جتنے اجسام ہیں، ان کی حیثیت نَوعِ ملائکہ کی ہو نوعِ جنّات کی ہو نَوعِ انسان کی ہو یا اَجرامِ سماوی کی ہو، سیّاروں، ستاروں، چاند اور سورج کی ہو …. سب رنگوں کا مجموعہ ہیں اور یہ رنگ مخصوص حرکات سے وُجود میں آتے ہیں۔

محترم دوستو! نَسمہ کے بارے میں مختلف زاویوں سے اپنی معلومات آپ کے گوش گزار کر چکا ہوں۔ مزید تشریح یہ ہے کہ:

نَسمہ کی ہر حرکت ایک رنگ ہے۔

مثلاً اگر نسمے کی طوالتِ حرکت کا الف عددی مجموعہ گلاب کے لئے مخصوص ہے تو اِس مجموعے سے ہمیشہ گلاب ہی وُجود میں آئے گا، کوئی اور شئے وُجود میں نہیں آئے گی۔
اگر آدمی کی تخلیق رنگوں کی جیم (ج) تعداد سے ہوتی ہے تو اس طوالتِ حرکت سے دوسرا کوئی حیوان نہیں بنے گا، صرف نوعِ انسانی کے افراد ہی وُجود میں آئیں گے۔
اسی طرح، اگر ملائکہ کی نَوع کے افراد کا عددی مجموعہ دال (د) ہے، تو اس عددی مجموعے سے ہمیشہ فرشتوں ہی کی تخلیق ہو گی کسی اور شئے کی تخلیق نہیں ہو گی۔
ہر نَوع کے لئے الگ الگ رنگ معیّن ہیں۔ یہ معیّن رنگ جس طرح طوالت میں حرکت کرتے ہیں اسی مناسبت سے نَوع میں لاشمار افراد تخلیق ہوتے رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ (سورۃ الرّوم – 30)

فطرت سے مراد نَسمہ کی حرکت کا طول، رفتار اور ہجوم ہے۔
نسمے کی حرکت کا طول ہی کائنات میں رنگ بن کر تخلیقی عوامل پورے کرتا ہے۔
عالمِ رنگ میں جتنی اشیاء پائی جاتی ہیں وہ سب رنگین روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان ہی رنگوں کے ہجوم سے مادّی اشیاء وُجود میں آتی ہیں۔
اگر مادے کی شکست و ریخت کر کے انتہائی قدروں تک منتشر کر دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔
اگر بہت سے رنگ لے کر پانی میں تحلیل کر دیئے جائیں تو ایک خاکی مرکب بن جائے گا۔ جس کو ہم مٹی کہتے ہیں۔
یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ زمین ایک ہے خاکی مرکب ایک ہے اس خاکی مرکب زمین میں مختلف پھل پھول اگتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر درخت کی شکل و صورت ہر درخت کا رنگ پھولوں اور پھلوں کے رنگ مختلف اور ذائقے الگ الگ ہوتے ہیں۔
جب ہم کسی درخت کو یا گھاس کو زمین میں بوتے ہیں تو بے شمار رنگوں کے تحلیل شدہ مرکب (مادّہ) درخت کی جڑ کو پکڑ لیتے ہیں اور پانی کی مدد سے مٹی کے ذرات رنگوں میں تبدیل ہو کر درختوں کے اندر خون بن کر دوڑتے ہیں۔
ذرات کی یہ شکست و ریخت ہی نَوع کو الگ الگ رنگ منتقل کرتی ہے۔
جس جس طرح رنگ درخت میں دَور کرتے ہیں اسی مناسبت سے پتیوں، پھولوں، پھلوں میں رنگ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جس طرح گھاس پودے درخت اور پھول میں رنگ نمایاں ہو کر مظہر بنتے ہیں اسی طرح مخلوقات کی زندگی اس کیمیائی عمل پر قائم ہے۔

نسمے کی حرکت داخل کی زندگی سے خارج تک عمل کرتی ہے اور خارج کی زندگی کو مظہر بناتی ہے۔
اصول یہ بنا کہ ہر شکل و صورت دراصل رنگوں کی اجتماعیت ہے اور یہ رنگ نسمے کی وہ حرکت ہے جو طوالت میں سفر کرتی ہے۔

نسمے کے اندر دو قسم کے مظاہر ہوتے ہیں۔
اول: حرکت کا طول (مکانیت)
دوئم: حرکت کی رفتار (زمانیت)

حرکت کی طوالت مکانیت ہے اور حرکت کی طوالت میں رفتار زمانیت ہے۔
حرکت کا طول اور رفتار دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں حرکتیں کسی صورت میں جدا نہیں ہوتیں۔
ہم جب بھی ٹائم کا تذکرہ کرتے ہیں، لامحالہ مکانیت زیرِ بحث آ جاتی ہے۔ ہم جب بھی مکانیت کا تذکرہ کریں گے، لازماً زمانیت کا تذکرہ ہو گا۔ یہ دونوں طرزیں ہمہ وقت بلا کسی وقفے کے حرکت میں رہتی ہیں۔ حرکت میں رفتار بھی قائم رہتی ہے یعنی رنگ ایک طرف طوالت ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف اس طوالت میں رفتار ہوتی ہے۔
• حرکت کا طول مکانیت (Space) …. اور
• حرکت کی رفتار زمانیت (Time) ہے

