لیکچر 24

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=52433

اعمال کا ریکارڈ
ہم جب زندگی میں کام کرنے والے ان تقاضوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زندگی کا کوئی تقاضہ ایسا نہیں جو خیال کے بغیر پورا ہوتا ہو، ہر خیال کا تعلق اطلاع سے ہے۔ اطلاع کہیں سے آتی ہے دماغ کے اوپر وارِد ہوتی ہے۔ دماغ اسے محسوس کر کے معنی پہناتا ہے اور اطلاع کی تکمیل تقاضا بن جاتی ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ زندگی کہیں سے آ رہی ہے اور کہیں جا رہی ہے۔ زندگی کا یہ تسلسل اس طرح قائم ہے کہ ایک ہی جذبہ بار بار پیدا ہوتا ہے اور چُھپ جاتا ہے چُھپنے کے بعد پھر اُبھرتا ہے اور تکمیل کے بعد پھر چُھپ(ریکارڈ) جاتا ہے۔
راز:
اطلاع دو طرح سفر کرتی ہے:
1. ایک پابند ہو کر …. دوسرے
2. آزاد ہو کر
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اطلاع پابند ہو کر سفر کرے یا آزاد ہو کر سفر کرے …. ریکارڈ ہوتی رہتی ہے۔

زندگی کے چار رخ ہیں:
1. زندگی اطلاع ہے
2. اطلاع نُزول کرتی ہے۔ نُزولی کیفیت میں ٹائم اینڈ اسپیس کی پابندی لازمی ہے
3. اطلاع ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو کر سفر کرتی ہے
4. اطلاع کا کوئی سورس ہے

 انفارمیشن کا سورس
 خود انفارمیشن
 انفارمیشن حرکات و سکنات کی پابندی کے ساتھ
 انفارمیشن حرکات و سکنات سے آزاد
یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ اطلاع کا کوئی سورس ہے، زندگی کے پانچ رخ متعین ہیں۔ اس لئے کہ سورس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی منبع ہو۔
ریڈیو، ٹی وی ایک سورس ہے کہ خبریں سناتا ہے لیکن کہیں سے خبریں آ رہی ہیں۔ کوئی منبع یا مخزن ہے۔ کوئی ہستی ہے جو خبریں سنا رہی ہے۔
روحانی راستے پر سفر کرنے والے دوست جانتے ہیں کہ کائنات میں کوئی شئے نقش و نگار کے بغیر موجود نہیں ہے۔ کائنات میں ہر شئے کی شکل وصورت ہے۔ ہر شئے کا جسم ہے۔ تمام اَصلیں اور حقیقتیں غیب کی دنیا میں اس ہی طرح موجود ہیں جس طرح عالمِ ناسوت میں موجود ہیں۔ عالمِ غیب میں دیکھنے والی نگاہ سے سراغ ملتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر نقش کے تین وُجود ہیں۔
اول: تجلّی ذات
دوم: تجلّی صفات
سوئم: خلق
ہر وُجود صَعودی، نُزولی دو رخوں پر قائم ہے۔ اس طرح زندگی کے چھ رخ متعین ہوئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (7) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَّرْقُومٌ (9)
ترجمہ:
کوئی نہیں! لکھا ہے گنہگاروں کا پہنچنا …. بندی خانے میں
اور تجھ کو کیا خبر کیسا ہے بندی خانہ؟
ایک دفتر لکھا ہوا۔
(سورۃ المتفّفین – آیت نمبر 7 تا 9 )

اگر انسان کو اطلاع نہ ملے اور کوئی انسان اچھائی برائی کے تصوّر سے آشنا نہ ہو، اُس کے لئے سزا جزا نہیں ہے۔ اصل میں سزا جزا کا تعلق اطلاعات سے ہے۔ اطلاعات میں اچھائی برائی کے معانی پہنا کر اطلاع کو قبول کیا جاتا ہے۔ اطلاع کے نُزول کے بعد باشعور انسان اطلاع میں معنی پہناتا ہے۔ اطلاع میں معانی پہنانا دراصل ریکارڈ ہوجاتا ہے۔ یہی سزا و جزا کا قانون ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
خرابی ہے، اس دن جھٹلانے والوں کی…. وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں…. وہی باتیں ہیں جو پہلے لوگ کہہ چکے ہیں…. وہ اس لئے قبول نہیں کرتے کہ ان کے دلوں میں زنگ لگ گیا ہے…. وہ جانتے ہیں کہ اس سے پہلے لوگ بھی اللہ کی طرف سے لوگوں کو باخبر کرتے رہے ہیں۔ لوگوں نے ان کی باتوں کو نہیں سنا۔ اس کے باوجود کہ ان کے علم میں ہر بات ریکارڈ ہے کہ پچھلے لوگوں نے بھی اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے۔
(سورۃ المطفّفین – 11 – 14)

