لیکچر 1 – علم حُضوری، علم حُصولی

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47382

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

علم حُضوری، علم حُصولی

یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ ہم جس علم کو سیکھ رہے ہیں اس کی نَوعیت علم حضوری کی ہے۔ علم حضوری وہ علم ہے جو ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب سے متعارف کراتا ہے۔ علم حضوری وہ علم ہے جس کی حیثیت براہِ راست ایک اطلاع کی ہے۔ یعنی علم حضوری سیکھنے والے بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آجاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آ جانے سے مراد یہ ہے کہ حافظہ کے اوپر ان باتوں کا جو بیان کی جا رہی ہیں ایک نقش ابھرتا ہے۔ مثلاً اگر علم حضوری سکھانے والا کوئی استاد کبوتر کہتا ہے تو حافظہ کی سطح پر یا ذہن کی اسکرین پر کبوتر کا ایک خاکہ بنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے اندر فی الواقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح جب استاد کسی سیارے یا ستارے کا تذکرہ کرتا ہے تو حافظے کی اسکرین پر روشن اور دمکتا ہُوا ستارہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد جب جنّت کا تذکرہ کرتا ہے تو جنّت سے متعلق جو اطلاعات ہمیں مل چکی ہیں ان اطلاعات کی ایک فلم دماغ کے اندر ڈسپلے(Display) ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ذہن کے اندر یہ بات ہمیں نقش نظر آتی ہے کہ جنّت ایک باغ ہے جس میں رنگ رنگ خوبصورت پھول ہیں۔ آبشاریں ہیں۔ دودھ کی طرح سفید اور شہد کی طرح میٹھے پانی کی نہریں ہیں اور وہاں ایسے خوبصورت مناظر ہیں جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔
یہ علم حضوری کی مختصر تعریف ہے۔
علم حضوری اور علم حصولی میں فرق یہ ہے کہ جب کوئی استاد اپنے کسی شاگرد کو تصویر بنانا سکھاتا ہے تو گراف کے اوپر تصویر بنا دیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ اتنے خانوں کو اس طرح کاٹ دیا جائے تو آنکھ بن جاتی ہے اور اتنی تعداد میں خانوں کے اوپر پینسل پھیر دی جائے تو ناک بن جاتی ہے اور گراف کے اندر چھوٹے چھوٹے خانوں کو اس طرح ترتیب سے کاٹا جائے تو کان بن جاتا ہے۔ شاگرد جتنے ذوق و شوق سے استاد کی رہنمائی میں ان خانوں کے اندر تصویر کشی کرتا ہے اسی مناسبت سے وہ فنکار بن جاتا ہے۔
اس کے برعکس علم حضوری ہمیں بتاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر تصویر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہر انسان کے اندر کرسی بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہر انسان کے اندر کُرتا قمیض سینے کی صلاحیت موجود ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ شاگرد کے اندر موجود لوہار، درزی، بڑھئی، مصوّر بننے کی صلاحیت کو متحرّک کر دیتا ہے اور جیسے جیسے شاگرد اس صلاحیت سے اِستفادہ کرتا ہے اپنے فن میں مہارت حاصل کر لیتا ہے۔
اب ہم اس بات کو ذرا اور وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔
دنیا میں جو کچھ موجود ہے یا آئندہ ہونے والا ہے یا گزر چکا ہے، وہ سب خیالات کے اوپر رَواں دَواں ہے۔
اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی ہے باالفاظ دیگر اس چیز کا خیال آتا ہے تو وہ چیز ہمارے لئے موجود ہے…. اور
اگر ہمیں اپنے اندر سے کسی چیز کے بارے میں اطلاع نہیں ملتی یا کسی چیز کے بارے میں خیال نہیں آتا تو وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں ہے۔
جب کوئی آدمی مصوّر بننا چاہتا ہے تو پہلے اس کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ مجھے تصویر بنانی ہے۔ کوئی آدمی بڑھئی بننا چاہتا ہے تو اس کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ مجھے بڑھئی کا کام کرنا ہے۔

