لیکچر 23 – نسبتِ یادداشت

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=50175

نسبتِ یادداشت
علم کی دو قسمیں ہیں۔
• اِکتسابی علم
• حُضوری علم
علم جو اِکتساب کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس میں مظاہر کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اِکتسابی علم مفروضہ حواس کی مسلسل تجدید کا ذریعہ ہے۔ علمِ اِکتساب میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسانی شعور جن مفروضہ باتوں پر قائم ہے وہ شعور کی گرفت سے آزاد نہ ہوں۔ ہم جب انسانی شعور کی چھان پھٹک کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسانی شعور فکشن پر قائم ہے۔ ہم جب اپنے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں بے چارگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مثلاً ہمارا معاشی نظام شماریات پر قائم ہے لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم ثابت کر سکیں کہ ایک اور ایک دو ہوتے ہیں۔ تو اسی طرح جب ہم اپنے بچوں کو علمی میدان میں اتارتے ہیں تو کہتے ہیں الف۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کوئی یقین دہانی نہیں ہے کہ ب، الف ہے یا الف، ب ہے۔ اگر چھوٹا سا بچہ ہم سے سوال کرے کہ الف، الف کیوں ہے اور ب، الف کیوں نہیں ہے تو ہم اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ بچے کے لئے ضروری ہے کہ شعوری فکشن کے تعین کو سوچے سمجھے بغیر قبول کر لے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو علم نہیں سیکھ سکتا۔
دوسرا علم، علمِ حُضوری ہے۔ علمِ حُضوری علمِ اِکتسابی کے متضاد ایسا علم ہے جہاں کوئی بات اس وقت تک قابل یقین قرار نہیں ہے جب تک اس کا مشاہدہ نہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے نقطۂ ذات میں چاروں عالَموں کو یکجا کر دیا ہے۔
1. عالمِ نور
2. عالمِ تَحتَ الشّعور (ملائکہِ مقربین)
3. عالمِ امر
4. عالمِ خلق

عالمِ امر کی وضاحت اس طرح ہے۔ ہماری کائنات اَجرامِ سماوی، موالیدِ ثلاثہ اور بے شمار نادیدہ مخلوقات کا مجموعہ ہے۔ کائنات کے تمام اجزاء اور افراد میں ایک ربط موجود ہے۔ مادی آنکھیں اس کو دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں لیکن اس کے وُجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں وہ چیز نظر کے سامنے آ جاتی ہے یہ ایک عام بات ہے۔ ذہنی انسانی کبھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا کہ چیز نظر کیوں آتی ہے۔؟

روحانیت میں کسی چیز کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ درجہ کی چیز ہو۔
ہم جب کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس کی صفات ٹھیک طرح سمجھ لیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ شاہد جس چیز کو دیکھتا ہے اس شئے کی معرفت نگاہ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ گویا دیکھنے والا خود دیکھی ہوئی چیز بن کر اس کی معرفت حاصل کرتا ہے۔
جب تک ہم گلاب کے پھول کی صفات میں منتقل نہ ہوں گلاب کو نہیں دیکھ سکتے۔ گلاب کی خصوصیات میں منتقل ہو کر ہی ہمیں گلاب کے پھول کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
عالمِ خلق کا ہر فرد اپنے نقطہ ذات کو دوسری شئے کے نقطۂ ذات میں تبدیل کرنے کی ازلی صلاحیت رکھتا ہے اور جتنی مرتبہ اور جس طرح چاہے وہ کسی چیز کو اپنی معرفت میں مقیّد کر سکتا ہے۔
ہر انسان کی ذات میں پوری کائنات کی صفات مجتمع ہیں۔