قانون یہ ہے کہ:
• انسان اطلاع کو جس طرح قبول کرتا ہے یا ردّ کرتا ہے سب کا سب ریکارڈ ہو جاتا ہے ….
• انسان جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس عمل کو جس طرح ضمیر قبول کرتا ہے….
• عمل اُسی طرح ریکارڈ ہو جاتا ہے …. اور
• انسان دوسری زندگی یعنی …. صَعودی زندگی میں اس ریکارڈ کو پڑھتا ہے …. مرنے کے بعد یومِ حساب تک یہی ریکارڈ زندگی بن جاتا ہے ….
• نیکو کاروں کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے …. انہیں اللہ تعالیٰ ایسی نعمتیں عطا کرتا ہے جن نعمتوں سے انہیں سکون ملتا ہے ….
• یہ سب بھی کتابُ المَرقُوم (ریکارڈ) ہے ….

ہم کوئی بھی عمل کرتے ہیں ہمیں اطلاع فراہم کی جاتی ہے کہ یہ کام اچھا ہے یا برا ہے۔ جب ہم اچھائی کو قبول کرتے ہیں تو اچھائی ریکارڈ ہو جاتی ہے اور جب برائی کو قبول کرتے ہیں تو برائی ریکارڈ ہو جاتی ہے۔
• ایک کام کرنے کے بعد بندے کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے ….
• دوسرا کام کرنے کے بعد ضمیر مطمئن نہیں ہے ….
ایک آدمی کہتا ہے کہ میں چوری کر کے مطمئن ہوں۔ میں نے چوری اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کی ہے۔ اس لئے میرا ضمیر مطمئن ہے لیکن جب اس کے گھر میں چوری ہوتی ہے تو وہ چوری کو اچھا عمل قرار نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود کو دھوکا دے رہا ہے۔
ایک آدمی غصے میں کسی کو گالی دیتا ہے وہ گالی دینے میں اپنے آپ کو حق بجانب تصوّر کرتا ہے لیکن جب اس کو کوئی گالی دیتا ہے تو اسے غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ خود فریبی میں مبتلا ہے۔
ضمیر کا مطمئن ہونا یہ ہے کہ …. جو کچھ انسان اپنے لئے چاہتا ہے وہ ہی دوسروں کے لئے چاہے ….
جن باتوں سے وہ خود پریشان ہوتا ہے، دوسروں کو ایسی باتوں سے پریشان نہ کرے ….
نُزول و صَعود کی حرکات، براہِ راست ضمیر سے تعلق رکھتی ہیں اور ضمیر اچھائی اوربرائی کو اچھی طرح جانتا ہے ….

آنکھوں کی روشنی
میرے بچو!میں اس قانون کو کئی دفعہ وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب خدوخال اور نقش و نگار پر قائم ہے۔ اور کائنات کو دیکھنے کی دو طرزیں ہیں:
1. ایک طرز یہ ہے کہ کائنات کے اندر موجود اشیاء کو ٹھوس مادّی شکل وصورت میں دیکھا جاتا ہے …. اور
2. دیکھنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ شکلیں اور صورتیں نظر تو آتی ہیں، ان میں ٹھوس پن بھی ہوتا ہے لیکن ظاہری دنیا کی طرح نظر میں نہیں آتیں ….

روحانی سائنس کا کوئی شاگرد جب ظاہر دنیا سے نکل کر دل کے نقطہ میں جھانکتا ہے تو اس کے اوپر یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ کائنات کے اندر موجود ہر شئے کے تین وُجود ہیں۔
1. ایک وُجود کا تعلق براہِ راست تجلّی سے ہے
2. دوسرے وُجود کا تعلق صفات سے ہے
3. تیسرے وُجود کا تعلق عالمِ خلق سے ہے

تخلیق دو رخوں پر کی گئی ہے:
1. ایک رخ …. نور اور روشنی ہے …. اور
2. دوسرا رخ حرکت ہے ….

