لیکچر 22 – ازل تا قیامت

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=50173

ازل تا قیامت
زندگی کا جس زاویے سے بھی تذکرہ کیا جائے تو لازماً زندگی کے دو رخ متعین ہوتے ہیں:
• ایک رخ کا نام مکانیت ہے …. اور
• دوسرے رخ کا نام زمانیت ہے۔
مکانیت(Space) اور زمانیت (Time) ہے۔

ہم جب زندگی میں نقش و نگار کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ زندگی کے نقش و نگار کہیں سے آ رہے ہیں۔
اِستقرارِ حمل میں نقش و نگار نہیں ہوتے جیسے جیسے ماں کے پیٹ میں نشوونما ہوتی ہے نقش و نگار بنتے رہتے ہیں۔ پیدائش کے بعد دوسری حقیقت جس سے کوئی فرد واحد انکار نہیں کر سکتا موت ہے۔ موت کے بعد بھی نقش و نگار موجود رہتے ہیں لیکن زندگی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
نقش و نگار اور زندگی دو الگ الگ شئے ہے ….
جب تک زندگی نقش و نگار کو متحرّک رکھتی ہے نقش و نگار موجود رہتے ہیں، بصورت دیگر معدوم ہو جاتے ہیں۔ نقش و نگار کو متحرّک کرنے والی شئے آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ مگر اس نظر نہ آنے والی ہستی پر زندگی قائم ہے۔
’’زندگی‘‘ زمانیت ہے ….. اور زندگی کے نقش و نگار مکانیت ہیں….
نقش و نگار والا رخ مکانی رخ ہے اور نقش و نگار کو حرکت دینے والا رخ زمانی رخ ہے۔ انسانی اعضاء…. ہاتھ، پیر، ناک، کان وغیرہ مکانیت ہیں۔ انہیں حرکت میں رکھنے والی شئے زمانیت ہے۔
زمانیت مادی آنکھ سے نظر نہیں آتی اور مکانیت مادی آنکھ سے نظر آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری ہستی سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے۔
(سورۃ الدخان، آیت نمبر 4)
یعنی کائنات کی تمام حرکات و سکنات کا منبع و مخزن، اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر حرکت ایک حکمت ہے۔ یہ حکمت ہی نوعِ انسانی کے اندر فکر کی وسعتیں ہیں۔ فکری وسعتیں علم کی گہرائی ہے جو زمانیت سے قریب کرتی ہے۔

زندگی کا دارومدار زمانیت پر ہے۔ زندگی کا نقش و نگار کے ساتھ حرکت کرنا مکانیت ہے۔ اس بات کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کے تمام اعمال و حرکات زمانیت پر قائم ہیں۔ زمانیت بندے کو اللہ تعالیٰ سے متعارف کراتی ہے۔ جب کوئی انسان یہ بات جان لیتا ہے کہ میری اصل اللہ کا امر (زمانیت) ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام نَوعیں اور کہکشانی نظام اللہ کے حکم کے ساتھ قائم ہیں اور اللہ کے حکم کے ساتھ ہی تخلیق ہوتے ہیں۔ کائنات کے نقش و نگار اللہ کے علم سے ترتیب اور توازن کے ساتھ خلق یا عالمِ ظاہر میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ عالمِ خلق سے مراد زمانیت ہے، عالمِ ظاہر سے مراد مکانیت ہے۔ عالم ِخلق اور عالمِ امر ایک ہی بات ہے۔