علیٰ ھٰذا القیاس دنیا کے ہر علم کی یہی نَوعیت ہے۔ پہلے اس علم کے بارے میں ہمارے اندر خیال پیدا ہوتا ہے اور ہم اس خیال کے آنے کے بعد اس مخصوص فن یا مخصوص علم کو سیکھنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور ہمیں ایک استاد کی تلاش ہوتی ہے۔ استاد صرف اتنا کام کرتا ہے کہ ہمارے ذوق و شوق کے پیش نظر ہمارے اندر کام کرنے والی مخصوص صلاحیت کو متحرّک کر دیتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ ‘‘لوح و قلم’’ میں فرماتے ہیں کہ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ آدمی کے اندر موجود صلاحیت کو بیدار کرنے میں معاون بن جاتا ہے۔ جس طرح تمام علوم تمام فنون کی صلاحیتیں انسان کے اندر موجود ہیں اسی طرح‘‘روحانی علوم’’ حاصل کرنے کی صلاحیتیں بھی انسان کے اندر موجود ہیں۔
جب آدمی تصویر بنانا سیکھ لیتا ہے تو اس کا نام مصوّر ہو جاتا ہے…. اور
جب آدمی فرنیچر بنانے میں ماہر ہو جاتا ہے تو اس کا نام بڑھئی رکھ دیا جاتا ہے….
اگر کوئی آدمی سائنسی اعتبار سے کوئی چیز ایجاد کر لیتا ہے تو سائنسدان کہلاتا ہے….
اگر شاگرد استاد کی مدد سے اپنے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار کر لیتا ہے تو اس کا نام روحانی انسان ہو جاتا ہے۔
“لوح و قلم” میں اسی روحانی انسان کی صلاحیتوں کو متحرّک اور بیدار کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