ہر نَوع کے افراد سوتے جاگتے ہیں….
• سونے کی حالت انسان کو ذات سے قریب کرتی ہے …. اور
• بیداری انسان کو ذات سے دور کرتی ہے۔
سونے کی حالت صَعودی سفر کا ذریعہ ہے۔ صَعودی حالت سے واقفیت کے لئے مراقبہ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ بیداری کی دنیا میں سفر کرنے کا ذریعہ ہاتھ پیروں کی جنبش بتائی جاتی ہے۔ ظاہری علوم کے ماہر لوگ اس پر غور نہیں کرتے ہاتھ پیروں کی جنبش اور حرکت کہاں سے آ رہی ہے۔ مادہ پرست حضرات کے برعکس، روحانی لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ….
مادّی دنیا میں ہاتھ پیروں کی جنبش غیر مادّی دنیا کی جنبش کا نتیجہ ہے ….
اللہ تعالیٰ نے نَوع انسان کو زندگی گزارنے کا جو پروگرام دیا ہے، اس پروگرام میں صَعودی(خواب) اور نُزولی(بیداری) دونوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔

نماز و زکوٰۃ کا پروگرام
محترم خواتین و حضرات! آپ نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ ہر حرکت ذہن کی سطح پر قائم ہے۔ نُزول ایسی حرکت ہے جو نقطۂ ذات سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے۔ صَعود ایسی حرکت ہے جو نقطۂ ذات تک صَعود کرتی ہے اور نُزول و صَعود کی دونوں حرکتیں قدرت کے اشاروں پر عمل کرتی ہیں۔ کائنات کا ہر فرد ان کا پابند ہے۔
صَعود کی حالت ذات سے قریب کرتی ہے اور نُزول کی حالت ذات سے دور کرتی ہے۔ صَعودی حالت’’ وَجدان‘‘ اور نُزولی حالت ’’عقل ‘‘ہے۔ یہ وہ پروگرام ہے جو بِلا کسی فَصل کے تَواتُر کے ساتھ جاری ہے۔
کائنات کا ایک ممتاز فرد انسان اس بات کا پابند ہے کہ وہ نُزول و صَعود کے قانون کو سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق اسے اپنے اندر متحرّک کرے۔
اس پروگرام کی بنیاد نماز اور زکوٰۃ ہے۔ نماز اور زکوٰۃ دونوں روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔
• صلوٰۃ روح کا وظیفہ ہے …. اور
• زکوٰۃ جسم کا وظیفہ ہے

نماز مجموعی طور پر ایک ایسا عمل ہے کہ جس عمل میں تمام انسانی حرکات و سکنات کو سمو دیا گیا ہے۔
مثلاً کھڑے ہونا، ہاتھ اوپر اٹھانا، بولنا، پڑھنا، دیکھنا، سننا، ہاتھ باندھنا، جھکنا، جھک کر دوبارہ کھڑے ہونا، کھڑے ہونے کے بعد لیٹنا (سجدے کی حالت)، لیٹنے کے بعد بیٹھنا، بیٹھنے کے بعد پھر لیٹنا، پھر کھڑے ہونا، اِدھر اُدھر دیکھنا۔
نماز کے ارکان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز زندگی کے ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت کا احاطہ کرتی ہے اور یہ ساری جسمانی حرکات و سکنات بندہ اللہ کے لئے کرتا ہے۔
نماز ایک ایسا پروگرام ہے جس پروگرام کی کامیابی کے نتیجے میں انسان کا ذہن اور ذہن کی ہر حرکت اور ہر عمل اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ نماز قائم کر کے بندہ یہ دیکھ لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے یا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
یہ تربیتی پروگرام دس بارہ سال سے شروع ہوتا ہے اور اٹھارہ بیس سال تک اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ انسان جب پندرہ بیس سال تک وظیفۂ اعضاء کی حرکت کے ساتھ ذہنی طور پر اس بات کی مشق کرتا ہے کہ اس کے ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستگی قائم ہو تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہ کر سارے کام انجام دینا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ جب بندہ نماز قائم کرتا ہے تو وہ رَبودگی اور بیداری دونوں کیفیات سے یکساں طور پر رُوشناس ہو جاتا ہے۔ رَبودگی اور بیداری یا صَعود و نُزول، وَجدان اور عقل کے ساتھ، اللہ کے ساتھ وابستگی زندگی کی تکمیل ہے۔ زندگی کی تکمیل میں نماز اہم کردار ادا کرتی ہے۔