جب ہم کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں تو فارمولہ یہ بنتا ہے کہ اسپیس کے اوپر بے شمار مخلوق ہیں اور ہر مخلوق اپنے مخصوص نقش و نگار رکھتی ہے۔ نَوعی اعتبار سے ہر مخلوق کی اپنی الگ حیثیت ہے لیکن ہر نَوع دوسری نَوع سے ہم رشتہ ہے۔ جب ہم کبوتر اور انسان کا تذکرہ کرتے ہیں تو کبوتر اور انسان الگ الگ نَوع نظر آتی ہیں۔ لیکن جب مکانیت کے دائرے میں کبوتر اور انسان کا تذکرہ کرتے ہیں تو کبوتر اور انسان ایک مشترک رشتے میں بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انسان اور کبوتر دونوں پانی اور غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ افزائش نسل انسان میں، کبوتر اور دوسری انواع میں، مشترک ہیں۔ بولنا اور اپنے خیال کو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنا انسانوں کے اندر بھی رائج ہے پرندوں اور چوپایوں میں بھی رائج ہے۔
نوعِ انسانی ہو، نوعِ جنّات یا نَوعِ ملائکہ ہو، سب مکانیت کے دائرے میں نقش و نگار کے اعتبار سے اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتے ہیں …. لیکن انفرادی حیثیت کے باوجود ایک ایسا رشتہ موجود ہے جس رشتے میں کائنات کے تمام افراد بندھے ہوئے ہیں۔ اس رشتے کے بغیر زندگی کا تصوّر ممکن نہیں ہے۔

نظر کا قانون
مکانیت میں رہتے ہوئے خارجی نگاہ کام کرتی ہے۔
ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ زید نے بکر کو دیکھا تو لامحالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ زید و بکر کے درمیان جو فاصلہ ہے اس فاصلے نے دونوں کے درمیان ایک تعلق قائم کیا اس لئے کہ فاصلے کے بغیر دیکھنے کا عمل پورا نہیں ہوتا۔ یہ فاصلہ ہر چیز کے درمیان مشترک ہے۔ فاصلہ ہی ہمیں ایک دوسرے سے متعارف کراتا ہے۔ دو افراد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں دونوں کے درمیان فاصلہ ہے لیکن یہ فاصلہ حذف ہو جائے تو یہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔ فاصلہ ہی تعارف کا سبب ہے۔
کائنات کے اندر فاصلہ کائنات کو دکھانے کا ذریعہ ہے۔ ہم سورج کو دیکھتے ہیں، سورج کا فاصلہ زمین سے نو کروڑ میل ہے۔ لیکن جب ہم سورج کو دیکھتے ہیں تو سورج کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح کسی چیز کو ایک انچ کے فاصلے سے دیکھتے ہیں۔ نو کروڑ میل دیکھنے میں ہماری نگاہ کا زاویہ نہیں بدلتا۔ ہم سورج کو دیکھتے ہیں جب کہ وہ نو کروڑ تیس لاکھ میل دور ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان اور سورج کے درمیان رشتہ موجود ہے جو ایک دوسرے کو پہچاننے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جس طرح ہماری نگاہ نو کروڑ میل دور سورج کو دیکھتی ہے اگر روحانی اسباق کے ذریعے ہم اپنے اور سورج کے درمیان فاصلے سے واقفیت حاصل کر لیں تو ابتدائے آفرینش سے اتنہائے آفرینش تک دیکھنا ممکنُ العمل بن جاتا ہے۔
حجابِ مَحمود =سدرۃُ المنتہی۔ بیتُ المعمور
روشنی کی دو قسمیں ہیں….
• ایک روشنی وہ ہے جو ہم نگاہ کے ظاہر رخ سے دیکھتے ہیں …. اور
• دوسری قسم کی روشنی وہ ہے جو ہم نگاہ کے باطنی رخ سے دیکھتے ہیں۔ باطنی رخ سے نظر آنے والی روشنی ازل سے یکساں حالت پر قائم ہے اس میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا اس روشنی میں نقش و نگار نہیں ہوتے البتہ ذات کا اِدراک ہوتا ہے۔ ازل سے یکسانیت پر قائم رہنے والی روشنی کا نام صادِرُ العین ہے۔
روشنی کی دوسری اصل جو ازل سے یکسانیت پر قائم نہیں ہے اور یکسانیت پر قائم نہ ہونے کی وجہ سے جس میں تغیّر ہوتا رہتا ہے کا نام عین ہے۔

صادِرُ العین اور عین یعنی غیر تغیّر اور تغیّر پذیر کی اصلیں عالمِ امر میں قائم ہیں۔