عالمِ امر کی ایک شان یہ ہے کہ جب آپ کسی شئے کا نام سنتے ہیں۔ مثلاً آپ نے محمود کا نام سنا تو آپ کے ذہن میں لفظ محمود یا محمود کے ہجے نہیں آتے بلکہ محمود کی ذات اور شخصیت آتی ہے۔ محمود کی شخصیت بے شمار صفات کا مجموعہ ہے۔ جن صفات سے آپ واقف ہیں، اُن صفات میں محمود کی صورت اور سیرت دونوں ہوتی ہیں۔
یہ عالمِ امر کی تفہیم کا دوسرا قانون ہے کہ، ازل سے ابد تک محمود کی شخصیت لاشعور میں موجود ہے۔ اگر عارف ازل سے ابد تک محمود کی پوری شخصیت کا کشف چاہتا ہے تو وہ اپنے شعور کو لاشعور کے اندر مرکوز کر دیتا ہے اور محمود کی صفات عارف کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان کو اپنی انا کی معرفت حاصل ہو، کیونکہ انسانی انا کی حرکت ہی لاشعور میں مرکوز ہو کر لاشعوری روئیداد کو تصوّر میں لاتی ہے۔ اس ہی کیفیت کو خواجہ بہاؤالدین نقشبندؒ نے ’’یادداشت‘‘ فرمایا ہے۔

عالمِ امر کی تفصیل میں مذاہبِ عالم کی چند باتوں کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں نے جو کسی زمانے میں غیبی طاقتوں سے متعارف ہوئے ہیں، چند عقائد کو ملحوظ رکھ کر روحانی نظامِ تعلیم ترتیب دیا۔ اس قسم کے نظامِ تعلیم متعدد بن چکے ہیں۔ ابتدائی دَور میں جب دنیا کی آبادیاں اور ضرورتیں بہت کم تھیں یہ تعلیمات، بہت وسیع اور ہمہ گیر صورت اختیار نہیں کر سکی تھیں۔ بالکل ابتدائی دَور میں نوعِ انسانی میں کتنے ہی افراد غیبی چیزوں کا مشاہدہ کرتے تھے اور ان مشاہدات کا تعلق عالمِ امر سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ ان مشاہدات کو اپنے قبیلے اور طرزِ زندگی کے محدود معانی میں سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے وسیع تر دنیا اور نوعِ انسانی کے بہت سے طبقوں کی زندگی نہیں تھی۔ اس لئے ان پر عالمِ امر کے جو حقائق منکشف ہوتے تھے، ان کی تعبیریں ان کے زمانے کے مطابق ہوتی تھیں۔
چنانچہ ان روحانی بزرگوں کے بعد ان کے مقلّدین اَوہامِ باطلہ اور تصوّراتِ خام میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ تمام بت پرست اور مظاہر پرست مذہب اسی طرح وُجود میں آئے، جنہوں نے اُس دَور میں مذہب کے خدوخال تیار کئے، وہ عالمِ امر کے حقائق سے ناواقف تھے۔ اور یہ لوگ جو کچھ اپنے رہنماؤں سے سیکھتے تھے اس کو دوسروں تک پہچانے میں غلط عقائد، جادو اور رَہبانیت کی بنیادیں قائم کر دیتے تھے۔ وہ مظاہر کو ہی اصل روشنیوں کا سرچشمہ قرار دیتے تھے۔
بابل کے ان مذاہب میں جین مَت، آریائی مذہبوں میں ہندو اور ویدانیت کے زیر اثر کئی مذاہب ہیں۔ بدھ مَت بھی مہاتما گوتم بدھ کے مقلّدین کی ایسی ہی روِش سے دوچار ہو کر رَہبانیت سے دوچار ہوا ہے۔ منگولی مذاہب میں توحید کے خدوخال نہ ملنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ایسے ہی حالات سے متاثر ہو کر ’’ٹاؤ مَت‘‘ کو بھی بہت سے اَوہام اور جادوگری کا اَسیر ہونا پڑا۔ منگولی مذہب میں آفتاب پرست اور زَرتَشت عقائد رکھنے والوں نے یا تو ’’عالمِ امر‘‘ کو شیطانی اور رحمانی کے دو اصلوں پر مَحمول کِیا ہے، یا مظاہر کو ’’عالمِ امر‘‘ کی مرکزیت قرار دیا ہے۔ ان رویّوں سے آہستہ آہستہ بت پرستی اور مظاہر پرستی کے عقائد مستحکم ہوتے گئے۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مادی زندگی کل زندگی کا نصف ہے۔ کسی مسلک میں اگر نصف کو مقام نہ دیا جائے تو زندگی کی تمام تعبیریں مسمار ہو جاتی ہیں اور عقائد میں بے راہ روی پیدا ہو جاتی ہے۔ عقائد کی بے راہ روی سے لاشمار مذاہب، عالمِ امر اور عالمِ خلق کے حقائق سے نامانوس ہو گئے۔ بالآخر نوعِ انسانی ردِّعمل میں مبتلا ہو گئی اور ایسے مذاہب کی بنیادیں پڑ گئیں جن کا مقصد صرف حکومت اور ریاست ہے۔ اس فتنہ کی بناء پر نئے نئے فلسفے بنتے رہے، نئے نئے مذاہب سامنے آتے رہے۔ ان مذاہب میں کنفیوشس ،شنٹو وغیرہ جیسے مذاہب بھی ہیں۔
اِن مذاہب میں سے ہزاروں فنا ہو چکے ہیں اور ہزاروں باقی ہیں۔ اس خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی عقل مادہ پرستی میں متحرّک رہتی ہے۔ دوسرا رخ جس کے ذریعے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے ، معطل رہتا ہے۔
حقائق یہ ہیں کہ مادیت ہمیں کوئی آسانی فراہم نہیں کرتی، جب کہ ہمارا تجربہ یہی ہے کہ آسائش و آرام کے بے شمار وسائل مہیا ہوتے ہیں۔ نئی نئی ایجادات ہوتی رہتی ہیں لیکن تجرباتی طور پر ہمیں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ ہر آسائش کے پیچھے بے شمار الجھنیں ہیں۔
جیسے جیسے ہم مادیت کے گورکھ دھندوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ تکلیفوں کا نہ ختم ہونے والا دَور ہمارے اوپر مسلط ہو جاتا ہے۔

