لیکچر 8 – کُن فیکون

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47471

کُن فیکون

علم روحانیت کا پورا احاطہ کرنے کے لئے (پورا احاطہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علمُ الاسماء کا جتنا علم دیا ہے)، تین اِصطلاحیں وضع کی گئی ہیں:
• تَدلّیٰ
• اِبداء
• خلق
تَدلّیٰ اسمِ اِطّلاقیہ کی صفَت ہے…. اور
اِبداء اسمِ عَینیہ کی صفَت…. اور
خلق اسمِ کَونیہ کی صفَت ہے
اسمِ کونیہ جب اپنی صفات میں مظہر بنتا ہے…. یا اسمِ کَونیہ کی صفات مظاہراتی خدوخال اختیار کرتی ہیں، تو اُن مظاہراتی خدوخال کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کو تدبیر کا نام دیا جاتا ہے۔
1. تَدلّیٰ …. اسمِ اِطّلاقیہ
2. اِبداء …. اسمِ عَینیہ
3. خلق …. اسم ِکَونیہ
4. تدبیر …. جُداگانہ مظاہراتی خدوخال
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم تین تنزّلات پر قائم ہے۔ جب ہم اسمِ رحیم کا تذکرہ کرتے ہیں، تو بھی ان تین صفات کا تذکرہ ہوتا ہے اور یہ تینوں صفات کائنات کی ہر مخلوق میں ہمہ وقت ہر آن جاری و ساری ہیں۔ لیکن ان صفات کا علم صرف انسان اور جنّات کو دیا گیا ہے۔
علمُ الاسماء آدم کو اس لئے عطا کیا گیا ہے کہ اللہ نے آدم کو اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ نائب سربراہ کے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اختیارات کا استعمال اس وقت ممکن ہے جب اختیارات سے متعلق قوانین سے واقفیت ہو۔ اِسمِ اِطّلاقیہ، اِسمِ عَینیہ اور اِسمِ کَونیہ کے علوم جاننے والے بندہ کو اللہ کی نیابت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شریک ہو جاتا ہے۔
اِسمِ رحیم میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات کام کر رہی ہیں، اُن کا تعلق تخلیقی اُمور سے ہے۔ تخلیقی امور میں زندگی اور موت دونوں شعبے آ جاتے ہیں۔ کوئی بندہ جب مرتا ہے تو دراصل وہ ایک زون سے نکل کر دوسرے زون میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی جب عالم ناسوت میں مرتا ہے تو عالم اَعراف میں پیدا ہو جاتا ہے۔ ازل سے ابد تک موت و زیست کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ قرآنِ پاک میں جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے معجزے کا ذکر آیا ہے وہاں اسمِ رحیم کی تینوں صفات کی طرف اشارہ ہے اور اسم کے تیسرے تنزّل یعنی اسمِ کَونیہ کی صفَت کے مظہر کو روح پھونکنے کا نام دیا ہے۔
اسمِ اِطّلاقیہ انسان کے ثابِتہ کو حاصل ہے جس کو روحِ اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی کوئی بندہ اسمِ رحیم کی صفَتِ تَدلّیٰ کو جان لیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی نیابت کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ کے دیئے ہوئے وصف سے مُردوں کو زندہ کرنے یا کسی شئے کو تخلیق کرنے کا کام سر انجام دے سکتا ہے۔
اگر کوئی انسان اسمِ رحیم کی صفَت استعمال کرنا چاہے تو اسے روحِ اعظم، روحِ انسانی اور روحِ حیوانی میں مراقبہ کے ذریعے اس فکر کو مستحکم کرنا ہو گا۔ جب سالک اسمِ رحیم کی صفات کا مراقبہ کرتا ہے تو اسمِ رحیم کی صفات تجلّی بن کر اس کی روحِ اعظم میں روحِ اعظم سے منتقل ہو کر روحِ انسانی میں اور روحِ انسانی سے منقل ہو کر روحِ حیوانی میں داخل ہو جاتی ہیں۔ اور یہ صفات جب کسی مردہ جسم میں منتقل کر دی جاتی ہیں تو مردہ جسم زندہ ہو جاتا ہے۔