صادِرُ العین اور عین کے بعد نقش و نگار اور خدوخال کا عالم شروع ہوتا ہے۔
نقش و نگار کے بھی دو رخ ہیں:
• ایک کا نام مثالیت ہے…. اور
• دوسرے کا نام عنصریت ہے ….
عنصریت کے جسم کا مرکز مادی دنیا میں ہوتا ہے۔ روشنی کا جسم اور روشنی کے جسم کے خدوخال دونوں کا تعلق عالمِ امکان سے ہے۔

کائناتی تخلیق میں حدوں کا تعین، گریز اور کشش کا عمل دخل ہے۔ زید کی حدود کا تعین …. بکر کی حدود کا تعین …. زید میں کشش و گریز …. بکر میں کشش و گریز …. ان کو تصوف میں بُعد کہا گیا ہے۔
چار بعد کی تشریح یہ ہے۔
1. صادِرُ العین …. یعنی کائنات کی وہ اصل جو غیر متغیّر ہے
2. عین …. روشنی کی وہ اصل جو تغیّر پذیر ہے لیکن روشنی کی اس اصل میں ابعاد نہیں ہوتے
3. مثالیت …. روشنی کا ایسا جسم جس میں خدوخال ہوتے ہیں، لیکن نقش و نگار کا تعلق مادی دنیا سے نہیں ہے
4. عنصریت …. روشنی کا ایسا جسم جو مادی دنیا سے تعلق رکھتا ہے
عنصریت …. وہ جسم ہے جو مادی آنکھ سے نظر آتا ہے۔
مثالیت …. وہ جسم جو مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا باطنی آنکھ سے نظر آتا ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کائنات سے پہلے کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا…. ’’أمعاء‘‘
اس کے بعد سوال کیا گیا پھر کیا ہوا؟ فرمایا …. ’’ ماء‘‘
أمعاء عربی اِصطلاح میں ایسی منفیت کو کہتے ہیں جو عقل انسانی سے ماوراء ہے۔ أمعاء میں خدوخال نہیں ہوتے …. اور
ماء عربی میں مثبت کو کہتے ہیں۔ خدوخال نہ ہونے کے باوجوع عقل انسانی اس کا اِدراک کر سکتی ہے۔ یہ مثبت عالمِ امر ہے۔
مثبت سے ماوراء (أمعاء) عالمِ نور ہے۔ انسانی تفہیم و تعلیم اور شعور و لاشعور کی معراج عالمِ انوار سے جس مقام تک ہے اس کا نام حجابِ مَحمود ہے۔ حجابِ مَحمود عرش کی بلندی ہے۔ وہ بلندی جس کو عرش کی انتہا کہا جا سکتا ہے۔ انسان کے ا ندر اتنا اِدراک موجود ہے کہ وہ حجابِ مَحمود کی تفہیم کا خود کو خوگر بنا سکتاہے اور حجابِ مَحمود میں اللہ کی تجلّیات و صفات کو سمجھ سکتا ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں مقرّب فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اس عالم سے نیچے ایک اور عالم سدرۃُ المنتہیٰ ہے۔ سدرۃُ المنتہیٰ مقرب فرشتوں کی پرواز کی انتہا ہے۔ سدرۃُ المنتہیٰ سے نیچے ایک اور بلندی ’’بیتُ المعمور‘‘ ہے۔

ملائکہ کے گروہ
انسان یا کائنات دو جسموں سے مرکب ہے ۔
• ایک جسم روشنی کا جسم …. اور
• دوسرا جسم (Material Body) ہے جو مادی آنکھ سے نظر آتا ہے
اگر روشنی کا جسم مادی جسم کو اطلاعات فراہم نہ کرے تو مادی جسم بیکار اور عُضوِ معطل ہو جاتا ہے۔ جب تک روشنی کا جسم مادی جسم کو اطلاعات فراہم کرتا رہتا ہے، مادی جسم متحرّک اور فعال رہتا ہے۔ جب روشنی کا جسم مادی جسم کو اطلاعات دینا بند کر دیتا ہے تو مادی جسم پر موت وارِد ہو جاتی ہے۔ جب روشنی کا جسم مادی جسم کو اطلاعات نہیں دیتا تو جسم کے اندر وہ عناصر جن سے نقش و نگار بنتے ہیں، بیکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں جتنے تقاضے احساسات اور جذبات ہیں اسی وقت تک متحرّک ہیں جب تک روشنی کا جسم مادی جسم کو اطلاعات فراہم کرتا رہتا ہے۔