پیغمبروں نے جو تعلیمات نوعِ انسانی تک پہنچائی ہے ان کا مرکزی کردار یہ ہے کہ انبیاء نے نوعِ انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصوّر سے آشنا کیا ہے۔ اچھائی اور برائی کے اسی تصوّر نے عقل کے دو رخ متعیّن کئے ہیں۔
• ایک رخ …. نوعِ انسانی کو مصائب میں مبتلا کر دیتا ہے
• دوسرا رخ …. نوعِ انسانی سے مصائب کو دور کر دیتا ہے
وحی کے ذریعے یا وحی کے زیرِ اثر جو علوم انسان کو منتقل ہوئے ہیں ان میں ایک علم، علمِ نفس ہے۔ علمِ نفس یا عالمِ امر کی بنیاد پر ہی نئے نئے مذاہب وُجود میں آئے ہیں۔ مشرقِ وُسطیٰ میں جتنے مذاہب ہیں، یہودیت، عیسائیت اور اسلام، یہ تینوں مذاہب بتدریج آتے رہے اور سمٹتے رہے۔ ان تینوں مذاہب میں آخری مذہب اسلام ہے۔
اسلام آخری مذہب اس لئے ہے کہ ’’عالمِ امر‘‘ اور’’علمِ حُضوری ‘‘ سے متعلق جتنی بھی معلومات تھیں خالقِ کائنات نے ایک افضل ترین انسان کو عطا کر دیں اور یہی وجہ ہے کہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔
عالمِ امر میں موجود کسی نَوع کی حدیں زمانیت ہیں۔
عالمِ خلق میں کسی نَوع کی موجودگی اسپیس ہے۔

کوئی روحانی انسان جو علمِ حُضوری سے واقف ہے اور عالمِ امر میں نَوعی خدوخال کے قانون کو جانتا ہے، بہ الفاظِ دیگر تخلیقی فارمولوں سے واقف ہے، وہ جانتا ہے کہ میں اور گلاب خدوخال کے اعتبار سے الگ ہیں، ہماری الگ الگ حیثیت رنگوں کی وجہ سے ہے۔ ایک نفس کی صلاحیتیں جو ہم میں اور گلاب میں مشترک ہیں، ارادے میں رنگ پیدا کر کے تصوّر کی حدود میں داخل ہو جاتی ہیں۔
عالمِ امر کی نفسی صلاحیتوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فیضانِ عام کے تحت یہ صلاحیت ہر عامی کو حاصل ہے۔ اگر کوئی بندہ ان صلاحیتوں سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو اپنے ارادے کے تحت گلاب کو عالمِ امر سے نکال کر آفاقی حدود میں داخل کر دیتا ہے۔ اس گلاب میں خوشبو بھی ہوتی ہے، رنگ بھی ہوتا ہے۔