خواب اور بیداری

علم حضوری اور علم حصولی کی مختصر تعریف کے بعد یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ روح کو سمجھنے، جاننے اور پہچاننے کے لئے اگر کوئی معتبر اور حقیقی ذریعہ ہے تو وہ ‘‘علم حضوری’’ہے۔ علم حصولی سے روح کا سراغ نہیں ملتا۔ اگر کوئی آدمی علم حصولی کے ذریعے روح کو سمجھنا چاہتا ہے تو وہ عقلی اور منطقی دلیلوں میں الجھ کر راستہ بھٹک جاتا ہے۔ ہر انسان اپنی فکر کے مطابق روح کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتا ہے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ انسان پہلے بندر تھا۔ کسی نے کہا انسان سورج کا بیٹا ہے۔ کوئی انسان کی تخلیق کو مچھلی کی تخلیق کے ساتھ وابستہ کرتا ہے اور زیادہ سوجھ بوجھ کے لوگ جب انہیں روح کے بارے میں کوئی حقیقی بات معلوم نہیں ہوتی تو روح سے قطع نظر کرکے مادی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جس بندے نے بھی علم حصولی کے ذریعے روح کو سمجھنا چاہا وہ حقیقی اور حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا اور جس اللہ کے بندے نے علم حضوری کے ذریعے روح تک رسائی حاصل کی اس کے اندر سے شک اور وسوسے ختم ہو گئے۔ اور یہ بات اس کا یقین بن گئی کہ گوشت پوست کا جسم مفروضہ اور فکشن (Fiction) کے علاوہ کچھ نہیں۔ اصل چیز اس مفروضہ اور فکشن کو سنبھالنے والا جسم ہے۔ اس کے قطع تعلق سے جمو کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے یہ تجسّس ہے کہ انسان کیا ہے؟
ہم اس کو کس طرح جانتے اور پہچانتے ہیں؟ اور فی الواقع اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟
ہم انسان کو جس طرح جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں اور گوشت کی بناوٹ سے ایک تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس کو زیادہ واضح طور پر اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ہڈیوں کے ڈھانچے کے اوپر رگ پٹھے ایک قسم کی پٹیاں ہیں۔ جن پٹیوں سے ہڈیوں کو چھپایا گیا ہے۔ ان پٹیوں کے اوپر روئی رکھی ہے۔ اور روئی کے اوپر پلاسٹر چڑھا دیا گیا ہے۔ پٹیاں رگ پٹھے ہیں۔ روئی گوشت ہے اور کھال پلاسٹر ہے۔ لیکن اس جسم کے اندر اپنی کوئی حرکت نہیں ہے۔ کوئی اور چیز ہے جو اسے حرکت میں رکھے ہوئے ہے۔
مثلاً ہم مٹی کا شیر بناتے ہیں اس شیر کو ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں جہاں گرد و غبار اڑتا رہتا ہے اور گرد و غبار شیر کے اوپر جم جاتا ہے۔ ایک آدمی جب شیر کو دیکھتا ہے تو گرد و غبار کا تذکرہ نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ شیر ہے۔ جس طرح ایک شیر کے اوپر گرد و غبار جمع ہو کر ایک جان ہو گیا ہے اسی طرح روح نے بھی روشنیوں کو یکجا جمع کر کے اور ان روشنیوں کے تانے بانے سے رگ پٹھوں گوشت اور کھال سے ایک صورت بنا لی ہے اس صورت کا نام جسم رکھ لیا گیا ہے۔
اس کی مثال حضور قلندر بابا اولیاءؒ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
جسم کے اوپر جب تک قمیض ہے قمیض کی حرکت جسم کے تابع ہے اور جب قمیض کو جسم سے الگ کر دیا جاتا ہے تو قمیض کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ قمیض شلوار اور ٹوپی کو ایک جگہ اس طرح رکھ دیا جائے کہ یہ گمان ہو کہ کوئی آدمی لیٹا ہوا ہے اور اس سے یہ کہا جائے کہ وہ حرکت کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر قمیض جسم کے اوپر ہے تو جسم کی ہر حرکت کے ساتھ از خود اور غیر اختیاری طور پر قمیض میں حرکت واقع ہوتی ہے۔ یہی صورت حال اس مادی جسم کی ہے۔ یعنی گوشت پوست کا جسم روح کا لباس ہے۔
جب تک یہ لباس روح کے اوپر ہے اس کے اندر حرکت ہے اور جب روح اس لباس کو اتار دیتی ہے تو اس کی حیثیت ایسی قمیض کی ہو جاتی ہے جو قمیض جسم کے اوپر نہیں ہے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اندر کوئی مدافعت باقی نہیں رہتی۔ مرنے کا مطلب یہ ہے کہ روح نے لباس کو اتار کر اس طرح الگ کر دیا ہے کہ اب روح کے لئے اس میں کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ لباس کا یہ معاملہ صرف عالم ناسوت یا عالم تخلیط تک ہی محدود نہیں ہے۔ روح ہر زون (Zone) میں….. ہر مقام میں اور ہر تنزّل کے وقت اپنا ایک نیا لباس بناتی ہے اور اس لباس کے ذریعے اپنی حرکات و سکنات کا اظہار کرتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اپنی حرکات و سکنات کا لباس کے ذریعے اظہار کرتی ہے بلکہ اس لباس کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ اس لباس کو نشوونما بھی دیتی ہے۔ کہیں یہ لباس تعفّن اور سڑاند سے بنتا ہے۔ کہیں یہ لباس روشنیوں کے تانے بانے سے بنُا جاتا ہے اور یہی لباس نورانی تجلّیات سے بھی وُجود میں آتا ہے۔ روح جب لباس کو تخلیط(Matter) سے بناتی ہے تو مادے کی اپنی خصوصیات کے تحت لباس (جسم) کے اوپر ٹائم اسپیس کی پابندیاں لاحق رہتی ہیں۔