کائنات کی چار جہتیں …. چار سمتیں ہیں۔
• ایک جہت میٹر(Matter) ہے ….
• دوسری جہت روشنی ہے ….
• تیسری جہت نور ہے …. اور
• چوتھی جہت اللہ کا ذہن ہے۔ اللہ کے ذہن کو علمِ واجب کہتے ہیں۔ انسان کے علم کی معراج یہ ہے کہ وہ علمِ واجب (حجابِ مَحمود) کو دیکھ لیتا ہے۔ حجابِ مَحمود سے مراد عرشِ اعظم کی انتہا ہے۔ ہم جب عرش کہتے ہیں تو ہمارے سامنے زمین، سات آسمان، عرش، سدرۃُ المنتہیٰ اور بیتُ المعمور ہوتا ہے۔ سدرۃُ المنتہیٰ اور بیتُ المعمور سے آگے کے مقامات حجابِ عظمت حجابِ کبریاء اور حجابِ مَحمود ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں بڑی حد تک مَلاءِ اعلیٰ کا عمل دخل ہے۔ لیکن مَلاءِ اعلیٰ کی پرواز سدرۃُ المنتہیٰ سے آگے نہیں ہے۔ یعنی انسان کی پرواز مَلاءِ اعلیٰ سے بہت آگے ہے۔
سدرٰۃ المنتہیٰ اور بیتُ المعمور کی حد میں رہنے والے اور پرواز کرنے والے فرشتے جن طبقوں پر مشتمل ہیں ان میں:
• ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیشہ تسبیح و تحلیل میں مشغول رہتا ہے۔ یہ فرشتوں کا لامتناہی سلسلہ ہے جو کسی بھی طرح شمار میں نہیں آتا۔ یہ گروہ رکوع و سجود میں ہمہ وقت اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے
• دوسرا گروہ اللہ تعالیٰ کے احکامات عالمین تک پہنچاتا ہے …. اور
• تیسرا گروہ ان فرشتوں کا ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو عالمِ امر کے لئے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے

ملائکہِ مقربین اور مَلاءِ اعلیٰ کے چھ (۶) پر ہوتے ہیں اور ان کو عالمِ نور کی فراست حاصل ہوتی ہے۔ عالمِ نور سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ احکامات ہیں جو اللہ تعالیٰ عرش سے صادِر فرماتے ہیں۔
• عالمِ نور کے فرشتوں یا ملائکہِ مقربین کے پیغامات ملائکہِ سماوی سمجھتے ہیں ….
• ملائکہِ سماوی کے پیغامات ملائکہِ روحانی تک پہنچتے ہیں … اور
• ملائکہِ روحانی کے پیغامات ملائکہِ عنصری سمجھتے ہیں

پہلے درجے میں مَلاءِ اعلیٰ (ملائکہِ مقربین) ….
دوسرے درجہ میں ملائکہِ سماوی ….
تیسرے درجہ میں ملائکہِ روحانی …. اور
چوتھے درجہ میں ادنی فرشتے ہیں۔ ادنی فرشتوں کو عنصریون کہتے ہیں۔
• عنصری فرشتے ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں جو انہیں ملائکہِ روحانی سے ملتے ہیں …. اور
• ملائکہِ روحانی ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں جو انہیں ملائکہِ سماوی سے ملتے ہیں ….
• ملائکہِ سماوی اُن احکامات کی تعمیل کرتے ہیں جو انہیں مَلاءِ اعلیٰ سے ملتے ہیں …. اور
• مَلاءِ اعلیٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکامات صادِر ہوتے ہیں۔
عنصری فرشتے زمین کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی فرشتے دنیاؤں میں بسنے والی مخلوق کو انسپائر کرتے ہیں۔
ایک نشست میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے فرمایا کہ انسان کے ساتھ ہمہ وقت بیس ہزار فرشتے کام کرتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر زندگی اس وقت زندگی بنتی ہے جب فرشتے اس کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ یوں سمجھا جائے کہ ہر انسان میں بیس(۲۰) ہزار ڈوریاں بندھی ہوئی ہیں۔ جب تک بیس ہزار ڈوریوں کو فرشتے ہلاتے جُلاتے نہیں …. انسان حرکت نہیں کرتا۔ بیس ہزار فرشتے انسان کے اندر بیس ہزار صلاحیتیں انسپائر کرتے رہتے ہیں۔