دوسرا پروگرام زکوٰۃ ہے۔
زکوٰۃ ایک ایسا عمل ہے جس کا منشا مخلصانہ اور بے لوث خدمت خلق ہے۔ زکوٰۃ اللہ کی اپنی عادت ہے۔ جب بندہ مخلصانہ قدروں میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذہنی وابستگی اور بے لوث خدمت کو تصوف میں ’’جمع‘‘ کہتے ہیں یعنی انسان خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہر وقت اللہ کی مخلوق اور اللہ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھتا ہے۔
جب تک کوئی بندہ جمع کی کیفیت میں داخل نہیں ہوتا اس کے اوپر عرفان کا راستہ نہیں کھلتا۔
عرفان حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہو جائے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی مخلصانہ خدمت کرے اور ہمہ وقت اس کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم رہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اپنی امت کو صلوٰۃ کا پروگرام عطا کیا ہے۔
جس طرح کوئی انسان مراقبے کے ذریعے اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے اندر مخفی علوم کو تلاش کرے۔
اس ہی طرح نماز ایک مکمل پروگرام ہے۔ اس پروگرام کو صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد انسان از خود ایسی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ لیتا ہے … اور
جب کوئی انسان زکوٰۃ کا پروگرام (اللہ کی مخلوق کی خدمت) پورا کر لیتا ہے تو کائنات کا ایک یونٹ بن جاتا ہے۔ اللہ کی عادت جب اس کے اندر داخل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پسند کر کے اس کے اوپر عرفان کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
پوری کائنات ’’نقطۂ وحدانی‘‘ میں بند ہے۔ اسی نقطہ کی گہرائیوں میں روشنیوں کے سَوت یا روشنیوں کے ذخیرے چھپے ہوئے ہیں۔ اسی نقطۂ وحدانی میں روشنیاں جوش کھاتی اور ابلتی رہتی ہیں۔ انہی ابلتی روشنیوں سے کائنات کے اندر ہر لمحہ تغیّر واقع ہوتا رہتا ہے۔ اسی تغیّر سے ستاروں اور سیاروں کے لاشمار نظام تعمیر ہو رہے ہیں۔ جتنی تعداد متغیّر ہوتی ہے اتنی ہی تعداد میں ستارے اور سیارے ٹوٹتے، مٹتے اور فنا ہوتے رہے ہیں۔ ٹوٹنے والے ستارے قائم رہنے والے سیاروں کے لئے اسٹور کا کام کرتے ہیں۔
ایک طرف نقطۂ وحدانی سے ابلنے والی روشنیاں ستاروں اور سیاروں کی تخلیق کرتی ہیں۔ دوسری طرف نقطۂ وحدانی سے نکلنے والی روشنیاں ایسے ستارے بناتی ہیں جو پورے پورے سیاروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ غیر مستقل سیاروں کے ٹوٹنے سے مستقل سیارے فیڈ ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وہ روشنیاں ہیں جن سے کائنات کو وسعت مل رہی ہے اور کائنات نئی نئی طرزوں میں پھیل رہی ہے۔

• گہرائیوں میں سمٹنا ’’منفی حرکات‘‘ ہیں …. اور
• روشنیوں کا پھیلنا اور منتشر ہونا مثبت حرکات ہیں ….
حرکت کی یہی دو حالتیں کشش اور گریز ہیں۔ کائنات میں کشش اور گریز کے کروڑ ہا حلقے پائے جاتے ہیں۔