تجلّی کا عکس
انسانی جسم دراصل خول ہے، خلا ہے ….
اِس خول کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ پر مادی خول غالب ہے اور خدوخال میں ٹھوس پن ہے۔
جس طرح نقطۂ ذات سے نَسمہ کی طرف …. اور نسمہ سے جسم (مظہر) کی طرف نور کی ایک رَو بہتی ہے …. اسی طرح نَسمہ سے نقطۂ ذات تک ایک رَو بہتی ہے۔
جو نقطۂ ذات سے مظہر کی طرف نُزول کر رہی ہے …. اس کے اندر علومِ لَدُنّیہ کا ذخیرہ ہے۔
اس کے برعکس نور سے نُزول کر کے ’’رَو‘‘ جب روشنی بنتی ہے تو اس نُزول کو دنیاوی علوم کہا جاتا ہے اور یہی علوم جسمانی تقاضوں اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں۔
اگر نقطۂ ذات سے نُزول کرنے والے علوم (نورانی لہریں)، شعور کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں اور شعور ان میں دلچسپی لیتا ہے تو لہروں کا رنگ آہستہ آہستہ نسمے کی دنیا پر غالب آ جاتا ہے یا نسمے کی دنیا نورانی لہروں کے رنگ سے رنگین ہو جاتی ہے۔

لطیفۂِ نفسی ان علوم کی نورانیت سے معمور ہو کر نور کی شعاعوں میں سانس لینے لگتا ہے اور کثیف روشنیوں کی بجائے چھنی ہوئی لطیف نور کی شعاعیں نقطۂ ذات کی طرف بہنے لگتی ہیں۔
نقطہ ذات سے مظہر کی طرف بہنے والی نورانی رَو جب ذخیرہ ہو جاتی ہیں تو انسانی ذہن میں ایک نور پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی نور کو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے ’’نورِ فراست‘‘ کہا ہے۔
’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
(حوالہ: جامع ترمذی، ابواب القرأت، باب سورۃ الحِجر، رقم حدیث: 2919)
کسی انسان کے اندر جب نورِ فراست ذخیرہ ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر عالمِ امر عام کا انکشاف ہونے لگتا ہے۔ عالمِ امر عام کے انکشاف سے جب لطائف اور زیادہ نورانی ہو جاتے ہیں تو عالمِ امر خاص کا انکشاف ہوتا ہے۔
انسانی شعور ایک ایسا آئینہ ہے جس میں علومِ لَدُنّی کے انوار کا عکس منعکس ہوتا رہتا ہے۔
اگر کسی شخص کا ذہن مجلّیٰ آئینہ ہے تو بند آنکھوں سے یا کھلی آنکھوں سے حالات کا تصویری عکس نظر آتا ہے۔ اگر اس کے برعکس لطیفۂِ نفسی کی طرف سے کثیف روشنی تاریکی بن کر نقطۂِ ذات کی طرف بہتی ہے تو شعور کا آئینہ مجلّیٰ نہیں رہتا اور نورانی علوم کے تمام تصویری عکس نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
انسانی شعور پر علوم لَدُنّی کا عکس ’’ضمیر‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مہر لگا دی اللہ نے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر پردے ڈال دیئے۔
(سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 7)
اگر کثیف روشنیاں لطیفۂِ نفسی میں ذخیرہ ہو جائیں اور اس ذخیرے میں تسلسل قائم ہو جائے تو لطیفۂِ نفسی کے اندر ایک متعفّن پھوڑا بن جاتا ہے اور یہ پھوڑا سڑتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے اس کی سڑاند بڑھتی ہے اور اسی مناسبت سے انسان طرح طرح کی بیماریوں پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔ یہ پریشانیاں اور مصیبتیں اسے سکون سے نا آشنا کر دیتی ہیں۔ ایسا بندہ جو سکون سے آشنا نہیں ہے، جس کے اندر لطیفۂِ نفسی میں متعفّن اور سڑا ہوا پھوڑا ہے، وہ اللہ کا دوست نہیں ہوتا۔ اس سڑاند سے بچنے کے لئے اور لطیفۂِ نفسی کو نورانی رَو کے نُزول سے آشنا کرنے کے لئے علوم ِروحانی سے واقف ہونا ضروری ہے۔