روح کی تلاش

لباس کی صحیح حیثیت (لباس سے مراد گوشت پوست کا جسم) ہمارے سامنے اس وقت آتی ہے جب ہم مر جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے اوپر موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت مرنے کے بعد گوشت پوست کا جسم محض لباس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم تلاش کریں کہ زندہ رہنے کی حالت میں کیا ہمارے اوپر ایسی کوئی حالت واقع ہوتی ہے جو موت سے ملتی جلتی ہو۔ یا موت سے قریب ہو۔ یہ حالت وقتی طور پر ہوتی ہو یا کچھ طویل عرصے کے لئے واقع ہوتی ہو۔ اس لئے کہ جب تک حرکت مسلسل اور متواتر نہ ہو اس کو مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ زندگی کے مراحل میں یا زندگی کے شب و روز اور ماہ و سال میں جب ہم موت سے ملتی جلتی حالت کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ایک حالت پر مجبوراً رکنا پڑتا ہے اور موت سے ملتی جلتی یہ حالت ‘‘نیند’’ ہے۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ ‘‘سویا اور مَرا برابر ہے’’
فرق اتنا ہے کہ نیند کی حالت میں روح کا اپنے لباس سے ربط برقرار رہتا ہے اور روح اپنے لباس کی حفاظت کے لئے چوکنّا اور مُستعد رہتی ہے اور موت کی حالت میں روح اپنے لباس سے رشتہ توڑ لیتی ہے۔ یا یوں کہئےا کہ روح لباس اتار کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ نیند ہماری زندگی میں ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے روح کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔
ہم دو حالتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ایک حالت یہ ہے کہ ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ ہمارا شعور بیدار ہے۔ ہم ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں سن رہے ہیں محسوس کر رہے ہیں اور ہم حرکت میں بھی ہیں۔ اس طرح حرکت میں ہیں کہ روح کا لباس بھی حرکت میں ہے۔ یہ حالت بیداری کی ہے۔
زندگی کی دوسری حالت (جس کو نیندکہا جاتا ہے) میں ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، خود کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں لیکن روح کا لباس حرکت میں نہیں ہوتا۔ روح کے لباس سے مراد گوشت پوست کا جسم ہے۔ اس Process سے یہ ثابت ہوا کہ روح اس بات کی پابند نہیں ہے کہ گوشت پوست کے ساتھ ہی حرکت کرے۔ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے۔ گوشت پوست کے جسم کے بغیر حرکت کرنے کا نام “خواب” ہے۔
خواب کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ کوئی کہتا ہے خواب محض خیالات ہوتے ہیں۔ جس قسم کے خیالات میں آدمی دن بھر مصروف رہتا ہے اسی قسم کی چیزیں اسے خواب میں نظر آ جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ خواب ناآسودہ خواہشات کا عکس ہے۔ جب کوئی خواہش ناآسودہ رہ جاتی ہے اور اس کی تکمیل نہیں ہوتی تو وہ خواہش خواب میں پوری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کی بے شمار باتیں خواب کے بارے میں مشہور ہیں اور ہر شخص نے اپنی فکر اور علم کے مطابق خواب کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ لیکن اس بات سے ایک واحد فرد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جس طرح روح گوشت پوست کے جسم کے ساتھ حرکت کرتی ہے، اسی طرح روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی متحرّک رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ خواب دیکھنا اور خواب میں کئے ہوئے اعمال اور خواب میں کی ہوئی حرکات و سکنات خیالی ہیں تو اس کی تردید ہو جاتی ہے۔ اس کی تردید اس طرح ہو جاتی ہے کہ ہر شخص ایک یا دو یا زیادہ خواب ایسے ضرور دیکھتا ہے کہ خواب دیکھنے کے بعد جب وہ بیدار ہوتا ہے تو خواب میں کئے ہوئے اعمال کا اثر اس کے اوپر باقی رہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال خواب میں کئے ہوئے اعمال کے نتیجے میں غسل کا واجب ہوجانا ہے۔ جس طرح کوئی آدمی بیداری میں جنسی لذّت حاصل کرنے کے بعد ناپاک ہو جاتا ہے اور مذہباً اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے اسی طرح خواب میں کئے ہوئے اس عمل کے بعد بھی اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے اور وہ اس وقت تک نماز ادا نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ غسلِ جَنابت سے فارغ نہ ہو۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خواب میں کوئی ڈراؤنا منظر نظروں کے سامنے آ گیا۔ آدمی جب بیدار ہوا تو منظر کی دہشتناکی اس کے اوپر پوری طرح مسلط ہوتی ہے۔ جس طرح کسی دہشتناک چیز دیکھنے سے دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے۔ بیداری میں جس طرح کوئی خوشنما منظر دیکھنے کے بعد آدمی کے اوپر مسرت اور شادمانی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور آدمی بیدار ہونے کے بعد خود کو خوش اور پرمسرت محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح خواب میں خوشنما مناظر دیکھنے سے وہ خوش ہوتا ہے۔ یہ بیداری اور خواب کے اعمال و واقعات کا اَجمالی خاکہ ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 9 تا 17

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)