نقطۂ وحدانی
کائنات ایسی روشنی ہے جو نُزول و صَعود کے ساتھ لہروں کی حرکت پرقائم ہے۔
مرکزی نقطہ ایک ایسا نقطہ ہے جو انوار سے معمور ہے۔ اور اس کے اندر روشنیاں جوش کھاتی اور ابلتی رہتی ہیں۔ ابلنے کے بعد روشنیوں کا بکھرنا ہی کائنات ہے۔ روشنی کے بکھرنے سے کائنات کے اندر ہر لمحہ لاشمار نظام تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔
اس کی مثال یوں ہے کہ ایک تالاب ہے۔ تالاب میں پانی بھرا ہوا ہے اور تالاب میں ایک فوارہ ہے۔ تالاب میں پانی بھی ہے۔ فوارہ بھی ہے۔ فوارہ جب ابلتا ہے تو تالاب میں گرتا ہے۔ گرنے سے تالاب میں بے شمار دائرے بنتے ہیں۔ یہ بے شمار دائرے ستارے سیارے اور کہکشانی نظام ہیں جو ہر آن بن رہے ہیں …. لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تالاب کے اندر موجود دائرے اپنی بِساط میں رہتے ہوئے سفر کرنے کے بعد مٹ جاتے ہیں۔
جتنی تعداد میں دائرے بنتے ہیں اتنی ہی تعداد میں دائرے فنا ہو جاتے ہیں۔

یعنی دائروں کا فنا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دوسرے اور دائرے بنیں گے۔ ہم جب تالاب کے اندر دیکھتے ہیں تو یہ بھی نظر آتا ہے کہیں دائرہ چھوٹا ہے اور کہیں بڑا ہے۔ اسی حساب سے ہر دائرہ کائنات کا ایک نظام ہے۔ اس قانون کو بیان کرنے سے منشأ یہ ہے کہ کائنات ہر وقت تعمیر ہو رہی ہے۔ کائنات ہر وقت فنا ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے دائرے فنا ہو رہے ہیں اس ہی طرح نئے دائرے بن رہے ہیں۔
دائروں کا بننا اور مٹنا اس پانی کی وجہ سے ہے جو پانی فوارے سے ابل رہا ہے۔
• فوارہ نقطۂ وحدانی ہے …. اور
• تالاب کائنات ہے ….
• تالاب کے اندر دائروں کا بننا …. مٹنا …. نُزولی و صَعودی حرکات ہیں ….

جن روشنیوں پر کائنات تخلیق ہو رہی ہے اس کے دو رخ ہیں:
• ایک رخ روشنیوں کی گہرائی میں سمٹنے اور ہجوم کرنے پر مجبور ہے۔
• دوسرا رخ روشنیوں کے پھیلنے اور منتشر ہونے پر مشتمل ہے

گہرائیوں میں سمٹنا اور ہجوم کرنا منفی حرکات ہیں …. پھیلنا اور منتشر ہونا مثبت حرکات ہیں ….

تالاب کی مثال کے پیش نظر ہم یہ کہیں گے کہ کائنات میں کشش و گریز کے کروڑ ہا حلقے ہیں۔ ان حلقوں یا دائروں میں ہر حلقہ یا دائرہ اپنی ایک مرکزیت رکھتا ہے اور ان تمام دائروں کی مرکزیت فوارے سے وابستہ ہے۔ ہر حرکت اس کا تعلق، صَعود سے ہو یا نُزول سے ہو، نقطۂ وحدانی کی سمت میں متحرّک ہے۔ نقطۂ وحدانی سے جو دائرے (کائنات کے افراد) وُجود پا رہے ہیں، ان کی مرکزیت ایسی ان دیکھی شعاعوں پر ہے جن شعاعوں کو اللہ نے ’’نور‘‘ کہا ہے۔
یہ سلسلہ ازل سے ابد تک قائم ہے اور جاری رہے گا۔
جب سالک منفی اور مثبت حرکات کو سمجھ لیتا ہے تو وہ چھ شعوروں سے واقف ہو جاتا ہے اس کے بعد اس کے اوپر ساتویں شعور کا انکشاف ہوتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ صفَتِ رَبانیت سے وقوف کے لئے سات شعوروں کو متحرّک کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
بے شک تمہارا ربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا۔
(سورۃ اَعراف ، آیت ۵۴)
انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت وَدیعت کر دی ہے کہ انسان بیک وقت چھ شعوروں سے کام لے سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اللہ چھپا دیتا ہے رات سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے۔
(سورۃ اَعراف ، آیت ۵۴)