خواتین و حضرات! آپ کو معلوم ہے کہ گوشت پوست کا جسم ایک خول ہے …. اور یہ خول روشنیوں کے جسم کے تابع ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ:
انسان ….جسم اور دماغ کا نام ہے۔
انسان کی اصل تجلّی کا عکس ہے۔
اس عکس سے روشنیوں کے جسم (نسمہ) کی طرف …. اور روشنیوں کے جسم سے گوشت پوست کے جسم کی طرف ایک رَو بہتی ہے۔
اصل انسان ان دونوں کے اندر بستا ہے۔ یہ ہی رَو خیالات تصوّرات احساسات میں منتقل ہو کر تقاضے بنتی ہے۔

انسان عالمِ امر کی طرف صَعود کرتا رہتا ہے اور عالمِ امر سے نور کی رَو نُزول کرتی رہتی ہے۔ صَعود و نُزول کا سلسلہ ہی کائنات کی زندگی ہے۔ نُزول و صَعود میں مخفی حقائق کا نام علمِ لَدُنّی ہے۔ علمِ لَدُنّی صَعود اور نُزول کے پورے عالَم پر محیط ہے۔
مراقبہ ایک ایسا عمل ہے انسان جس کے ذریعہ علم لَدُنّی سیکھ لیتا ہے۔ انسان اگر اپنے شعور کے آئینے یعنی لاشعور میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے اور نُزولی و صَعودی حرکات و سکنات سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا آسان طریقہ مراقبہ ہے۔
مراقبہ کے ذریعہ انسان مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مکان کی قید سے آزاد ہوئے بغیر کوئی انسان غیب کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مکان یا جسمانی تقاضوں سے آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان مردہ ہو جائے …. مقصد یہ ہے کہ جسمانی تقاضوں کو ثانویت دے کر اس روشنی کی طرف توجہ مرکوز کر دی جائے …. جس روشنی سے تقاضے بن رہے ہیں۔

مراقبہ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی کسی تاریک گوشے میں جہاں گرمی سردی معمول سے زیادہ نہ ہو بیٹھ جائے۔ ہاتھ پیر اور جسم کے تمام اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دے اور اپنے اوپر ایسی کیفیت طاری کر لے جس کیفیت میں جسم کی موجودگی کی طرف سے ذہن ہٹ جائے۔ سانس کی رفتار میں ٹھہراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کی جائے۔ خیالات اور عمل پاکیزہ ہو۔
خیالات اور عمل کی پاکیزگی یہ ہے کہ:
• بندہ کسی کو برا نہ کہے
• کسی کی طرف سے بغض و عِناد نہ رکھے
• اگر کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو انتقام نہ لے اور معاف کر دے
• ضروریات زندگی (معاش) کے حصول میں اعضاء کا وظیفہ کرے
• جدوجہد میں کوتاہی نہ کرے …. لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔
• آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے اس سے معافی مانگ لیں
• آپ کو کسی کی ذات سے تکلیف پہنچے یا تکدّر ہو تو اسے معاف کر دیں
• جو اپنے لئے پسند کریں وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کریں۔
• مال و متاع و اسبابِ دنیا کی محبت نہ ہو۔
• اللہ تعالیٰ کے پھیلائے ہوئے اور دیئے ہوئے وسائل کو خوش ہر کر استعمال کریں۔
• دنیاوی وسائل کو زندگی کا مقصد نہ بنائیں۔
• جس طرح ممکن ہو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کریں۔
جس شخص کے اندر پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اوصاف ہوتے ہیں، مراقبے کے عمل سے اس کا لطیفۂِ نفسی رنگین ہو جاتا ہے۔ لطیفۂِ نفسی رنگین ہو جانے سے شعور کے اندر جَلاء پیدا ہو جاتا ہے اور شعور کا آئینہ شفاف ہو جاتا ہے۔