آپ نے کٹھ پتلی کو دیکھا ہے کہ وہ مختلف تاروں کی حرکت سے مختلف حرکات کرتی ہے۔ اسی طرح انسان روشنی اور نور کے بیس ہزار تاروں میں بندھا ہوا ہے۔ روشنی اور نور کے بیس ہزار تاروں کو بیس ہزار فرشتے حرکت دے رہے ہیں۔

ملائکہِ مقربین میں چھ پروں سے مراد چھ فراستیں ہیں…. جس فراست سے وہ عالمِ نور کے احکامات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جیسے ایک آدمی کے اندر ایک عقل یا ایک فراست ہے …. اسی طرح ملائکہِ مقربین میں چھ فراستیں ہوتی ہیں۔ جن کو چھ پروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ باطنی آنکھ سے ان کے جسم میں چھ بازو پروں کی طرح نظر آتے ہیں۔
چھ بازو کی وضاحت اس طرح ہے۔
1. انہیں کچھ نہ کچھ ذات کا عرفان حاصل ہے
2. وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت رکھتے ہیں۔ اللہ کو صفاتی حدود میں جانتے پہچانتے ہیں
3. عالمِ امر کے صادِرُ العین کی فہم رکھتے ہیں
4. عین کی ترتیب اور تخلیق سے واقف ہیں
5. عالمِ امکان یا عالمِ خلق کی مثالیت کے علوم پر انہیں پورا عبور حاصل ہے
6. عالمِ خلق یا عالمِ امکان کے اجزاء پر عبور رکھتے ہیں۔ یعنی تخلیقی فارمولوں سے پوری طرح واقف ہیں۔

ا س بات کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ مَلاءِ اعلیٰ چھ علوم کی روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ علم بالذات خود روشنی ہے۔ دراصل روشنی ہی کا نام علم ہے۔ علم کی یہی شکل اپنی مخصوص صفات میں الگ الگ رنگوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔
جب ہم رنگوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو نیلا، پیلا، کالا، سفید جتنے بھی رنگ بیان کر سکتے ہیں …. ہر رنگ ایک علم ہے۔ علم شکل و صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ کسی نہ کسی روشنی میں اپنی مخصوص صفات میں مظاہرہ کرتا ہے۔

یہ بات بہت زیادہ توجہ طلب ہے کہ علمِ حُضوری (علم ِحقیقت) میں کوئی شئے شکل وصورت کے بغیر نہیں ہے۔
ہم ہَوا کا تذکرہ کرتے ہیں …. ہَوا کے تاثرات سے متاثر ہوتے ہیں، ہَوا کی راحت یا تکلیف ہمیں محسوس ہوتی ہے، لیکن مادی آنکھ ہَوا کو دیکھ نہیں سکتی۔ علمِ حُضوری جاننے والا کوئی بندہ جب ہَوا کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ہَوا شکل وصورت میں نظرآتی ہے۔ عقل و شعور سے بھی ہَوا کا وُجود ثابت ہوتا ہے۔ جب ہَوا چلتی ہے تو گوشت پوست کے جسم پر چوٹ پڑتی ہے۔ ہَوا اگر لطیف اور خوشگوار ہے، تو جسم ہلکا سا ارتعاش اپنے اندر محسوس کرتا ہے …. لیکن ہَوا نظر نہیں آتی۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 179 تا 189

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)