کشش+گریز=موت
شئے میں نقش و نگار مکانیت ہے اور شئے میں حرکت زمانیت ہے۔
حرکت میں دو رخ کام کرتے ہیں:
• حرکت کا ایک رخ طول ہے
• حرکت کا دوسرا رخ طوالت کے ساتھ رفتار ہے
طوالت اور رفتار دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
حرکت کا طول مکانیت اور حرکت کی رفتار زمانیت ہے۔
ہم جب کائنات کی تخلیق کے بارے میں تفکر کرتے ہیں تو یہ جان لیتے ہیں کہ کائنات اللہ تعالیٰ کے اس ارادے کا مظہر ہے جو ’’کُن‘‘ کے بعد ظہور میں آیا ہے۔ یعنی کائنات موجود ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب کائناتی پروگرام کو شکل و صورت میں دیکھنا چاہا تو حکم دیا ’’ہو جا‘‘ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات شکل وصورت کے ساتھ موجود تھی اس کا مظاہرہ ہو جائے۔
اس بات کا واضح مفہوم یہ ہوا کہ کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود پروگرام کا عکس ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ:
ایک مصوّر تصویر بناتا ہے۔ ہم کاغذ پر مصوّر کے بنائے ہوئے خدوخال کو دیکھتے ہیں اور مصوّر اس تصویر میں جو رنگ بھرتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ…. مصوّر تصویر کے وہی خدوخال بناتا ہے جو مصوّر کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ تصویر مصوّر کے ذہن کا عکس ہوتی ہے۔ مصوّر اگر ایک ہزار تصویریں بناتا ہے تب بھی ہر تصویر کا تعلق مصوّر کے ذہن سے ہو گا۔ معلوم یہ ہوا کہ مصوّر جو تصویر بناتا ہے وہ کاغذ پر منتقل نہیں ہوتی بلکہ مصوّر کے ذہن کا عکس کاغذ پر تصویر بنتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو مصوّر ایک سے زیادہ تصاویر نہیں بنا سکتا۔
قانون یہ بنا کہ اصل اپنی جگہ محفوظ رہتی ہے اور تصویر کی شکل میں اصل کا عکس منتقل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ تمام مخلوق ظہور میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جس طرح محفوظ تھی، اب بھی اسی طرح محفوظ ہے۔

کائنات میں جتنی بھی نَوعیں ہیں ان سب کی اصلیں اللہ تعالیٰ کے ذہن میں محفوظ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اربوں کھربوں سال گزرنے کے بعد بھی کبوتر کبوتر ہے۔ فاختہ فاختہ ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ انقلاب زمانہ کے ساتھ اور حالات کی تبدیلی کی بنا پر کبوتر فاختہ بن جائے اور فاختہ کبوتر بن جائے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات خالق ہے۔ خالق کے ذہن سے عکس منتقل ہو کر کائنات میں حرکت واقع ہو رہی ہے۔

نقطۂ وحدانی کے عین مقابل ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے کو ’’عالم مثال‘‘ کہتے ہیں۔
جب نقطۂ وحدانی کی شعاعیں عالم مثال کی طرف حرکت میں آتی ہیں تو ٹائم (زماں) وقوع میں آتا ہے جسے ہم اکہری حرکت کہتے ہیں۔ حرکت میں جب تک تسلسل ہے اس میں سقم واقع نہیں ہوتا یہ حرکت ازل سے ابد تک جاری رہتی ہے۔
اربوں کھربوں سال کے بعد بھی سورج، سورج ہے، چاند، چاند ہے۔ انسان ،انسان ہے۔
حرکت ازل سے ابد تک سفر کر رہی ہے۔ یہ حرکت جب نقطۂ وحدانی سے گزر کر عالم مثال سے گزرتی ہے تو عالم مثال کا آئینہ شعاعوں کو قبول کر کے اپنی فطرت کے مطابق ان شعاعوں کو واپس لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ شعاعوں کو واپس لوٹانے کی کوشش میں شعاعوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔

شعاعیں ختم نہیں ہوتیں
یہ ہو رہا ہے کہ نقطۂ وحدانی ایک طرف شعاعوں کو آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ دوسری طرف عالم مثال کا آئینہ شعاعوں کو واپس لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کشمکش میں یہ حرکت دوہری ہو جاتی ہے۔ یہ دوہری حرکت ہی کشش و گریز ہے۔

ہر چیز جو کائنات میں موجود ہے اس کا ایک رخ کشش ہے اور دوسرا رخ گریز ہے۔
مثلاً آج کا پیدا ہونے والا بچہ ہر آن ہر لمحہ کشش و گریز میں سفر کر رہا ہے۔ بچپن سے جب لڑکپن آتا ہے تو بچپن کے لئے لڑکپن کشش ہے اور لڑکپن کے لئے بچپن گریز ہے۔ آدمی جوان ہوتا ہے تو جوانی لڑکپن سے گریز ہے اور جوانی کے لئے بڑھاپا کشش ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے اس لئے کہ کوئی آدمی بوڑھا نہیں ہونا چاہتا لیکن ہر شئے جوان اور بوڑھی ہو رہی ہے۔
ساری زندگی کشش و گریز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ کبھی انسان کو زندگی کی دلچسپیاں اپنی طرف کھینچتی ہیں اور کبھی موت انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ انسان بے بس و مجبور ہو کر اس کشش و گریز میں سفر کرتا رہتا ہے اور ایک دن بچپن لڑکپن جوانی اور جوانی کے لوازمات کاروبار اولاد سب کچھ چھوٹ جاتا ہے اور کشش و گریز کے قانون کے مطابق موت اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 217 تا 223

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)