روحانیت میں مرشد کریم کے حکم کی تعمیل ضروری ہے۔ سالک کے اندر اگر چوں چرا ہے اور تعمیل نہیں ہے تو مراقبہ کا عمل پورا نہیں ہوتا۔ مراقبہ میں کامیابی اور مراقبے کا صحیح نتیجہ اس وقت مُرتّب ہوتا ہے جب مرید خود کو مراد کے سپرد کر دیتا ہے۔

جسم کا تعلق سانس سے ہے۔ سانس کی آمد و رفت ختم ہو جائے تو جسم ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن علمِ غیب حاصل کرنے کے لئے سانس سے قطع تعلق نہیں ہے۔ البتہ سانس میں ٹھہراؤ ہونا ضروری ہے۔ جب انسان اپنا تعلق گوشت پوست کے جسم سے صرف سانس کی حد تک قائم رکھتا ہے تو جسم غیر محسوس ہو جاتا ہے۔
آدمی خواب میں سانس لیتا رہتا ہے، خواب یا سونے کی حالت میں سانس میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے سانس ہلکا اور لطیف ہو جاتا ہے۔ سانس میں لطافت آجانے سے روشنی کا جسم تجلّی کی طرف صَعود کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سونے کی حالت میں ہمارا ذہنی تعلق گوشت پوست کے جسم سے عارضی طور پر منقطع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی نظام برقرار رہتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم جسمانی نظام سے عارضی طور پر بیداری میں تعلق منقطع کر لیں تو بیداری کے حواس میں غیب کی دنیا سامنے آ جاتی ہے۔
جب نقطۂ ذات فکر سے آزاد ہو جاتا ہے تو عالمِ امر کی سیر میں مصروف ہو جاتا ہے۔ عالمِ امر کی حدود میں چلتا پھرتا کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے۔ یہ کھانا پینا، چلنا پھرنا…. سب نورانی مشاغل ہیں۔ نورانی مشاغل یا عالمِ امر کی حدود میں رہ کر کام کرنا مکان کی قید سے آزاد ہونا ہے۔ جب ایسا ہو جاتا ہے تو انسان اپنے ارادہ سے زمان کی ابتداء سے انتہاء تک سیر کرتا ہے۔
سالک میں مراقبہ کے ذریعہ اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ مکان وز مان کے دونوں کنارے اس کے سامنے آ جاتے ہیں اور سالک ہزاروں سال پہلے کے یا لاکھوں سال بعد کے حالات و واقعات کو دیکھ لیتا ہے۔ جب انسان ازل اور ابد کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے یعنی نُزول و صَعود کی زندگی سے واقف ہو جاتا ہے تو کائنات میں جہاں چاہے دیکھ لیتا ہے۔ اس کیفیت کو عارفین کی اِصطلاح میں ’’سیر‘‘ کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
اے گروہ جنات اور انسان اگر تم استطاعت رکھتے ہو تو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان کے ذریعے سے نکل سکتے ہو۔ سلطان کا مطلب تجلّی کا عکس ہے۔