علم لَدُنّی

قانون یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں ہمیں علم ہے تو نگاہ اسے دیکھتی ہے۔
لکڑی کے ایک فریم میں ایک تصویر بند ہے، لیکن ہمیں علم نہیں ہے کہ تصویر کے اوپر شیشہ لگا ہوا ہے، تو نگاہ شیشہ کو نہیں دیکھتی۔ اس کی مثال بڑی بڑی دکانوں اور بڑے بڑے شوروم میں شفاف گلاس ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آدمی تیزی کے ساتھ دروازے میں داخل ہوتا ہے اور شیشے سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علمی حیثیت سے وہ نہیں جانتا کہ دروازے میں صاف شفاف شیشہ لگا ہُوا ہے۔ اس کے برعکس ہمیں اگر یہ علم حاصل ہے کہ فریم شدہ تصویر کے اوپر شیشہ لگا ہوا ہے تو ہم اس تصویر کو دیکھنے کا تذکرہ اس طرح کریں گے کہ ہماری نگاہ شیشے کے اندر تصویر دیکھ رہی ہے۔
دوسری مثال ہیروشیما کی پہاڑیوں کی ہے۔ جس وقت ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تو اس کے اثرات اتنے شدید تھے کہ پہاڑ دھوئیں کی شکل اختیار کر گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ پہاڑ موجود ہیں لیکن جب چُھوا تو وہاں دھوئیں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ کوئی ہتھیار ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کی طاقت پہاڑ کو دھواں بنا دیتی ہے۔
دیکھنا، سننا، چُھونا، سب علم کی شاخیں ہیں اور دیکھنے، سننے، چُھونے، محسوس کرنے میں علم رہنمائی کرتا ہے۔ اگر ہمیں پہلے سے کسی چیز کا علم نہیں ہے تو ہم اس چیز کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ چُھو سکتے ہیں۔
مَوجودات کی حیثیت علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ علم حقیقت ہے اور لاعلمی لاموجود ہے۔ علم کی حیثیت اور علم کی تفصیلات ہمیں اللہ تعالیٰ کے اسماء سے منتقل ہوتی ہیں۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ نے آدم کو سکھایا ہے۔

علم کی درجہ بندی چار درجوں میں قائم ہے۔
صفَت کی پہلی موجودگی کا نام اِطّلاق ہے۔ دوسری موجودگی کا نام عَین ہے۔ تیسری موجودگی کا نام کَون ہے…. اور ان تینوں موجودگیوں کی یکجائی کا نام مظہر ہے۔
1. اِطّلاق …. صفَت کی پہلی موجودگی
2. عَین …. صفَت کی دوسری موجودگی
3. کَون …. صفَت کی تیسری موجودگی
4. مظہر …. تین صفات کا یکجا ہونا
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے ذہنی پروگرام کو ایک فلم کا نام دے دیں اور اس فلم کو نشر کرنے والی روشنیوں کو ‘‘کُن’’ قیاس کر لیں تو بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود کائنات کی فلم اس وقت نشر ہوئی جب ‘‘کن’’ سے سوئچ آن ہوا۔
اور اللہ تعالیٰ کا اپنا ذاتی علم اللہ تعالیٰ کے اپنے ارادے کے ساتھ حرکت میں آ گیا۔ یعنی کائنات کا ہر ذرّہ اللہ تعالیٰ کے علم کا ایک مظاہرہ ہے۔ زندگی کی ہر حِس اور زندگی میں کام کرنے والے تمام حواس علم کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
• علم کا پہلا رخ یہ ہے کہ اس علم کا براہِ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہے
• علم کا دوسر ارخ یہ ہے کہ علم کائناتی وُجود بن گیا

زندگی اور زندگی کے تمام مراحل، وہ ظاہری دنیا سے تعلق رکھتے ہوں یا غیب کی دنیا سے، سب کی بنیاد علم ہے اور یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو عطا کیا ہے اور جس علم کے بارے میں فرشتوں نے اقرار کیا ہے کہ ہم اس علم سے ناواقف ہیں۔
(حوالہ: سورۃ البقرۃ – 32)

اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت ہے…. اور اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق اپنی ہر صفَت میں کامل قدرت رکھتے ہیں…. اور ہر صفَت کے ساتھ قدرت اور رحمت شامل ہوتی ہے۔
جب ہم اللہ کو بصیر کہتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بصیر ہونے کی صفَت میں اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ جس کو چاہے بصارت عطا کر دے۔ ساتھ ساتھ، سماعت، بصارت یا دوسرے حواس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفَتِ خالقیت کے ساتھ رحمت بھی شامل ہے۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے آنکھیں اس لئے عطا کی ہیں کہ آدمی کے اندر دیکھنے کی قدرت پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ آنکھوں میں بصیر ہونے کے ساتھ ساتھ رحمت کا عنصر بھی شامل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ہر عنایت اور ہر عطا میں رحمت شامل ہے۔
رحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صفَت سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے۔ خود بھی اللہ کی نعمتوں سے مستفیض ہو اور دوسروں کے کام بھی آئے۔ خود بھی علم سیکھے اور نسلِ انسان کو بھی علوم سکھائے۔ خود بھی خوش رہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 79

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)