مفہوم یہ ہے کہ دن اور رات حواس کی دو قسمیں ہیں۔ رات اور دن کے حواس یکساں طور پر کام کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دن میں حواس کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور رات میں حواس کی رفتار زیادہ ہو جاتی ہے۔
حواس کی کم رفتاری سے آدمی شعوری طور پر کم سفر کرتا ہے اور تیز رفتار حواس سے سفر میں تیزی آ جاتی ہے۔
دن کے حواس میں چونکہ رفتار کم ہوتی ہے اس لئے اسپیس کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ رات کے حواس میں دن کے حواس کے مقابلے میں رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ لیکن اسپیس سے آزاد ہونے کے باوجود فرد اسپیس میں موجود رہتا ہے۔ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوتا ہے کہ اسپیس میں تغیّر واقع ہو جاتا ہے۔ ایک آدمی بیداری میں زمین پر چل رہا ہے وہی آدمی خواب کی حالت میں اسپیس سے آزاد ہو کر کسی دوسرے سیارے میں چل پھر رہا ہے۔ چلنا پھرنا اس بات کی علامت ہے کہ زمین کی اسپیس ہر سیارہ میں موجود ہے اسپیس ایک ہے اور ٹائم بے شمار ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔
(سورۃ اَعراف ، آیت ۵۴)

اس فرمان میں بتایا گیا ہے کہ ساری کائنات نقطۂ وحدانی ہے۔ نقطۂ وحدانی سے جس طرح حکم ہوتا ہے کائنات اس کو ماننے پرمجبور ہے۔
اللہ خالق ہے اور خالق نے اپنی صفات مخلوق کو منتقل کر دی ہیں۔ اللہ بحیثیت خالق کے ربّ العالمین ہے اور صفَتِ رَبانیت سے مخلوق زندہ ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا ہے:
جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔
جب ہم نفسِ انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں دراصل ان تمام صلاحیتوں اور صفات کا تذکرہ کرتے ہیں جن صلاحیتوں اور صفات پر انسانی زندگی برقرار ہے اور جب انسان اللہ کی طرف سے منتقل شدہ صفات سے واقف ہو جاتا ہے تو اللہ سے واقف ہو جاتا ہے اس لئے کہ وہ صفَتِ رَبانیت سے واقف ہو گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں ہوں تیرا رب، میں ہوں اللہ عالمین کا رب۔
(سورۃ القصّص – آیت نمبر 30)
اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنی ذات کو اللہ اور صفات کو ربّ فرمایا ہے۔ جب کوئی بندہ اپنے اندر موجود ربوبیت کی صفات سے متعارف ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کی صفَتِ رَبانیت سے متعارف ہو جاتا ہے۔ چونکہ کائنات کے تمام افراد میں اللہ کی یہ صفَت کام کر رہی ہے اس لئے بندہ صفَتِ رَبانیت سے متعارف ہو کر مَوجودات سے واقف ہو جاتا ہے اور اس واقفیت کی بنیاد پر مَوجودات اس سے قریب ہو جاتی ہیں۔

تخلیقی فارمولہ
کائنات میں جو کچھ ہے سب روشنی ہے۔
• ہر روشنی ایک الگ نَوع ہے ….
• ہر نَوع میں روشنی کی معیّن مقداریں کام کرتی ہیں …. اور
• مقدار ایک رنگ ہے ….
• رنگوں کی ترتیب سے شکلیں وُجود میں آتی ہیں …. اور
• ہر شکل میں ترتیب کے ساتھ یکسانیت ہے۔ بکری کی نَوع میں جتنی بھی بکریاں ہوں گی سب کے اندر ایک قدر مشترک ہے۔
زمین پر چھ ارب آدمی موجود ہیں اور انسانی شماریات سے بہت زیادہ آدم دوسرے سیاروں پر موجود ہیں۔ ہماری زمین پر بسنے والا ہو یا کسی دوسرے سیارے میں رہنے والا آدم ہو سب کی شکلوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔
ہر نَوع کے لئے روشنی کی ایک معیّن مقدار ہے۔ روشنی کی معیّن مقدار میں ردّ و بدل اس لئے واقع نہیں ہوتا کہ ….
• ہر روشنی کی مرکزیت نقطۂ وحدانی ہے …. اور
• ہر روشنی نُزول کے بعد نقطۂ وحدانی کی طرف صَعود کرتی ہے ….

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 203 تا 216

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)