دل میں ایک نقطہ
ہم جب پیدا ہوتے ہیں تو مرحلہ وار یہ دنیا ہمارے لئے ایک تجرباتی زندگی بنتی ہے۔
اسی طرح جب سالک کی نظر اپنے باطن میں کھلتی ہے تو مرحلہ وار عالمِ غیب کی دنیاؤں کے تجربات شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے غیب کی دنیا میں اِنہماک ہوتا ہے، غیب میں بسنے والے افراد سے تعارف ہوتا رہتا ہے اور غیب کی دنیا میں شب و روز سے واقفیت حاصل ہو جاتی ہے۔
جس طرح ایک بچہ پیدا ہونے کے بعد رفتہ رفتہ شعور حاصل کرتا ہے …. پہلے وہ صرف ماں کی خوشبو کا احساس کرتا ہے، پھر وہ ماں کو پہچانتا ہے، پھر باپ بہنوں بھائیوں کو اور قریبی رشتہ داروں کو پہچانتا ہے…. آہستہ آہستہ اس کی نظر میں اتنی وسعت آ جاتی ہے کہ وہ دنیاوی علوم حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح اگر سالک اپنے نقطۂ ذات میں موجود غیب کی دنیا سے رُوشناس ہے یا غیب کی دنیا میں داخل ہو گیا ہے یا اس کے اندر غیب کا شُہود پیدا ہو گیا ہے تو بتدریج اس کے اندر ایسی نگاہ پیدا ہو جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ازل تا ابد دیکھ لیتا ہے۔ غیب کی دنیا میں جو کچھ ہے اسے چُھو لیتا ہے، ازل تا ابد کو دیکھنا ازل تا ابد غیب کی دنیا میں افرادِ کائنات سے ملاقات کرنا، اٹھنا بیٹھنا، ستاروں میں گھومنا، افلاک کی سیر کرنا، سیاروں میں گشت…. اس کے لئے ممکن ہو جاتا ہے۔
اس کے سامنے وہ تمام حقائق آ جاتے ہیں جن حقائق پر کائنات تخلیق ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں برسر عمل ہیں۔ ان روشنیوں کا سورس کیا ہے۔ روشنیاں کس طرح بن رہی ہیں۔ روشنیاں افرادِ کائنات میں کس طرح تقسیم ہو رہی ہیں اور روشنیوں کی مقداروں سے کائنات کے نقوش کس طرح بن رہے ہیں۔ سالک کی آنکھ یہ بھی دیکھ لیتی ہے کہ روشنیوں کا سورس اللہ تعالیٰ کی تجلّیات ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
چاندنی رات میں چاندنی سے فضا معمور ہے۔ اس وقت اگر آتش بازی چھوڑی جائے تو آتش بازی چھوڑنے سے چاندنی فضا میں سفید رنگ کی روشنیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ وہ چاندنی پر محیط نہیں ہوتیں چاندنی ان پر محیط رہتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فضا میں چاندنی ہے۔ چاندنی میں نقش و نگار ہیں، پھول پتیاں ہیں، پھول جھڑی کے اندر سے پھول گر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھول جھڑی کے اندر نقش و نگار موجود تھے۔ اس ہی طرح جب روشنی متحرّک ہوتی ہے تو روشنیوں کے جسم (نسمہ) سے پھول جھڑی کی طرح نقش و نگار مظہر بنتے ہیں۔

ایک راز
عالمِ باطن کی سیر یا عالمِ غیب میں داخلہ…. خارجی سمتوں سے نہیں ہوتا۔ عالمِ غیب میں داخلہ انسان کے اپنے نقطۂ ذات میں داخل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔
جب تک کوئی انسان اپنی ذات ( نقطۂ ذات) کو نہیں پہچان لیتا اس وقت تک اس کے اندر روحانی طرزیں متحرّک نہیں ہوتیں اور جب انسان خود کو جان لیتا ہے اور اپنے نقطۂ ذات کو سمجھ لیتا ہے اور قلب کے اندر دروازہ کھول کر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر کائنات منکشف ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ ظہو رِکائنات میں وہ خود بھی قافلے کا ایک عنصر ہے۔

راز
دل کے مرکز میں روشنی کا ایک نقطہ ہے جو دل کی انتہائی گہرائی میں واقع ہے۔ یہ نقطہ مائیکرو فلم ہے۔ راہ سلوک پر چلنے والا مسافر اپنے دل کے اندر جب اس نقطے سے آشنا ہو جاتا ہے تو اسے نقطے کے اندر گہرائیوں میں حقیقت کے نشانات ملتے ہیں۔ تمام حقیقتیں شکل وصورت کے ساتھ موجود ہیں اور ہر حقیقت مجسم ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 190 تا 202

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)